بےحد ناول ازفریال خان|Beyhadh Novel By Faryal Khan Episode 3

178 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
#بےحد
#فریال_خان ✍️
پاٹ 3
ثروت نے رجا کو فون کرکے اسے اسکے والدین سمیت گھر بلالیا تھا۔اور رجا کو فٹافٹ مہمانوں کیلئے کچھ چائے وغیرہ کا انتظام کرنے کا کہہ کر وہ خود رجا کے امی ابو کے ساتھ مہمانوں کے پاس آگئی۔
*******************
"یہ لوگ کہنے کو تو ہمارے پڑوسی ہیں ، پر اپنوں سے بھی بڑھ کر ہیں ، نور کے ابو کے انتقال کے بعد جب جب بھی ہمیں کسی کام میں مرد کی ضرورت پڑی ، سلیم بھائی نے بالکل بھائیوں کی طرح میری مدد کی ہے ، تو اسی لئے مجھے لگا کہ اس موقے پر ان لوگوں کا بھی یہاں موجود ہونا ضروری ہے"۔ثروت نے سلیم صاحب اور روبینہ (رجا کے والدین)کا تعارف کرایا۔
"بہت اچھا کیا بہن ، بلکہ یہ تو معملا ہی ایسا ہے کہ لوگوں سے صلاح مشورہ کرنا چاہئے"۔ذیشان صاحب نے کہا۔اتنے میں رجا ناشتے کی ٹرالی لے کر ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی۔
"السلام و علیکم"۔رجا نے سب کو سلام کیا۔
"وعلیکم السلام ، یہ ہے آپکی بیٹی ، نور ؟۔فرحت نے پوچھا۔
"ارے نہیں نہیں ، یہ تو سلیم بھائی کی بیٹی ہے رجا ، میں نے ہی اسے کہا تھا کہ مہمانوں کیلئے چائے وغیرہ لے کر آئے"۔ثروت نے بتایا۔
"اچھا اچھا ! کیا ضرورت تھی بہن اس تکلف کی"۔ذیشان صاحب نے کہا۔
"آپکی بیٹی نہیں آئی ابھی تک؟۔فرحت نے پوچھا۔
"رجا ! بیٹی ذرا دیکھنا تو جاکر نور کو"۔ثروت نے کہا۔اور رجا سر ہلاتی ہوئی واپس چلی گئی۔
*****************
"نور ! دیکھا اس نے اپنی بات پوری کر دکھائی"۔رجا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔نور شیشے کے آگے کھڑی بال بنارہی تھی۔اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"اب چلو بھی ، وہ لوگ انتظار کررہے ہیں تمہارا"۔رجا نے نور کے قریب آتے ہوئے کہا۔
"تمہیں بڑی جلدی ہورہی ہے میری شادی کی"۔نور نے منہ بنا کر کہا۔
"بیٹا جی ذرا چل کر دیکھو تو ان لوگوں کو ، بالکل تمہاری خواہش کے عین مطابق ہیں وہ لوگ ، امیر خاندان سے"۔رجا نے بتایا۔
"سچی !۔نور نے بے یقینی سے پوچھا۔
"اور نہیں تو کیا ، ہم نے جو اندازہ حماس اور اسکی فمیلی کے بارے میں لگایا تھا وہ غلط تھا ، وہ لوگ کوئی مڈل کلاس لوگ نہیں ہیں"۔رجا نے بتایا۔رجا کے یہ سب بتانے کے بعد نور کو اب ان لوگوں کا آنا اتنا برا نہیں لگا۔
"چلو اب جلدی دوپٹہ اوڑھو اور چلو باہر"۔رجا نے کہا۔اور نور دوپٹہ اوڑھ کر رجا کے ساتھ باہر آگئی۔
*******************
شام کے سات بج رہے تھے۔ان لوگوں کو نور کے گھر گئے ہوئے دو گھنٹے ہوچکے تھے۔پر ابھی تک وہ لوگ واپس نہیں آئے تھے۔حماس بے چینی سے اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔اور بار بار گیلری میں آکر دیکھ رہا تھا۔
"چاچو ! بیٹ بال کھیلیں!۔زین نے حماس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں بیٹا ، ابھی میرا موڈ نہیں ہے ، آپ ایسا کرو لائبہ کے ساتھ کھیل لو"۔حماس نے زین کی چار سالہ بہن کا نام لے کر کہا۔
"نہیں چاچو ، اس کے ساتھ مزہ نہیں آتا ، اتنی سی تو ہے وہ"۔زین نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
"تو پھر کچھ اور کھیل لو"۔حماس نے کہا۔کہ تب ہی کار رکنے کی آواز آئی۔حماس فٹافٹ کمرے سے باہر بھاگا۔زین بھی اسکے پیچھے آیا۔جب تک حماس سیڑھیاں اتر کر نیچے آتا وہ لوگ ہال میں آچکے تھے۔اور سب کے تاثرات بہت سنجیدہ ہورہے تھے۔
"گڑیا ! ٹھنڈا پانی لاؤ میرے لئے"۔فرحت نے ملازمہ کو آواز دی۔حماس بھی تب تک ان لوگوں کے قریب آچکا تھا۔اور زین حمزہ کی گود میں چڑھ کر بیٹھ گیا تھا۔
"کیا ہوا ! سب خریت تو ہے ناں؟۔حماس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"ہممم! خریت ہی ہے ، کیا ہونا ہے!۔ذیشان صاحب نے کہا۔تب تک ملازمہ پانی لے آئی تھی۔
"کیا بات ہوئی آپ لوگوں کی وہاں ؟ آپ لوگ ملے نور سے؟۔حماس نے پوچھا۔
"ہاں ملے تھے"۔ذیشان صاحب نے کہا۔
"تو پھر کیا ہوا ؟ کیسی لگی آپ لوگوں کو وہ ؟ اور ان لوگوں نے کیا جواب دیا ؟۔حماس نے پوچھا۔
"بھئی ہمیں تو وہ لڑکی اور وہ لوگ بالکل بھی اچھے نہیں لگے ، اور ان لوگوں کا بھی دل مطمئن نہیں ہورہا ہے ہماری جانب سے"۔فرحت نے پانی پی کر بتایا۔
"کیا ! کیوں اچھے نہیں لگے وہ لوگ آپ کو ؟ اور انھیں ہماری جانب سے کس بات پر مسلہ ہے ؟۔حماس نے پوچھا۔حماس کو خدشہ ہورہا تھا کہ شاید نور نے ان لوگوں کے ساتھ بھی ٹھیک برتاؤ نہیں کیا ہوگا۔
"بھئی ایک تو انکے اور ہمارے اسٹیٹس میں اتنا فرق ہے ، اور دوسرا یہ کہ.....!۔فرحت نے کہتے کہتے بات ادھوری چھوڑ دی۔اور ہنسنے لگی۔اور انکو دیکھ کر باقی سب بھی ہنسنے لگے۔اور حماس ناسمجھی سے سب کو دیکھنے لگا۔
"بھئی سوری ، پر مجھ سے اسکی شکل دیکھ کر اور ہنسی کنٹرول نہیں ہوئی"۔فرحت نے ہنستے ہوئے کہا۔
"یہ ہو کیا رہا ہے ! کوئی بتائے گا مجھے بھی!۔حماس نے کہا۔
"ارے بھئی مذاق کررہے تھے ہم لوگ تمہارے ساتھ ، ہمیں وہ لڑکی اور لوگ دونوں ہی اچھے لگے ، اور ان لوگوں کو بھی اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ، بلکہ کچھ دنوں میں جاکر نکاح کی تاریخ بھی طے کرآئیں گے"۔ذیشان صاحب نے کہا۔
"سچی !۔حماس نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
"مچی"۔حمزہ نے کہا۔
*****************
اور پھر کچھ دنوں بعد جاکر یہ لوگ ان کے نکاح اور منگنی کی تاریخ طے کرآئے۔یہ لوگ تو سیدھا نکاح ہی کرنا چاہ رہے تھے۔پر ثروت نے کہا کہ اسے تیاری کیلئے تھوڑا وقت چاہیے۔بھلے ہی یہ لوگ جہیز وغیرہ نہیں لے رہے۔پر پھر بھی اور بھی بہت سی تیاریاں کرنی تھیں۔اس لئے دو ہفتے بعد سادگی سے بس گھر ہی گھر میں دونوں کی منگنی طے کردی۔اور نکاح تین مہینے بعد تھا۔اور حماس کیلئے منگنی تک اور منگنی سے نکاح تک انتظار کرنا مشکل ہورہا تھا۔
*****************
دیکھتے ہی دیکھتے دو ہفتے گزار گئے۔اور انکی منگنی کا دن آگیا۔رات کے آٹھ بج رہے تھے۔منگنی ذیشان صاحب کے گھر کے لان میں رکھی گئی تھی۔اور وعدے کے مطابق ذیشان صاحب نے سوائے ثاقب صاحب کی فمیلی اور صائم کے اور کسی کو نہیں بلایا تھا۔کیونکہ ثاقب صاحب حماس کے ماموں تھے اور ان لوگوں کا بہت زیادہ ملنا جلنا تھا ان سے۔اور صائم کو حماس نا بلاتا۔یہ تو ناممکن تھا۔صائم کے والدین نہیں تھے۔وہ اپنی دادی کے ساتھ رہتا تھا۔اور ابھی انہی کے ساتھ یہاں آیا ہوا تھا۔نور کی جانب سے اسکے بھی مامی ماموں کی فمیلی اور رجا کی فمیلی شامل تھی۔لان کو لائٹوں سے ہلکا پھلکا سا سجایا گیا تھا۔سب لوگ آچکے تھے۔اس لئے ذیشان صاحب نے کہا کہ منگنی کی رسم ادا کردی جائے۔نور اور حماس کو لان کے وسط میں لایا گیا۔اور باقی لوگ انکے گرد کھڑے ہوگئے۔نور نے ڈارک بلیو کلر کی ٹخنوں تک آتی ہوئی جارجٹ کی قمیض فلاپر کے ساتھ پہنی ہوئی تھی۔اور پورے سوٹ پر سفید نگوں لگے ہوئے تھے۔اسٹیپ کٹینگ بال کھلے ہوئے تھے۔ سوٹ کا ہم رنگ دوپٹہ کاندھے پر ڈالا ہوا تھا۔اور ہلکی پھلکی جیولری پہنی ہوئی تھی۔اور حماس نے براؤن کلر شلوار قمیض پہنا ہوا تھا۔جس کے گلے پر گولڈن نگ لگے ہوئے تھے۔دونوں نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی۔پورا لان تالیوں سے گونج اٹھا۔پھر انگوٹھی پہنانے کے بعد صائم نے سب کی تصویریں کھینچی۔پھر سب لوگ الگ الگ ہوگئے۔
"رجا ! بیٹی ذرا یہاں آنا"۔ثروت نے نور کے ساتھ باتیں کرتی رجا کو پکارا۔رجا سر ہلاتی ہوئی انکی جانب آگئی۔اور رجا کا نام سن کر صائم چونک گیا۔اور رجا کو دیکھنے لگے۔رجا نے براؤن رنگ کی ٹخنوں تک آتی فراک چوڑی دار پاجامے کے ساتھ پہنی ہوئی تھی۔اور ہم رنگ دوپٹہ ہی سلیقے سے سر پر اوڑھا ہوا تھا۔صائم کچھ دیر رجا کو بغور دیکھتا رہا۔پھر حماس کی جانب بڑھا۔پر حماس نور کے ساتھ کھڑا کچھ بات کررہا تھا۔اس لئے اسے ابھی وہاں جانا مناسب نہیں لگا۔تو اس نے ارادہ ملتوی کردیا۔
پھر تھوڑی دیر میں کھانے کے بعد سب لوگ واپس روانہ ہوگئے۔
******************
اگلے دن کیونکہ اتوار تھا۔اس لئے حماس دیر سے سو کر اٹھا۔حماس نہاکر آکے شیشے کے آگے کھڑا بال بنارہا تھا۔
"ٹک ٹک ٹک"۔تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔
"آجاؤ "۔حماس نے کہا۔
"چھوٹے صاحب ، وہ صائم صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں"۔ملازم نے بتایا۔حماس سمجھ گیا کہ صائم کیوں آیا ہوگا۔
"ٹھیک ہے ، یہاں ہی بھیج دو اسے"۔حماس نے کہا۔ملازم سر ہلاکر واپس چلا گیا۔حماس برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر مسکراتے ہوئے صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔اور اپنا موبائل چلانے لگا۔تھوڑی دیر میں صائم کمرے میں داخل ہوا۔
"گڈ مارننگ"۔حماس نے مسکرا کر کہا۔صائم نے کوئی جواب نہیں دیا۔بلکہ اسکے بیڈ کی جانب بڑھا۔اور حماس کا تکیہ اٹھا کر اس پر حملہ کردیا۔
"کیا کہا تھا تم نے ! اسکی دوست موٹی ہے ؟ کمر میں کُب ہے ؟ افریقاً جیسی رنگت ہے ؟ بھدی سی آواز ہے ؟ اور زبان دراز ہے ؟۔صائم نے تکیے سے حماس کو مارتے ہوئے کہا۔
"ابے یار کیا کررہا ہے ؟ مجھے بولنے تو دے"۔حماس نے خود کو بچاتے ہوئے کہا۔
"پہلے تو نے کونسا سچ بولا تھا!۔صائم نے رک کر کہا۔
"ابے یار مذاق کیا تھا میں نے"۔حماس نے اپنے بال ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
"پر میں سیریس ہوگیا تھا یار"۔صائم نے تکیہ واپس بیڈ پر پھینک کر حماس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
"تم پھر اب تم کیا چاہتے ہو؟۔حماس نے معنی خیزی سے پوچھا۔
"یہ بھی مجھے تمہیں بتانا پڑے گا!۔صائم نے کہا۔اور دونوں مسکرادیے۔
***************
نور اور حماس کی منگنی کو ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔اور رجا نے بھی گریجویشن مکمل کرلی تھی۔اس ایک ہفتے میں نور اور حماس دوبارہ ملے نہیں تھے۔بس فون پر ہی بات ہوتی تھی۔اور نور کا نمبر بھی حماس نے رجا سے لیا تھا۔پر اب حماس کا پلان نور سے کہیں باہر ملنے کا تھا۔پر نور نہیں مان رہی تھی۔
***************
"یار رجا ، یہ بیٹھے بیٹھائے تجھے کیا شاپنگ کا بھوت چڑھ گیا ! آج انکی میل کا جواب آنے والا ہے جنہیں میں نے ماڈلنگ کیلئے اپنی فوٹوز بھیجی ہیں"۔نور نے کہا۔دونوں اس وقت ایک مال میں گھوم رہی تھیں۔
"ہاں تو میل تم گھر واپس جاکر بھی چیک کرسکتی ہو"۔رجا نے کہا۔
"اچھا اب تمہیں لینا کیا ہے ؟ بس گھومے جارہی ہو"۔نور نے کہا۔کہ تب ہی سامنے سے حماس آتا ہوا نظر آیا۔اور جب تک نور کو سب سمجھ میں آیا۔حماس ان لوگوں کے قریب آچکا تھا۔
"اچھا ! تو اس لئے اچانک تمہیں شاپنگ کا دورہ پڑا تھا"۔نور نے سب سمجھتے ہوئے کہا۔رجا کاندھے اچکا کر مسکرادی۔
"انہیں میں کہا تھا آپکو یہاں لانے کیلئے"۔حماس نے بتایا۔
"ہممم! اور یہ فرمابردار نے فوراً حکم کی تعمیل بھی کردی"۔نور نے کہا۔
"چلیں کہیں بیٹھتے ہیں"۔حماس نے کہا۔
"نہیں آپ لوگ جائیں ، مجھے ذرا کچھ چیزیں لینی ہیں"۔رجا نے کہا۔کیونکہ اسے ایسے دونوں کے بیچ رہنا ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔پھر نور اور حماس ایک جانب چلے گئے۔اور رجا ایک جانب۔
****************
"تم پھر وہی ضد کررہی ہو"۔حماس نے کہا۔دونوں ایک ریسٹرونٹ میں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
"یہ ضد نہیں ہے ، میرا شوق ہے ، میرا جنون ہے ، اور میں اسے ہر قیمت پر پورا کروں گی"۔نور نے ڈھیٹ پن سے کہا۔
"تم سمجھ کیوں نہیں رہی ہو ! تم جس فیلڈ میں جانا چاہ رہی ہو وہ ٹھیک نہیں ہے ، وہاں عورتوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی ، تم کچھ عرصے بعد میری بیوی بن جاؤ گی ، اور مجھے یہ بالکل اچھا نہیں لگے گا کہ میری بیوی غیر مردوں کے ساتھ اس قسم کا کام کرے"۔حماس نے کہا۔
"کیا مطلب اس قسم کا ! میں کوئی طوائف نہیں بننے جارہی ، میں ماڈل بنوں گی ، اور مجھے کوئی نہیں روک سکتا"۔نور نے اسی لہجے میں کہا۔
"میں روک سکتا ہوں ، اور میں روکوں گا"۔حماس نے کہا۔
"روک لو ، پر میں نہیں رکوں گی ، اور اگر اتنا ہی خیال ہے ناں اپنی عزت کا ، تو کرلو کسی گھریلو عورت سے شادی ، جو گھر کی چاردیواری میں قید ہوکر پاگلوں کی طرح بس دن رات غلام بن کر تمہاری خدمتوں میں لگی رہے ، مجھ سے نہیں ہوگی یہ غلامی"۔نور نے حقارت سے کہا۔
"نور شادی کسی غلامی کا سودا نہیں ہے ، اور نہ ہی بیوی کوئی غلام ہوتی ہے ، اور جس چاردیواری کو تم قید کہہ رہی ہو ، وہ قید نہیں حدودیں ہیں ، جو عورت کی حفاظت کیلئے بنائی گئیں ہیں ، اور جو عورت ان حدوں کو روند کر باہر نکلتی ہے ناں ! انھیں انسان نما بھڑیے نوچ کھاتے ہیں ، جو انہی کی گھات لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں ، اسلام نے عورت کو قید نہیں محفوظ کیا ہے"۔حماس نے کہا۔
"مجھے تمہاری نصیحت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ، اور میں پھر کہہ رہی ہوں ، کروں گی میں وہی جو میرا دل چاہے گا ، آگے تمہاری مرضی"۔نور نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔اور بنا حماس کا جواب سنے وہاں سے چلی گئی۔اور حماس بے بسی سے اسے جاتے ہوئے دیکھ کر رہ گیا۔
******************
حماس سے بات کرنے کے بعد نور رجا کو لے کر سیدھی گھر آگئی تھی۔رجا نے اس سے پوچھا بھی کہ کیا ہوا ہے ! پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔منگنی کے بعد جب حماس اور نور فون پر بات کرتے تھے۔نور نے تب ہی حماس کو اپنی ماڈلنگ کی خواہش کے بارے میں بتا دیا تھا۔اور حماس نے صاف انکار کردیا تھا۔اسی بات پر اکثر فون پر بھی دونوں کی ضد بحث ہوجاتی تھی۔اور ابھی اسی مسلے پر بات کرنے کیلئے حماس نے نور کو یہاں بلوایا تھا۔پر نور کا ردعمل دیکھ کر حماس کو اندازہ ہورہا تھا کہ نور کے تیور ٹھیک نہیں تھے۔
*******************
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔حماس بیڈ پر لیٹا ہوا مسلسل نور کو فون کررہا تھا۔پر وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی۔حماس نے اسکو میسیج بھی کئے۔پر کوئی جواب نہیں آیا۔آخر تھک ہار کر حماس نے فون رکھ دیا۔اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
*******************
"ٹک ٹک ٹک"۔حماس نے دروازے پر دستک دی۔تھوڑی دیر میں ہی دروازہ کھل گیا۔
"السلام و علیکم"۔حماس نے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام ، بیٹا تم ! وہ بھی صبح صبح ، سب خریت تو ہے ناں !۔ثروت نے حیرانگی سے پوچھا۔
"جی آنٹی خریت ہے ، وہ بس ایک دوست سے ملنے آیا تھا یہاں ، تو سوچا آپ لوگوں سے بھی ملتا چلوں"۔حماس نے جھوٹ بولا۔
"اچھا اچھا ! آؤ اندر آؤ"۔ثروت نے سائیڈ پر ہوتے ہوئے کہا۔حماس اندر آگیا۔ثروت اسے لے کر لاؤنچ میں آگئی۔
"بیٹھو بیٹا"۔ثروت نے صوفے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔حماس بیٹھ گیا۔
"خریت ! یہ گفٹ کس کیلئے لائے ہو؟۔ثروت نے حماس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ریڈ کلر کے رپیر میں پیک باکس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
"یہ میں نور کیلئے لایا تھا"۔حماس نے بتایا۔
"اچھا اچھا ! تم رکو ، میں ابھی بھیجتی ہوں اسے"۔ثروت نے کہا۔اور اندر نور کے کمرے کی جانب چلی گئی۔تھوڑی دیر میں نور پیر پٹختی ہوئی لاؤنچ میں آئی۔
"گڈ مارننگ"۔حماس نے کھڑے ہوکر مسکرا کر کہا۔
"کیوں آئے ہو یہاں ؟۔نور نے ناگواری سے پوچھا۔
"تم میرا فون ہی نہیں اٹھا رہی تھی، تو سوچا خود ہی آکر تمہیں سوری بول دوں ، اور یہ بھی دے دوں"۔حماس نے کہتے ہوئے باکس نور کی جانب بڑھایا۔
"مجھے نہ تو تمہارے سوری کی ضرورت ہے ، اور نہ ہی تمہارے گفٹ کی ، چلے جاؤ یہاں سے"۔نور نے باکس لے کر بے دردی سے ایک جانب پھینکتے ہوئے کہا۔حماس نور کی اس حرکت پر حیران ہوگیا۔حماس نے اس جانب دیکھا جہاں نور نے باکس پھینکا تھا۔تو اور حیران ہوگیا۔کیونکہ باکس رجا کے پیروں کے پاس پڑا ہوا تھا۔اور رجا ہاتھ میں چینی کا ڈبہ پکڑے ہوئے ہکابکا سی دونوں کو دیکھ رہی تھی۔حماس نے ایک نظر نیچے پڑے گفٹ پر ڈالی اور ایک نظر نور پر۔اور بنا کچھ بولے وہاں سے چلا گیا۔نور بھی واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔اور رجا وہیں کھڑی رہی۔
****************
حماس کو نور کی اس حرکت سے بہت دکھ ہوا تھا۔وہ تو اس امید پر صبح صبح آفس جانے سے پہلے نور کے پاس آیا تھا کہ اس کے سوری بولنے سے نور پچھلی باتیں بھول جائے گی۔پر یہاں تو سب کچھ اسکی تواقعہ کے برعکس ہوا۔اور رجا کے سامنے یہ سب ہونا اسے اور برا لگ رہا تھا۔حماس کو اچانک ایک خیال آیا۔کہ کہیں اس نے کوئی غلط فیصلہ تو نہیں لے لیا!۔
****************
پھر دوسرے دن نور نے فون کرکے حماس سے اپنے رویے پر معذرت کرلی۔حماس نے نور سے نارمل ہی بات کی۔پر پھر بھی اسکے دل میں ایک گرہ سی پڑگئی۔اور پھر تو یہ معمول کی بات بن گئی۔ہر دوسرے دن دونوں کا کسی نا کسی بات پر جھگڑا ہوجاتا تھا۔اور ہر بار حماس ہی صلح میں پہل کرتا تھا۔اور نور ایک عجیب حرکت کرتی تھی۔کہ جب بھی سوری کے ساتھ حماس نور کو کوئی گفٹ دیتا۔اگر وہ گفٹ قیمتی ہوتا جیسے کے کوئی رنگ ، لاکٹ ، گھڑی ، پیرفیوم ہوتا تو نور وہ رکھ لیتی تھی۔پر اگر گفٹ معمولی سا ہوتا جیسے کوئی شوپیس ، کوئی ٹیڈی بیئر ، کوئی کارڈ تو نور اسے حماس کے سامنے تو نہیں پھینکتی تھی۔پر بعد میں اسے گھر میں کہیں پھینک دیتی۔اور ثروت سے کہتی کہ کسی کو دے دیجئے گا۔یا کچرے میں ڈال دیجئے گا۔
*****************
وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا۔اب ان لوگوں کی شادی میں صرف دو ہفتے باقی تھے۔حماس نے صائم سے کہا تھا کہ اگر وہ سچ میں رجا میں دلچسپی رکھتا ہے تو اپنی دادی کو اسکے گھر بھیج دے۔پر صائم نے کہا کہ ابھی وہ پہلے سہی طرح سے اسٹیبلش ہوجائے۔پھر اس بارے میں سب سے بات کرے گا۔اور دوسری جانب نور کو بھی ایسی خبر ملی تھی کہ اسکے پاؤں ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔وہ ایک جگہ ماڈلنگ کیلئے سلیکٹ ہوگئی تھی۔اور ظاہر ہے کہ یہ بات حماس کو بھی پتہ چلی۔اور اس نے اسے پھر روکا۔ثروت نے بھی اسے سمجھایا۔پر اس نے کسی کی نہیں سنی۔اور آڈیشن دینے چلی گئی۔
******************
"نور تم پھر وہی اپنی والی کررہی ہو ، اب تو بس ایک ہفتہ رہ گیا ہے ہماری شادی میں ، اس پر دھیان دو ، چھوڑ دو ان سب کو"۔حماس نے کہا۔رات کے گیارہ بج رہے تھے۔اور دونوں فون پر بات کررہے تھے۔
"میں نے کہا ناں ! کہ میں سب کچھ چھوڑ دوں گی ، پر ماڈلنگ نہیں چھوڑوں گی ، اور اب جبکہ میں سلیکٹ بھی ہوچکی ہوں تب تو بالکل بھی نہیں"۔نور نے کہا۔
"چلو اور کسی کا نہیں تو اپنی امی کا ہی خیال کرلو ، وہ بھی تمہاری اس ضد کی وجہ سے پریشان رہتی ہیں"۔حماس نے کہا۔
"تو میں نے کہا ہے انھیں کہ پریشان ہوں ! خود ہی ہوتی ہیں ، اور تمہارے پیچھے بھی میں نہیں آئی تھی ، تم آئے تھے میرے پیچھے ، اس لئے میں کسی کیلئے اپنی خواہش ادھوری نہیں چھوڑوں گی ، اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے، سمجھے تم!۔نور نے کہا۔اور بنا حماس کا جواب سنے لائن کاٹ دی۔حماس نے بھی ایک ٹھنڈی آہ بھر کر فون رکھ دیا۔
******************
"یہ کہاں جارہی ہو تم اتنا سج سنوار کر؟۔ثروت نے پوچھا۔نور کہیں باہر جارہی تھی۔
"ڈائیریکٹر صاحب نے ملنے بلایا ہے ، شوٹ کے حوالے سے کچھ بات چیت کرنی ہے"۔نور نے اپنے اسٹیپ کٹینگ بالوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے کہیں بھی جانے کی ، دو دن بعد شادی ہے تمہاری گھر پر بیٹھو"۔ثروت نے سختی سے کہا۔
"میرا وہاں جانا ضروری ہے ، میں نہیں رکوں گی ، میں وہاں جاؤں گی"۔نور نے ڈھیٹ پن سے کہا۔
"میں بھی دیکھتی ہوں کہ تو کیسے جاتی ہے"۔ثروت نے کہتے ہوئے نور کو بازو سے پکڑا اور کھینچتی ہوئی اسکے کمرے میں لے گئی۔نور نے مزاہمت کی پر ثروت نے ایک نہیں سنی۔اور اسے کمرے میں بند کردیا۔