ہم نوا تھے جو از سحرش علی نقوی|Hum Nawa Thy Jo Qist Number 1



142 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


ناول: ہم نوا تھے جو
تحریر: سحرش علی نقوی
 قسط نمبر: 1

٭٭٭٭٭٭

سردسی .....حسین .....دلکش سی رات تھی ۔ایسی رات جن میں لگتاہے کہ قسمت کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔آسماں پر چھائے بادل کبھی چاند کو چھپا
دیتے...... تو کبھی عیاں کر دیتے۔ ہوا بھی اپنی مستی میں لہرا تی ،جھومتی ماحول کو مزید پر سکوں کرنے کی کوشش میں تھی ۔ ہر طرف گہری خاموشی تھی۔ ایسی خاموشی جو روح تک کو سکون پہنچا دے ۔لیکن کبھی کبھی خاموشیاں بھی اضطراب میں ڈال دیا کرتی ہیں ۔کچھ اسی طرح کے اضطراب میں وہ دونوں بھی تھے ۔
و ہ چھت پر خاموش ....اداس..... گم صم سے بیٹھے آسمان کی جانب د یکھ رہے تھے ۔وہ دونو ں ہی بہت کچھ کہنا بھی چاہتے تھے...... اور خاموش بھی تھے ۔ وہ کافی دیر سے یونہی خاموش بیٹھے تھے ۔
ماہم بلیک کرتا، پاجامہ میں تھی ۔ بال اس نے آج سلجھائے ہی نہیں تھے.... بس یونہی بالوں کو فولڈ کر کے کیچر لگایا ہوا تھا ۔جب انسان خود الجھا ہوا ہو..... تو وہ کچھ اور کیا سلجھائے گا ۔ کیف بلیک ڈریس پینٹ اور وائٹ شرٹ میں ملبوس تھا۔
ان دونوں میں ایک رشتہ بھی تھا...... اور نہیں بھی تھا ۔اس آدھ آدھورے رشتے کی ڈور میں وہ پچھلے تین سال سے تھے۔ 
آخر ماہم نے چپ کے شیشے کو توڑا۔ 
’’آپ سمجھتے کیوں نہیں کیف یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ آپ نے تو رشتوں کا مذاق ہی بنا دیا ہے۔ میری زندگی کامذاق بنا دیا ہے..... لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں‘‘۔
’’تمہیں لوگوں کی کیا فکر ہے ؟ تمہاری زندگی میں لوگوں کی اہمیت زیادہ ہے یا میری ؟‘‘۔کیف نے اپنا ہمیشہ والا فقرہ دہرایا۔
’’تو مطلب میری کوئی عزت نہیں ہے ......میں یوں ہی اس آدھ آدھورے رشتے کو نبھاتی جاؤں.... جب کے مجھے انجا م کی خبر ہی نہیں ‘‘۔وہ بس رو دینے والی ہی تھی ۔
’’ماہی میں مجبور ہوں ۔تم سب جانتی ہو پھر بھی؟۔ مجھے تھوڑا وقت دو ۔مجھے بس میرے پاؤں پر کھڑا ہونے دو ‘‘۔پچھلے تین سال میں شاید وہ تین سو بار اپنے رشتے کے بارے میں بحث کر چکے تھے ۔
’’اور کتنا وقت چاہیے آپ کو ؟ کیاتین سال کم ہوتے ہیں ؟ جب آپ ان تین سالوں میں کچھ نہیں کر سکے تو آگے بھی آپ سے کچھ نہیں ہو گا ‘‘۔ اس کے لہجے میں بہت مایوسی تھی ۔
’’تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے کیا ؟ ‘ ‘۔وہ ایک بار پھر بھروسے کی بات کر رہا تھا ۔
’’اب بھروسہ ہی تو نہیں ہے۔ آپ کے جب دل میں آتا ہے آپ میری زندگی میں آ جاتے ہیں......میرے قدموں میں اپنی محبت کی بیڑیاں ڈال دیتے ہیں.....اور جب جی میں �آ تا ہے میرے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں.....مجھے اس ادھورے رشتے کی زنجیروں سے آزاد کر دیتے ہیں ۔پر اب بس......بہت ہو چکا ۔‘‘ انداز شکستہ تھا۔
’’میں کبھی تمہیں چھوڑ کر نہیں گیا ماہی ....میرے لیے سب کچھ تم ہی ہواور رہو گی ۔ یہ سب تمہاری خود کی سوچ کا فطور ہے جو سر چڑھ کے بول رہا ہے ‘‘۔اس نے اپنا دفاع کیا۔
’’تو ثابت کیجیے کیف عالم کہ یہ صرف فطور ہے .....روک لیں مجھے ٹوٹ کے بکھرنے سے .....روک لیں مجھے اپنے ہاتھ سے پھسلنے سے ...میں آپ سے دور نہیں جانا چاہتی ...مگر آپ.....آپ...... مجھے مجبور کر رہے ہیں ‘‘۔ اس نے جتا یا تھا۔
’’کیوں دور جاؤ گی مجھ سے ....بولو.... کیوں ؟؟ کیا تمہاری محبت میں اب وہ شدت نہیں رہی ..... یا تمہارے اس دل کا محبت سے جی بھر گیا ہے ‘‘۔ اس نے سوال کیا ....ایسا سوال جس پہ وہ طنزیہ ہنس دی ۔
’’کیف عالم !!!! جن کا محبت سے جی بھر جائے وہ دور جانے سے گھبراتے نہیں ہیں ۔ میں تو بس آپ سے گزارش کر رہی ہوں کہ مجھے روک لیں....مجھے مجبور نہ کریں کہ میں کوئی ایسا فیصلہ کر بیٹھوں جو ہماری راہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کر دے ۔‘‘ 
’’تمہارے اس رویے کی وجہ جان سکتا ہوں ؟؟‘‘۔ تجسس سے بولا۔
’’بالکل جان سکتے ہیں.....بس یوں سمجھ لیں کہ میری سوئی ہوئی غیرت جاگ گئی ہے ....میرا ضمیر جاگ گیا ہے ۔اب تک آپ کی محبت میں اپنی عزت گنواتی آئی ہوں....مزید گنوانے کی سکت نہیں ہے ۔ مجھے اب احساس ہونے لگا ہے کہ جس کے لیے میں اپنی عزت داؤ پر لگاتی آئی ہوں ...اس کی خود کی نظر میں میری اہمیت دو کوڑی کی بھی نہیں ۔ وہ خود بھی مجھے عزت دینے سے قاصر ہے ‘‘۔ آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے ہوئے بولی۔ 
’’تم میری محبت کی تذلیل کر رہی ہو ماہم قریشی ۔ محبت میں خود غرضی نہیں ہوتی ....تم اس وقت صرف اپنے بارے میں سوچ رہی ہو...میرے بارے میں نہیں ‘‘۔اس نے جتا کر کہا۔
’’نہیں کیف عالم....میں بس خود کو مزید تذلیل سے بچا رہی ہوں ۔میں آپ کو تین ماہ کا وقت دے رہی ہوں .....ان تین ماہ میں اگرآپ مجھے عزت نہیں دے سکے تو کم از کم مزید رسوا بھی مت کروائیے گا۔ بہت کر لیا آپکا انتظار .....بہت سن لیں سب کی باتیں.... اب اور نہیں..... اور ہاں میں یہ باتیں غصے میں نہیں بول رہی ۔اس دفعہ میں واقعی سیریس ہوں ۔اب یا تو آپ مجھے سب کے سامنے اپنا لیں یا ہمیشہ کے لےئے چھوڑ دیں۔کیف عالم!!!!! آج بھی فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے..... ا س کے بعدانجام کے ذمہ داربھی آپ ہوں گے۔ ‘ ‘وہ ایک ہی سانس میں سب بول گئی تھی ۔
’’آپی آپکو مما بلا رہی ہیں اور کیف بھائی کو بھی ‘‘۔ سارہ نے چھت پر آ کر کہا اور کیف کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گیا ۔
’’ٹھیک ہے سارہ ....تم چلو .....ہم بس ابھی آئے ‘ ‘۔وہ اپنی جذباتی کیفیت پر قا بو پاتے ہوئے بولی ۔سارہ اپنی چھوٹی سی پونی ہلاتے وہاں سے چلی آئی ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ماہم اور کیف نیچے اتر آئے۔ فریدہ انکا ڈائنگ ٹیبل پر انتظار کر رہی تھیں۔ وہ دونوں بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے کرسیاں کھینچ کربیٹھ گئے ۔وہ پھیکی پھیکی مسکراہٹ لےئے اپنی اپنی پلیٹ میں بریا نی ڈالنے لگے۔ بریانی خاص کیف کے لیے بنائی گئی تھی جو کہ اسکی من پسند تھی ۔کیف جب بھی آیا کرتا تھا اس کے لیے یا تو بریانی بنائی جاتی یا منگوا لی جاتی تھی۔ سارہ بھی ماہم کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھی بریانی کھانے لگی۔ سب خاموشی سے کھانے میں مصروف تھے پر ماہم کی نظریں بار بار کیف کو دیکھتیں ۔
وہ ا سے کھانا کھاتے ہوئے بہت کیوٹ لگا کرتا تھا۔ اس کا بار بار ہاتھ ہلا کر کھاناجو کہ اس کی عادت تھی اسے بہت پسند تھا۔ کیف جب بھی کھانا کھایا کرتا تھا اس کے ماتھے پر جانے کیوں پسینہ آ جاتا تھا.....اسے تو وہ اس پسینے میں بھی اچھا لگا کرتا تھا۔
سب کھانا کھا چکے تو ماہم برتن رکھنے کچن میں چلی گئی اور فریدہ بھی اس کے پیچھے ہی آ گئیں ۔
’’تم دونوں کے موڈ خراب تھے..... تم دونوں کی صلح نہیں ہوئی کیا ؟‘‘فریدہ نے سوال کیا ۔
’’ہو گئی ہے صلح مما۔‘‘ وہ نظریں چرا کے بولی ۔ 
’’میں تو تنگ آ گئی ہوں تم دونوں کے روز کے تما شے سے‘ ‘۔فریدہ بیزاری سے بولیں۔
’’میں بھی مما‘‘۔ مختصر سا جواب دے کر وہ کچن کا سامان سمیٹنے لگی ۔
’’ہمم ......... خیر زیادہ دیر کیف کے ساتھ اکیلی مت بیٹھا کرو .....یہ غیر منا سب بات ہے اور ہاں کیف بھی جانے والا ہو گا ۔تم آ کر اسے سی آف کر دو‘ ‘۔فریدہ جواب کا انتظار کیئے بغیر وہاں سے چل دی۔
ماہم کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی پھر جھنجھلا کر پھر سے برتن وغیرہ سمیٹنے لگی ۔تھوڑی ہی دیر میں سارہ اپنی چھوٹی سی پونی ہلاتے ہوئے کچن میں آ گئی۔ 
’’آپی مما کہہ رہی ہیں کے کیف بھائی کے لیے چائے بنا دیں ‘‘۔
’’پر کیف تو شایدجانے والے ہیں ‘ ‘۔وہ حیران ہوئی ۔
’’جا رہے تھے پر مما نے اخلاقاًکہا کہ چائے تو پیتے جاؤ تو وہ رک گئے ‘‘۔یہ کہہ کر سارہ چلی گئی ۔
ماہم نے چائے کے برتن اٹھائے اور چائے بنانے لگی ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
فریدہ نے کیف سے یہاں وہاں کی باتیں کیں۔گھر والوں کا حال چال پوچھا جس پر کیف نے بتایا کے وہ کراچی سے ڈاریکٹ یہاں ہی آیا ہے۔ گھر والوں کو تو اس نے اپنے سکھر آنے کا بتایا تک نہیں۔وہ صرف ماہم سے جھگڑنے کے بعد اسے منانے آیا تھا۔یہ سن کر فریدہ نے کہا کہ وہ تنگ آ گئیں ہیں ان دونوں کے جھگڑوں سے جس پر کیف نے تسلی دی کہ اب وہ نہیں لڑیں گے۔ فریدہ کو پھر بھی تسلی نہ ہوئی ۔ وہ ہمیشہ ہی نہ لڑنے کا وعدہ کر کے جایا کرتا تھا اور ہمیشہ ہی اپنا وعدہ توڑ بھی دیتا تھا۔
کیف نے اپنا بازو فریدہ کے گلے میں ڈال لیا اور کہنے لگا ۔
’’مما اب کی بار پکا وعدہ .......ہم لڑائی نہیں کریں ۔ آپ بس بے فکر ہو جائیں ‘ ‘۔ فریدہ اب پھر سے یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگی۔
کیف رشتے میں فریدہ کا بھانجا تھا لیکن ماہم سے �آدھ آدھورارشتہ جڑنے کے بعد سے وہ فریدہ کو خالہ نہیں بلکہ مما بلایا کرتا تھا۔فریدہ کا بھی کوئی بیٹا نہیں تھا.... بس دو ہی بیٹیا ں تھیں.... اس لےئے وہ بھی کیف کو اپنی سگی اولاد کی طرح ہی پیار کرتیں تھیں ۔
فریدہ اور کیف باتیں کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں ماہم بھی چائے لے کر آ گئی ۔چا ئے کے بعد کیف خاموشی سے ماہم کے کمرے میں چلا گیا اور ماہم بھی اس کے پیچھے ہی آ گئی اور آتے ہی بولی ۔
’’مجھے کچھ کہنا ہے ‘‘۔
’’مت کہو....میں جانتا ہوں تم کیا کہو گی ‘‘۔ وہ مسکرا کے بولا۔
’’میں کیا کہوں گی ؟؟؟‘‘ وہ متجسس ہوئی۔
’’یہی کی تم مجھے بہت مس کرو گی ‘‘۔وہ اس کے کندھوں کو اپنی گرفت میں لاتے ہوئے بولا۔
’’ہر گز نہیں ....میں یہ کہنا چاہتی تھی کہ اب آپ نہ تو مجھے کوئی میسج کریں گے اور نہ ہی کوئی کال کریں گے ۔ہاں اگر کچھ ضروری بات کرنی ہو تب کر لیجئے گا‘‘۔وہ خود کو اس کی گرفت سے آزاد کرواتے ہوئے بولی ۔
’’مگر کیوں ؟؟ تم بخوبی جانتی ہو تم بن رہنا میرے اختیار میں نہیں ....پھر یہ پابندی کیوں ؟‘‘۔ ماتھے پر بل لائے بولا۔
’’کیوں کے میں کسی غیر سے کوئی بھی رابطہ نہیں رکھنا چاہتی ‘‘۔لہجہ میں اجنبیت تھی ۔
’’غیر؟؟؟؟؟۔ اسے شاک لگا۔’’میں کب سے تمہارے لیے غیر ہو گیا ماہم قریشی ‘‘۔
’’ ہمیشہ سے تھے .....نہ تو آپ میرے شوہر ہیں اور نہ ہی پوری طرح سے منگیتر۔یہ تو میں تھی جو ایک غیر سے اک آدھ ادھورا رشتہ نبھاتی آئی ہوں ‘‘۔وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی۔
’’تمہارے لیے میں اب غیر سہی ....پر میرے لیے میری پوری کائنات تم ہو.....تمہاری محبت کسی رشتے کی محتاج ہو گی ...پر میری محبت ... میری محبت نام کے رشتوں کی قید سے آزاد ہے ‘‘۔ اسے اپنے قریب کرتے ہوئے بولا۔
’’کس وقت جانا ہے ؟ ڈیوو کا ٹائم تو ہو گیا ہے شاید۔‘‘ وہ نرمی سے اس سے دور ہوتے ہوئے بولی ۔ وہ بات کو بدل رہی تھی اب۔
’’بس ٹائم ہونے والا ہے ۔میں جانے ہی والا ہوں‘‘۔اس کی نیلی آنکھوں میں نمی اتر آئی ۔
’’آپ بھی نا کمال کرتے ہیں۔‘‘وہ کیف کی آنکھوں میں آئی نمی اپنے دوپٹے کے پلوسے صاف کرتے ہوئے بولی ۔
’’میں کیا کروں ماہی میرا دل ہی نہیں کرتا کہ یہاں سے جاؤں...... مجھے کچھ ہونے لگتا ہے۔ میں دل پر پتھر رکھ کر کراچی جاتا ہوں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اپنا آپ چھوڑ کے جا رہا ہوں‘‘۔انداز جذباتی تھا۔وہ دونوں ایسے ہی تھے ...پل میں تولہ ...پل میں ماشہ۔
’’مجھ سے اتنی محبت ہے تو جلدی شادی کر لیں نا ۔‘‘وہ کیف پر شرارتی نظریں ڈالتے ہوئے بولی ۔
’’تم جانتی ہو نا کہ‘‘ ...۔. وہ بول ہی رہا تھا کہ ماہم نے بات کاٹ دی ۔
’’ہاں جانتی ہوں .......سب جانتی ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں کے اس بار آپ یہ تین ماہ ضائع نہیں کریں گے ‘‘۔ اس نے اپنا دیا وقت یاد دلایا۔
’’میں پوری کوشش کروں گا ماہی ‘ ‘۔آنکھ سے ایک آنسو چھلکا تھا ۔
’’آپ اگر روکرجائیں گے تو وہا ں دل لگا کر کیسے پڑھ سکیں گے...... اور آپ دل لگا کر پڑھیں گے نہیں تو .....اپنے پاؤں پر کیسے کھڑے ہوں گے اور پاؤں پر کھڑے نہیں ہوئے تو ہماری شادی کیسے ہو گی۔ اس لیے اب روئیں مت تاکہ جلدی سے ہماری شادی ہو جائے اور پھر آپ کو اپنے یہ قیمتی آنسو نہ بہانہ پڑیں ۔‘‘یہ سب کہتے وہ ایک لمحے کو بھول گئی کے ان کی تقدیر کا فیصلہ آنے والے تین ماہ کریں گے۔
کتنی ہی دیر کیف روتا رہا اور ماہی چپ کرواتی رہی۔ پچھلے تین سال میں کیف جب بھی ماہی کے گھر سے وآپس کراچی کے لیے جاتا تو نجانے کتنی ہی دیر روتا رہتا اور ماہی اسے تسلیاں دیتی رہتی۔حالانکہ کراچی سے سکھر کا فاصلہ چند گھنٹوں کا ہے اور لوگ تو ملک سے باہر جانے پر بھی اتنا نہیں روتے ۔وہ ماہی سے وقتی دوری پر بھی غم زدہ ہو جاتا تھا۔ آج بھی وہ تسلیاں لےئے وہاں سے چلا گیا ۔ 
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰( جاری ہے)