بہاروں میں تیرےسنگ|Bharon Main Tery Sung By Dure Adina Last Qist 9



76 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


#بہاروں_میں_تیرے_سنگ

#درِ_عدینہ ✍

#قسط9آخری
کیا سوچ رہی ہیں مما؟" روشی نے غور سے ان خا چہرہ دیکھا جو کافی پریشان لگ رہی تھیں۔
میں بیٹا نمرہ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جب سے ہم سب وہاں سے آئیں ہیں بہت ہی چپ چہ رہنے لگی ھے۔ پتا نہیں سارا دن کیا سوچتی رہتی ھے, میں اسے پوں گم صم دیکھتی ہوں تو بہت پریشانی ہوتی ھے " بات کرتے ہوئےان کی آواز بھرا گئی تھی۔
مما اپ یوں پریشان ہوں گی تو نمرہ کو کون پھر حوصلہ دے گا۔ آپ کو پتا ہے وہ کیسے حالات سے گزر کر آئی ھے۔ ابھی ڈری ہوئی ھے اس کو ان سب باتوں کو بھلانےمیں کچھ وقت لگے گا۔ آپ پلیز یوں پریشان نہ ہوں۔" روشی نے تسلی دینے والے انداز میں ان کا ہاتھ تھام لیا۔
چلیں آپ اب پریشان نہ ہوں۔ اور اپنا موڈ ٹھیک کریں۔ بابا بتا رہے تھے۔ کہ اسلام آباد جنہوں نے نمرہ کی جان بچائی تھی۔ ان کی مما ہمارے گھر آنا چاہ رہی ہیں اور وہ لوگ ایک دو دن تک آئیں گے۔ روشی نے عائشہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔"
اچھا بیٹا میں نماز پڑھ لوں تم ذرہ نمرہ کو دیکھ لو۔" عائشہ بیگم پیار  سے روشی کو کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔"
تو روشی بھی پھر نمرہ کے پاس آکر بیٹھ گئی جو لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی تھی۔"
ہیلو کیا بات ھے میں دیکھ رہی ہوں تم کچھ کھوئی سی رہنےلگی ہو۔" روشی نے نمرہ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔"
نہیں کچھ نہیں بس ایسے ہی تم بتاو کب آئی ہو۔" نمرہ کی روشی کی طرف دیکھ کے مسکرا کر کہا۔"
میں تو کب سے ائی ہوئی ہوں تم ہی کھوئی کھوئی دی ہوں اور مجھے لفٹ ہی نہیں کروا رہی ۔" 
روشی نے مسکرا کر کہتے ہوئے اس کا دھیان بٹایا۔
اچھا چلو چھوڑو میں تمہیں بتانے آئی تھی کہ بابا بتا رہے تھے ان کے پاس ایس پی شجاع کا فون آیا تھا اور وہ اور ان کی فیملی ہمارے گھر آنا چاہ رہیں ہیں ۔
اچھا کب۔" نمرہ نے جس بے تابی سے پوچھا روشی غور سے نمرہ کا چہرہ دیکھنےلگ گئی۔" تو نمرہ سر جھکا گئی۔"
میں بچپن سے تمہیں بانتی ہوں ادھر دیکھو میری طرف۔" روشی نے نمرہ کا  چہرہ خود کی طرف کرتے ہوئے کہا "
مجھے ایسا لگ رہا ھے جیسے تم ایس پی شجاع کو پسند کرنے لگی ہو " نمرہ روشی کی بات سن کر چونک گئی کہ اسے تو خود بھی ابھی ٹھیک سے پتا نہیں تھا جو وہ محسوس کر رہی ھے یہ محبت ھے یا نہیں تو پھر روشی نےکیسے جان لیا اس کے دل کا حال۔"
کیا ہوا کیا سوچ رہی ہو۔" اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر متوجہ کیا۔ "
ہوں۔" دیکھو میری طرف  تم  شجاع کو پسند کرتی ہو پر ابھی یہ نہیں پتا ہمیں کہ وہ بھی تمہیں چاہتے ہیں کہ نہیں۔" جس طرح سے تم دونوں ملے ہو ایسے کیسے پیار ہو سکتا ھے۔" جب کہ تم نے بتایا تھا کہ کس  طرح انہوں  نے تم پر ہاتھ اٹھایا تھا پھر میری پیاری سی بہن یہ ایسا صرف تم ہی محسوس کر رہی ہو کیا پتا وہ ویسا نہ محسوس کرتے ہوں۔"
 اور پھر ہمیں تو یہ بھی پتا نہیں ھے کہ وہ انگیجڈ ہیں کہ میرڈ۔" روشی نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے حقیقت  بتائی " روشی کی سب باتوں سے وہ بھی مان رہی تھی پر اپنے اس دل کا کیا کرتی جو یہ سب سن کر افسرہ ہوگئی تھی۔"
اگر وہ تمہارے نصیب میں ہوئے تو پھر اللہ ضرور تمہیں ملائے گا۔"  اور وہ لوگ ایک دو دن میں آرہے ہیں نہ اگر وہ بھی تمہیں پسند کرتے ہوئے تو پھر ضرور کوئی بات کریں گے آکر یہاں۔"
چلو اب شاباش اب اپنا موڈ ٹھیک کرو اور چلو مما بابا بھی بہت پریشان ہو رہے ہیں تمہیں اس طرح اداس دیکھ کر۔"
روشی نے مسکرا اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور گلے لگا لیا تو نمرہ  بھی روشی کے گلے  لگ گئی۔"
❤❤❤❤❤❤❤❤
پھر ایک دو دن کے بعد شجاع والے بھی آگئے تھے اور روشی عمر پھپھو والے بھی آئے ہوئے تھے۔" 
نمرہ بھی ان کے آنے  سے خوش  تھی۔" 
وہ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے اورسب باتوں میں مصرف تھے۔"
زاہدہ بیگم نمرہ  سے بھی بہت ہی خوش ہو کے ملیں تھیں انہیں بھی اپنے بیٹے کی  پسند بہت پسند آئی  تھی۔"
بھائی صاحب ہم یہاں ایک خاص مقصد سے آئیں  ہیں ۔" زاہدہ بیگم نے اصغر صاحب سے کہا۔" 
جی بہن جی کیا بات ھے۔" اصغر صاحب نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔"
آپ کی بیٹی بہت  ہی پیاری ھے  میں آج  یہاں آپ سے نمرہ کا ہاتھ  اپنے بیٹے شجاع کے لئے مانگنے آئی ہوں۔"
زاہدہ بیگم کی بات سن کر اصغر صاحب اپنی بیگم عائشہ کی طرف دیکھا۔" جب کے روشی اور عمر بہت ہی خوش ہوئے تھے کیوں کہ روشی پہلے سے ہی جانتی تھی نمرہ کے دل کا حال۔"
دیکھئے آپ لوگوںکو جو بھی تسلی کرنی ھے آپ لوگ کر سکتے ہیں میرا بیٹا آپ  لوگوں کے سامنے ہی بیٹھا ھے ۔" آپ لوگوں کو اچھی طرح طرحسے تسلی کر لیں ۔" پر جواب ہاں میں  ہی ہونا چاہیے ۔"
بہن جی یہ آپ کا بڑا پن ھے کہ آپ یہاں آئیں ہیں۔" اور شجاع بیٹے خود بھی انشاءاللہ سے بہت اچھے ہیں میں تو آپ کے بیٹے کا شکر گزر ہوں جس نے میری بیٹی کی جان بچائی اور آپ بہت ہی خوش قسمت ہیں  جو  اتنے  بہادر بیٹے کی ماں ہیں۔"
اصغر صاحب سے آنکھوں کے  اشارے سے پوچھا عائشہ بیگم  نرگس بیگم  اور آفاق صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا '" تو وہ سب بھی خوش تھے اس رشتے سے اس لئے اصغر صاحب نے ہاں کہہ دی۔"
اصغر کے ہاں کرتے ہی روشی نے سب کا   منہ میٹھا کروایا۔" حسن  اٹھ کر شجاع کے گلے لگ گیا تھا۔" ولید مے بھی  اپنے بھائی کے گلے لگ کر منہ میٹھا کروایا تھا۔" 
شجاع نے سب بڑوں کے آگے جھک کر پیار لیا۔"
روشی بھاگ کر کمرے کی طرف گئی تا کہ نمرہ کو خوش خبری سنا سکے۔""
❤❤❤❤❤
روشی بھاگ کر ائی تو نمرہ اسے دیکھ کر کھڑی ہو گئی۔"
تمہیں پتا ھے نیچے زاہدہ آنٹی نے  کیا کہا ھے مما بابا سے۔" روشی نے خوشی سے نمرہ کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے کہا۔"
تو نمرہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔"
زاہدہ آنٹی نے شجاع بھائی کے لئے تمہارا ہاتھ مانگا ھے اور مما بابا نے بھی ہاں کر دی ھے۔" روشی کی بات سن کر نمرہ کو یقین نہ آیا اور پھر خوشی سے روشی کو گول گول گھومانے لگی۔"
سچی۔" ارے مچی میری  میری جان"" روشی نے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا اور پھر کافی دیر تک روشی نمرہ کو چھیڑتی رہی  شجاع کی باتیں کرتے ہوئے۔
بات پکی ہوتے ہہی دونوں گھروں طرف تیاریاں ہونے لگ گئی تھیں عائشہ بیگم اصغر صاحب بہت خوش تھے کہ شجاع جیسا اتنا اچھا لڑکا ملا تھا نمرہ کے لئے,
نرگس بیگم اور آفاق صاحب والے بھی خوش تھے بہت روشی بھی بہت خوش تھی۔ سب کے ہی بازاروں کے چکر لگ رہے تھے دن ایسے گزر رہے تھے, جیسے پر لگ گئے ہوں۔"
تیاری کرتے کرتے مہندی کا دن بھی آپہنچا تھا, 
نمرہ نے  ڈل گولڈن اوپن شرٹ جو کام سے بوجھک تھی۔ ساتھہی کھلے پائنچوں والا سادہ ٹراؤزر اور آف وہائٹ بڑا سا ڈوپٹہ جس کے چاروں طرف چوڑی سی کامدار تھی , سر پہ بہت ہی خوبصورت طریقے سے سیٹ کیا گیا تھا۔"
شجاع حسن اور سب گھر والے بھی لاہور گیسٹ ہاؤس میں شفٹ ہو گئے تھے۔"
رسم کے لئے جب نمرہ کو شجاع کے ساتھ بٹھایا گیاتھا تو شجاع  نمرہ کو دیکھ کر دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔"
لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی ,شجاع نے خود بھی آف وہائٹشلوار سوٹ پہ میرون دھسا اپنے چوڑے شانوں پہ پھیلائے وہ اتنا وجیہہ لگ رہا تھا کہ سب ہی دونوں کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔"
مہندی کے فنکسن کے بعد سب ہی مہمان روانہ ہو گئے تھے, 
❤❤❤❤❤❤
اگلی شام برات تھی دلہن بنی نمرہ شجاع کے دل سما رہی تھی, قبول و ایجاب کی رسم ادا ہوئی۔جب شادی کی پوری رسمیں ہو گئیں تھیں, رخصتی کے وقت سب ہی کی آنکھیں نم تھی, جب کے نمرہ اتنا روئی کہ سب کے لئے  اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔
رخصتی کے بعد وہ لوگ اسلام آباد کے لئے نکل گئے تھے۔ نمرہ پورے راستے روتی ہوئی گئی تھی۔ زاہدہ بیگم اور ولید واکے دوسری گاڑی میں تھے۔ جب کے حسن گاڑی ڈرائیو کر رہا تھااور شجاع فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا تھا اور نمرہ پیچھے بیٹھی تھی۔"
گھر پہنچ کر کچھ رسموں کے بعد اسے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔" ابھی اسےکمرے میں بیٹھے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ پھر شجاع بھی آگیا کمرے میں۔" 
نمرہ دل ہی دل میں تھوڑی ڈر بھی رہی تھی,  اسلام و علیکم " میری زندگی کھلی کتاب کی طرح ھے اس کا کوئی بھی پہلو تاریکی میں نہیں۔ بعض دفعہ حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کا وہ روپ بھی سامنے آجاتا ھے جو اصل میں نہیں ہوتا۔ جب پہلی بار  تم ملیں تو جانتی ہو کیا حالات تھے۔ میں تم سے شرمندہ ہو کہ میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ اگر کوئی تمہیں خراش بھی لگائے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔" تمہیں میرے پیار کا  اندازہ نہیں ہوا۔ زندگی میں ان لوگوں کو شامل کیا جاتا ھے جو دل کے مکین ہوتے ہیں اور میں تمہاری تمام حماقتوں کے باوجود تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور میں وعدہ کرتا ہوں تم سے کہ ہمیشہ خوش رکھوں گا۔" نمرہ نے نظریں اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھا تو چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔"
تسلی کے لیے  اتنا کافی ھے یا اور بھی کچھ کہوں " شجاع نے پھر شرارت سے تھوڑا جھک کر کہا۔" تو نمرہ شرم سے سر جھکا گئی۔" 
ختم شد