ہم قدم از ناصر حسین|Hum Qadam Novel By Nasir Hussain Qist Number 2



1180 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


بسم اللہ الرحمن الرحیم                    
 ________________ ہم قدم  _____________
......................  قسط 2  .....................
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
Recape _____
ایمان علی شادی والی رات شادی توڑ کر گهر سے بهاگ جاتی ہے__اور جس کے لیے وہ بهاگتی ہے وہ عارم اسے دهوکہ دیتا ہے___وہ اکیلی رہ جاتی ہے__
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
رات کے بارہ بج رہے تھے ایمان لڑکهڑاتے قدموں کے ساتھ سنسان سڑک پہ چل رہی تهی .سب کچھ ختم ہو چکا تها اب زندگی کے لیے کیا باقی رہ گیا تها....
اس کے قدموں سے آہستہ آہستہ جان نکل رہی تهی لیکن وہ مر نہیں رہی تهی وہ زندہ تهی اپنی زندگی اپنی قسمت کا تماشا دیکھنے کے لیے. .اب اور کیا دیکھنا باقی رہ گیا تها. .................
اس نے سر اٹها کر آسمان کی طرف دیکها. ......
یا اللہ اپنے اس زمین کو حکم دیں یہ پهٹ جائے اور میں اس میں سما جاوں یا پھر آسمان سے کہیں وہ میرے سر پہ گر جائے ...یا ....یا..پهر کچھ ایسا کریں میں اس سڑک سے ہی غائب ہو جاوں.....وہ روتے ہوئے گڑگڑا کر اللہ سے اپنے لیے موت مانگ رہی تهی.........
شاباش ایمان علی شاباش. ...بہت اچها کیا تم نے بہت ہی اچھا کیا تم نے...تم اپنے والدین کو بهری محفل میں رسوا کر کے آئی تهی اور اللہ نے تمہیں اس سنسان سڑک پہ رسوا کر دیا...ہر دروازہ تمارے لیے بند کر دیا ..اب کہاں جاو گی کسے پکارو گی ...ہے کوئی تمارا اللہ کے سوا اس ویران سڑک پہ .........
اس کی اپنی ہی تصویر سڑک پہ کهڑے ہو کر اس پہ مسکرا رہی تهی...اسے لگا جیسے سب اس پہ اس کی بے بسی پہ ہنس رہے ہوں...یہ زمین یہ آسمان ...یہ ستارے.یہ سڑک یہ اونچی اونچی عمارتیں..وہ بے جان قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی مین روڈ پہ آئی یہاں وقفے وقفے سے گاڑیاں گزر رہی تهیں ..وہ اب سڑک کے بیچوں بیچ آ کر کهڑی ہو گئی.  ...
اللہ اسے نہیں مارتا تو کیا ہوا وہ خود ہی اپنا وجود ختم کرے گی یہیں کسی گاڑی کے نیچے آ کر......
وہ آنکھیں بند کر کے موت کا انتظار کر رہی تھی ..
اچانک اسے ایک گاڑی کی آواز آئی...اس کے ہونٹوں پہ زخمی مسکراہٹ ابهری. ...اور اگلے ہی پل ٹائرز چرچرانے کے ساتھ وہ گاڑی سے ٹکر کر اس سڑک پہ منہ کے بل گر گئی. ..............
oh I am so sorry...
اسے اب اپنے پاس کسی مرد کی آواز سنائی دی جو اسے بازوؤں سے پکڑ کر اٹهانے کی کوشش کر رہا تھا. .اس نے زرا آنکهیں  کهول کر اس آدمی کو دیکها اور دیکهتی رہ گئی ...اس کی شکل بالکل عارم سے ملتی تهی وہ ہو بہو اس کے جیسا تها اس سے بهی زیادہ خوبصورت. .لیکن آواز تهوڑی مختلف تهی.....
آئیں...آپ..کهڑی ہو جائیں. ..وہ اسے اٹهانے کی کوشش کر رہا تھا. ..لیکن اس میں اتنی طاقت کہاں تهی اس کے جسم میں تو جان ہی نہیں تهی.....
پهر اس آدمی نے اپنے بازوؤں سے اٹها کر اسے کار کی پچھلی سیٹ پہ لٹا دیا...اور خود جا کر ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا. ....
آپ ...آپ ٹهیک تو ہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی.....وہ تشویش سے پوچھ رہا تها......
وہ سمجھ رہا تها کار کی ٹکر لینے سے وہ زخمی ہو گئی لیکن اسے کیا پتا تها زخمی اسے کار نے نہیں کسی بہت اپنے نے کیا ہے.........
وہ جواب دینے کی بجائے رونے لگی. .....
ارے...رے...کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں. ..آئم سو سوری ..دراصل میں نے آپ کو دیکها نہیں تها اس لیے غلطی سے ٹکر لگ گئی. ...سوری....وہ بہت پیار سے اپنی صفائی پیش کر رہا تها...........
 وہ اب بھی کچھ نہیں بولی اور چپکے سے سسکنے لگی....
وہ ڈرائیو کرتے ہوئے بیک ویومر سے بار بار اسے دیکھ رہا تھا. ...اچانک گاڑی کو بریک لگ گئی وہ حیران ہو کر اسے دیکهنے لگی. ....
اوہ مائی گاڈ...آپ کے تو ہاتھ پہ بہت چوٹ آئی ہے ...اس کے کہنے پہ اس نے اپنے ہاتھ کو دیکها جس سے خون کے قطرے بہہ رہے تهے اسے تو احساس ہی نہیں ہوا ..ہاتھ کا زخم کیا ہے اس زخم کے سامنے جو اس کے دل پہ لگی ہے.......
وہ اب اپنی سیٹ چهوڑ کر اس کے برابر آ کر بیٹھ گیا اور اپنی پینٹ کی جیب سے رومال نکال کر اس کے ہاتھ پہ باندھنے لگا...وہ بڑے غور سے اسے دیکھ رہی تھی کتنا شفاف اور پاک چہرہ تھا. ..اور وہ پوری دلچسپی کے ساتھ رومال باندھ رہا تها جیسے یہ بہت ضروری کام ہو....اس کی نظریں اپنے چہرے پہ پا کر وہ رومال باندهتے باندهتے رک گیا اور اسے دیکهنے لگا......
آئم سوری. ..آپ کو میری وجہ سے اتنی تکلیف ہوئی...وہ خواہ مخواہ شرمندہ ہو رہا تها حالانکہ غلطی اس کی بالکل نہیں تهی....رومال باندھ کر وہ ایک بار پھر ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا .......
ویسے اتنی رات کو آپ کہاں جا رہی تھیں. ..؟ اس نے بیک ویومر سے دیکهتے ہوئے اس سے پوچھا. ....
کہاں جا سکتی ہوں.کوئی راستہ بچہ ہی کہاں ہے..اس زمین پہ اب میرے لیے کوئی آشیانہ نہیں رہا....
اس نے جواب نہیں دیا  پھر سے سسکنے لگی. ...
ارے...اوکے...اوکے...نہیں بتائیں. .لیکن روئیں نہیں پلیز. ....
تهوڑی دیر کار میں خاموشی رہی پهر اس خاموشی کو اس نے خود ہی توڑا.....
آپ کا نام کیا ہے....؟
ایمان .....اس کی آواز اٹک رہی تهی گلے میں. .
ماشاءاللہ بہت پیارا نام ہے. ..میرا نام ساحل صدیقی ہے.....اس نے خود ہی اپنا نام بتایا.......
 کار میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی. .....
آپ نے مجھے کیوں بچایا....وہ روتے ہوئے بولی جبکہ اس نے حیران ہوتے ہوئے مڑ کر اسے دیکھا ...
جی....؟
آپ نے مجھے کیوں بچایا مرنے کیوں نہیں دیا مجھے. .
لیکن آپ مرنا کیوں چاہتی ہیں. ...؟
میں مرنا نہیں چاہتی لیکن میں جینا بھی نہیں چاہتی..مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہے اور اپنے آپ سے بھی. .وہ جنونی انداز میں بولی...
زندگی سے تو سب پیار کرتے ہیں پهر آپ موت کو کیوں بلانا چاہ رہی ہیں. .
میں زندہ رہ کر کیا کروں..جینے کی کوئی وجہ ہی نہیں بچی...آنسو اس کے دامن میں گر رہے تهے..اس نے اپنے ہاتهوں کو دیکها جن پہ مہندی لگی تهی اور پھر اس نے اپنے عروسی لباس کو دیکها ......
زندہ رہ کر ہی آپ کو زندگی کی وجہ مل سکتی ہے .مرنا کسی مشکل کا علاج نہیں ہے یہ صرف بزدل لوگوں کا کام ہے...اس نے رسانیت سے سمجهایا...
لیکن کچھ لوگوں کو زندگی بهی نہیں اپناتی. وہ  نم آواز میں بولی...........
لیکن ہوا کیا آپ کو...آپ نے یہ شادی والے کپڑے پہنے ہیں اور اتنی رات کو آپ سڑک پہ کیا کر رہیں تهیں....وہ تشویش اور تجسس سے پوچهنے لگا....
آپ کو کیا لگتا ہے میں اتنی رات کو یہاں کیا کرنے آئی ہوں..اس نے الٹا سوال کیا....
مجھے کچھ نہیں لگتا اس لیے تو آپ سے پوچھ رہا ہوں ..آپ مجھے بتائیں ہو سکتا ہے میں آپ کا درد سمجھ جاوں...ساحل نے کہا. .......
نہیں آپ نہیں سمجھ سکتے...کیا آپ سمجھ سکتے ہیں اس لڑکی کا درد جس کا لیے نہ زمین پہ جگہ ہے اور نہ آسمان پہ....کیا آپ سمجھ سکتے ہیں اس لڑکی کا درد جسے زبح کر کے چهوڑ دی گئی ہو اور اب نہ وہ جی سکتی ہے اور نہ مر سکتی ہے......آپ نہیں سمجھ سکتے اس لڑکی کا درد جس کے پیچھے کنواں اور آگے کهائی ہے جو پل صراط پر کهڑی ہے.....وہ بهرائی ہوئی آواز میں بولی. ......
   کیا آپ بنا روئے بات کر سکتی ہیں. ..؟ ایمان نے گهور کر اسے دیکھا مگر کہا کچھ نہیں. .......
کیا آپ کی شادی زبردستی کسی سے ہو رہی تهی اور آپ اس لیے گهر سے بهاگ آئیں...اس نے خود سے اندازہ لگایا. .
ہاں.....اس نے ایک لفظی جواب دیا  ......
کیا آپ اپنے ہونے والے شوہر کو پسند نہیں کرتی تهیں.....
ہاں....
کسی اور سے پیار کرتی تهیں کیا...؟ اس نے بیک ویومر سے اسے غور سے دیکھا. ....
ہاں...اس نے منہ دوسری طرف کر کے جواب دیا...
تو وہ کہاں ہے.... .؟
کون...؟ اب وہ اسے دیکھ رہی تهی......
جس سے آپ پیار کرتی تهیں. .....
وہ چلا گیا...اس کے دل میں اچانک نفرت پیدا ہو گئی..اور آنکهوں کے سامنے عارم کا سفاک چہرہ گهوم گیا...
کہاں گیا...؟ کیوں گیا....؟..
مجھے چهوڑ کر چلا گیا وہ...اس کی آواز ٹوٹی ہوئی تهی.....
کیوں....؟
کیوں کہ وہ مجھ سے پیار نہیں کرتا تها اگر پیار کرتا تو کهبی میرا ساتھ نہیں چهوڑتا.....اس کی آواز کهائی سے آئی.....
کمال ہے آپ نے جس کے لیے اپنا سب کچھ چهوڑ دیا وہ آپ کو چهوڑ کر چلا گیا....وہ حیران ہوا......
وہ کچھ نہیں بول سکی.....
تم محبت کرنے والے بھی عجیب ہوتے ہو..خود بھی نہیں جانتے ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے ہو....
عجیب نہیں بے وقوف ہوتی ہیں. ..اور صرف  ہم لڑکیاں..مرد کی محبت کے سہارے پیچھے بہت کچھ چهوڑ آتی ہیں ایک رشتے کے لیے کئی رشتے توڑ آتی ہیں اور جس کے لیے سب کچھ چهوڑ دیتے ہیں وہی ہمیں چهوڑ دیتا ہے. .وہ شکستہ لہجے میں بولی.........
ویسے وہ بدنصیب تها کون ..؟ جس نے آپ جیسی خوبصورت اور اچهی لڑکی کا دل توڑ دیا....اس نے مسکرا کر پوچھا. ......
بدنصیب وہ نہیں تها بد نصیب تو میں ہوں..اور دنیا میں ہر کسی کو اچهائی اور خوبصورتی نظر نہیں آتی ..کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے لیے پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے. ..وہ دانت پیس کر بولی......
ویسے کمال ہے. .یہ کوئی فلمی سین لگ رہا ہے مجھے .ایک لڑکی جس  کے لیے اپنا سب کچھ چهوڑ آتی ہے وہی لڑکا اسے محبت کے سفر میں اکیلا کر جاتا ہے  .اور پھر لڑکی دلہن کے لباس میں سڑک پہ اکیلی رہ جاتی ہے.....اس نے ہنستے ہوئے کہا. ....
آپ کو یہ سب فلمی سین لگ رہا ہے اڈیٹ..یہاں کسی کی زندگی تباہ ہو گئی..کسی کے اوپر آسمان گر گیا اور آپ کو یہ فلمی سین لگ رہا ہے....وہ چلا کر بولی. .وہ ایک بار پھر قہقہہ لگانے لگا ........
اوکے سوری..ویسے اب کہاں جاو گی....؟ بڑی دیر بعد وہ بولا....
کہاں جا سکتی ہوں....؟
کہیں بھی اللہ کی زمین بہت بڑی ہے.......
جو لڑکی اپنے پیچھے ساری کشتیاں جلا کر آئی ہو اور آگے بهی رستہ بند ہو..جسے آسمان اپنی بانہوں میں نہ چهپا سکے زمین پناہ دینے سے انکار کرے..وہ لڑکی کہاں جا سکتی ہے. ؟ وہ بے بسی سے بولی......
مجھے تو اس لڑکے سے نفرت ہونے لگی ہے. بہت نیچ حرکت کی ہے اس نے اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا. .وہ دکھ سے بولا.......
مجھے تو اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی ہے ..کیوں کیا میں نے یہ سب..؟ میں اس لڑکے کو پہچان کیوں نہیں سکی..میں اتنی بڑی غلطی اتنا بڑا گناہ کیسے کر گئی...اور میں. ..اس کی بات ادھوری رہ گئی......اچانک گاڑی جهٹکا کها کر رک گئی.....
 ○●○●○●○●○●○●○●○●○●
 ناصر حسین مکمل ناولز___
دسمبر لوٹ آنا تم_____
 دهڑکن______
جیون ساتھی_____ 
تم سے اچها کون ہے____
ہم قدم____
 دلہن _____
ناگن اور شکاری____
دل کی عدالت____ 
ہم تم اور محبت____ 
خونی قبرستان____
 منزل ____
موت کی آواز___
 اصراط___
ایمان اور عشق __
جنت کی کنجی ___
گوگل پہ تمام ناولز دستیاب ہیں________
○●○●○●○●○●○●○●○●○●
اس نے ساحل کو دیکها وہ منہ کهولے سامنے دیکھ رہا تھا. .اس نے بھی سامنے دیکها....کچھ پولیس والے اور کچھ لڑکے لڑکیوں کے جوڑے کهڑے تهے..جنہیں پولیس نے پکڑ رکها تها ..اور وہ رو رو کر پتا نہیں پولیس والے سے کیا کہہ رہے تھے. ..اچانک اس نے ایک پولیس والے کو اپنی طرف آتے دیکھا.   ..
اس نے گاڑی کے پاس آ کر ڈرائیونگ سیٹ کا شیشہ اپنے ڈنڈے سے بجایا...ساحل نے شیشہ نیچے گرا دیا. ....
باہر آو..اس پولیس والے نے ایک حقیر نظر اس پہ ڈال کر ساحل کو حکم دیا..ساحل گاڑی سے باہر نکل چکا تها..
کون ہو تم لوگ اور اتنی رات کو یہاں کیا کر رہے ہو. .اس پولیس والے نے کرختگی سے پوچھا   ...وہ اندر بیٹهی ان کی باتیں سن رہی تهی. .. ..
جی ..وہ...ہم...ساحل اٹک رہا تها کچھ بول نہیں سکا ...
یہاں ریڈ پڑی ہے پتر...کئی لڑکے اور لڑکیاں بدکاری کرتے ہوئے پکڑے گئے.کہیں تم لوگ انہی میں سے تو نہیں ہوا..وہ غصے سے بولا.....ساحل بھونچکا رہ گیا...اور اس پہ جیسے بجلی گری ہو.....اب یہ سننا بھی باقی رہ گیا تها...
نہیں. ..نہیں.  .نہیں. .سر آپ غلط سمجھ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں  ہے....اس نے ساحل کو کہتے ہوئے سنا....
اچها....تو یہ لڑکی کون ہے ...؟ آدهی رات کو کسے لے کر گهوم رہے ہو...پولیس والا نے حقارت سے اسے دیکھا ....
جی سر...یہ...یہ...اس نے ماتهے پہ آیا پسینہ پونچها. .
ہاں یہی...اب کیوں زبان اٹک رہی ہے ..پولیس والا گرج کر بولا......
سر...وہ...یہ...یہ..اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تها وہ کیا کہے.....
بتا وے.... بولتا کیوں نہیں. ..اب کی بار پولیس نے ڈنڈا اس کی ٹھوڑی کے اوپر رکھ کر اس کا سر اوپر کر دیا. .وہ حیرت سے یہ سب دیکھ رہی تهی.....
سر ..وہ..یہ..یہ ..میری بیوی ہے...وہ اس کے جهوٹ پہ برف بن گئی..اور پولیس والا ساحل کو چهوڑ کر اس کے پاس آیا.....
کیوں محترمہ یہ سہی کہہ رہا ہے آپ اس کی بیوی ہو...اس نے ایک نظر گھبرائے ہوئے ساحل کو دیکها. .اور سر اثبات میں ہلا دیا .....
اچها تو نکاح نامہ دکهاو....پولیس والا ایک بار پھر ساحل کی طرف متوجہ ہوا .اس کے انداز سے واضح لگ رہا تها وہ اس جهوٹ سے مطمئن نہیں ہوا......
نکاح...نامہ...نکاح نامہ..یہاں کہاں ہے وہ ..تو...وہ..تو گهر میں ہے ناں...ساحل پهر سے اٹکا..
کیا میرے ماتهے پہ کچھ لکها ہے...بے وقوف سمجهتے ہو تم لوگ پولیس والوں کو..بڑے باپوں کی بگڑی ہوئی اولاد. .....
نہیں. .نہیں سر ایسا کچھ نہیں ہے آپ یقین کریں. .میں سچ کہہ رہا ہوں...وہ گڑبڑا کر بولا. ....
ٹهیک ہے مان لیتے ہیں تم سچ کہہ رہے ہو. .تو ابهی کے ابهی گهر فون کر کے اپنا نکاح نامہ منگواو...یا پھر جیل چلو . نہیں تو تم کوگ آج بچ کر نہیں جا سکتے....وہ کانپ گیا....یہ دونوں کام وہ نہیں کر سکتا تها. .اگر جیل گیا تو مما پاپا کو پتا چل جائے گا وہ تو اس کی جان لے لیں گے..اس کا دل بری طرح لرز رہا تها.......وہ ساحل کی حالت اچهی طرح سمجھ سکتی تهی..کیونکہ یہی حالت اس کی اپنی تهی...
سر....کوئی...اور راستہ نہیں ہے. ..بیچ میں سے. ..
رشوت دینے کی کوشش کر رہے ہو....پولیس والا دهاڑ کر بولا....
نہیں. ..نہیں. ..سر...ایسا نہیں ہے مطلب کوئی اور طریقہ جو .....پولیس والے نے اس کی بات کاٹ دی...
ہے ایک طریقہ. .جو ہم باقی جوڑوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہی آپ کو بهی کرنا ہو گا ..نہیں تو جیل....
کون...کون...سا...کیا طریقہ. ...؟ ساحل نے بے تابی سے پوچھا ....
نکاح.....پولیس والے نے ان دونوں کی سماعتوں پہ دهماکہ کر دیا.....   وہ دونوں حیران ہو کر ایک دوسرے کو دیکهنے لگے  .....
نکاح ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے تم لوگ بچ سکتے ہو. یہاں باقی جوڑوں کے بهی نکاح ہو رہے ہیں. نکاح خاں کو بھی بلایا گیا ہے. ..نکاح کے بعد ہی تم لوگ آزاد ہو سکتے ہو...... 
[ ہم قدم تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پر بھی دستیاب ہے ]
لیکن ہم لوگوں کا نکاح تو پہلے ہو چکا ہے...وہ کهوکهلی آواز میں بولا. ..
تو دوسری بار کرنے میں کیا حرج ہے. ابے.؟..فیصلہ تم لوگوں کے ہاتھ میں ہے. ..یا تو دونوں جیل چلو یا پھر نکاح کرو..اچهی طرح سوچ لو میں پانچ منٹ بعد آوں گا..پولیس والا اس کی گاڑی کی چابی نکال کر وہاں سے چلا گیا...اور وہ وہیں ساکت ہو گیا...جبکہ وہ اندر ساکت بیٹهی تهی.........
پهر وہ اضطراب کی عالم میں آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور سر سیٹ پہ ٹکا دیا...وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی.پورے دو منٹ کار میں خاموشی چهائی رہی ....
کیا کریں....اس نے دو منٹ بعد ساحل کی آواز سنی.....
مجھے نہیں پتا...میں تو پہلے سے ہی راکھ ہو چکی ہوں..وہ آنسو کو پیتے ہوئے بولی  ...
نکاح کر لیں....؟ وہ منہ کهولے اسے دیکھ رہی تھی اب وہ بھی پیچھے مڑ کر اسے دیکھ رہا تھا. .....
نکاح...میں. ..کیسے...نہیں....اس کی زبان لڑکهڑائی...
دیکهو میں جانتا ہوں یہ مشکل ہے لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں ہے. .اگر ہم نے نکاح نہیں کیا تو یہ لوگ ہمیں جیل میں ڈال دیں گے..اگر پاپا کو پتا چل گیا میں اس کیس میں جلا چلا گیا ہوں تو وہ میری جان لے لیں گے...اور جو بدنامی ہو گی وہ الگ..دیکهو میں چاہتا ہوں ہم صرف پولیس والوں کو دکهانے کے لیے نکاح کریں...اور یہاں سے آزاد ہو کر اسے رشتے کو ختم کریں.....وہ خاموشی سے اس کی بات سن رہی تهی...وہ جواباً کچھ نہیں بولی..وہ تو پہلے ہی مر چکی تهی ..گردن کسی اور نے کاٹ دی  اب چاہے اس کی جتنی بوٹیاں کی جائیں اسے فرق نہیں پڑنا تها.......
اس نے ایک پل اس کے جواب کا انتظار کیا ..اسے نہ بولتا پا کر وہ ایک بار پھر بولنے لگا.. ....
دیکهو پلیز میری مشکل سمجهو...تهوڑی  دیر پہلے میں تمارا مذاق اڑا رہا تها لیکن اب میں خود اس پل صراط پہ کهڑا ہوں ..میں تمارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں میرے لیے یہ قربانی دے دو...پلیز  ..وہ بس اس کے جڑے ہوئے ہاتهوں کو دیکھ رہی تھی. ...کتنا عجیب شخص تها یہ ساری کی ساری مصیبت اس کی وجہ سے آئی تهی اور وہ اس سے شکایت کرنے کی بجائے اس کے آگے ہاتھ جوڑ رہا تها..وہ اگر اسے اپنی گاڑی میں نہ بٹھاتا اور اکیلے سفر کر رہا ہوتا تو وہ کهبی اس آفت کا شکار نہ ہوتا....اور...اب....
وہ ہاں یا ناں کچھ نہیں بولی. ..انکار یا اقرار میں نکلنے والا ہر لفظ اس کے منہ میں ہی رہ گیا..اس نے تو بس اثبات میں سر ہلا دیا. .اور وہ ایسے خوش ہوا تها جیسے اس کے سر سے منوں بوجھ اتر گیا ہو ..اس نے کهبی نہیں سوچا تها وہ زندگی کے اس موڑ پہ آ کر اتنی مجبور ہو جائے گی لیکن سوچا تو اس نے یہ بھی نہیں تها عارم اس کے ساتھ یہ سب کرے گا اور اسے کانٹوں بهرے راستے میں تنہا چهوڑ دے گا.
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺗﮭﺎ......
۔ﯾﻮﮞ ﺑﯿﭻ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﮐﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﭼﺎ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ. .
...اتنے میں وہ پولیس والا بھی واپس آ گیا.....
ہاں تو لیلیٰ مجنوں کی جوڑی کیا سوچا تم لوگوں نے. .اس نے سر گاڑی کے اندر ڈالا کر طنزیہ لہجے میں پوچھا. .... 
ہم نکاح کے لیے تیار ہیں. ..ساحل نے سنجیدگی سے جواب دیا....
اوے شاباش. .چلو آو اب نیچے اترو...وہ گاڑی سے باہر آیا اور اس کی طرف کا دروازہ کهول کر اس کے نکلنے کا انتظار کرنے لگا...وہ اپنا بهاری لہنگا سنبهالتی ہوئے باہر آئی...اور پھر وہ دونوں پولیس والے کے پیچھے پیچھے چلنے لگے.....وہ پولیس والا انہیں ایک چهوٹے سے کمرے میں لے گیا جہاں پہلے بھی کئی جوڑے بیٹهے ہوئے تهے ...وہ دونوں بھی وہیں بیٹھ گئے. ...آدهے گهنٹے کے اندر اندر ان کا نکاح ہو گیا اور پھر جب وہ اس کمرے سے باہر نکلے تو ایک نئے رشتے کے ساتھ. ..ایک ایسا رشتہ جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تها یہ تقدیر کاتب کا فیصلہ تها اور خدا اپنے فیصلے بہتر جانتا ہے..........
[ ہم قدم تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پر بھی دستیاب ہے ]
I am Sorry .I am felling gilti...Please forgive me and thanks for your Sport..
آپ کو میری وجہ سے اتنی تکلیف اٹهانی پڑی....جب وہ کار ڈرائیو کر رہا تها تب اس نے کہا ...وہ اس سے کہہ نہ سکی کہ تکلیف تو اسے اٹهانی پڑی ....وہ ایک بار پھر خاموشی سے باہر دیکھنے لگی تهی......
یہ تهی اس کی قسمت ......اس کے ابو اس کی شادی شہزاد سے کرنا چاہتے تهے اور وہ عارم کے پیچھے شہزاد کو چهوڑ آئی اور عارم اسے چهوڑ گیا..اور اس کا نکاح کس سے ہونا چاہیے تھا اور کس سے ہو گیا..ایک ایسے اجنبی سے جس سے وہ صرف دو گهنٹے پہلے ملی تهی.   جس کا نام تک اس نے زندگی میں کهبی نہیں سنا تها.......
شہزاد سے عارم اور عارم سے ساحل یہیں تک کا تها اس کا سفر. .معجزہ اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے ..اس سے بھی بڑا کوئی معجزہ ہو سکتا ہے دنیا میں. .یہ تقدیر نے کیسا عجیب و غریب مذاق کیا تها اسکے ساتھ. .اس نے زندگی میں کهبی نہیں سوچا تها کہ اسے کسی سے پیار ہو گا اور اس پیار کے لیے وہ اپنی شادی کے دن گهر سے بهاگ آئے گی اور جس کے لیے بهاگ آئے گی وہ اسے دهوکہ دے جائے گا اور پھر اس کی ملاقات ایک اجنبی سے ہوگی  اور اس اجنبی سے ہی اس کا نکاح ہو گا. ..ایک رات صرف ایک رات میں کیا کیا کچھ ہو گیا کتنا کچھ بدل گیا ...جو اس کے ساتھ ہوا.. ایسا تو کسی فلم کسی ڈرامے میں بھی نہیں ہوتا..................
کن خیالوں میں گم ہیں آپ......وہ ساحل کی آواز پہ چونکی......مگر بولی کچھ نہیں. ....
دیکهیں جو ہوا اسے بهول جائیں..ایک برا خواب سمجھ کر. .بعض اوقات زندگی میں انسان تقدیر کے سامنے ہار جاتا ہے. .ایک سوچ انسان اپنے لیے خود سوچتا ہے اور ایک خدا اس کے لیے سوچتا ہے.............
انسان جو سوچتا ہے ناں...تقدیر اور دنیا اس کی سوچ کے مطابق کهبی نہیں چلتا. ..اس لیے ہمیں تقدیر کے فیصلوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لینا چاہیے. ...وہ اسے ایسے سمجها رہا تها جیسے کسی چهوٹے بچے کو سمجهایا جاتا ہے. ......
سمجهوتہ. .....؟
میں سانس لے رہی ہوں اس سے بڑا سمجهوتہ اور کیا ہو سکتا ہے ..جو میرے ساتھ ہوا اس کے بعد سانس لینا کسی معجزے سے کم تو نہیں ہے مسٹر ساحل....وہ کرب سے بولی............
میں آپ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں...آپ کے ساتھ جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن جو ہوا وہ تو ہو چکا ہے ناں...؟ اسے تو کوئی بدل نہیں سکتا...جو ہو چکا ہوتا ہے اسے بهولنے میں ہی سمجهداری ہے اور جو ہونا ہوتا ہے اس کے لیے سوچ سوچ کر اپنے آج کو خراب نہیں کرنا چاہیے. ....آپ جس طرح چاہتی تهیں وہ نہیں ہوا اب آپ یہ سوچ کر صبر کر لیں جو ہوا وہ خدا کی مرضی سے ہوا. ............
کہنا بہت آسان ہے لیکن جس پہ قیامت گزرتی ہے ناں اس کا درد کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا ..کیسے مان لوں تقدیر کا یہ فیصلہ کیسے سمجهوتہ کروں جسے میں نے چاہا جس کے لیے میں نے اپنا سب کچھ چهوڑ دیا وہ میرا نہیں ہوا..وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی. ...
اب آپ کہاں جائیں گی....؟ اس نے موضوع تبدیل کر دیا. .
کہاں جاوں گی..اس نے جیسے اپنے آپ سے سوال کیا..
پتا ہے ایمان جی..میرے پاپا کہتے ہیں  مجھ میں ایک خامی ہے میں کسی کو کهبی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا. ..اور اس کی تکلیف دور کرنے کے لیے آخری حد تک جا سکتا ہوں...اور مجھے لگتا ہے یہی میری سب سے بڑی خصوصیت ہے میں دوسرے کا درد اچهے سے سمجھ سکتا ہوں....اب اگر میں آپ کو یہیں کہیں پہ اتار دوں تو ہو سکتا ہے آپ ایک بار پھر خودکشی کی کوشش کریں..اور میری ایک غلطی کی وجہ سے کسی کی قیمتی جان ضائع ہو جائے گی جس کے لیے میں خود کو کهبی معاف نہیں کروں گا..............
ہمیں ملے ہوئے تین گهنٹے ہو چکے ہیں اور آپ میرے سفر کی ہم سفر بن گئیں..اور ہم سفر کو کهبی تنہا نہیں چهوڑا کرتے.......
وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی.ایسا انسان اس نے زندگی میں کهبی نہیں دیکها تها ...
اور اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گهر چلیں..جب تک آپ کی تکلیف کی شدت میں کمی نہیں آ جاتی آپ وہیں رہیں....
وہ بولنا چاہتی تهی کہ اس کی تکلیف میں اب کهبی کمی نہیں آئے گی....
ٹهیک ہے ناں...آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے ناں... ..
زبان تو بولنے سے انکاری ہو گئی..اس نے سر اثبات میں ہلا دیا. ....شاید یہ اس کی قسمت کا فیصلہ ہو...پتا نہیں زندگی اس کے ساتھ آگے کیا کیا کرنے والی تهی اور کون سا زخم باقی تهی ابهی....باقی کا راستہ خاموشی سے کٹا...گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگائے روتے روتے جانے کب اس کی آنکھ لگی اور وہ کتنی دیر تک سوتی رہی...پهر اس کی آنکھ تب کهلی جب جهٹکے سے گاڑی رک گئی....اس نے آنکھیں مسلتے   ہوئے سامنے دیکها لیکن وہ گاڑی کے اندر نہیں تها اس نے حیرت سے دوسری طرف دیکها تو وہ اسے نظر آ ہی گیا....وہ اب اس کی سائیڈ والا دروازہ کهول رہا تها..وہ آہستہ سے نیچے اپنا قدم رکھ رہی تهی....
[ ہم قدم تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پر بھی دستیاب ہے ]
چلیں.....؟ اس نے پوچھا ....
وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی...رات کی تاریکی ہر طرف پهیلی ہوئی تهی...اس نے نظر اٹها کر سامنے دیکها ...سامنے ایک عالیشان عمارت تهی جس کے چاروں طرف خوبصورت لائٹس لگے ہوئے تهے...اندهیرے کی وجہ سے وہ ادهر ادهر کچھ بھی دیکھ نہیں پا رہی تهی لیکن وہ عمارت کو اچهے سے دیکھ سکتی تهی..کوئی محل لگ رہا تها........
ساحل چلتے ہوئے بار بار اسے دیکھ رہا تھا. .اس نے بہ مشکل اپنے آنسو روک رکهے تهے. .......
   گهر کے بڑے لکڑی کے دروازے پہ پہنچ کر دونوں کے قدم رک گئے اس نے نگاہ اٹها کر ساحل کو دیکها وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تها...اور مسکر کر اشارے سے اسے رونے سے منع کر دیا..اس کی دهڑکن کی رفتار عجیب ہو گئی.. وہ ڈر بهی رہی تهی گهبرا بھی رہی تهی ..وہ اکیلی اس اجنبی پہ بهروسہ کر کے آ تو گئی لیکن پتا نہیں وہ کس فطرت کا انسان ہے. ..تین گهنٹے صرف تین گهنٹوں میں تو کوئی کسی کے بارے میں نہیں جان جاتا....جب وہ دو سال ایک لڑکے سے محبت کر کے ہر وقت اس کے ساتھ رہ کر اسے نہ پہچان سکی تو تین گهنٹوں میں کسی انسان کو کیسے پہچانے گی وہ......ذہانت کے دعوے تو ایمان علی بہت پیچھے چھوڑ آئی..کسی بے درد ظالم نے اسے ایسی لات ماری اب وہ زندگی بهر سر اٹها کر چل نہیں سکے گی....اب وہ زندگی بھر کهبی محبت پہ بهروسہ نہیں کرے گی..انسانوں پر اور خصوصاً مردوں پر بهروسہ کرنا وہ چهوڑ چکی تهی..ایمان علی ایک ہی رات میں سمجھ چکی تهی انسانوں کو...دنیا کو...ایک ہی رات میں وہ زندگی کا وہ تجربہ کر چکی تهی جو کئی لوگ ساری زندگی بهی نہیں کر پاتے.. .........
جو ہو چکا ہے اس سے زیادہ غلط کیا ہو سکتا ہے...اس سے غلط تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا.....
ساحل نے آگے بڑھ کر وہ خوبصورت دروازہ کهولا اور اپنے قدم اندر رکھ دیے وہ بھی چهوٹے قدم اٹهاتی اس کے پیچھے پیچھے اندر آ گئی....
اندر ہر طرف خوبصورت روشنی تهی پورا گهر چمک رہا تها..وہ آس پاس نگاہیں دوڑانے لگی. .ادھر ادھر دیکهتے ہوئے اچانک وہ ٹهٹک گئی جب اس کی نظر سامنے صوفے پہ پڑی.....
صوفے پہ ایک بڑی عمر کا شخص بیٹها تها جس کے چہرے پہ حد سے زیادہ سنجیدگی تهی وہ اسے ہی گهور کر دیکھ رہے تهے. .اور اس کے برابر والے صوفے پہ دو پکی عمر کی عورتیں بیٹهیں تهیں جن میں سے ایک کا چہرہ سپاٹ تها جبکہ دوسری تهوڑی مسکرا رہی تھی. ...اس نے نگاہیں تهوڑی مزید گهمائیں تو اسے سامنے ایک لڑکی نظر آئی جس نے جینز اور ٹی شرٹ پہن رکهی تهی ..اس کے بال کهلے ہوئے تهے وہ بھی بڑے غور سے اسے دیکھ رہی تھی. .....
اس کے برابر والے صوفے پہ جب اس کی نظر پڑی تو اس نے محسوس کیا وہ سانس لینا بهول گئی..اچانک دل دهڑکنا چهوڑ گیا ہو......
نہیں  .....نہیں. .....نہیں ....
وہ....وہ...شخص وہ...یہاں کیسے....؟ اس کا یہاں کیا کام.....
اس نے اس لڑکی کے برابر جس شخص کو کهڑے دیکها اسے وہ زندگی میں دوبارہ کهبی نہیں دیکهنا چاہتی تهی ..مرتے دم تک کهبی نہیں. ...وہ اس سے اپنا حساب کتاب اب قیامت کے دن چاہتی تهی اللہ کے سامنے اللہ کی عدالت میں لیکن وہ اس کے سامنے کهڑا تها اس سے چند قدموں کی دوری پہ.....بے ساختہ اس نے اپنے دل پہ ہاتھ رکها اور اس کے ہونٹوں سے ایک آہ نکلی.....
عارم.........
کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جنہیں انسان دوبارہ نہیں دیکهنا چاہتا لیکن قسمت ان چہروں کو بار بار انسان کے سامنے لاتا ہے. ..وہ عارم کو دیکهنا تو دور اس کا نام بھی کهبی نہیں سننا چاہتی تهی اس نے جو کیا تها نہ تو وہ بهولی تهی اور نہ ہی کهبی بهول سکتی تهی ..اس نے محبت کے سنسان راستے میں اسے تنہا کر دیا تها جس کے لیے وہ اپنی شادی چهوڑ آئی اسی شخص نے اسے ٹهکرا دیا...............
اسی رات میں کچھ گهنٹوں پہلے وہ اس سے شدید محبت کرتی تهی لیکن اس کا باطن اس مکروہ چہرہ دیکھ لینے کے بعد اس محبت کا تو وجود ہی مٹ گیا اب وہ اس سے نفرت کرتی تهی صرف نفرت. ..
. اور ایسے لوگ صرف نفرت کے قابل ہوتے ہیں ان کے لیے محبت کا جذبہ رکهنا محبت کی توہین ہے.
وہ بھی اسے حیران ہو کر دیکھ رہا تها وہ سمجھ نہ سکی وہ حیران زیادہ ہے یا شاکڈ زیادہ ہے. ..... 
"کہاں سے آ رہے ہو ساحل اتنی دیر کہاں لگا دی..؟" وہ شخص جو صوفے پہ بیٹها تها اب کهڑے ہو کر بالکل ساحل کے برابر آ گیا..اب وہ اس سے غصیلے لہجے میں سوال کر رہا تها..........
"پاپا وہ ایک دوست کے ہاں ڈنر پہ گیا تها ..وہیں سے تهوڑی دیر ہو گئی اور راستے میں گاڑی بھی خراب ہو گئی اس لیے"
...جو جهوٹ وہ راستے میں سوچ کر آیا تها وہی جهوٹ اس نے اپنے پاپا کے سامنے پیش کیا....
"اور یہ لڑکی کون ہے....؟ "
 اس کے پاپا نے ایمان کی طرف دیکھ کر دوسرا سوال کیا........
"پاپا یہ میرے اسی دوست کی بیوی ہے .ایمان علی.وہ کسی کاروباری کام کے لیے لندن چلا گیا اور یہ بیچاری گهر میں اکیلی تهی اس لیے میں اسے یہاں لے آیا. ..".
وہ سارا راستہ یہی سوچتا رہا کہ گهر والوں کے سامنے کیا بول کر ایمان کو پیش کرے ..بہت سوچنے کے بعد وہ اسی نتیجے پہ پہنچا.......
اس کے پاپا نے مزید کوئی سوال نہیں کیا....البتہ وہ ایمان سے اپنے گهر والوں کا تعارف کرانے لگا...
"ایمان جی ..یہ میرے پاپا ہیں. .. ( اکبر صدیقی) اور یہ میری مما ہیں ( زارا اکبر ) "
ساحل نے اس سپاٹ چہرے والی خاتون کی طرف اشارہ کیا جس کے چہرے پہ اب بھی سنجیدگی تهی. ..اس نے اخلاقیات نبهانے کے لیے سلام کیا جواب بھی اسی سنجیدگی سے دیا گیا ......
"اور یہ ہیں میرے پاپا کی بہن یعنی میری پهوپهی ( غزالہ عباسی )" .وہ اس عورت کی طرف اشارہ کر رہا تها جو شکل سے ہی خوش مزاج لگ رہی تهی. .....
"اسلام و علیکم. "...اس نے مری ہوئی آواز میں سلام کیا..
" وعلیکم السلام. ...خوش رہو...اور شکر ہے ساحل تم نے پہلے ہی بتا دیا اس کے بارے میں. . نہیں تو میں تو ڈر رہی تهی بهئی کہیں تم اتنی رات کو لڑکی بهگا کر تو نہیں لائے جیسے فلموں میں ہوتا ہے." ...پهوپهو مذاق کر کے خود ہی قہقہہ لگانے لگی جب کہ ساحل نے صرف مسکرانے پہ اکتفا کیا... 
" اور یہ ہے میری سب سے پیاری دوست اور میری کزن مطلب پهوپهو کی بیٹی سمرہ عباسی "...اس لڑکی نے ہاتھ کے اشارے سے مسکرا کر ہائے کہا ......
اب وہ اس شخص کا تعارف کروانے جا رہا تها جو ظلم کی انتہا تک پہنچ چکا تها....جسے دیکھ کر اس کا دل جلنے لگا..آنسو ضبط کرنے کی کوشش کے باوجود بھی دو قطرے اس کے گالوں پہ لڑهک ہی آئے.....
"اور یہ ہیں میرے چهوٹے بهائی...عارم صدیقی."..اسے لگا وہ زمین پر زیادہ دیر کهڑی نہیں رہ سکے گی ..کسی بھی پل وہ اپنا توازن کهو دے گی..........
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
Continue_ _ _ _ _ _ _ _ _
 اگلی قسط کل شام چھ بجے انشاءاللہ______

``````````````````````````````````````````````````
  دسمبر لوٹ آنا تم _____  Coming Soon
میرے مزید ناولز کے لیے اور مجھ سے رابطے میں رہنے کے لئے مجهے فالو کریں ___اپنی رائے دینا نہ بهولیے گا _____
[ ہم قدم تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پر بھی دستیاب ہے ]
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••