دھڑکنوں کا رقص از مائرہ مشتاق|Dharkano Ka Raqs By Maira Mushtaq Qist Number 12

463 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
دھڑکنوں کا رقص
تحریر: مائرہ مشتاق
قسط نمبر 12
"محبت کا طلسمی منتر"
ملے گا کیا دلوں میں_____ نفرتیں رکھ کر
بہت مختصر ہے زندگی مسکرا کے ملا کرو
پروین اور رفیق ایک دوسرے کو دل و جان سے چاہتے تھے. رات کو جب سارے سو جاتے تو رفیق اس سے ملنے اس کے گھر آ جایا کرتا. وہ دونوں پوری رات چھت پر بیٹھے پیار بھری باتیں کرتے رہتے...
پروین نے رفیق کی گود میں سر رکھا ہوا تھا اور وہ بہت پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا جب پروین نے سوال کیا..
"رفیق کب لے کر جاۓ گا تُو مجھے یہاں سے.. اب مجھ سے مزید دوری برداشت نہیں ہوتی...؟؟"
"یہاں سے کوئ بھی کہیں نہیں جاۓ گا میری رانی.. میں اور تُو اسی گھر میں رہیں گے ہمیشہ..." رفیق نے اپنائیت سے اسے کہا.
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے رفیق... اس گھر میں کیسے رہ سکتے ہیں ہم..؟؟ پروین نے متجسس ہو کر سوال کیا.
"وہ سب تُو مجھ پر چھوڑ دے, جیسا میں کہوں گا تُو بس ویسا ہی کرنا..." رفیق کا شاطر دماغ بہت کچھ سوچ چکا تھا.
"تُو بتا مجھے کیا کرنا ہو گا.. میں تیری خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں.." رفیق کو پانے کے جنون میں پروین ہر بازی کے لیۓ تیار تھی.
"ننھی کا راستہ صاف کرنا ہو گا.." رفیق نے سرگوشی کی.. پروین کے چہرے پر خوشی کی لہر آ گئ... یہی تو وہ ہمیشہ سے چاہتی تھی....
"اچھا ابھی میں چلتا ہوں کافی دیر ہو گئ ہے. ایسا نہ ہو کوئ جاگ جاۓ..." رفیق پھر آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا.
اسی ٹائم ننھی کی آنکھ کھلی. وہ پانی لینے کچن کی جانب چلی گئ. پانی لے کر وہ واپس مڑی تو اُسے ایک سایا سا باہر نظر آیا. رفیق کو اندر لائٹ جلتی نظر آئ تو وہ سیڑھیوں کے نیچے چھپ گیا. جب ننھی باہر گئ تو وہاں کوئ بھی نہیں تھا. وہ واپس اپنے کمرے میں آ گئ. اسی وقت رفیق دیوار پھلانگ کر جانے لگا تو ننھی کو پھر سے اس کا سایا نظر آیا مگر وہ اتنی ڈر گئ کہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی. اس نے جلدی سے کھڑکی بند کی اور بیڈ پر لیٹ گئ.. جافی دیر وہ بلا وجہ چھت کو گھورتی رہی, کب نیند آئ کچھ خبر نہیں.
*-------------------------*
شیبا کی شادی کو کافی دن گزر گۓ تھے. دن کو نور محمد اور وقار ذمینوں پر چلے جاتے تو شہلا اور شیبا بیٹھی باتیں کرتی رہتیں.. وہ دونوں کافی گھل مل گئ تھیں... آج شہلا کا موڈ شاپنگ پر چلنے کو تھا, اس نے شیبا کو بھی ساتھ تیار کیا کہ وہ بھی اپنے لیۓ کچھ لے لے... وہ دونوں ڈرائیور کے ساتھ قریبی مارکیٹ آ گئیں.
"شیبا تمہیں پتا ہے پہلے میں کتنی اکیلی ہوتی تھی.. لیکن اب تمہارے آنے سے مجھے میری بہن مل گئ ہے.." کپڑوں کی دکان سے نکلتے ہوۓ شہلا نے کہا.
"رشتے تو صرف دل کے ہوتے ہیں بھابھی.. میری حقیقت جاننے کے باوجود آپ نے ہمیشہ میرا خیال رکھا.. آپ بھی مجھے بہت عزیز ہیں.." شیبا کے دل میں شہلا کے لیۓ بہت احترام تھا اسی لیۓ ذبان سے اقرار کر رہی تھی...
"مجھے پہلے سے پتا تھا کہ نور کوئ ایسی ویسی لڑکی کو بیاہ کر نہیں لاۓ گا. ضرور اُس میں کچھ خاص ہو گا جو اس کی ذندگی میں آۓ گی... تم نے حویلی میں آنے کے بعد اپنے کردار سے یہ بات ثابت کر دی شیبا... اب تو وقار بھی نور کے فیصلے سے بہت خوش ہیں..." شہلا کی ان باتوں سے شیبا کو بہت حوصلہ ملا... شہلا کافی تھک گئ تو اس نے باقی کی شاپنگ اگلے ہفتے پر ڈال دی.... وہ دونوں واپس حویلی آ گئیں..
*-------------------------*
اس قدر خلوص سے چاہتے ہیں تجھے
تیرا عشق بخشش کا وسیلہ ہو جیسے
ذمل اور ارش پروجیکٹ ایگزیبیشن کے لیۓ پیرس جا رہے تھے.. اس دفعہ بھی ان دونوں کی نشستیں ساتھ ساتھ تھیں... مگر ایک واضح فرق تھا... پچھلی مرتبہ وہ دونوں اجنبی تھے مگر اس دفعہ ایک دوسرے کا سب کچھ تھے... ذمل اس سفر کے لیۓ ارش سے بھی ذیادہ ایکسائیٹڈ تھی.. ارش کے ساتھ تین دن گزارنے کا خیال ہی اسے خوش کرنے کے لیۓ کافی تھا...
"ذمل تمہیں یاد تو آئ ہو گی ہماری پہلی ملاقات..." ذمل اپنی سوچوں میں گُم تھی جب ارش نے چٹکی بجا کر اُسے مخاطب کیا.
"وہ تو میں کب کی بھول چکی ہوں. اس میں یاد کرنے والی کوئ بات ہی نہیں تھی بدھو..." ذمل نے شانے اچکاۓ.
"مجھے تو اچھے سے یاد ہے.. تمہارا وہ غصہ میں کیسے بھول سکتا ہوں." ارش نے ذمل کی آنکھوں میں جھانک کر کہا.
"تمہیں بھی کیا ضرورت تھی میرے ساتھ اتنا فری ہونے کی..." ذمل نے بیگ کی ذپ کی طرف اشارہ کیا.
"میں نے سوچا اکیلی لڑکی ہے.. تھوڑی سی چھیڑ خانی کر لی جاۓ..." ارش نے ذمل کے بالوں کی ایک لٹ کو ماتھے سے پیچھے کیا.
"اگر میری جگہ وہاں کوئ اور ہوتی تو کیا ہوتا..." ذمل نے مصنوعی سنجھیدگی لیۓ اسے گھورا..
"تو بھی آج میرے ساتھ تم ہوتی.. کیونکہ اس کا نام ذمل نہیں ہوتا...." ارش نے ذمل کے ہاتھ اپنے سامنے کیۓ اور کچھ ڈھونڈنے لگا.
"کیا ڈھونڈ رہے ہو ان ہاتھوں میں..." ذمل نے اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھتے ہوۓ پوچھا.
"میں سوچ رہا تھا کہ کب ان ہاتھوں پر میرے نام کی مہندی لگے گی...." ارش نے ان ہاتھوں کو تھوڑا اور قریب کیا.
"کبھی بھی نہیں... مجھے مہندی بالکل بھی پسند نہیں..." ذمل نے عجیب سی شکل بنائ..
"لیکن مجھے تو مہندی والے ہاتھ بہت پسند ہے... میری خاطر مہندی تو تمہیں لگانی پڑے گی..." ارش نے ان ہاتھوں کو اپنے مردانہ ہاتھوں میں سمیٹ لیا.. ذمل کے اندر ایک خوشگوار احساس نے جنم لیا...
"تمہاری خاطر تو نہیں لیکن کسی اور کی خاطر لگانی ہی پڑی گی..." ذمل نے آہستہ سے کہا.
"اب یہ کسی اور کون ہے...؟؟" ارش جانتا تھا کہ ذمل یہ سب اسے تنگ کرنے کے لیۓ بول رہی ہے... اتنی آسانی سے تو وہ نہیں مانے گی..
"جس کے نام کی مہندی میرے ہاتھوں پر لگے گی.. جس کی ذندگی میں میری وجہ سے روشنی ہو جاۓ گی..." ذمل کی آنکھوں میں جگنو چمک اٹھے.
"ابھی کچھ دیر پہلے تک تو تمہیں مہندی پسند نہہں تھی.. یہ اچانک سے کیسے پسند آ گئ.." ارش نے آنکھوں میں خفگی لیۓ ذمل سے سوال کیا.
"کیا پتا کسی کی خاطر میری پسند بدل جاۓ..."ذمل نے اپنی نظریں جھکا لیں.
*-------------------------*
تم مجھے خاک بھی سمجھو تو کوئی بات نہیں
یہ بھی اڑتی ہے تو آنکھوں میں سما جاتی ہے
بارش پھر سےتیز ہو گئ تھی... ننھی ابھی تک بے یقینی میں تھی... اس نے پروین کی خاطر بہت قربانیاں دی تھیں مگر پروین نے اس کی ذندگی کو کہاں پہنچا کر رکھ دیا تھا... اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اتنی رات کو وہ کہاں جاۓ اور کس سے مدد مانگے... ایک سوچ کے تحت اسے ماہم کا خیال آیا... اس نے چہرے کو دوپٹے میں چھپایا اور ماہم کو ملنے جانے لگی..
ماہم کی پھپھو کے گھر کے باہر اتنا رش دیکھ کر وہ پریشان ہو گئ. اس نے ایک عورت کو روک کر وجہ پوچھی تو اُس نے فاخر کی موت کا بتایا. ننھی کے پیروں سے ذمین کھسک گئ. جلدی سے وہ وہاں سے نکل گئ..
تھوڑا دُور ہی اسے ایک بس سٹیشن نظر آیا تو وہاں جا کر بیٹھ گئ.. بہت سی میلی نگاہوں نے اُس کا تعاقب کیا. وہ بہت ڈر گئ تھی.. آخر کو تھی تو لڑکی, وہ بھی خوبصورت اور جوان.. صبح ہوتے ہی وہ بے وجہ سڑکوں پر پھرنے لگی... اُسے بہت بھوک لگ گئ تھی مگر اس کے پاس پیسے نہیں تھے کہ کچھ کھا پی سکے.. وہ وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر بھیک مانگنے لگی... جب تھوڑے سے پیسے جمع ہو گۓ تو اس نے ایک روٹی اور ساتھ میں چاۓ لی... اسے گھر کی یاد ستا رہی تھی... اس نے بمشکل ہی آدھی روٹی کھائ اور کافی دیر وہیں بیٹھ کر رونے لگی.
*-------------------------*
"رفیق تُو کچھ کرتا کیوں نہیں ہے.. اب مجھ سے مزید برداشت نہیں ہوتی یہ منحوس ننھی..." پروین نے رفیق کو اپنا دکھڑا سنایا.
"صبر کر میری رانی صبر... بہت جلد ہی ہم اس کو انجام تک پہنچائیں گے.. تُو بس اُس پر کڑی نظر رکھ... وہ کہاں جاتی ہے, کس سے ملتی ہے سب بتا مجھے." رفیق نے پروین کو اپنے سینے سے بھینچ لیا.
"تُو فکر نہ کر رفیق میں آگے سے دھیان رکھوں گی. تُو بس اپنی تیاری پوری رکھیں. بچنے نہ پاۓ وہ.." پروین نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنی آنے والی ذندگی کے سہانے باغ دیکھنے لگی....
*-------------------------*
تیرے ہاتھ بناؤں پنسل سے،
پھر ہاتھ پہ تیرے ہاتھ رکھوں،
کچھ سیدھا الٹا فرض کروں،
کچھ الٹا سیدھا ہو جائے__!!!
کمرے میں پہنچتے ہی ذمل نے سب سے پہلے بابا اور پھر مسکان کو کال کی.. ارش اور ذمل کے کمرے ساتھ ساتھ ہی تھے. دونوں نے سامان کمروں میں رکھا اور فریش ہونے کے بعد ڈنر کرنے چلے گۓ..
ریسٹورنٹ کے لان میں ہی ان کو ٹیبل ملا.. وہاں کافی رش تھا. بہت سے نوجوان کپلز وہاں آۓ ہوۓ تھے.. تھوڑی دیر بعد ہی بیس بائیس سالہ لڑکی ان کے ٹیبل کی طرف آئ اور بولی
"میں شزا ہوں پاکستان سے.. ہم لوگ دو سال پہلے یہاں شفٹ ہوۓ ہیں... ماشاء اللہ مجھے آپ کا کپل بہت پیارا لگا.. بالکل کسی شہزادے اور شہزادی کی طرح " وہ لڑکی کافی ہنستے ہوۓ بول رہی تھی.
"تھینک یو شزا. یہ میری مسز ہیں ذمل اور میں ان کا مسٹر ارش" ارش نے ایک سمائل شزا کی طرف پاس کی.
"ایکچیولی میں سوچ رہی تھی کہ آپ لوگ ہمارے ساتھ لنچ کریں کسی دن... میں آپ کو اپنی دادی سے بھی ملواؤں گی.. انھیں آپ جیسے کپلز بہت پسند ہیں .." شزا نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا....
"ہم یہاں صرف تین دن کے لیۓ ہیں ایگزیبیشن کے سلسلے میں... تھینک یو سو مچ فار انویٹیشن...." ارش نے پھر سے ایک سمائل پاس کی...
"ارش اِس طرح شزا مزا کے ساتھ بات کر رہا ہے جیسے کوئ بچپن کی سہیلی ہو اس کی..." ذمل دل ہی دل میں مسوس کر رہ گئ.
"اچھا آپ مجھے اپنی ایگزیبیشن پر انوائیٹ کریں ناں بھائ.. میں ضرور آؤں گی... پرامس." شزا کی معصومیت ارش کو اچھی لگی. اُسے اقصیٰ یاد آنے لگی...
"تمہیں پتا ہے شزا میری ایک بہن ہے, بالکل تمہاری طرح... تمہیں دیکھ کر مجھے اس کی یاد آ گئ...." ذمل کے دل سے شزا کے لیۓ حسد نکل گیا....
"یہ لو کارڈ, اس پر ایڈریس مینشن ہے.. تم ضرور آنا. ہم انتظار کریں گے..." ذمل نے شزا کو ایک کارڈ تھمایا... کارڈ لینے کے بعد شزا نے ان دونوں کی فیس بُک آئ ڈیز لیں.... جلدی سے اُن کو ریکیوسٹ بھیجی.... ان کے ساتھ ایک سیلفی لی اور پوسٹ کر دی...
اس کے جانے کے بعد ارش اور ذمل کافی دیر ہنسنے لگے.... اچانک ذمل کو کچھ یاد آیا تو اُس نے اپنے لب کھولے
"میں کب سے تمہاری مسز ہو گئ ہوں بدھو.. تمہاری مسز بننے کا کوئ شوق نہیں ہے مجھے..." ذمل نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا.
"دیکھ لو سب کو ہمارا کپل کتنا پسند ہے... ایک تم ہی شور کرتی رہتی ہو.." ارش نے ذمل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا.
"تم کیا ہر ٹائم مجنو بنے پھرتے ہو ... اپنے لیۓ کوئ لیلا ڈھونڈ لو جا کر مسٹر مجنو..." ذمل نے شرارتاً کہا..
"تُم جو ہو میری لیلا.. میری ہیر... میری سسی... کسی اور کی ضرورت نہیں مجھے...." ارش نے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی.... ذمل کے رخسار گلابی پڑنے لگے... اس نے اپبا چہرہ جھکا لیا..
"کھانا کھانے آۓ ہیں ہم بدھو... ان باتوں کو پھر کبھی کر لیں گے...." ذمل نے اپنے ہاتھ پیچھے کۓ اور مینیو دیکھنے لگی.. ارش کو اس کی آنکھوں میں اپنا عکس دکھائ دے رہاتھا....
"مسز ارش...." وہ دل ہی دل میں ہنسا...
*-------------------------*جاری ہے