عشق پاگل کر دیتا ہے|Ishq Pagal Kar Deta Hai By Binish Majeed Malik Episode 26

193 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
#عشق_پاگل_کردیتا_ہے
#بینش_مجید_ملک ✍️
#سیکنڈ_لاسٹ_قسط26
وہ بس آٸی سی یو کے دروازے کو دیکھ رہی تھی۔۔سیرت اور ثمرہ کےگھر والوں کو اور ماماجی کو انفارم کر دیا تھاثمرہ نے ۔۔ وہ لوگ بھی پہنچ آۓ تھے....جیسے ہی سیرت نے ثمینہ بیگم کو دیکھا کوریڈور میں وہ روتے ہوۓ بھاگ کر ان کے گلے لگ گٸی۔۔۔
”ماماجی شاذل..ان کو گولیاں لگی ہیں...“
”اللہ خیر!!!یہ کیا کہہ رہی ہو سیرت..“ انہوں نے شاکڈ انداز میں پوچھا.....
”میں سچ کہہ رہ ہوں ۔۔ماماجی شاذل کو کچھ ہو گا تو نہیں نہ ۔۔۔“اس نے تڑپ تڑپ کر روتےہوۓ کہا۔۔۔ ان کا کلیجہ منہ کوآ گیا تھا ان کو یقین نہیں آ رہا تھا کیوں کہ ثمرہ نے ان کو صرف ہوسپٹل آنے کو کہا تھا۔۔اور کچھ نہیں بتایا تھا اس نے۔۔ وہ سیرت کی حالت دیکھ کر دہل گٸی تھیں انہوں نے تو بہت دعاٶں کے ساتھ رخصت کیا تھا۔۔۔ان کی اپنی حالت بھی غیر ہو گٸی تھی۔سیرت کو یوں بے حال روتے دیکھ کر ۔۔
”اللہ خیر کرےگا۔۔۔سیرت چپ کرو میری جان۔۔۔کچھ نہیں ہو گا شاذل کو جب تک اس کی ماں کی دعاٸیں اس کے ساتھ ہیں..... تم روٶ نہیں دعا کرو ۔۔۔اللہ نے دعاٶں میں بہت ذیادہ طاقت رکھی ہے اور وہ بہت بڑا رحیم و کریم ہے اس پر بھروسہ رکھو۔۔۔“ انہوں نے روتے ہوۓ سیرت کو کہا۔۔۔وہ خود تو بہت پریشان تھیں لیکن اس کی کو تسلی دے رہیں تھیں۔۔۔
”جج جی ماما جی۔۔۔آپ دعا کریں پلیز آپ ماں ہے آپ کی دعا ضرور قبول ہو گی ۔۔“ اس نے روتے ہوۓ کہا اور ماما جی کو لے جاکر بینچ پر بیٹھا دیا...ماماجی بینچ پر بیٹھ کر تسبیح کرنے لگ گٸی اور شاذل کی زندگی کے لیے دعا کرنے لگ گٸی تھیں وہ بھی اکلوتے بیٹے کو اس طرح ہسپتال میں دیکھ کر مرنے والی ہو چکی تھی ۔۔لیکن انہوں نے خود کو مضبوط کر لیا تھا بہت ذیادہ ۔۔ ان کا بیٹا موت اور زندگی کی جنگ لڑ تھا۔۔۔۔۔۔۔اور وہ بے بس سی بیٹھیں تھیں۔۔۔
سیرت کی امی بابا بھی آگٸے تھے ۔۔۔!!!!
سیرت کے بابا نے اس کو جب گلے لگایا تو وہ پھر رو پڑی اس کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔
سیرت کی امی کو ثمرہ نے شال اور کپڑے وغیرہ لانے کو کہا تھا سیرت کے لیے۔۔اس لیے وہ لے کر آٸیں تھیں۔۔
ثمرہ نے اس کو کپڑے چینج کرنے کو کہا تھا لیکن وہ نہیں گٸی تھی چینج کرنے ۔۔۔
وہ وہی بینچ پر بیٹھی ڈاکٹر کے باہر آنے کا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔جب آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور نرس باہر آٸی۔۔۔
”سسٹر شاذل کیسے ہیں ۔۔۔“ وہ بھاگ کے اس کے پاس پہنچی اور اس سےبے تابی سے پوچھا۔۔۔ثمرہ اور احد بھی اس کے پیچھے آۓ۔۔۔
”سسٹر شاذل کی طبیعت کیسی ہے اب۔۔؟
احدنے پوچھا۔۔۔
”آپ لوگ دعا کریں بس ۔۔۔ان کے کندھے والی گولی نکال رہے ہیں لیکن ان کا بلڈ بہت ضاٸع ہو چکا ہے ۔۔۔میں بلڈ بینک میں بلڈ دیکھنے جا رہی ہوں۔ایکسکیوز می پلیز۔۔“ وہ کہہ کر چلی گٸی۔۔۔
”بھابھی آپ چینج کر لیں۔آپ کے کپڑے بہت ذیادہ خراب ہو گٸے ہیں ۔۔“احد نے سیرت کی خون سے بھری ساڑھی کی طرف دیکھ کر کہا خون اب خشک ہو چکا تھا۔۔۔
”ٹھیک ہے احد بھاٸی۔۔“ اس نے آہستہ سے کہا اور واش روم کی طرف چلی گٸی احد نے ثمرہ کو اس کے پیچھے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔
ابھی پولیس آفیسر نے کسی سے کچھ نہیں پوچھا تھا اور سب کچھ بتا سیرت سکتی اور وہ اس پوزیشن میں نہیں تھی ابھی ۔۔۔اس لیے احد نے بھی سیرت سے کچھ نہیں پوچھا تھا وہ ابھی بھی ڈر اور خوف کے زیرِ اثر تھی۔۔
@@@@
اس نے چینج کیا اور باہر آگٸی۔۔۔
وہ ابھی کاریڈور میں آٸی ہی تھی کہ ڈاکٹر سے باہر آکر بولا۔۔۔۔۔
”پیشنٹ کےساتھ کون ہے۔؟ وہ جلدی سے بھاگ کر آگٸے گٸی اور ان کو بتایا ۔۔۔
”جی میں ہوں ان کی واٸف ہوں۔۔۔“وہ ڈاکٹر سیرت کو روتے دیکھ کر سمجھ چکا تھا وہ واٸف ہے پیشنٹ کی۔۔۔جو رو رو کر بے حال ہوٸی کھڑی تھی۔۔
”اور میں شاذل کا دوست ہوں احد... کیا ہوا ڈاکٹر سب ٹھیک تو ہے نہ۔۔؟ احد نے ان سے پوچھا وہ بھی ادھر پاس ہی کھڑا تھا ڈکٹر کی آواز سن کر ادھر آیا جلدی سے۔۔
”پیشنٹ کا بلڈ بہت ضاٸع ہو گیا ہے ..ان کی کندھے کی گولی نکل گٸی ہے اور پسلیوں کے نیچے والی نکالنے کے لیے آپریٹ کرنا ہے اس کے لیے ہمیں او (O) نیگٹیو بلڈ چاہٸیے جو کہ بلڈ بنک میں ختم ہو چکا ہے...آپ کو جلد سے جلد وہ ارینج کرنا ورنہ پیشنٹ کے لیے خطرہ بڑھ سکتا ہے۔۔اوکے آپ جلدی کریں اور ہمیں انفارم کریں۔۔تقریباً آدھا گھنٹہ ہے آپ کے پاس۔۔آپ لوگ جتنا جلدی کر لیں ارینج اتنا اچھا ہے۔۔“ڈاکٹر کہہ کر چلا گیا دوبارہ اندر اور وہ دونوں ادھر ہی کھڑے تھے حیران پریشان ،،،
ماسٹر جی ان دونوں کو ڈاکٹرسے بات کرتا دیکھ کر ان کے پاس آ گٸے۔۔۔
”کیا ہوا سیرت گڑیا....؟ کیا کہہ رہے تھے ڈاکٹر۔۔۔؟انہوں نے سیرت سے پوچھا وہ تو چپ چاپ سکتے میں کھڑی تھی۔۔۔
”انکل شاذل کے لیے بلڈ چاہیٸے او(O) نیگٹیو ۔۔۔اور وہ ملنا کتنا مشکل ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں۔۔۔“احد نے پریشانی سے ماسٹر جی کو بتایا۔۔۔
”جانتا ہوں بیٹا میں ۔۔۔ لیکن اب بلڈ تو ہمیں چاہیٸے ہی تو میں کرتاہوں کال صارم کو اس سے پوچھتے ہیں۔۔۔“ انہوں نے کہا وہ بھی کافی پریشان تھے اور صارم کو کال ملا کر تھوڑے دور چلے گٸے۔۔۔
”بھابھی آپ پریشان نہ ہو۔۔۔میں دوسرے ہوسپٹل میں کال کر کے پوچھتا ہوں ادھر سے مل جاٸے شاٸید۔۔۔“ احد نے سیرت کو تسلی دیتے ہوٸے کہا۔۔۔وہ چپ تھی بس سن رہی تھی۔۔۔۔
احد نے تین چار ہوسپٹلز میں کال کی تھی لیکن اس کو کہیں سے بھی بلڈ نہیں ملا تھا۔۔
ماسٹرجی نے صارم کو کال کر کے اس کو ہاسپٹل آنے کو کہا تھا لیکن انہوں نےاس کو کچھ بتایا نہیں تھا۔۔۔۔
@@@@
وہ جاۓ نمازپر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی شاذل کی زندگی کی۔۔۔۔
”یااللہ تو بہت رحیم وکریم ہے ۔۔تو سب جانتا ہے دلوں کے بھید جانتا ہے یا اللہ شاذل کو زندگی عطا۶ فرما اس کو بچا لے اے اللہ ہم بہت ہی گناہ گار ہے پھر بھی تجھ سے رحم کی بھیک مانگتے ہم رحم کر کرم فرما۔۔۔۔مدد کر ہماری۔۔۔“ اس نے دعا مانگ کر ہاتھوں کو منہ پر پھیرا اور اٹھ کر امی اور ماما جی کے پاس آ گٸی وہ بھی دعا کر رہی تھیں۔۔۔
احد ابھی بھی کوشش کر رہا تھا۔۔۔وہ ایک دو کلینک میں خود جاکر بھی پتا کر کے آیا تھا۔۔۔
بڑے بڑے ہوسپٹلز میں بھی ڈاکٹرز سے بات ہوٸی تھی۔۔۔ایک ہاسپٹل میں سے احد کو بلڈ مل گیا تھا اور وہ خود لینے گیا تھا ادھر سے۔۔۔
سیرت آٸی سی یو کے سامنے ادھر سے اُدھر ٹہل رہی تھی .....صارم ہاسپٹل آیا تو اس کو دور سے ہی سیرت ٹہلتی ہوٸی نظر آ گٸی۔۔۔
وہ اس کے پاس آگیا۔۔۔۔
”سیرت کیا ہوا تمہیں ۔۔؟ ماموں کدھرہیں انہوں نے مجھے کال کی ۔۔۔۔کیاہوا ہے؟کون ہے ہوسپٹل میں سب ٹھیک تو ہیں نہ۔۔۔۔؟ وہ اس سے بہت پریشانی میں تابڑ توڑ سوال پوچھ رہا تھا ....سیر ت نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔
”شش شاذل کو گولیاں لگی ہیں۔۔۔“ اس نے بتایا لیکن یہ بتاتے ہو اس کی زبان لڑکھڑا گٸی تھی۔۔۔
”شاذل۔۔۔؟ اس نے شاذل کانام دہرایا۔۔
سیرت کے منہ سے شاذل کا سن کر وہ ٹھٹھک گیا۔۔۔ اس کو ابھی تک یہ بھی نہیں پتاتھا کہ سیرت کی شادی کس سے ہوٸی بس وہ یہ جانتا تھا کہ جس گھر میں سیرت کی شادی ہوٸی ہے وہ بہت امیرلوگ ہیں۔۔
”ارے صارم تم آگٸے۔۔۔“ ماسٹرجی اس کو دیکھ کر ادھر آگٸے۔۔
”جی ماموں جی کیا ہوا کون ہے ہاسپٹل میں؟اس نے ماسٹرجی کو سلام کر کے پوچھا۔۔۔
”بیٹا شاذل کو گولیاں لگی ہیں اور شاذل سیرت کا شوہر ہے اور تمہارا بوس جس کے شوروم میں تم مینیجر ہو“ انہوں نے صارم کو بتایا۔۔۔صارم حیران سا کھڑا تھا بہت بڑا انکشاف ہوا تھا اس پر۔۔۔اس سے کچھ بولا بھی نہیں گیاتھاوہ سیرت کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
”صارم ہمیں او(O) نیگٹو بلڈ چاہیٸے جو ہاسپٹل سے نہیں مل رہا۔۔“ ماسٹرجی نے اس کو کندھے سے ہلا کر کہا۔۔سیرت نے اس کی طرف دیکھا تو ان دونوں کی نظریں ملی سیرت کی نظروں میں دکھ تھا درد تھا وہ بہت بے بس سی لگ رہی تھی اس کو ۔۔۔
”ماموں جی میرا بلڈ گروپ او(O) نیگٹو ہے آپ پریشان نہ ہو۔۔میں دوں گا بلڈ سر شاذل کو۔۔۔“ اس نے کہا۔۔۔سیرت نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔
”صارم آپ میرے ساتھ چلیں پلیز...“ اس نےصارم کا ہاتھ پکڑا اور اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گٸی...وہ دیر نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے ۔۔۔ اس کے ساتھ ماسٹر جی بھی تھے ۔۔۔ثمرہ زبیدہ بیگم اور ثمینہ بیگم کے پاس تھی۔۔۔۔
انہوں نے صارم کا بلڈ چیک کروایا اور پھر دوسرےڈاکٹر کو انفارم کیا۔۔۔
ان کو بلڈ مل گیا تھا اور شاذل کا آپریٹ سٹارٹ ہوگیا تھا لیکن احد ابھی بھی نہیں آیا تھا۔۔۔
وہ لوگ آٸی سی یو کے باہر کھڑے ڈاکٹر کے باہر آنے کا ویٹ کررہے تھے۔۔۔
فجر کی آذانیں ہونے والی تھی ۔۔۔۔لیکن ابھی تک ڈاکٹر یا نرس کوٸی بھی اندر سے باہر نہیں آیا تھا۔۔۔ٹھنڈے کوریڈور میں چلتے چلتے اس کی ٹانگیں شل ہو گٸی تھی لیکن وہ بیٹھی نہیں تھی سب نے اس کو بہت سمجھایا تھا لیکن وہ نہیں مانی تھی۔۔
@@@@
”بلڈ مل گیا سیرت بھابھی لیکن میں بہت لیٹ ہو گیا۔۔۔شاذل ٹھیک ہے نہ۔۔“ وہ سب باہر ہی کھڑے تھے جب احد آیا۔۔اور اس نے سیرت کو بتایا اور اس سے شاذل کا پوچھا۔۔۔اس نے دیکھا نہیں تھا صارم کو ......
”احد بھا ٸی!!! آپ پریشان نہ ہو ۔۔۔ہمیں بلڈ مل گیا تھا۔صارم نے دیا ہے بلڈ ان کا گرپ او نیگٹو ہے۔۔“ اس نے احد کو بتایا۔۔احد نے صارم کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔
”جی سر میرا گروپ او نیگٹو ہے۔اور جتنا ہوسکا میں دوں گا بلڈ شاذل سر کو۔“ اس نے احد کی طرف دیکھ کر کہا وہ اس کو پریشان دیکھ چکا تھا۔۔۔
احدنے بہت تشکرانہ نظروں سے صارم کو دیکھا۔۔تب ہی ڈاکٹر اندر سے باہرنکلا۔۔۔
وہ سب اس کی طرف متوجہ ہوۓ ۔۔ثمرہ ، زبیدہ اور ثمینہ بیگم جو بینچ پر بیٹھی تھی وہ بھی اٹھ کر آگٸی۔۔۔
”ڈاکٹر شاذل اب کیسے ہیں پلیز بتاٸیں۔؟ سیرت نے بہت بے تابی سے پوچھا۔۔۔
”شاذل ٹھیک تو ہےنہ ڈاکٹر۔۔“ احد نے بھی پوچھا۔۔
”مسٹر احد ہم نے آپریٹ کر کے گولیاں نکال دی ہیں....لیکن ابھی بھی ان کی کنڈیشن نہیں ٹھیک نہیں ہے۔۔بلڈ ذیادہ بہہ جانے کی وجہ سے بہت مشکل آپریٹ ہوا ہے۔۔۔آپ لوگوں کو اور بلڈ مل گیا ہو تو وہ بھی آپ بلڈ بنک میں جمع کروا دیں۔ان کو بہت ضرورت ہے بلڈ کی۔۔ابھی پیشنٹ کی زندگی خطرے میں ہی ہے وہ کب ہوش میں آتا ہے اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔لیکن آپ امید رکھیں پیشنٹ کے ہوش میں آنے کی ۔۔“ ڈاکٹر نے ان کو شاذل کی کنڈیشن بتاٸی.
”یا اللہ میرے بچے کو بچا لے ۔۔۔اس کو صحت و تندرسی عطا۶ فرما ۔۔“ ثمینہ بیگم اور زبیدہ نے اللہ سے دعا کی۔۔ زبیدہ بیگم نے ثمینہ کو گلے لگا لیا اور ثمرہ نے سیرت کو۔۔۔سیرت جب سے آٸی تھی وہ رو رہی تھی۔۔اب پھر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گٸے تھے۔۔۔
”ڈاکٹر ہم شاذل سے مل سکتے ہیں کیا۔۔۔؟ سیرت نے روتے ہوۓ جلدی سے پوچھا۔۔۔
”جی ہاں ...!!!!لیکن ذیادہ رش نہیں کرنا پیشنٹ ڈسٹرب ہوجاۓ گا۔۔اور آپ ابھی اکیلی جاٸیں۔۔۔“ انہوں نے سیرت کی حالت دیکھ اس کو اندر جانے کی اجازت دے دی۔۔۔
”اوکے۔۔!!اب میں چلتا ہوں اور مسٹر احد آپ میرے ساتھ روم میں آٸیں میں نے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔“ ڈاکٹر نے ان سے کہا اور چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔احد بھی ان کے پیچھے چلا گیا تھا۔۔۔۔
احداور ماسٹر جی ڈاکٹر کے پیچھے ان کے روم میں چلے گ.سیرت شاذل کےپاس اندر جانے لگی۔۔۔۔۔
زبیدہ بیگم اور ثمینہ بیگم دونوں نماز پڑھنے لگ گٸی تھی اور شاذل کی زندگی کے لیے دعا۔۔۔۔
ثمینہ بیگم کا دل پھٹ رہا تھا اس کو اک پل بھی چین نہیں آرہا تھا۔۔
@@@@
وہ آٸی سی یو کے اندر آگٸی تھی۔۔۔۔!!!!
شاذل پٹیوں میں جکڑا ہوا بے ہوش پڑا تھا اس کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی ۔۔کیونکہ اس کا خون بہت بہہ گیا تھا۔۔۔
وہ چلتی ہوٸی اس کے پاس آگٸی۔۔۔اس کے آنسو بہے جا رہے تھے۔۔
اس نے شاذل کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس کے سرہانے بیٹھ گٸی۔۔۔
اس کو شاذل کی ہر ہر بات یاد آ رہی تھی کیسے وہ اس کو چھیڑتاتھا اور اس کے قریب آنے کی کوشش کرتے تھا ۔۔کیسے اس کو پیار بھری نظروں سے دیکھتا تھا اور اب آنکھین بند کٸیے ہوۓ پڑا تھا۔۔۔
”شاذل آپ ایسے لیٹے ہوۓ بلکل بھی نہیں اچھے لگ رہے پیلیز اٹھ جاٸیں نہ۔۔آنکھیں کھول کر دیکھیں سب آپ کے لیے کتنے پریشان ہیں سب آپ کو ایسے پڑے دیکھ کر بہت دکھی بہت پریشان ہیں۔۔“ اس نے شاذل کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔۔۔وہ خود کو سب کا ذمہ دار سمجھ رہی تھی۔۔اس نے شاذل کو کتنا دکھ دیا تھا ایک بار اس سے ٹھیک طرح سے بات نہیں کی تھی ہر بار اس کو دھتکارا تھا خود سے دور کیا تھا اور آج وہ اس کو اس حال میں دیکھ کر خود تڑپ رہی تھ.
۔۔اس کی اپنی جان نکل رہی تھی۔۔۔یوں شاذل کودیکھ کراس کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ بھی پیار کرتی ہے شاذل سے۔۔
”شاذل اپنی ماماجی کا ہی سوچ لیں اگرآپ کو کچھ ہوگیا تو ان کا کیا ہو گا آنکھیں کھولے نہ ۔اوراحد بھاٸی کتنا پیار کرتے ہے آپ سے ان کے بارے میں تو سوچیں۔۔“ وہ شاذل کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھی اور وہ بے ہوش پڑا تھا سب سے انجان ، موت کے انتظار میں۔۔
”آپ پلیز باہر جاٸیں ۔۔۔پیشٹ کی کنڈیشن ٹھیک نہیں آپ انہیں ڈسٹرب کر رہی ہیں
۔۔۔۔“نرس نے اس کو ایسے روتے ہو دیکھ کر باہر جانے کو کہا۔۔۔
”پلیز جاٸیں باہر آپ۔۔“ اس نے پھر کہا۔۔
سیرت اٹھ کر باہر آگٸی۔۔
@@@@
وہ باہر آٸی تو پولیس آفیسر آیا ہوا تھا۔۔۔!!!!
انہوں نے سیرت سے سارا واقع پوچھا تو سیرت نے سب کچھ بتا دیا ۔۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اُن لوگوں کے چہرے نہیں دیکھے تھے اِن دونوں نے۔۔
پولیس اپنی پوری کوشش کر رہی تھی ان لوگوں کو ڈھونڈنے کی ۔۔۔
@@@@
صبح ہو گٸی تھی۔۔۔۔۔
لیکن شاذل کو ابھی بھی ہوش نہیں آیا تھا وہ ڈاکٹرز سے ہزار بار پوچھ چکے تھے۔۔لیکن وہ کہتے تھے کہ اللہ کی طرف سے کوٸی معجزہ ہی بچا سکتا ہے شاذل کو۔۔۔۔شاذل کو تین چار بوتلیں لگ چکی تھیں بلڈ کی۔لیکن ابھی وہ ویسے ہی پڑا تھا۔۔۔ان لوگوں نے سب کو گھر بھیج دیا تھا کوٸی بھی جانے کو تیار نہیں تھا لیکن انہوں نے بہت مشکل سے بھیجا تھا بس سیرت، ثمرہ اور احد رہ گٸے تھے ہاسپٹل ثمرہ کے بھاٸی بھابھی بھی چلے گٸے تھے۔۔۔صارم نے دو بوتلیں بلڈ کی دی تھیں وہ بہت کمزور سا ہو گیا تھا احد نے اس کو بھی گھر بھیج دیا وہ جانا نہیں چاہتا تھا پھر بھی۔۔۔
وہ بہت شکر گزار تھا صارم کا ...!!!
احد کی ماما گھر نہیں تھی اس وجہ سے ان کو کچھ نہیں بتایا تھا احد نے ۔۔۔۔
”سیرت تم کچھ کھا لو ۔۔۔تم نے رات سے کچھ نہیں کھایا ۔۔۔“ وہ بینچ پر گھٹنوں میں سر دٸیے بیٹھی تھی جب ثمرہ نے اس سے کہا۔۔۔
”نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔۔“ اس نے آہستہ سے کہا اس کا گلہ بیٹھ گیا تھا اور آنکھیں بہت ذیادہ سوجی ہوٸی تھی۔۔۔
”سیرت مجھے پتا ہے تمہیں بھوک نہیں۔ لیکن مجھے یہ بھی پتا ہے کہ تمہارے سر میں بہت درد ہے تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔تم بہت بیمار لگ رہی ہو۔اگر شاذل بھاٸی کو ہوش آگیا اور وہ تمہیں ایسے دیکھیں گٸیں تو ان کو کتنا برالگے گا۔۔“ وہ اس کو بہت پیار سے سمجھا رہی تھی ۔۔وہ سیرت کو اچھے سے جانتی تھی جب وہ روتی تھی تو س کے سر میں بہت دردہوتا تھا اور وہ تو رات سے رو رو کر آدھی ہو گٸی تھی۔۔۔
”ثمو دعا کر شاذل جلد سے جلد ٹھیک ہو جاٸیں میں ان کے بغیر خود کو اکیلا محسوس کر رہی ہوں ۔۔میں ان کے بغیر کیسے رہوں گی اب ۔۔۔تمہیں پتا ہےثمو مجھے شاذل سے محبت ہو گٸی ہے میں نے جب شاذل کو گولیاں لگتے دیکھا تھا تو تب میری جان مجھے نکلتی ہو ٸی محسوس ہوٸی تھی۔۔۔میں ان کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کر رہی ہوں ۔۔۔تم دعا کرو ان کے لیے۔۔۔ “ وہ روتے ہوۓ اردگر سے بے خبر ہوکر ثمرہ کو اپنے دل کی بات بتا رہی تھی۔۔۔اور پیچھے کھڑا احد سیرت کے منہ سے شاذل کے لیے اظہار محبت سن کر حیران ہو گیا تھا۔۔
وہ چلتا ہوا سیرت کے پاس آیااور اس کو تسلی دیتے ہوۓ کہا۔۔۔
”بھابھی شاذل کو کچھ نہیں ہو گا وہ جلد ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔۔“
سیرت نے سر اٹھا کر دیکھا احد اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔اس نے جلدی سے آنسو صاف کٸیے اور وہاں سے اٹھ گٸی۔۔۔
@@@@@
اس نے عصر کی نماز پڑھ کر رو رو کر شاذل کے لیے دعا مانگی تھی ابھی وہ وہی جاۓ نماز پر بٹھی جب ثمرہ بھا گ کر اس کے پاس آٸی۔۔۔
”سیرت جلدی چلو ۔۔شاذل بھاٸی کو ھوش آرہا ہے۔۔“
”تت تم سچ کہہ رہی ہو ثمرہ۔۔۔۔“ اس نے ثمرہ کی بات سںن کر بےصبری سے پوچھا اس کی تو جیسے جان میں جان آگٸی تھی۔۔
”ہاں !میں سچ کہہ رہی ہوں سیرت ۔نرس بتا رہی تھی۔۔۔“ اس نے سیرت کو نرس کا حوالہ دے کر بتایا۔۔سیرت جلدی سے اٹھی اور بھاگتی ہوٸی آٸی سی یو کے آگے گٸی جہاں پہلے ہی سب لوگ جمع تھے ۔۔۔
”امی ، ماماجی شاذل کو ہوش آگیا نہ ۔۔“ اس نے ان لوگوں سے کںنفرم کرنے کی کوشش کی۔۔۔
”ہاں گڑیا نرس بتارہی تھی کہ شاذل کی آنکھوں میں جنبش ہوٸی ہے پھر احد نےڈاکٹرز کو بلوایا ہے اور وہ لوگ چیک اپ کر رہیں ہیں شاذل کا ۔۔تم اب پریشان نہیں ہونا کچھ نہیں ہوگا شاذل کو۔“ ثمینہ بیگم نے اس کو گلے لگا کر کہا۔۔۔
سیرت کو کچھ تسلی ہوٸی۔۔۔
احد بھی اندر ہی تھا ڈاکٹرز کے ساتھ ہی۔۔۔سب لوگ ڈاکٹرز کے باہر آنے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔کوریڈور میں مکمل خاموشی تھی اب سب کی نظریں آٸی سی یو کے دروازے پر لگی تھی۔۔۔جب اس کا دروازہ کھول دونوں ڈاکٹرز باہر آۓ لیکن ان کے ساتھ احد نہیں تھا۔۔۔
”مبارک ہو آپ لوگوں کو ۔۔آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔“ان میں سےایک ڈاکٹر نے
ان کو خوشخبری سناٸی ۔۔۔۔۔۔۔۔ان سب کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گٸی۔۔۔
”یہ معجزہ ہی ہے جو ان کو ہوش آگیا یہ آپ لوگوں کی دعاٶں اور پیار کا نتیجہ ہے ۔۔۔،“انہوں نے سیرت کی طرف دیکھ کر کہا وہ سیرت کو احد کو اور ثمینہ بیگم کو شاذل کے لیے تڑپتے دیکھ چکے تھے اس لیے۔۔۔
”یااللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تو نے میرے
بچے کو اک نٸی زندگی دی اور مجھے بھی۔۔۔“ ثمینہ بیگم روتے ہوۓ شکر ادا کر رہی تھیں اللہ کا
______
”بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب ۔۔“ سیرت نے ان کا روتے ہوۓ شکریہ ادا کیا۔۔۔
”اب ہم چلتے ہیں ابھی اتنا ذیادہ رش نہیں کرنا آپ لوگ پیشنٹ کے پاس ان کو آٸی سی یو سے روم میں شفٹ کر رہے پھر آپ لوگ مل سکتے ہیں ان سے۔“ ڈاکٹر نے کہا اور چلے گٸے وہاں سے۔۔۔
سیرت کوسب مل کر مبارک دے رہے تھے اس کے بابا نے بھی اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔۔اور ماں نے بھی۔۔۔
وہ خود اللہ تعالیٰ کی بہت شکر گزار تھی اس نے سن لی تھیں دعاٸی سب کی وہ جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم تھا.....
@@@@
شاذل کو مکمل ہوش آچکا تھا۔۔۔۔۔!!!!!
اور اس کو روم میں بھی شفٹ کیا جاچکا تھا سب اس کے پاس موجود تھے ۔۔۔لیکن وہ ابھی تک نہیں گٸی تھی اندر۔۔۔۔جیسے جیسے سب کو پتا لگ رہا تھا لوگ آرہے تھے اس کی عیادت کے لیے۔۔نگہت بیگم بھی آچکی تھیں۔۔۔وہ بہت دکھی تھیں شاذل کو اس حالت میں دیکھ کر۔۔
لیکن شاذل کو جس کے آنے کا انتظار تھا وہ ابھی تک نہیں آٸی تھی۔۔
جب اس کو ہوش آیا تھا وہ خود کو روم میں دیکھ کر حیران ہوگیا تھا اس کو پہلے تو کچھ سمجھ نہ آٸی کے وہ کدھر ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کا ذہن بیدار ہوا تو اس نے احد کو اور ڈاکٹرز کو اپنے اوپر جھکا ہوا پایا۔۔۔وہ اس کا چیک اپ کر رہے تھے اور احد بس دیکھ کر رو رہا تھا ۔۔ا س کے دماغ میں سارا رات والا واقع گھوم گیا ۔۔اس نے سیرت کا پوچھا ان سے تو انہوں نے اس کو بتایا کہ وہ ٹھیک ہے بلکل اسے کچھ نہیں ہوا تب اس کی جان میں جان آٸی تھی۔۔۔
ڈاکٹرز کے جانے کے بعد احد اس کے پاس بیٹھ کر بہت رویا اور وہ اس کا اتنا پیار دیکھ کر آبدیدہ ہوگیا تھا ۔۔۔
اور اب وہ سیرت کا انتظار کر رہاتھا۔۔اس نے سیرت کو بہت ذیادہ روتےہوۓ د یکھا تھا لیکن ابھی تک وہ اس کے پاس نہیں آٸی تھی۔۔وہ بھی کتنا پاگل ہے جو اس سے اتنی نفرت کرتی ہے اس کے بارے میں سوچ رہا ہے اس نے اپنے دل میں سوچا اور آنکھیں موندلیں۔۔۔ثمینہ بیگم جو اس کے سرہانے بیٹھی تھی وہ اس کے چہرے پر درد کے آثار دیکھ چکی تھی۔۔۔
”شاذل بیٹا کیا ہوا آپ کو؟؟ ذیادہ درد ہو رھاہے کیا آپ کیا؟؟ میں ڈاکٹر کو بلواتی ہوں ۔۔۔“ انہوں نے پیار سے اس کے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔تب سیرت اندر آٸی ۔۔۔
”کیا ہوا ماماجی شاذل کو ؟ شاذل ٹھیک تو ہے نہ۔۔۔؟ اس نے بہت پریشانی اور بے چینی سے پوچھا۔۔۔شاذل جو اس کی بے رخی کی وجہ سے آنکھیں موند گیا تھا اس نے سیرت کی آواز میں چھپی اپنے لیے فکر اور درد کو محسوس کر لیا تھا۔
”نہیں ماماجی !میں ٹھیک ہوں۔۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔۔اس نےآنکھیں نہیں کھولی تھیں۔۔