بن کہے سنو او یارا|Bin Kahy Sunu O Yara By Farhat Nishat Mustafa Qist Number 1

210 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
#بن_کہے_سنو_او_یارا
از فرحت نشاط مصطفے ✍️
قسط 1
یہ شہر کراچی بھی بڑا عجیب ہے نہ جانے کتنا وقت گزرا...کتنے برس کے سکے وقت کے تھال میں گرے....موسم اپنی شدتوں کے ساتھ گزرے ....یہ شہر آج بھی کسی مہربان ماں کی طرح دوسرے دیس کے باسیوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے....کراچی میں کچھ ایسا سحر ہے جو ایک بار اس شہر کا پانی چکھ لے وہ پھر ساری زندگی اس شہر سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتا....وقت نے اس کی صبیح پیشانی پہ نہ جانے کتنے آبلے چھوڑے مگر یہ شہر سب برداشت کرلیتا ہے دن رات میں ڈھل کے اور بھی جوان ہوجاتا ہے ....نہ گاڑیوں کا شور تھمتا ہے اور نہ لوگوں کی آمد و رفت ....مگر زرا ٹھرئیے یہ حضرت انسان بھی اللّه تبارک وتعالی کی انوکھی ہی مخلوق ہیں انسانوں کے اس جنگل میں کسی پرسکون بستی کا ہونا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے مگر اس شہر کے مغربی حصے میں ایک ایسی بستی ان لوگوں کے دم سے قائم تھی جو سکون کے طلب اور آرام کے متلاشی تھے
اسی علاقے میں بسنے والے ایک گھر کی کہانی ہم آپ کو سناتے ہیں
کہنے کو تو یہ گھر سفیر یوسف کا ہے مگر اس گھر کا اہم ستون بلکہ اگر ہم یہ کہیں کہ اہم فرد مہرماہ سیال ہے ....تو شاید بہت سے لوگوں کی ہنسی چھوٹ جائے ....بھلا کیوں ....آئیں نیہا سفیر کی زبانی سنتے ہیں
"اف مہر ماہ....تمہارے منہ میں بھی زبان ہے کبھی تو بول دیا کرو مگر نہیں تم نے تو قسم کھا رکھی ہے ....خدا کی پناہ روئے زمین پہ تم واحد لڑکی ہو جسے بولنے کا قطعا شوق نہیں....ہاں سننے کا خوب شوق ہے اور اگر بولنے والا ہالار جاذب ہو تو کیا کہنے تم تو ساری زندگی سنتے سنتے ....سن ہی ہوجاؤ گی"
بات مہر ماہ سیال کی ہو اور ذکر خیر ہالار جاذب کا نہ آئے تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا
_____________________________________
شہر کے ہنگاموں سے کچھ دیر کی مسافت پہ سفیر یوسف ایم فل انگلش لٹریچر کا خاندان آباد تھا....سفیر صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہونے کے ساتھ پرنسپل بھی تھے ....انکے دو بچے ہیں....بڑے انس سفیر اور چھوٹی نیہا سفیر اور اگر نیہا سفیر اس گھر میں پیدا نہ ہوتی تو اس گھر کی دیواریں خاموشی کے سناٹوں کی عادی ہی ہوجاتیں ....نیہا بھی عجیب ہی کردار تھی پل میں تولہ پل میں ماشہ....اسکی نگری میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو اسکے دماغ میں کیا چل رہا ہے پڑھ سکے .....عالیہ جو سفیر صاحب کی بیگم تھیں وہ ناک تک نیہا سے عاجز تھیں
اور بات ہو سفیر یوسف کے خانوادے کی تو مہر ماہ سیال کے بغیر یہ ذکر مکمل نہیں ہوسکتا ....مہرماہ سفیر یوسف کی بھانجی تھی اور انکے گھر ہی رہتی تھی آج سے نہیں اپنی پیدائش کے دن سے .....مہر ماہ نے اپنے بے ضرر سے وجود کے ساتھ اس گھر کی بنیادوں کیسے مضبوطی سے تھام رکھا تھا یہ داستان پھر سہی ابھی ہم اس ڈھلتی شام کے سنگ مہرماہ سیال کے گھر میں چپ کے سے اتر جاتے ہیں جہاں رات اپنے پرپھیلانے کو بیتاب ہے
_____________________________________
اوہ سوا دس....اس کے چلتے ہاتھ تیزی سے چلنے لگے ....برتن صاف کرکے کیبنٹ میں ترتیب سے رکھے تو نظر دوبارہ گھڑی کی سوئی پہ اٹکی ...ساڑھے دس ابلتے دودھ کا چولہا بند کرکے اس نے پھرتی سے ٹرے میں کپ سیٹ کرکے رکھے اور گرما گرم چائے انڈیلی
" مہرماہ....چائے بنارہی ہو" نیہا نے کچن میں جھانکا
مہرماہ نے صرف سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا وہ ظاہری طور پہ تو یہاں موجود تھی مگر اس کا تخیل کہیں اور پرواز کررہا تھا
"لڑکی....میں تم سے مخاطب ہوں"
نیہا چڑگئی تھی
" معلوم ہے...."مہر ماہ نے ساس پین دھو کے رکھا نظریں ایک بار پھر گھڑی کی سوئیوں میں اٹکی
دس پچاس.....
مہر ماہ کے چہرے کی کیفیت بدلی تھی اور یہ بدلتے رنگ نیہا کی نظروں سے ہٹ نہیں سکے تھے اسے جیسے مہرماہ پہ ترس آیا تھا
" یہ مجھے دے دو ماہ....میں دے دوں گی بھائی اور بابا کو چائے...."
"سچی...." مہر ماہ نے بےیقینی سے اسے دیکھا
"ہاں بابا....تم جاؤ"
نیہا نے ٹرے اسکے ہاتھ سے لے لی تھی
" اپنی زندگی پہ سب سے پہلا حق ہمارا ہوتا ہے ....مہرماہ اسے استعمال کرنا سیکھو"
نیہا نے روز والی نصیحت کی تھی مہرماہ جوابا کچھ نہیں بولی تھی ....اسکی چال میں تیزی تھی وہ کچن سے باہر جاچکی تھی
" عجیب لڑکی ہے....بے سبب رفاقت کا بوجھ اٹھا رہی ہے"
نیہا بڑبڑائی
_____________________________________
پورا چاند آسمان پہ کسی جھومر کی مانند جگمگا رہا تھا ....ہوا سرسراتی ہوئی پردوں کی رکاوٹ عبور کرکے کھلے دریچوں سے اندر داخل ہورہی تھی
مہر ماہ نے ٹیرس پہ موجود جھولے پہ دھیرے سے اپنا آپ ڈالا اور گہری سانس لے کے رات کی رانی اور موتیے کی مہک اپنے اندر گھولی
چاند عین اسکے اوپر جگمگا رہا تھا
مہر ماہ نے سیل فون کھولا ....ہینڈ فری اٹیچ کیے...فریکوینسی میچ ہورہی تھی مہرماہ کے اندر جیسے کوئی تلاطم سا برپا ہوا تھا
مہر ماہ نے سکون سے آنکھیں موند لیں تھیں....یہ چاند زمین آسمان اور بادل.....سب اچھا لگنے لگتا تھا ایک دم ہالار جاذب کی مدھ بھری آواز کے سنگ
" سامعین....ہوا کے دوش پہ پھیل کے آپ کے دل میں اترتی ہوئی یہ آواز
.....آپ کے دوست ہالار جاذب کی ہے "
مہرماہ کے دل کے تار اس آواز کے ساتھ ہی بجنے لگتے تھے
"یہ محبت کی صاحب....کسی نے اسے بپھری ہوئی موجوں سے تشبیہ دی تو کسی نے ماں کی ممتا بھری آغوش کو استعارہ بنایا....کسی نے محبت کو جنگ کا میدان بنایا تو کسی نے وصل کا نخلستان بنایا....یہ محبت ہے اسکے رنگ ہزار اور روپ بے شمار....اور محبت کا ایک رنگ میں بھی ہوں ....اس محبت کا ایک عکس تم بھی ہو...ہاں تم جو میرے آواز سنتے ہو ...تمہاری سماعتیں جو میری آواز کی آہٹیں سنتیں ہیں...محبت تو تم بھی ہو محبت تو میں بھی ہو....تو آپ بتائیں آپ کی محبت کا رنگ کیا ہے اسکا عکس کیا ہے?.."
مسحور کن آواز....دلوں کو چھو جانے والے بیک گراؤنڈ کے ساتھ ہوا کے دوش پہ پھیل رہی تھی
مہر ماہ کے پنکھڑی نما لبوں نے کسی داسی کی طرح بنا آواز وہ حرف دہرائے تھے ....ہلکی ہوا سے جھولا ہولے ہولے ہل رہا تھا ....جھولے سے لپٹ کے جاتی کاسنی پھولوں کی بیل نے یونہی مستی میں آکے ڈھیر سے پھول مہرماہ پہ برسائے تھے ....شاید پھولوں نے اور ہوا دونوں نے وہاں پھیلی اس خاموش محبت کی آہٹیں بن کہے سن لیں تھیں
" تو بتاؤ نا مہرماہ....تمہاری محبت کا رنگ اور روپ کیا ہے ....ہالار جاذب جاننے کو بیتاب ہے"
نیہا کی آواز نے سارے ماحول کا ردھم توڑا تھا
مہرماہ نے تڑپ کے آنکھیں کھولیں تھیں
" کیا مسئلہ کیا ہے تمہارا.... ایسا کچھ نہیں ہے وہ ہالار ہے ....اسے بےصبری نہیں ہوسکتی"
"میرا مسئلہ کوئی نہیں ہے مہرماہ....میرا مسئلہ تم ہو ....تم نے حقیقتا مجھے چکرا کے رکھ دیا ہے ....مہرماہ تم اس روئے زمین کی سب سے عجیب لڑکی ہو"
" پاگل کیوں نہیں کہہ دیتیں....."
مہرماہ ہلکی سی ناگواری سے بولی تھی
" وہ بھی ہوجاؤ گی یہ ہالار جاذب ایک دن تمہیں پاگل کردے گا....مہرماہ ایسے بھی کوئی کرتا ہے جو تم کرتی ہو"
" کیا کرتیں ہوں میں...." مہرماہ کا لہجہ پرسکون تھا ویسے بھی کمرشل بریک چل رہا تھا پروگرام میں
"ایک شخص جس کی آپ نے صرف آواز سنی ہے....آج تک نہ آپ نے اسے دیکھا ہے ....یہاں تک کہ تم اسکے نام کے علاوہ اسے جانتی تک نہیں ہو .....اور ملنے کی تو کوئی سبیل نہیں....پھر کیسے مہرماہ کیسے تم محبت کا دعوے کرتی ہو" نیہا کی سوئی ہمیشہ اٹکتی تھی
"نیہا ....مجھے نہیں معلوم تمہارے نزدیک محبت کی تعریف کیا ہے....مگر میرے نزدیک محبت امید کا وہ روشن دیا ہے جو جو ہمیں مایوسی کے اندھیروں سے نکالتا ہے ....راستوں پہ چلتے مسافروں کو مسافت کا پتہ تھماتی ہے....اور ہالار جاذب کی محبت نے مجھے یہ سب دیا ہے نیہا.....یہ بلاغرض کی عقیدت بھری محبت ہے ....جس کی کوئی قیمت نہیں"
" تم نے آج تک اسے دیکھا تک نہیں ..."
" کیا فرق پڑتا ہے"
" فرق پڑتا ہے مہرماہ....وہ کیسا دکھتا ہے کیا جتنی اسکی آواز پرتاثیر ہے کیا اسکی شخصیت بھی اتنی ہی پرتاثیر ہے کہ نہیں....وہ کس خاندان سے ہے...تمہیں معلوم ہے میں نے اسے نیٹ پہ ہر سوشل ویب اتنا ڈھونڈا مگر وہ مجھے نہیں ملا ...کہیں اسکی ایک جھلک نہیں لائیو کالز وہ پروگرام میں لیتا نہیں ورنہ میں اس سے کہتی ...بھائی ایک بار تو اپنا دیدار کرادو تاکہ ہماری مہرماہ کی دھڑکنوں کو یا تو قرار آجائے یا رک جائیں"
" نیہا....بیکار بحث مت کرو ....ایسا کچھ مت کہو ...محبت ان سب سے بے نیاز ہے مجھے اسکے نام شہرت اور اسکے چہرے سے نہیں اسکے احساسات ...اسکی روح کی گہرائیوں میں پنپتے جذبات سے محبت ہے....مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں نے اسے دیکھا نہیں ....یہ مہرماہ کی محبت ہے اور یہ ان سب باتوں سے بےنیاز ہے"
مہر ماہ نے کہہ کے کانوں میں دوبارہ ہینڈفری لگالی تھی ....بریک ختم ہوچکی تھی ہالار جاذب کی آواز ایک بار پھر سماعتوں کو چھو رہی تھی
" یہ لڑکی پاگل ہے"
نیہا ہمیشہ کی طرح بحث کے آخر میں بولی تھی اور گوگل کا چوکھٹا کھول کے بیٹھ گئی تھی....ہالار جاذب کے نام پہ ایک بار پھر گوگل نے نو رزلٹ شو کیا تھا
" یہ ہالار جاذب نہ ہوا....پینٹاگون کا بلیو پرنٹ ہوا جو گوگل سے سرچ ہی نہیں ہورہا تھا"
نیہا نے لیپ ٹاپ پٹخ دیا تھا
_____________