بہاروں میں تیرےسنگ|Bharon Main Tery Sung By Dure Adina Qist Number 6



59 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


#بہاروں_میں_تیرے_سنگ

#درِ_عدینہ ✍

قسط 6
ساری بات سن کر ان سب کے غصے سے برا حال تھا,
بس ایک بار وہ لوگ مل جائیں چھوڑو گا نہیں انہیں میں۔۔ شجاع نے غصے سے کہا, 
ریلیکس یار۔" حسن نے شجاع کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
شجاع نے گہرا سانس لیا اور بولا۔" چلو" پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ھے۔
شجاع کے کہنے پر ہاتھ میں پکڑی ٹارچ روشن کی تھی۔
شجاع ان کا کیا کرنا ھے۔" حسن نے نمرہ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔"
کیا مطلب کیا کرنا ھے ہم وہاں پکنک منانے نہیں جا رہے مجرموں کو پکڑنے جارہے ہیں۔" وہاں ہماری اپنی جان کا خطرہ ھے پھر اس کو کہاں ہم سنبھالتے پھیرے گے۔"
پولیس اسٹیشن فون کرو وہاں سے آکر کوئی ان کو لے جائے گا۔" شجاع نے حسن سے کہا۔
کیا مطلب آکر لے جائے اتنی دیر تک یہ یہاں اس جنگل میں اکیلی کیا کریں گی یہ مت بھولو تم شجاع کہ وہ لوگ بھی اس ہی جنگل میں ہیں۔" اس کے والد صاحب نے ہم پولیس والوں پہ پھرسہ کر کے اپنی بیٹی کو لانے کا کہا تو ہم اسے اس طرح اکیلے نہیں چھوڑ سکتے۔" 

ان سب کی باتوں سے اندازہ ہو رہا  تھا۔ کہ وہیں ان سب کا سینئر ھے اور اتنی رات کو وہ وہاں اکیلے رکنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔ اور وہ سب اس کا آرڈر مانتے تھے۔"
نمرہ نے سوچا پھر جلدی سے بولی۔" نہیں تو کوئی بھروسہ نہیں تھا وہ لوگ اسے ادھر ہی چھوڑ جاتے۔"
دیکھیں پلیز مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں میں آپ کے اگے ہاتھ جوڑ تی ہوں میں اکیلے نہیں یہاں رکنا چاہتی پلیز اگر وہ لوگ پھر سے آگئے تو مجھے چھوڑیں گے نہیں۔" نمرہ نے روتے ہوئے بچوں کی طرح کہا۔"
شجاع پلیز ہم اس سنسان جنگل میں اکیلے نہیں چھوڑ کے جا سکتے اگر خدانخواستہ کچھ ہو گیا تو کون ذمہ دار ہوگا۔۔"
سر ٹھیک کہہ رہے ہیں شجاع سر ہمیں وہاں پتا نہیں کتنی دیر لگتی ھے اور وہاں سے بھی پتا نہیں کتنی دیر میں کوئی انہیں لینے آتا ھے۔" کاشف نے کہا تو شجاع نے اس کی طرف دیکھا۔"
جی سر حسن سر اور کاشف ٹھیک کہہ رہے ہیں۔" 
حسن کو تو وہ جانتا تھا کہ اس کی لڑکیوں کے بارے میں اس کے کیا احساسات تھے۔ پر کاشف اور حماد کا بھی ووٹ اس کی طرف منتقل ہو گیا تھا۔' 
ٹھیک ھے چلو ۔" وہ سب پھر آگے پیچھے چل رہے تھے انہیں چلتے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی " جب نکلے تھے تو ساڑھے آٹھ نو بج رہے تھے, جب کے اب ان کو چلتے ہوئے رات کے بارہ بج چکے تھے۔"
نمرہ کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ ان سب کے ساتھ محفوظ ھے اگرچہ وہ تینوں بھی مرد تھے پر شکل سے شریف لگ رہے تھے۔"
شدید سردی میں اس طرح چلتے ہوئے اس کی جان نکل رہی تھی۔" تب ہی ان میں سے ایک کا موبائل بجا۔" وہ اب رک گئے تھے۔"
فون بند کر کے شجاع نے ان تینوں سے کہا۔"
وہ لوگ اس ہی ایریا میں ہیں ہم یہیں رک کر صبح ہونے  کا  انتظار کرتے ہیں پھر دن کی روشی میں انہیں پکڑنے میں آسانی ہوگی۔"
ہمممم" ٹھیک کہہ رہے ہو شجاع حسن حماد اور کاشف نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور پھر سب نے ایک ایک درخت سے ٹیک لگا لی۔۔
وہ خود بھی تھک گئے تھے۔" نمرہ نے بے اختیار  اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ کچھ دیر بیھٹنا نصیب ہوا تھا ورنہ مسلسل چلتے ہوئے اسے لگ رہا تھا کہ وہ اب تھوڑی دیر اور چلی تو مر اس کی جان نکل جائے گی۔۔
یااللہ یہ صبح کب ہو گی۔" اس کے پیروں میں شدید درد ہو ریا تھا جوتی تو بھاگتے بھاگتے ہی اتر گئی تھی اور پاؤں میں کیا کچھ نہیں لگا تھا اسے پرواہ ہی نہیں تھی تب بس وہ اپنی عزت بچانے کے لئے بھاگ رہی تھی۔"
صبح وہ جلدی ہی اٹھ گئی تھی اور کھایا بھی کچھ نہیں تھا صبح سےاب تھکن نقاہت کی وجہ  سے اب نیند بھی اس پر حاوی  ہو رہی تھی۔"
اس نے اپنی دونوں ٹانگوں پر سر رکھ لیا تھا۔"
پتا نہیں سب کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔" اسے ہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگی اور وہ سو گئی تھی۔"
❤❤❤❤❤❤❤❤
صبح جب اس کی آنکھ لگی تو مندی مندی آنکھوں سے سامنے دیکھا پہلے تو اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں ھے پھر جب دیکھا جہاں وہ سب بیٹھے ہوئے تھے۔ تو اس کی آنکھیں زیادہ ہی کھول گئی تھیں۔
وہ تیزی سے کھڑی ہوئی اس نے متلاشی نظر سے چاروں طرف  سامنے  دیکھا تو اسے کوئی بھی نہ نظر آیا۔۔"
اس کے سوئے  ہوئے حواس  ایک دم سے الرٹ ہو گیے تھے۔"
وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے اسے پہلا خیال یہی آیا تھا۔"
وہ تیزی سے بھاگنے لگی بھاگتے بھاگتے وہ کافی بار گری بھی اور پھر سامنے ہی وہ لوگ نظر آئے تو اس نے سکون کا سانس لیا اور  انہیں رکنا چاہا پر تب ہی اس کے پاؤں پر کوئی کانچ کا ٹکڑا لگا تو اس کی چیخ  بے ساختہ تھی۔"
❤❤❤❤❤❤❤❤
اس سب کو موبائل پر کال موصول ہوئی تو وہ لوگ فورا ہی چل دیے تھے۔۔"
انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ لڑکی بھی ان کی ساتھ تھی۔"
جب چلتے چلتے نسوانی چیخ کی آواز سنی تو ان تینوں نے ہی پھر ایک دوسرے  کی طرف دیکھا تو انہیں اس لڑکی کا خیال آیا۔"
ان کی ذہن میں یہی تھا کہ وہ لڑکی ان لوگوں کے ہاتھے چڑھ گئی ھے۔"
حسن اور کاشف کو رکنے کا کہہ کر وہ اور حماد پیچھے آئے تو ان کی نظر سامنے پڑی جہاں وہ زمین پر اپنا پاؤں پکڑے  بیٹھی ہوئی تھی۔"
 جب شجاع نے دیکھا کہ وہ ٹھیک ھے تو اسے بہت ہی غصہ آیا اور پاس جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھا اور اس کا بازو پکڑ کر آپنی طرف منہ کیا اور کھینچ کر ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا وہ اپنے ہی دھیان میں تھی بیٹھے سے اندھے منہ گری تو ایک زوردار پتھر اس کے سر پر زور سے لگا۔"
مانا کیا تھا نا کہ تنگ مت کرنا, پھر تمہیں ایک بات سمجھ میں نہیں آتی اتنی ہی تکلیف درد اور  ڈر  لگتا ھے تو کیا ضرورت تھی گھر سے نکلنے کی گھر میں ہی رہتی, تم جیسی ہی ہوتی ہیں وہ لڑکیاں جو اپنی حفاظت بھی خود سے نہیں کر سکتی اور انہیں ہمیشہ کوئی نہ کوئی پاس چاہیے اپنی ہیلپ کے لئے۔" شجاع نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور غصے سے کہا۔"
اب یہی بیٹھی رہو اب اگر تمہاری آواز بھی نکلی نہ تو بہت برا پیش آوں گا سمجھی۔"
غصے سے کہہ کر وہ آگے چل دیا حماد کے ساتھ جب کے وہ پیچھے بیٹھی ہکا بکا اسے جاتا دیکھتی رہی اسے یہ بھی نہ احساس ہوا کہ اس کے ماتھے پہ جو پتھر لگا تھا وہاں سے خون نکل رہا تھا۔"
وہ جان بوجھ کے نہیں چیخی تھی اس کے پاؤں پر کوئی کانچ کا ٹکڑا لگ گیا تھا تو اس وجہ سے اس کی چیخ نکل گئی تھی۔ وہ وہیں بیٹھے بیٹھے رونے لگ گئی تھی۔