ہم قدم از ناصر حسین|Hum Qadam Novel By Nasir Hussain Qist Number 1



1258 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


بسم اللہ الرحمن الرحیم                    
 ________________ ہم قدم  ______________
......................  قسط 1  ......................
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
اسلام و علیکم دوستو__جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے یہ ناول کچھ عرصے سے آپ لوگوں کے ذہن میں گردش کرتا رہا کیونکہ میں اسے اپنی کچھ مصروفیات کے باعث لکھ نہیں سکا __اب جب کہ یہ ناول مکمل لکھ چکا ہوں تو آپ کے ہاتهوں میں پیش ہے ____یہ ناول شروع سے آخر تک پوسٹ کیا جائے گا انشاءاللہ اور شروع سے اس لیے بھی پوسٹ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ بہت سارے قارئین اس ناول کو پہلی بار پڑھ رہے ہیں__اسے پڑهنے کے بعد اپنی آراء سے ضرور آگاہ کیجئے گا آپ لوگوں کی محبت ہی اسے آگے لے جانے میں میری مدد کر سکتا ہے___ایک خوبصورت سفر __چلو سفر طے کریں______
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
وہ اونچی عمارت رنگ برنگی روشنیوں میں نہایا ہوا تھا
.آج اس کی شادی تهی لیکن وہ یہ شادی کرنا نہیں چاہتی تهی وہ جس سے محبت کرتی تهی اسی سے ہی شادی کرنا چاہتی تهی........
وہ گهر سے بهاگنے کا مکمل انتظام کر چکی تهی .اپنا سارا سامان پیک کر چکی تهی ..لیکن اس وقت وہ کمرے میں اکیلی نہیں تهی اس کی امی بھی اس کے پاس بیٹهی تهی اور وہ بڑی شدت سے اپنی امی کے جانے کا انتظار کر رہی تھی. ..نکاح میں تهوڑا ہی وقت رہ گیا تھا اور نکاح کے بندهن سے پہلے پہلے ہی اس گهر سے نکل جانا چاہتی تھی. ................
شہزاد نام کے لڑکے کے ساتھ اس کے والدین نے اس کی شادی طے کر دیا حالانکہ اس نے کافی احتجاج بھی کیا لیکن اس کی نا سنی گئی......
کیا ہو ایمان پتر ...تم کچھ پریشان لگ رہی ہو......اس کی ماں نے اس کے گال چهو کر پوچھا.........
نہیں امی میں بالکل ٹهیک ہوں ..میں کیوں پریشان ہوں گی...اس نے نگاہیں چرا کر کہا........
ہاں پتر اور ایسے دن اداس نہیں ہوتے...دیکھ اتنے خوبصورت چہرے کی کیا حالت بنا رکهی ہے سارا میک اپ خراب ہو رہا ہے....میں جانتی ہوں تم اداس ہو ..شادی والے دن تو ہر لڑکی اداس ہوتی ہے..میں خود بھی چار دن تک روتی رہی.......اسے اپنی امی کی باتیں زندگی میں کهبی اتنی بری نہیں لگیں جتنی اس  وقت لگ رہی تهیں...وہ چاہتی تهی کسی طرح بھی اس کی امی کمرے سے باہر جائے اور وہ کمرے کی پچھلی کهڑکی سے بهاگ کر اس عذاب سے چهٹکارا پا لے.اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی محبت کی آغوش میں چلی جائے..........
امی میں کچھ دیر سونا چاہتی ہوں ....
کیسی باتیں کر رہی ہے نکاح میں صرف دس منٹ باقی ہیں اور تمہیں سونے کی پڑی ہے ..نکاح کے بعد اپنے گهر جا کر آرام سے سو جانا. لوگ کیا کہیں گے..اس کی امی پیار بولیں.......
یا اللہ پلیز میری مدد کریں..میں اس کالے کلوٹے شہزاد کے ساتھ اپنی ساری زندگی نہیں گزار سکتی پلیز مجھے یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ دکهائیں.......اس نے بے آواز خدا کو پکارا    .......
امی آپ کو لوگوں کی پڑی ہے میری نہیں. . میں صرف دو منٹ سوؤں گی پلیز میرے سر میں بہت درد ہے....اس نے سر پکڑ کر ایک آہ نکالی.......
اچها تو لیٹ جا میں تیرا سر دباتی ہوں  پتر  ....
نہیں امی ...پلیز آپ جائیں میں دو منٹ سوؤں گی تو اپنے آپ ہی ٹھیک ہو جائے گا سر درد....وہ زچ ہو کر بولی......
ٹهیک ہے ..لیکن صرف دو منٹ زیادہ مت سونا. ..سمجهی...اس کی ماں جب جانے لگی تو اس نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا  ...اور روتے ہوئے ان کے گلے لگی...
امی ہو سکے تو اپنی بیٹی کو معاف کر دینا ..میں آج بہت بڑی غلطی کرنے جا رہی ہوں..اگر میں دل کے ہاتهوں مجبور نہ ہوتی تو کهبی آپ لوگوں کا تماشا نہ بناتی..لیکن دل کے آگے میری خود کی بھی نہیں چلتی......اس نے دل ہی دل میں اپنی امی کو مخاطب کیا.......
ارے نا روتے نہیں پتر. ..سارا میک اپ خراب ہو رہا ہے..پانچ ہزار دیے ہیں اس کم بخت پارلر والی کو ..اب بار بار کون دے اسے پیسے....وہ روتے ہوئے مسکرا دی...اس کی ماں دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئیں..........
اس نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کی اور بهاگتے ہوئے جا کر دروازہ بند کر دیا اور پھر اسی رفتار سے بیڈ کے نیچے سے اس نے اپنا وہ چهوٹا بیگ نکالا ..جسے وہ کل رات ہی تیار کر چکی تهی. ..اس بیگ میں اس نے کچھ مزید چیزوں کا بھی اضافہ کیا...اور پھر بهاگتے ہوئے کهڑکی تک گئی اور آس پاس نظر دوڑانے لگی اسے کوئی نظر نہیں آیا اس نے خدا کا شکر ادا کیا...اور واپس آکر دراز میں سے ایک سفید خالی کاغظ نکال کر اس پر کچھ لکهنے لگی. .لکهتے وقت اس کی آنکھوں سے آنسو بهی بہہ رہے تهے مگر وہ آنسو کو اپنے ہاتهوں سے بار بار پیچھے دهکیل رہی تهی.......خط لکھ کر اس نے ایک سکینڈ میں اسے تہہ کر دیا اور وہیں اسی دراز پہ رکھ دیا اور خط کے اوپر پهولوں والا خوبصورت گلدان رکھ دیا تا کہ ہوا سے اڑ نہ جائے...............
بیگ اٹها کر وہ بهاگتے ہوئے کهڑکی تک گئی اور ایک بار ایک آخری بار مڑ کر اس نے اپنے کمرے کو دیکها جہاں اس نے اپنی پوری زندگی گزاری تهی لیکن اب ایک پل میں ہی سب کچھ چهوڑ رہی ہے. ......
اس نے بڑی محبت سے دیوار پہ لگی اپنی امی ابو کی تصویر کو دیکها اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو رواں ہو گئے. یہ بہت کمزور لمحہ تها اور وہ کسی بھی صورت میں کمزور نہیں پڑنا چاہتی تهی ..اس نے ایک لمبے دوپٹے کو کهڑکی سے اچهی طرح باندھا اور اس کے سہارے نیچے اترنے لگی....اس کا کمرہ چونکہ اوپر والی منزل پہ تها اس لیے وہ بنا کپڑے کے نیچے نہیں آ سکتی تهی. .......
نیچے اترنے کے بعد اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی کوئی نہیں تها. .رات کے اس اندھیرے میں کوئی اسے دیکھ نہ سکا...جس طرح وہ سارے کام تیزی سے کر رہی تهی اسی تیزی سے وہ گهر کے بڑے دروازے سے باہر نکل گئی...............
جب وہ سڑک پہ آئی تو اس نے ایک آخری بار اپنے پورے گهر کو دیکها جو خوبصورت رنگین روشنیوں سے نہا رہا تها اور اگلے ہی پل وہ بهاگتی ہوئی شمال کی طرف چل پڑی.................
ہزاروں منزلیں ہوں گی ___
ہزاروں کارواں ہوں گے ____
نگاہیں ہم کو ڈهونڈیں گی _____
نہ جانے ہم کہاں ہوں گے _______
رات کے دس بج رہے تھے سڑک پہ اتنا زیادہ رش نہیں تها لیکن اکا دکا گاڑی گزر ہی جاتی...وہ سب سے چهپتے چهپاتے بڑی مشکل سے مسافت طے کر رہی تهی تیز تیز چلنے کی وجہ سے اس کا سانس پهول چکا تها وہ بیگ اٹها کر بهی کافی تهک چکی تهی اور اوپر سے اس نے زیورات اور اتنا بهاری عروسی جوڑا پہنا تها ان کی وجہ سے وہ جھنجلاہٹ کا شکار تهی.........
اس نے عارم کو بھی میسج کر دیا تها وہ بھی تهوڑی دیر تک پہنچنے والا ہو گا.........
بہت لمبا سفر طے کر چکی تهی وہ اب وہ کافی دور آ چکی تهی اگر اسے ڈهونڈنے کی کوشش بھی کی گئی تو اس طرف کوئی نہیں آئے گا ..اسے اطمینان تها لیکن وہ گهبرا بھی بہت رہی تهی ..ایک اکیلی لڑکی سنسان سڑک پہ دلہن کے لباس میں کچھ بھی ہو سکتا تها...آگے جا کر سڑک پارک کی طرف مڑتی تهی وہ بھی اسی طرف چلی گئی ..پارک میں رات کے وقت کوئی نہیں ہوتا اس لیے وہ جگہ سنسان تهی اور یہی وہ جگہ تهی جہاں اس نے عارم کو بلایا تها.........
اب وہ پارک کے دروازے کے بالکل پاس کهڑی تهی اور بار بار اوپر آسمان کو دیکھ رہی تھی. .گهبراہٹ اور ڈر کی وجہ سے اس کے آنسو بھی سوکھ چکے تهے. وہ آس پاس نگاہ دوڑا کر موبائل سے جلدی جلدی میسج ٹائپ کرنے لگی .......
Kaha ho aram plz jaldi ao .me wait kr rahi hon jaldi ao....
میسج سینڈ کر کے اس نے موبائل ایک بار پھر بیگ میں ڈال دیا اور چوری چوری ادهر ادهر دیکهنے لگی...
اس سنسان پارک میں رات کے وقت کوئی بھی آ سکتا تها کوئی جوا کهیلنے والا...کوئی نشہ کرنا والا یا پھر کوئی سکیورٹی گارڈ کچھ بھی ہو سکتا تها ...اس کا دل دهک دهک کر رہا تها...وہ بار بار سامنے سڑک کو دیکھ رہی تهی جہاں سے عارم کو آنا تها........
تهوڑی دیر بعد اسے اپنے بالکل سامنے کسی روشنی کا احساس ہوا. .ہیڈ لائٹس کی روشنی بالکل اس کے چہرے پہ پڑ رہی تهی. .بائیک آ کر بالکل اس کے پاس رک گئی ..عارم کو سامنے دیکھ کر وہ خوش ہو گئی اور بهاگتے ہوئے اس سے جا کر لپٹ گئی.......
ارے یار ایمان خیریت تو ہے ..؟ اتنی رات کو کیوں بلایا...اور آج تو تماری شادی تهی ناں....؟..عارم نے تشویش سے پوچھا. ....
ہاں لیکن میں نے تمہیں بتایا تها ناں میں یہ شادی نہیں کروں گی.....وہ اس کا بازو پکڑ کر بولی......
لیکن کیوں....؟ اس نے آہستہ سے اپنا بازو چهڑا لیا.....
کیوں کیا مطلب. ...؟.میں تم سے پیار کرتی ہوں اور تم سے ہی شادی کروں گی.......وہ حیران ہوتے ہوئے بولی.......
یہ تم کیا کہہ رہی ہو ...؟ مذاق تو نہیں کر رہی ....
مذاق. ..؟.عارم یہ مذاق کا وقت ہے میں اتنی رات کو تمہیں یہاں مذاق کے لیے بلاوں گی. .میں گهر سے بهاگ آئی ہوں....وہ بهرائی ہوئی آواز میں بولی....
What....?
وہ چلا اٹها....
are You ok..?
تم گهر سے بهاگ آئی ہو وہ بھی شادی والے دن لیکن کیوں....؟
 عارم کیا تمہیں نہیں پتا کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں اور تم سے ہی شادی کرنا چاہتی ہوں ......
اسے جهٹکا لگا.....
ہاں ایمان.. لیکن. ...
لیکن کیا....تم نے خود ہی تو اس دن کہا تها اگر ہمارے والدین نہ مانے تو ہم کورٹ میرج کر لیں گے...وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی......
ہاں میں نے کہا تها. ..لیکن اب میں ایسا نہیں کر سکتا..میں نے پاپا سے بات کی...انہوں نے صاف منع کر دیا انہوں نے تو یہ تک کہا اگر میں نے اپنی مرضی سے کہیں شادی کی تو وہ مجھے اپنی جائیداد سے اپنی زندگی سے بے دخل کر دیں گے.تو.......
تو کیا عارم....؟..اس بار اس کی آواز جیسے کنویں سے آئی.....
تو میں تمارے ساتھ کورٹ میرج نہیں کر سکتا..محبت کے اس سفر میں' میں تمارے ساتھ آگے نہیں چل سکتا....وہ نظریں چرا کر بولا..جبکہ اس نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی چینخ دبانے کی کوشش کی. ...
یا اللہ. ..عارم یہ تم کیا کہہ رہا ہو...پتا بھی ہے تمہیں اپنی باتوں کا مطلب. ..میں تمارے لیے اپنا سب کچھ چهوڑ کر آئی ہوں...اپنا گهر ماں باپ سب کچھ. ..اور تم کہہ رہے ہو تم محبت کے اس سفر میں میرے ساتھ نہیں چل سکتے.......اس بار اس کی آواز ایسے نکلی جیسے زبح کی جانے والی جانور کی آواز ہو.....
I am Sorry 
میں کچھ نہیں کر سکتا ..اور میں نے تم سے نہیں کہا تها تمارا گهر چهوڑنے کو تم نے اپنی مرضی سے یہ راستہ چنا ہے...اب کانٹوں بهرے راستے میں تم اکیلے چلو..میں تمارا ہم قدم نہیں بن سکتا.....
اس نے آگے بڑھ کر عارم کے گالوں پر تهپڑ رسید کر دیا...
How dare You....How can you Do This with me....
تم ایسا کیسے کر سکتے ہو..ہاں...تم نے تو زندگی بهر ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا ناں..؟ ہر مشکل میں ہر خوشی غم میں ساتھ رہنے کے تمہارے وہ وعدے کہاں رہ گئے...اب ایسے موڑ پر لا کر تم میرا ساتھ چهوڑ رہے ہو مجھے تنہا کر رہے...صرف جائیداد کے لیے. ...وہ چلا چلا کر بات کر رہی تهی........
وہ جوانی کے وعدے تهے ایمان ..وہ سب ایک بچپنا تها..اصل زندگی میں محبتوں اور جذبوں کی نہیں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے...کیا ہیں تمارے پاس اتنے پیسے جس کے سہارے میں تم سے شادی کر لوں...یا زندگی گزاروں..میں پاپا کے بنا کچھ بھی نہیں. .میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ میں الگ سے زندگی شروع کروں میں ہر قدم پہ ان کا محتاج ہوں.....
ایسا مت کرو عارم ..خدا کے لیے ایسا مت کرو میں کہاں جاؤں. میں اپنا ہر دروازہ بند کر کے آئی ہوں..ہر کشتی جلا کر آئی صرف تمارے لیے اور تم میرا ساتھ چهوڑ رہے ہو...میں کہاں جاوں گی. ..وہ اب اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کر رہی تھی. ....
یہ میرا مسئلہ نہیں ہے ایمان...یہ تمہیں پہلے سوچ لینا چاہیے تھا. .میں کچھ نہیں کر سکتا. ..میری بات مانو تو واپس لوٹ جاو. ..وہ مڑ کر جانے لگا جبکہ وہ اس کے پاوں پکڑ کر گڑگڑانے لگی. .......
نہیں عارم ..نہیں تمہیں خدا کا واسطہ. .تمہیں تماری مما کا واسطہ. ...ایسا مت کرو..مجھے اس طرح تنہا مت کرو..میرا کون ہے تمارے علاوہ میں تمارے لیے ہی تو سب کچھ چهوڑ کر آئی ہوں..محبت کا جو سفر ہم دونوں نے ایک ساتھ شروع کیا تها اس میں مجھے بے آسرا مت کرو....تم نے جو محبت کے اتنے وعدے کیے تهے انہیں مت توڑو عارم.........اس کا سب کچھ ٹوٹ رہا تها سب کچھ ختم ہو رہا تها....انسان تو انسان پرندے بھی اپنے آشیانے کو بکهرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ..وہ اپنے آشیانے کو اجڑنے سے بچانے کے لیے ہر حد پار کر دیتے ہیں اور وہ تو ایک انسان تهی جیتی جاگتی انسان جو پیچھے بہت کچھ چهوڑ کر آئی تهی.سب کچھ ختم کر کے آئی تهی ....
عارم نے ایک جهٹکے سے اپنا پاوں آزاد کیا اور بائیک پہ جا کر بیٹھ گیا. ....وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے گئی اور اس کا بازو پکڑ لیا. ...
عارم ..میری بات سنو...میرے یہ سارے زیورات بیچ دیتے ہیں پھر میں شادی کے بعد کوئی نہ کوئی جاب کروں گی..ہم مل کر ہنسی خوشی رہیں گے....سب ٹهیک ہو جائے گا لیکن اتنا بڑا ظلم مت کرو......
اس نے غصے سے اپنا بازو چهڑا لیا.....
سوری ایمان...تم واپس لوٹ جاو. .میں کچھ نہیں کر سکتا. ..اور میں تمارے ساتھ شادی نہیں کر سکتا..اور میں تو کیا ایک بهاگی ہوئی لڑکی کے ساتھ کوئی بھی لڑکا شادی نہیں کر سکتا..اب تمارے دامن پہ داغ لگ چکا ہے اور ایک داغ دار لڑکی کو کوئی قبول نہیں کرتا...وہ بائیک سٹارٹ کر کے ایک سکینڈ میں وہاں سے روانہ ہو گیا. ...
اور وہ پاگلوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے بهاگتی ہوئی سنسان سڑک پہ آئی ...دس سیکنڈز سے بھی کم وقت میں اس کی بائیک غائب ہو چکی تهی اور وہ اتنے بڑے سڑک پہ تنہا رہ گئی.........
کوئی راستہ کوئی منزل نہ بچا تها....اتنی بڑی زمین پہ اس کے لیے کوئی جگہ نہ تهی ...وہ اتنے بڑی دنیا کے اتنے بڑے شہر کی اتنی بڑی سڑک پہ تنہا کهڑی تهی..کوئی پناہ گاہ کوئی ٹهکانہ نہیں بچا تها ایمان علی کے لیے....
جب یہ زمین نہیں بدلی آسمان نہیں بدلا ، ستارے نہیں بدلے تو عارم کیوں بدل گیا ..وہ کیوں بدل گیا....
جو آنسو پونچھتے تهے نہ اب وہ اپنا رہا _____
جو آنکهیں دیکهتی تهیں نہ اب وہ سپنا رہا _____
اندهیری رات میں آسمان تلے وہ اکیلی کهڑی تهی 
بے آسرا ...تنہا ..لاوارث. ...
وہ محبت اس کا وہ ساتھی جا کے لیے وہ اپنا سب کچھ چهوڑ کر آئی تهی وہ نہیں تها اس کے ساتھ  .
وہ اسے بے سائبان کر کے ذلتوں کے اس سفر میں  تنہا کر گیا..وہ پهولوں والے راستے تک تو اس کے ساتھ چلا لیکن کانٹوں بهرے راستے میں وہ اس کا ہاتھ چهوڑ گیا...ان کانٹوں پہ اسے اکیلے چلنا تها..زندگی کی مشکل راہوں میں وہ اکیلی رہ گئی..محبتوں کے دعوے کرنے والا وہ محبتوں کا دعویدار اپنے ہر دعوے کو اپنے ہی پاوں تلے روند کر چلا گیا.وہ دل کے ہاتهوں کتنی مجبور ہو کر اپنا سب کچھ چهوڑ کر آئی تهی جو کام اسے نہیں کرنا تها وہ بھی کر گئی...اس کے سر پہ کہیں چهت نہیں تهی زمین پہ کوئی ایسا آشیانہ نہیں تها جس پہ وہ بسیرا کرتا. ..اس کی آنکھوں نے رونے سے انکار کر دیا. ....اب آنسو کے لیے سارا سفر پڑا تها...اب اسے ساری زندگی رونا تها......
نہ وہ آگے جا سکتی تهی اور نہ پیچھے..ہر راستہ بند ہو چکا تها ..اس نے جو کیا اس کا کچھ بھی حاصل نہیں تها.. ..سب کچھ اپنے ہاتهوں سے ہی تو ختم کر کے آئی تهی ..اب کہاں جاتی ..کہاں سے کوئی پناہ گاہ ڈهونڈتی ..اتنی بڑی کائنات میں اس زمین و آسمان کے درمیان اس کے لیے ایک معمولی جھونپڑی تک نہ تهی جس میں وہ آسرا تلاش کرتی....
________________________________
رات کے بارہ بج رہے تھے وہ لڑکهڑاتے قدموں کے ساتھ سنسان سڑک پہ چل رہی تهی .سب کچھ ختم ہو چکا تها اب زندگی کے لیے کیا باقی رہ گیا تها....
اس کے قدموں سے آہستہ آہستہ جان نکل رہی تهی لیکن وہ مر نہیں رہی تهی وہ زندہ تهی اپنی زندگی اپنی قسمت کا تماشا دیکھنے کے لیے. .اب اور کیا دیکھنا باقی رہ گیا تها. .................
اس نے سر اٹها کر آسمان کی طرف دیکها. ......
یا اللہ اپنے اس زمین کو حکم دیں یہ پهٹ جائے اور میں اس میں سما جاوں یا پھر آسمان سے کہیں وہ میرے سر پہ گر جائے ...یا ....یا..پهر کچھ ایسا کریں میں اس سڑک سے ہی غائب ہو جاوں.....وہ روتے ہوئے گڑگڑا کر اللہ سے اپنے لیے موت مانگ رہی تهی.........
شاباش ایمان علی شاباش. ...بہت اچها کیا تم نے بہت ہی اچھا کیا تم نے...تم اپنے والدین کو بهری محفل میں رسوا کر کے آئی تهی اور اللہ نے تمہیں اس سنسان سڑک پہ رسوا کر دیا...ہر دروازہ تمارے لیے بند کر دیا ..اب کہاں جاو گی کسے پکارو گی ...ہے کوئی تمارا اللہ کے سوا اس ویران سڑک پہ .........
اس کی اپنی ہی تصویر سڑک پہ کهڑے ہو کر اس پہ مسکرا رہی تهی...اسے لگا جیسے سب اس پہ اس کی بے بسی پہ ہنس رہے ہوں...یہ زمین یہ آسمان ...یہ ستارے.یہ سڑک یہ اونچی اونچی عمارتیں..وہ بے جان قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی مین روڈ پہ آئی یہاں وقفے وقفے سے گاڑیاں گزر رہی تهیں ..وہ اب سڑک کے بیچوں بیچ آ کر کهڑی ہو گئی.  ...
اللہ اسے نہیں مارتا تو کیا ہوا وہ خود ہی اپنا وجود ختم کرے گی یہیں کسی گاڑی کے نیچے آ کر......
وہ آنکھیں بند کر کے موت کا انتظار کر رہی تھی ..
اچانک اسے ایک گاڑی کی آواز آئی...اس کے ہونٹوں پہ زخمی مسکراہٹ ابهری. ...اور اگلے ہی پل ٹائرز چرچرانے کے ساتھ وہ گاڑی سے ٹکر کر اس سڑک پہ منہ کے بل گر گئی. ..............
oh I am so sorry...
اسے اب اپنے پاس کسی مرد کی آواز سنائی دی جو اسے بازوؤں سے پکڑ کر اٹهانے کی کوشش کر رہا تھا. .اس نے زرا آنکهیں  کهول کر اس آدمی کو دیکها اور دیکهتی رہ گئی ...اس کی شکل بالکل عارم سے ملتی تهی وہ ہو بہو اس کے جیسا تها اس سے بهی زیادہ خوبصورت. .لیکن آواز تهوڑی مختلف تهی____
``````````````````````````````````````````````````
زندگی کا یہ سفر کہاں لے جائے گی ایمان علی کو جاننے کے لیے پڑهتے رہیں ہم قدم ______
پیارے دوستو جتنی شدت سے آپ لوگ ناول کا انتظار کرتے ہیں اتنا ہی اچها رسپانس بھی دیا کریں میں یہ ناول صرف آپ کے لیے ہی شئر کرتا ہوں ورنہ گوگل پہ مکمل ناول پبلش ہے تو آپ کو بھی چاہیے اپنی رائے دیں اور لائک کریں _کرنا صرف ایک کلک ہوتا ہے جس میں بھی آپ کی کنجوسی آسمان چهونے لگتی ہے__میں آپ کے کمنٹ کا جواب اگر نہیں بھی دے سکا تو پڑهتا ضرور ہوں شکریہ. ..لو یو آل....
جاری ہے______
Daily At __ 6 : 00 Pm
 [ دسمبر لوٹ آنا تم___بہت جلد انشاءاللہ ]                
میرے مزید ناولز کے لیے اور مجھ سے رابطے میں رہنے کے لئے مجهے فالو کریں ___اپنی رائے دینا نہ بهولیے گا _____
[ ہم قدم تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پر بھی دستیاب ہے ]
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••