بن کہے سنو او یارا|Bin Kahy Sunu O Yara By Farhat Nishat Mustafa Qist Number 2

88 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
#بن_کہے_سنو_او_یارا
فرحت نشاط مصطفے ✍️
قسط 2
" توبہ یہ شہر ہے یا جہنم بندہ باہر نکلے تو واپس آنا بھول جائے"
نیہا دھپ سے صوفے پہ بیٹھتے ہوئے بولی تھی
" کیوں بھئی.....آج ایسا کیا ہوگیا"مہرماہ اسے پانی کا گلاس دیتے ہوئے بولی
" کیا بتاؤں یار این ای ڈی سے نکلتے نکلتے شام ہوگئی اوپر سے پوائنٹ بھی نکل گیا ....اور بھائی نے فون نہیں اٹھایا اور بسوں کے دھکے کھا کھا کے تو میرا سر دکھ گیا"
نیہا نے سر صوفے پہ ٹکا دیا تھا
" حد ہے نیہا.....ایسا بھی کیا رولا...کس نے بولا ہے جاؤ اتنی دور پڑھائی کیلئے" عالیہ بیگم کو اسکی بے وقت کی راگنی کھلی
"اماں....لوگ پڑھائی کیلئے چین تک جاتے ہیں اور میں تو شہر کے دوسرے حصے میں ہی جاتی ہوں...حد ہے اماں" نیہا چڑی
" اچھا ....نیہا پلیز اب جاؤ فریش ہوجاؤ میں تمہارے لئے کھانا لگاتی ہوں" مہر ماہ کو یہ شور پسند نہیں آیا تھا
وہ تو سمندر کی گہرائی میں موجود سکون کی طرح تھی ....نرم ٹھنڈے پانیوں جیسا مزاج رکھنے والی....صندل کی گیلی لکڑی کی طرح پل پل سلگ سلگ کے مہکنے والی مہر ماہ سیال
...جس کی ذات کا محور صرف ایک استعارہ تھا...بس اسکی محبت کا کوئی کنارہ نہ تھا
" واہ مہرماہ بچے....تم اسکی اور عادتیں بگاڑو
..کوئی ضرورت نہیں خود کھالے گی کھانا...تم بھی انسان ہو سارا دن کام کر کے تھک جاتی ہو" عالیہ بیگم نے مہرماہ کو بھی ڈانٹا
" اماں....میں آپکی ہی بیٹی ہوں نا سگی والی مجھ سے ذیادہ تو آپ مہرماہ سے پیار کرتیں ہیں...." نیہا صدمے سے بولی
" ارے کیوں نا کروں مہرماہ بچے سے پیار...ہمارا اتنا خیال رکھتی ہے اور میرے لئے تو اس نے اپنا کالج...اپنے شوق سب چھوڑ دئیے" ...کس لئے صرف اس گھر کیلئے" عالیہ بیگم نے محبت سے اسے تھپکا
" مامی شرمندہ تو نہ کریں....آپ ہی تو میری ماں ہیں اور بیٹیاں ماں کیلئے سب کرسکتی ہیں" مہرماہ کا لہجہ بھیگا بھیگا سا تھا
"کوئی مجھے کچھ کھانے کو دے گا یا میں بھوک کے مارے فوت ہوجاؤں ظالموں
....یہاں تو محبتوں کے دریا بہہ رہے ہیں" نیہا نے دہائی دی
"اچھا میں لارہی ہوں...." مہرماہ اٹھتے ہوئے بولی
"کیا پکایا ہے"
"دال چاول...ساتھ میں کباب بھی تل دیتی ہوں" مہرماہ کو معلوم تھا نیہا کے حلق سے خالی خولی دال چاول نہیں اترنے والے تھے
" اب نخرے مت شروع کرنا اٹھو اور منہ ہاتھ دھو"
عالیہ بیگم نیہا کو منہ کھولتے دیکھ کے بولیں تھیں نیہا منہ بسور کے رہ گئی تھی تمام تر تیزی کے باوجود اسکی ماں کے آگے نہیں چلتی تھی
_____________________________________
جہاز نے رن وے پہ بڑی مہارت سے لینڈ کیا تھا کاک پٹ کے پٹ وا ہوئے تھے اور وہ احتیاط مگر باوقار طریقے سے چلتا باہر آگیا تھا
" اوہ ...مائی...گاڈ....میر ہالار جاذب... از السو آ گڈ پائلٹ...یقین مانو...ہالار قسم سے مزہ آگیا تمہارے پرسنل جیٹ پہ فلائنگ....تم کمرشل پائلٹ کیوں نہیں بن جاتے " ثمر جھومتے ہوئے بولا
" میر ہالار جاذب ....کو اسکی ضرورت نہیں...فلائنگ میرا شوق ہے...اور اسکے لئے مجھے کسی جاب کی ضرورت نہیں" ہالار کا انداز کچھ نخوت بھرا تھا
"اور براڈکاسٹنگ...صداکاری...یہ بھی تو تمہارا شوق ہے پھر تم کیوں ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ ہو ...اتنی دولت تو ہے تمہاری کہ تم ایک اسٹیشن قائم کرسکو" ثمر نے اسکے دوسرے شوق پہ توجہ دلائی
" پرواز میرا شوق ہے....تو صداکاری میرا جنون ہے...ثمر ...میں نائنتھ اسٹینڈرڈ سے بچوں کے پروگرام کے تھرو اس سے وابستہ ہوں...اور اب یہ میرا جنون ہے ..." ہالار نے گہری سانس لیتے ہوئے جواب دیا
" کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ہالار...تم کتنے خوش قسمت ہو جو چاہتے ہو وہ پالیتے ہو ...دادا کسی کو اتنی پرمیشن نہیں دیتے کہ وہ خاندانی روایات کے خلاف بغاوت کرسکے "
ثمر ستائش بھرے لہجے میں بولا
"بات اصل میں یہ ہوتی ہے میر ثمر....انسان کو اپنی بات منوانی آنی چاہئیے...اور میر ہالار جاذب کو اپنی بات منوانی آتی ہے" ہالار گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا
" اور تبھی سب تمہاری آواز کو جانتے ہیں نہ تمہاری شکل پہچانتے ہیں نہ تمہارے بارے میں کچھ جانتے ہیں....یہاں تک کہ تم اپنا پورا نام نہیں استعمال کرتے اونلی ہالار جاذب کے نام سے ریڈیو فین جانتے ہیں تمہیں"
" دادا نے اسی ٹرم اور کنڈیشن پہ پرمٹ کیا تھا مجھے...اور اپنی بات ہم تبھی منوا سکتے ہیں جب دوسروں کی نہ مان لیں....کیا چلا جاتا ہے کہ ہم کسی کا تھوڑا کہا مان کہ اپنا ذیادہ کہا منوالیں" ہالار جاذب بالکل مطمئن تھا
"یو ار رائٹ....بٹ لسن وہ تمہاری ریڈیو فینز میں نے خود بیتابی دیکھی ہے انکی تم ظالم لائیو کال تک نہیں لیتے اب...مسیج اگنور کرتے ہو سوشل میڈیا پہ تمہارا کوئی آفیشل پیج نہیں....ریڈیو پیج پہ تمہارے پروگرام کی اناؤسمنٹ کے ساتھ بھی تمہاری تصویر نہیں ہوتی...اتنی مسٹری"
" یہ مسٹری نہیں....لسنر اور آرجے کے درمیان صرف آواز کا ہی رشتہ ہوتا ہے اور آواز اور سائے کی کشش اور اس سے محبت وقتی ہوتی ہے ....انکا سحر وقت کے ساتھ ساتھ مصروفیت کی گرد میں آکے دھندلا جاتا ہے ....یہ فین فالونگ صرف وقتی جنون ہوتا ہے اور میں ان جذبوں کا متحمل نہیں ہوسکتا " ہالار نے اپنی روڈنس کی وجہ بتائی
اور اسکی اس بات کی سب سے ذیادہ ضرورت اگر کسی کو تھی تو وہ مہر ماہ سیال کو تھی جو نجانے کب سے اپنے من میں اسے سجا بیٹھی تھی اسی آواز اور جذبات کے سہارے پر
" کتنے ظالم ہو تم ....ہالا..."
" ظالم نہیں....یہی حقیقت ہے میر ثمر...اس وقتی خوشی کا کیا فائدہ جو دائمی کرب دے جائے"
" اوہ میرے بھائی بس کردے...یہ ایسی موٹی موٹی باتیں اپنے لسنرز کیلئے رکھ بلکہ ان پاگل لڑکیوں کیلئے جو ریڈیو اسٹیشن کا آفس تمہاری سالگرہ پہ پھولوں سے بھردیتی ہیں" ثمر شہر اس کے پاس آتا جاتا رہتا تھا سو وہ سب چیزوں سے واقف تھے
بلکہ ریڈیو پہ موجود ہالار کے کولیگز سے اسکی اچھی خاصی سلام دعا ہوچلی تھی
ہالار اسکی بات پہ سر جھٹک کے رہ گیا تھا
" ویسے تمہارے فینز مس نہیں کریں گے تمہیں "
" نہیں انہیں معلوم ہوتا ہے ....مہینے کے اینڈ پہ میں شوز نہیں کرتا...اور اب سیدھے ہو کے بیٹھو ہم گھر پہنچ گئے ہیں"
" ہاں بھئی اب میر برفت کے حضور حاضری لگانے کو تیار ہوجاؤ"
ثمر نے دادا کا نام لیا تھا
_____________________________________
" گیارہ بج رہے ہیں ....تمہاری تپسیا نہیں شروع ہوئی ابھی تک"
نیہا نے مہرماہ کو یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ کر دیکھ کے کہا
تپسیا سے مراد اسکا اس وقت ریڈیو پہ شو سننا تھا ہالار جاذب کا
"نہیں..." مہرماہ نے نفی میں سر ہلایا
" کیوں...ہالار جاذب نے ریڈیو کرنا چھوڑ دیا "
" نہیں....وہ مہینے کے آخر میں شو نہیں کرتے"
" کیوں....تنخواہ ختم ہوجاتی ہے اسکی"
" شٹ اپ نیہا....کیا فضول بات ہے"
" ہاں تو پھر....یہ اتنا مسٹیریس کیوں ہے تمہارا ہالار جاذب"
" اوہ ہیلو...لینگویج پلیز...میرا کہاں سے آگیا ہالار جاذب ...."
" لو محبت کے دعوے جو کرتی ہو اس سے"
"یہ محبت نہیں نیہا ....اس سے بھی آگے کا کوئی جذبہ ہے تم نہیں سمجھو گی"
"یار ایک تو تم مجھے سمجھ نہیں آتی ....آخر کیا چاہتی ہو تم"
" محبت کا رزق قدرت نے بہت محدود رکھا ہے نیہا....اسی پہ صابر رہنا چاہئیے...ذیادہ اور ذیادہ کی ہوس ہم سے محبت کی عطا چھین لیتی ہے"
" یہ بھی تمہارے ہالار جاذب نے ہی کہا ہوگا"
نیہا جل کے بولی
" پھر وہی نیہا...."
" اچھا سوری....ایک بات تو بتاؤ ...تمہیں واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیسا ہے ?...کون ہے"
نیہا آج واقعی بہت فرصت سے تھی
" اس سے کیا مطلب ہے تمہارا"
" مطلب.... یار..دیکھو...جودکھنے میں اچھا لگے کچھ اسکی پرسنیلٹی ہو تو ہی بندہ اس سے محبت کرتا ہے"
" تمہیں پتہ ہے نیہا....جس محبت کا تعلق حسن سے ہو وہ ذیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی"
" یہ بھی ہالار جاذب نے کہا ہے"
" نہیں...ایرسمل نے"
" تم ایرسمل کو چھوڑو ....اپنی بات کرو"
" میری بات بھی یہی ہے نیہا...وہ کیسا دکھتا ہے یہ تو مجھے پتہ نہیں ہاں...اسکی پرسنیلٹی میں کوئی جادو ہے کوئی سحر سا ہے جو باندھ لیتا ہے...جس نے آج سے نہیں سات سال کی عمر سے مجھے اس سے باندھ رکھا ہے پہلے عادت کی صورت پھر لگاؤ کی صور اور اب محبت کی صورت ....چودہ سال ہوگئے ہیں مجھے اسکی آواز اسکے جذبات سے اپنے دل کے تار جوڑے ہوئے نیہا....جو آپ کے مشکل وقت میں آپکا ساتھ کسی بھی طرح کیسے بھی نبھائے آپکو ساری زندگی یاد رہتا ہے"
" مہرماہ,.....یہاں آکے ...میری زبان کو تالے لگ جاتے ہیں نہ جانے کونسے جہاں کی مخلوق ہو تم"
" مجھ پہ ریسرچ بعد میں کرنا اب سو جاؤ ورنہ پھر صبح مامی کی ڈانٹ سننا..."
"ارے مہر ماہ چھوڑو آرام سے سوئیں گے کوئی اچھی سی مووی دیکھتے ہیں ...صبح ویسے بھی سنڈے ہے"
" خدا کا خوف کرو بارہ بج رہے ہیں ابھی مووی دیکھیں گے تو ختم کب ہوگی...میں سورہی ہوں "
ہاں ہاں....ابھی میں کہوں کہ ہالار جاذب کا شو آرہا ہے تو محترمہ کیسے ساری رات جاگتے جاگتے گزار دیں اور مووی دیکھتے ہوئے موت آرہی ہے...سو جاؤ میں تو مووی دیکھوں گی لازمی" نیہا جل بھن کے بولی
"اور صبح مامی کی ڈانٹ بھی سنو گی..."
مہرماہ نے لحاف سے منہ نکالے بغیر وارننگ دی
" پرواہ نہیں "
_____________________________________
" آگئے...ہالار" میر برفت اپنی مخصوص آواز میں بولے
" جی دادا...." ہالار کچھ مودب ہو کے بولا
" اور کیا مصروفیت ہیں تمہاری آجکل"
" آپکو معلوم ہے نا دادا...اپنے ادارے کے کام اور صداکاری"
"ہوں....کب پیچھا چھوڑو گے اس صدا کاری کا"
" کبھی نہیں..." ثمر نے دھیرے سے کہا
" کچھ کہا برخوددار...."
" نہیں دادا...بلکہ وہ میں کہہ رہا تھا آپ تو خیر سے پہلے سے بھی ذیادہ فٹ لگ رہے ہیں"
" ہاں تو جوان ہیں آج بھی....تم جیسے جوانوں پہ آج بھی بھاری "
" اس میں تو کوئی شک نہیں دادا ویسے اب میں چلوں...اماں سے بھی ملنا ہے" ثمر نے اجازت چاہی
" ہوں...جاؤ....ہالار ذرا ٹھرو کچھ باتیں کرنیں ہیں تم سے"
" جی دادا ابا"
"ہالار....ہمارے کام کا کیا ہوا " .
" دادا...مجھے اس اطلاع پہ اب بھی شک ہے اگر اس میں ذرا برابر بھی سچائی ہوتی تو میں انہیں ڈھونڈ نکالتا...."
" میر ہالار جاذب....یہ میر برفت کی اطلاع ہے کبھی غلط نہیں ہوسکتی....تم بتاؤ تم سے یہ کام ہوسکتا ہے کہ نہیں"
" ہوجائے گا دادا کچھ وقت تو دیں..."
" پہلے ہی بہت وقت بیت چکا ہے ہالار اب اور نہیں....ہمیں اب وہ چاہئیے تو بس چاہئیے اب ہم سے اور انتظار نہیں ہوتا"
میر برفت کے انداز پہ عجیب سی سردمہری کے ساتھ نرمی بھی تھا
جو اس ذکر پہ عموما ہوتی تھی اور اس راز سے صرف میر ہالار جاذب کو ہی واقفیت تھی۔