بن کہے سنو او یارا|Bin Kahy Sunu O Yara By Farhat Nishat Mustafa Qist Number 12

82 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
#بن_کہے_سنو_او_یارا
از فرحت نشاط مصطفے ✍️
قسط 12
گرگٹ بھی اپنا رنگ اتنی جلدی نہیں بدلتا جتنی جلدی میر سیال نے اپنا رنگ ڈھنگ بدلا تھا کلاس میں سب سے آخر میں پہنچنے والا اب وقت پہ پہنچتا اور ہر اسائنمنٹ وقت پہ مکمل کراکے جمع کراتا اسکے دوست بہت حیران تھے کہاں تو وہ یہ سب سوچے بیٹھے تھے کہ وہ سمعیہ یوسف سے اپنی ہتک کا بدلہ لے گا اور اسے اس بات پہ چڑھاتے بھی تھے مگر میر سیال کے ہونٹوں پہ اس سب کے بدلے جامد چپ تھی
طوفان کے آنے سے پہلے کی جامد چپ
میر برفت خوش تھے کہ وہ بدل گیا مگر یہ خوشی اس وقت خاک میں مل گئی تھی جب میر سیال ایک بار پھر اپنے اکھڑ انداز میں اپنا مطالبہ لے کے کھڑا ہوگیا تھا
_____________________________________
دو سالوں کے دوران سیال نے اپنا امیج ایک بہترین طالبعلم کے طور پہ پیش کیا تھا اور سب سے بڑھ کے وہ شینا اور سمعیہ سے باقی لڑکوں کی نسبت احترام سے پیش آتا تھا جو باقیوں کے مقابلے میں اسکا پلس پوائنٹ بن گیا تھا ویسے بھی وہ دونوں ایک دوسرے کو کافی تھیں مگر کبھی جو کوئی ٹاپک انہیں سمجھ نہ آتا تو وہ سیال کی خدمات لیتیں تھیں
اس دن وہ سب رزلٹ کے بعد اپنی یونیورسٹی میں جمع ہوئے تھے سمعیہ کسی کام سے لائبریری کی طرف گئی تھی جب واپسی پہ سیال نے اسے روکا تھا
" مس سمعیہ....آپ کا کچھ وقت لینا ہے"
وہ پوچھ نہیں بتا رہا تھا
" خیریت مسٹر سیال....."
سمعیہ کچھ حیران ہوئی تھی اس سے جب بھی بات ہوئی تھی شینا کے ساتھ ہوتی تھی مگر اب یوں اکیلے اچانک وہ کچھ گھبرائی اور پھر اپنے ازلی خوداعتماد انداز میں لوٹ آئی تھی
" نہیں مس سمعیہ خیریت نہیں ہے....بس اب آپ ہی خیریت لاسکتیں ہیں"
سیال کی بات پہ سمعیہ کو ایک بار پھر جھٹکا لگا
" جی.......کیا مطلب ہے آپکا "
" مس سمعیہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں"
سیال ان دونوں سالوں میں جان گیا تھا سمعیہ شادی کے زریعے ہی مل سکتی ہے ورنہ ان دو سالوں میں کتنے موقع آئے تھے مگر سمعیہ پہاڑ کی مانند اپنی جگہ پہ قائم تھی اسے اپنی عزت کرانی آتی تھی
"کیا.....مسٹر سیال....آپ کو معلوم ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں...."
سمعیہ نے اپنی حیرانگی پہ قابو پاتے ہوئے ناگواری سے کہا
" لک مس سمعیہ آپ نے شادی تو کہیں نہ کہیں کرنی ہے تو وائے ناٹ می....میں اپنے پیرنٹس کو آپ کے ہاں بھیجنا چاہتا ہوں "
سیال نے کہا تو سمعیہ سوچ میں پڑ گئی تھی
واقعی شادی تو کہیں نہ کہیں ہونی تھی اگر میر سیال سے ہوجاتی تو کیا برائی تھی
" یہ فیصلہ میرے پیرنٹس کریں گے میں کچھ نہیں کہہ سکتی...."
اس نے میر سیال کو دیکھتے ہوئے کہا اگر وہ شخص اس کا نصیب بن جاتا تو یہ اسکی خوش قسمتی ہی ہوتی
اونچا لمبا....اور امیر
ایک لڑکی یہی تو چاہتی ہے
مگر یہ سوچنا کے یہ اسکی خوش نصیبی ہوگی سمعیہ کی سب سے بڑی بیوقوفی تھی
سمعیہ کی بات پہ سیال کے لبوں پہ ایک پراسرار مسکراہٹ آئی تھی
اب اگلے قدم کی تیاری تھی
____________________________________
سفیر واپسی پہ اسے لینے آیا تھا وہ ایم اے کے بعد ایک مقامی کالج میں پڑھا رہا تھا
سمعیہ اسے کوئی قصہ سناتے ہوئے بائیک پہ بیٹھی تھی سفیر کا مکمل دھیان اس پہ تھا اس لئے وہ سامنے آنے والے پہ دھیان نہ دے سکا اور سامنے والے کی بائیک سے ٹکر ہوگئی تھی
" اف....."
سمعیہ ڈر ہی گئی تھی کہ ٹکر کھانے والا میر سیال تھا
" اوہ....ایم سوری..."
سفیر بوکھلا کے اسکی طرف بڑھا تھا
" نو اٹس اوکے ....مجھے دھیان رکھنا چاہئے تھا " چوٹ کھانے کے بعد بھی میر سیال کی زبان شہد ٹپکا رہی تھی
مقام حیرت تھا کوئی سن لیتا تو بےہوش ہی ہوجاتا جو میر سیال کا واقف کار اگر ہوتا
" سمعیہ....تم گھر جاؤ....میں انہیں اسپتال لے جاتا ہوں"
سفیر نے اس سے کہا تھا بڑی پریشانی ہوگئی تھی سمعیہ ہمیشہ اسکے ساتھ آتی جاتی رہی تھی اب اسے اکیلے جانا پڑ رہا تھا یوسف صاحب سنتے تو دونوں کی صحیح عزت ہوتی
" اوکے بھائی...."
سمعیہ جانتی تھی کہ سفیر کا اسے اسپتال لے جانا ضروری تھا
" چلی جاؤگی نا...."
سفیر نے پوچھا
" جی بھائی....آپ فکر نہ کریں"
سمعیہ نے اسے تسلی دی اور سائیڈ پہ ہوگئی
سفیر گہری سانس لیتا ہوا سیال کی طرف متوجہ ہوا تھا اگر ابا کو پتہ چل جاتا سفیر سے ایکسیڈنٹ ہوا تو یہ سمعیہ کو گھر اکیلے بھیجنے سے زیادہ خطرناک ہوتا
کلینک کے بعد وہ سیال سے پوچھ کے اسے گھر لے آیا تھا مگر سمعیہ کی اسے فکر لاحق تھی نامعلوم وہ گھر پہنچی بھی تھی کہ نہیں
" کیا بات ہے کچھ پریشان لگ رہے ہیں...."
سیال نے اسکی بے چینی دیکھتے ہوئے پوچھا
" نہیں...بس ہمشیرہ کی فکر ہے..."
سفیر نے کہا
" تو آپ فون کرلیں...."
سیال نے ٹیلیفون اسٹینڈ کی طرف اشارہ کیا تھا
" نہیں بس میں ویسے ہی گھر جا رہا ہوں"
سفیر نے انکار کیا
" کم ان سفیر صاحب....گھر تو نہ جانے کب پہنچے آپ تسلی ہوجائے گی تو سفر صحیح سے گزرے گا"
سیال کی بات پہ سفیر آمادہ ہوگیا تھا
اس نے گھر کے نمبر ملائے اتفاق سے فون سمعیہ نے اٹھایا تھا
" ہاں....ہیلو...سمعیہ.."
سمعیہ کے ہیلو کے جواب میں اس نے کنفرم کیا
" جی بھائی خیریت..."
" ہاں خیریت ہی ہے ....تم ٹھیک سے پہنچ گئیں"
" جی بھائی شینا کے ساتھ آئی ہوں اس نے لفٹ دے دی تھی "
سمعیہ کی بات پہ اس نے شکر ادا کرتے ہوئے فون رکھ دیا تھا
" تھینکس سیال...."
" تھینکس تو مجھے آپکا کرنا چاہئیے ....آپ نے میرا خیال کیا..."
سیال نے اسے اچھے طریقے سے رخصت کیا تھا سفیر اس سے اسکے گھر سے رکھ رکھاؤ سے متاثر ہوا تھا
درحقیقت اس نے اپنا ایک ووٹ پکا کیا تھا
" اوہ چیتے کیا گیم کھیلی ہے مان گئے....." عاصم سفیر کے جانے کے بعد آیا تھا
" بکواس نہیں....کام ہوا"
سیال نے بیزاری سے کہا
" ہاں ہوگیا....یہ لے ایڈرس"
عاصم نے اسکی طرف چٹ بڑھائی
" ویسے یہ زیادہ نہیں ہوگیا...." عاصم نے اسکی چوٹ کی طرف اشارہ کیا
" شہزادے دیکھ بدلے میں ملا بھی تو کیا ہے"
" کیا ملا ہے صرف ایڈرس "
" نہیں صرف ایڈرس نہیں....بلکہ فون نمبر بھی..."
سیال کی بات پہ عاصم چونک گیا تھا
" وہ کہاں سے ملا...."
" خود آیا ہے.....سیال اتنی محنت فضول میں نہیں کرتا ....سی ایل آئی سے نمبر نوٹ کرلو"
سیال نے فون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
" مان گئے استاد...."
عاصم متاثر ہوا تھا اس معاملے میں ایک وہی سیال کا راز دار تھا
_____________________________________
" عالیہ....عالی..."
سمعیہ نے اسے پکارا
" کیا ہوا...." عالیہ نے سر اٹھا کے اسے دیکھا
وہ رومال کاڑھ رہی تھی
" ایک تو جب بھی دیکھو فضول.کام کرتی رہتی ہو....مجھے نا ایک بہت ضروری بات کرنی ہے تم سے "
سمعیہ نے بے چینی سے کہا
" محترمہ لڑکیاں ایسے ہی کام کرتیں ہیں...تم دو چار لفظ پڑھ کے خود کو توپ مت سمجھو....بکو کیا بات ہے "
عالیہ چڑ کے بولی
" جاؤ میں نہیں بتا رہی تمہیں" سمعیہ ناراض ہوگئی تھی
" اچھا بابا سوری اب بولو" عالیہ نے جھٹ کان پکڑے
" تمہیں پتا ہے آج یونیورسٹی میں کیا ہوا...."
سمعیہ نے تجسس پھیلایا
" کیا..." عالیہ نے کہا
" وہ میر سیال ہے نا ہماری کلاس کا اس نے مجھے پرپوز کیا ہے"
سمعیہ نے بم پھوڑا
" کیا...." عالیہ شاکڈ ہوئی
" پھر تم نے کیا کیا"
" میں نے کہہ دیا اماں ابا ہی آخری فیصلہ کریں گے....پر عالیہ میں نے سوچ لیا ہے اس کا رشتہ آیا تو میں اماں سے کہوں گی جھٹ ہاں کردیں آخر کس چیز کی کمی ہے اس میں"
سمعیہ نے مزے سے کہا
" اللّه کا واسطہ ہے چپ ہوجاؤ ....چاچا نے سن لیا تو قیامت آجائے گی ...."
عالیہ دہل کے بولی
" تم تو ڑرتی رہو....میری زندگی ہے فیصلے کا حق بھی مجھے ہے ...میر سیال سے بہت رشتہ مجھے نہیں مل سکتا..."
سمعیہ ہٹیلے پن سے بولی
" سمعیہ...." عالیہ اسے دیکھ کے رہ گئی
" اب تم.بھابھیوں کی طرح ڈراؤ نہیں...." عالیہ سفیر کی بیوی تھی انس انکا بیٹا تھا
" پتہ نہیں کیا کرنے جارہی ہو" عالیہ کو سمجھ ہی نہ آیا تھا
" اور پتہ ہے واپسی میں کیا ہوا....."
سمعیہ نے پھر کہا
" اب کیا ہوا...."
عالیہ نے مرے مرے انداز میں کہا
" تمہارے سفیر صاحب کی بائیک سے اسکا ایکسیڈنٹ ہوگیا"
" کیا..." عالیہ کو دھچکا لگا
" پھر...."
" پھر کیا بھائی اسے لے کے اسپتال گئے....اور میں شینا کے ساتھ گھر"
سمعیہ نے اطمینان سے کہا جبکہ عالیہ کا اطمینان رخصت ہوگیا تھا
_____________________________________
رات بھیگ چکی تھی سمعیہ ابھی عشاء کی نماز پڑھ کے وہ فارغ ہوئی تھی جب و
فون کی گھنٹی بجی
" ہیلو...." سمعیہ نے محتاط لہجے میں کہا ابا بھی تک گھر نہیں لوٹے تھے
" تھینک گاڈ ....آپ ہی ہیں ورنہ مشکل ہوجاتی "
سیال نے سکون سے کہا
" آپ ....سیال" سمعیہ کے چھکے چھوٹ گئے تھے
" جی میں آپ نے پہچانا تو...." سیال نے دھیرے سے کہا
"کیوں فون کیا ہے آپ نے....." سمعیہ نے پوچھا
" آپ سے بات کرنے کیلئے.... "
" مگر آپ سے بات نہیں کرسکتی ...." ابا اگر ابھی آجاتے نہ تو اسکا گلا ہی دبادیتے
" سمعیہ....پلیز..."
" دیکھیں سیال صاحب....بغیر کسی رشتے تعلق کے میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی"
سمعیہ نے درشتی سے کہہ کے فون رکھ دیا تھا
یہ تو سر ہی چڑھ رہا تھا.....سمعیہ نے غصے سے سوچا....
_____________________________________
" کیا سمجھتی ہے یہ اپنے آپکو....نہیں سیال ٹھنڈے ہوجاؤ ...سارا کھیل خراب نہ کرو"
سیال نے اپنے آپکو تسلی دی اور گھر جانے کی تیاری کرنے لگا
" مجھے شادی کرنی ہے" سیال نے والدین کو کہا تھا
" ہاں تو ٹھیک ہے....ہم کل ہی نور کے گھر جاتے ہیں"
میر برفت بولے
" مجھے نور سے نہیں اپنی پسند سے شادی کرنی ہے"
" ایسا نہیں ہوسکتا....."
میر برفت کو غصہ آگیا تھا
" سیال شادی ہماری پسند سے ہوگی...."
" شادی آپکی نہیں میری ہے لہذا میری پسند سے ہوگی...." سیال تنک کے بولا
" ایسا قیامت تک نہیں ہوگا..." میر برفت نے صاف انکار کیا
" ہوگا اور ضرور ہوگا....."
" نہ جانے کسے پسند کر بیٹھا ہے"
نغمہ بیگم.نخوت سے بولیں
" ٹھیک ہے وہ دولت کے حساب سے ہمارے ہم پلہ نہیں مگر شرافت اور نجابت میں وہ یقینا اعلی ہیں"
سیال نے کہا
" اچھا....کون ہے کس خاندان سے تعلق ہے کیا کرتا ہے لڑکی کا باپ"
" وہ گورنمنٹ اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہیں اور شادی مجھے انکی بیٹی سے کرنی ہے ان سے نہیں "
سیال جھلائے ہوئے لہجے میں بولا تھا
" واہ کیا پسند ہے ....صاحبزادے مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں لگا کرتا بھول جاؤ یہ سب "
میر برفت نے صاف انکار کیا
" آپ لوگ میرا رشتہ لے کے جائیں گے یا نہیں" میر سیال نے پوچھا
" نہیں ہرگز نہیں....آج تک تمہاری ہر ضد پوری کی ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہ بھی ہو وہ سب ہمارے معیار کی اور ہم پلہ ہوتیں تھیں"
نغمہ بیگم نے تنفر سے کہا
انکے لاڈلے بیٹے کی بہو اور وہ بھی ایک ہیڈ ماسٹر کی بیٹی
" تو ٹھیک ہے آپ بھی اپنا دیوالیہ نکلوانے کیلئے تیار ہوجائیے...." سیال نے پراسرار لہجے میں کہا
میر برفت چونک اٹھے
" کیا مطلب ہے اس بات کا....مت سنبھالو ہمارا کاروبار خیر سے ہمدان لائق ہوجائے گا کچھ عرصے میں وہ سنبھال لے گا"
" جب کاروبار ہی نہ بچے گا تو وہ کسے سنبھالے گا صرف آپکو ہی...."
سیال طنزیہ بولا
" مطلب..... " نغمہ بیگم نے پوچھا
" اگر آپ نے میری شادی سمعیہ سے نہیں کی تو میں سارے کاروباری راز اور ڈیلز آپکی مخالف پارٹیز کو بیچ دوں گا....شادی تو پھر بھی ہوجائے گی پیسہ بھی مل جائے گا آپکے دشمنوں سے لیکن آپکا کیا ہوگا میر برفت.....چہ چہ "
سیال اتنے آرام سے بولا کہ میر برفت کا اطمینان ہی رخصت ہوگیا
" کیا بکواس ہے سیال .....تم ایک دو ٹکے کی لڑکی کیلئے اپنے باپ کے مقابل آؤ گے "
" میں ایسا ہی کروں گا....اگر آپ لوگوں نے میری بات نہ مانی "
سیال نے دھمکی دی تھی وہ جانتا تھا کہ باپ کو کیسے قابو کرنا ہے ....ایسے تو وہ کبھی راضی نہ ہوتے سو اس نے یہ حکمت عملی اپنائی تھی
_____________________________________
سیال کی دھمکیوں کا اثر تھا کہ آج وہ دونوں سمعیہ کے گھر بیٹھے تھے ناپسندیدگی انگ انگ سے چھلک رہی تھی
" ہمیں آپکی بیٹی کا رشتہ چاہئیے"
بغیر کسی لگی پٹی کے نغمہ بیگم بولیں تھیں
" محترمہ ہم آپکو جانتے تک نہیں تو شادی بیاہ تک کے معاملات کیسے شروع کریں"
یوسف صاحب تحمل سے بولے
" آپکو جاننے کی ضرورت کیا ہے آپکی بیٹی تو جانتی ہے نا ہمارے بیٹے کو اچھا سکھایاہے صحیح استاد ہیں آپ مان گئے ہم"
نغمہ بیگم کی بس ہوگئی تھی
" کیا کہنا چاہتی ہیں آپ ...زبان سنبھال کے بات کیجئے" یوسف صاحب کو بھی غصہ آگیا تھا
"مطلب اپنی بیٹی سے ہی پوچھئے اور عزت سے اسے رخصت کردیجئے ورنہ اپکی رہی سہی عزت بھی گئی"
میر برفت نغمہ بیگم کو اٹھنے لا اشارہ کرتے ہوئے بولے تھے
" سمعیہ....یہاں آؤ سمعیہ...." یوسف دھاڑے تھے
" جی ابا...."
"کون تھے یہ لوگ ....اور کیا بکواس تھی یہ کب سے جانتی ہو انکے بیٹے کو"
"میں کچھ نہیں جانتی ابا....آپ صاف انکار کردیں وہ صرف کلاس میں پڑھتا تھا "
سمعیہ نے کہا
" اسی دن کیلئے اسی دن کیلئے منع کرتا تھا میں کہ یونیورسٹی مت جاؤ....دیکھا وہی ہوا نا جس کا مجھے ڈر تھا اتنے سالوں کی عزت مٹی میں مل گئی "
" ابا پلیز....میں نے کچھ نہیں کیا...خواہ مخواہ غصہ مت کریں کچھ نہیں ہوا" سمعیہ کو بھی غصہ آگیا تھا
اور وہ غصہ اس نے رات میں سیال پہ نکالا تھا جو اس گمان میں تھا کہ اماں ابا رشتہ لے کے گئے ہیں تو اب جلد ہاں ہوجائے گی کیونکہ نغمہ بیگم نے اس سے یہی کہا تھا اصل بات چھپا لی تھی
" کیا سمجھتے ہیں آپ.....آپ اگر عزت دار اور دولتمند ہیں تو ہم بھی گرے پڑے نہیں ...میرے لئے ماں باپ کی عزت سے بڑھ کے کچھ نہیں لعنت ہے ایسے رشتے پہ سو بار"
" سمعیہ....کیا ہوگیا ہے اصل بات بتاؤ...."
سیال حیرانگی سے بولا
" کیوں آپکی ماں نے نہیں بتایا اپنا کارنامہ"
سمعیہ نے تنک کے کہا
" سمعیہ....ٹیل می رئیلٹی مجھے کچھ نہیں معلوم"
سیال نے اصرار کرتے ہوئے کہا
جواب میں سمعیہ نے اسے ساری بات بتا دی تھی سیال کو غصہ اگیا تھا والدین کی اس چالاکی پہ
" آج صبح کا اخبار نہیں پڑھا آپ نے"
سیال نے ناشتہ کرتے میر برفت کو مخاطب کیا
" ایسا بھی کیا خاص ہے... پڑھ لیں گے"
میر برفت لاپروائی سے بولے تھے
" پڑھ لیتے تو اطمینان سے ناشتے کے بجائے دل تھام کے بیٹھے ہوتے "
سیال نے طنزیہ کہا
" کیا مطلب...."
میر برفت چونک کے بولے اور ملازم کو اخبار لانے کا کہا
سیال کندھے اچکا کے رہ گیا
اور اخبار پڑھ کے انکی پیشانی پسینے سے تر ہوگئی تھی
انکے شئیرز کی قیمت مارکیٹ میں دس فیصد گرگئی تھی ....میر برفت کو دھچکا لگا تھا
کہاں وہ ایک روپے کا نقصان نہیں برداشت کرسکتے تھے اور کہاں یہ نقصان
" یہ تمہاری حرکت ہے....کیسے کیا تم نے..."
میر برفت نے اسے گھورا
" آپ سمعیہ کے گھر جو کرکے آئیں ہیں وہ آپ نے مجھے بتایا جو میں آپکو بتاؤں...میری بات کو آپ نے ہلکا لیا تھا نا"
سیال نے انہیں ٹریلر دکھا دیا تھا
وہ میر سیال تھا اپنے نام کا ایک اپنے مقصد کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا تھا
_____________________________________
" ہم بہت عزت سے آپکی بیٹی کو رخصت کراکے اپنے گھر لے جانا چاہتے ہیں...برائے مہربانی انکار نہ کیجئے گا اور ہماری کوتاہی معاف کیجئے گا"
نغمہ بیگم نےنرمی سے کہا تھا اندر جو چل رہا تھا اس سے بے نیاز ہو کے
سیال کے مجبور کرنے پہ وہ ایک بار پھر آئے تھے
" آپ کہنا کیا چاہتیں ہیں محترمہ ....پچھلی بار بھی آپ نے کسے قدر لایعنی گفتگو کی تھی "
یوسف صاحب کو بھولا نہ تھا
" بس غلطی ہوگئی....مجھے تو آپ کی باکردار بیٹی چاہئیے ....بس میرا دامن بھر دیجئے"
وہ اتنی لجاجت سے بولیں تھیں کہ یوسف صاحب سوچ میں پڑگئے تھے
" ہر قسم کی چھان بین کرلیں ہمارا ایک نام ہے....اور اسکو چار چاند آپکی بٹیا لگائیں گی....بس آگے کو دیکھیں"
نغمہ بیگم نے بات مکمل کی تھی
یوسف صاحب نے سفیر سے رائے لی تھی جسے عالیہ پہلے ہی سمعیہ کی رضامندی بتا چکی تھی انہوں نے جو پہلے کہا لیکن اب وہ اتنی چاہ سے سمعیہ کو مانگ رہے تھء واقعی سمعیہ کو ایسا رشتہ پھر کہاں ملتا
سو دونوں کی شادی ہوگئی تھی
" تو میں نے تمہیں حاصل کرہی لیا....مجھے جو پسند آجائے میں حاصل ضرور کرتا ہوں"
سیال کی خوشی ہی نرالی تھی اتنی محنت کے بعد کامیابی ملی تھی
سمعیہ کو عجیب تو لگا تھا مگر اپنی خوشی میں اس نے دھیان نہیں دیا تھا
کتنا خواب ناک سا لگ رہا تھا یہ سب اونچا عالیشان محل نما گھر اور قیمتی ملبوسات اور زیورات ایک شہزادی ہی لگتی تھی وہ
کسی خواب کی طرح یہ سب لگتا تھا اسے
اور یہ کسی خواب کی طرح تھا جس کی تعبیر بہت بھیانک نکلی تھی
_____________________________________
صرف تین ماہ گزرے تھے اور سمعیہ نے دیکھ لیا تھا بلندی سے پستی پہ آنا کسے کہتے ہیں سیال اپنی پرانی جون میں لوٹ چکا تھا ویسے بھی اپنی من پسند چیز حاصل کرنے کے کچھ عرصے بعد اسکی اہمیت ویسے ہی کم ہوجاتی ہے سمعیہ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا
وہ احتجاج بھی کرتی تو کوئی فائدہ نہ ہوتا تھا اوپر سے نغمہ اور مونا کی کڑوی کسیلی باتیں
آئے دن کوئی نہ کوئی محاذ تیار سمعیہ نے جو بت تراشا تھا وہ بت دھڑام سے بہت سے حصوں میں ٹوٹ چکا تھا
صرف پورے گھر میں میر جاذب تھا یا پھر پانچ سالہ ہالار جس کی وجہ سے اسے زندگی آسان لگتی وہ بھی بھاگ بھاگ کے سمعیہ کے پاس آتا تھا انس کی طرح
سمعیہ ایک سال میں ہی تھکنے لگی تھی سیال ہفتوں گھر نہ آتا تھا اور انہی دنوں میں سمعیہ کو پتہ چلا کے وہ تخلیق کے مرحلے سے گزر رہی ہے وہ یہ بات نغمہ بیگم کو بتانا چاہتی تھی کہ اس سے پہلے ہی انہوں نے ہنگامہ شروع کردیا تھا
" شرم نہیں آتی میرا ایک بیٹا پھنسا کے سکون نہیں ملا تھا جو دوسرے کو بھی پھانس لیا"
" کیا بول رہی ہیں آپ"
" بس بس زیادہ معصوم نہ بنو میرے شوہر کو پھنسا رہی ہو" مونا نے چیخ کے کہا
" جاذب بھائی میرے سفیر بھائی جیسے ہیں" سمعیہ دکھ سے بولی تھی
" کیا مسئلہ ہے کیا شور لگا رکھا ہے"
سیال ابھی گھر لوٹا تھا
" یہ تمہاری بیوی کسی طرح سکون نہیں کرتی پہلے تمہیں پھانسا اب تمہارے بھائی کو "
نغمہ بھابھی چیخ کے بولیں
" بکواس کررہی ہیں یہ سیال ایسا کچھ نہیں ہے..." سمعیہ نے کہا
" تم دو ٹکے کی لڑکیاں ہوتی ہی ایسی ہو" سیال نے انگلی اٹھاتے ہوئے کہا وہ نشے میں معلوم ہوتا تھا
" سیال مت بھولیں آپ ہی میرے پیچھے آئے تھے" سمعیہ نے یاد دلایا
" غلطی تھی....بہت بڑی غلطی...."سیال نے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا
" نہیں غلطی میری تھی جو میں مٹی کی چمک کو ہیرا سمجھ بیٹھی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی" سمعیہ کی برداشت کی بھی حد ہوگئی تھی
" تو اس کا قصہ ہی ختم کردو طلاق دے دو اسے" نغمہ بیگم نے جلدی سے کہا
" نہیں...." سمعیہ بے اختیار پیچھے ہوئی تھی
" میں نے تمہیں طلاق دی...." سیال نے تین لفظ کہہ کے رہا سہا تعلق بھی ختم کردیا تھا
ہوگئی تھی محبت....نہیں محبت نہیں دل بھر گیا تھا
محبت کا تو بس نام ہی بدنام ہے
_____________________________________
زرا وقت نہیں لگایا تھا مونا اور نغمہ نے اسے گھر سے نکال دینے میں انہیں جاذب کا ڈر تھا جو ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا
سمعیہ خالی ہاتھ وہاں سے سیالی کی نشانی اپنی کوکھ میں لے کے رخصت ہوئی تھی
سست قدموں سے چلتے چلتے وہ تھک گئی تھی وہ کسی ٹرانس میں تھی
یہ تھی وہ زندگی جس کے اس نے خواب دیکھے تھے
" پاگل ہو کیا آگے کھائی ہے...." کسی نے اسے پیچھے کیا تھا اور چونک گیا تھا
"سمعیہ....تم...یہاں" جاذب شاکڈ ہوئے
" ہاں میں سمعیہ.... "
" تم یہاں کیا کررہی ہو چلو گھر...."
" نہیں جاسکتی....میرا کوئی گھر نہیں..."
" پاگل تو نہیں ہو کیا ...."
" ہاں پاگل ہوگئیں ہوں میں....سیال نے مجھے طلاق دے دی ہے...میں پاگل ہوگئی ہوں" سمعیہ وحشت زدگی سے بولی تھی جاذب اسے زبردستی کار میں بٹھا کے اسپتال لے گیا تھا
سمعیہ کی ذہنی حالت درست نہیں تھی
" تم پریگننٹ ہو...." جاذب نے اس سے پوچھا
" ہاں..." سمعیہ کا لہجہ خالی تھا
" سیال کو بتایا تھا"
" نہیں..."
" بتاتیں تو وہ اتنا بڑا قدم نہیں اٹھاتا"
" وہ اپنے حواسوں میں کہاں تھے" سمعیہ نے کہا تو جاذب ایک گہری سانس لے کے رہ گئے تھے
" تم آرام کرو میں سفیر کو فون کرتا ہوں "
جاذب نے اسے نیند کا انجکشن دیا تھا ورنہ اسے نیند کہاں تھی
اور خود گھر لوٹے تھے جہاں سب ڈنر میں یوں مصروف تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا
" سمعیہ کہاں ہے....."
انہوں نے پوچھا
" واہ آپ کو بڑی فکر ہورہی ہے اسکی نہیں ہے وہ اب یہاں" مونا چمک کے بولی
" مطلب...." جاذب نے انجان بن کے پوچھا
" سیال نے اسے طلاق دے دی ہے" نغمہ بیگم آرام سے بولیں تھیں
"اور آپ نے اسے روکا ہی نہیں" جاذب نے شکوہ کیا
" ہم سے پوچھ کے شادی کی تھی جو ہم روکتے " میر برفت بولے
" آپ جانتے بھی تھے کہ وہ پریگننٹ تھی ...آپ لوگوں نے بڑا ظلم کمایا"
جاذب نے دھماکہ کیا تھا وہ ڈاکٹر تھا جان گیا تھا
میر برفت چونک گئے تھے
" کہاں گئی ہے وہ...."
" کیوں اب کیا کام ہے اس سے " نغمہ بیگم بیزاری سے بولیں تھیں
" احمق خاتون ہمارے بیٹے کی نشانی اسکے پاس ہے.....ہماری وراثت کی نشانی"
میر برفت کو اسکی نہیں اپنے وارث کی فکر تھی خود غرض لوگ......
" نہ تو آپ ثواب کما لیں...." مونا تین سال کے عدیل کو سنبھالتے ہوئے بولی جو ہالار سے چھوٹا تھا
" تم فکر نہ کرو ثواب تو میں کماؤں گا ایسا تم یاد رکھو گی"
میر جاذب چڑ کے بولا تھا کیسے بے حس لوگ تھے یہ.....!!!!!!
اب اسے ہی سمعیہ کو ان اور آنے والے کو بچانا تھا .