جیون ساتھی از ناصرحسین|Jeevan Sathi By Nasir Hussain Qist Number 12



249 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


★ جیون ساتھی  ★ 

✍ناصر حسین 

_ قسط 12 _
 اس وقت عنید تیزی سے سیڑھیاں اتر رہا تها لیکن سامنے تعبیر اور آناب کو دیکھ کر اس کے تیز قدم رک گئے. ..وہ دونوں فرش پہ بیٹهے کوئی ڈرائنگ بنا رہے رہے تھے اور ساتھ ہی کسی بات پہ قہقہے لگا کر ہنس بھی رہے تهے...........
وہ اس لڑکی کے چہرے کو دیکهنے لگا مسکراتے ہوئے وہ آج بھی اتنی ہی خوبصورت لگتی ہے .اس وقت اس لڑکی کے چہرے پہ ایسی مسکراہٹ تهی ایسی معصومیت تهی کوئی بھی اسے دیکھ کر کهبی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ لڑکی قاتل ہو سکتی ہے. ......
باہر اتنی معصومیت لیے وہ لڑکی اپنے اندر کتنا زہر لیے گهوم رہی ہے...یہ کوئی نہیں جانتا. .وہ تعبیر نامی لڑکی جس سے اس نے کهبی محبت کی تهی وہ بالکل اس لڑکی کے جیسی تهی..کاش وہ اس کے بهیانک روپ سے انجان ہوتا.......
. بھی ہے یا نہیں .....
ہیلو کیسی ہو تعبیر. ...؟ اس نے اس دن فون پر اس سے پوچھا تها. ....
تمارے بنا کیسی ہو سکتی ہوں عنید. ..؟ .
کیا مس کر رہی ہو مجھے. ..؟               
ہاں میں نے کب تمہیں مس نہیں کیا. ...؟
اتنا کیوں یاد کرتی ہو مجھے. ...؟
تماری یاد میری سانسوں کے ساتھ رہنے لگی ہے جب بهی سانس لیتی ہوں تم یاد آتے ہو....
اس وقت اپنے بیٹے کو پیار کرتی وہ لڑکی کیا قاتل بهی ہو سکتی ہے...آج جو وہ اتنا پیار کر رہی تھی اپنے بیٹے سے دس سال پہلے وہ اپنے اسی بیٹے کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلی گئی تھی. .....
وہ اس لڑکی کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا مگر وہ کوئی جادوئی اثر رکھتی تھی. ....کوئی ایسی طاقت تهی جو اسے اس لڑکی کے قریب لے جا رہی تھی. .....اس وقت وہ کئی پل ان دونوں کو وہیں کهڑے ہو کر دیکهتا رہا پهر خاموشی سے واپس پلٹ آیا.................
_____________________________
تمنا اس وقت آئینے کے سامنے غصے کهڑی تهی ہاتھوں میں خوبصورت پهولوں کا گلدستہ تها........
میں لعنت بهیجتی ہوں تم پر تمارے گهر پر اور تمارے شوہر پر. .......
اس نے وہ گلدستہ زور سے آئینے پہ دے مارا....
دوسروں کے گهر دوسروں کی اولاد اور دوسروں کے شوہروں پہ اپنا قبضہ جمانے کا کوئی شوق نہیں ہے مجھے. .......غصے سے اس کا چہرہ لال ہو گیا تھا پہ بھی
.کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ مجھے مات دے سکے اور تم مجھے مات دینے کے لیے ایک بار پهر سے میرے سامنے کهڑی ہو..تم خود منہ کے بل گرو گی مجھ سے ٹکراتے ٹکراتے..تم خود ہارو گی..میں کچھ بھی کر سکتی ہوں تعبیر کچھ بھی. .اور میں کیا کیا کر سکتی ہوں یہ تم سے بڑھ کر اور کسے پتا ہو گا...تم میرا شوہر میرا گهر مجھ سے چهیننے آئی ہو اور میں تمہیں ایسا کرنے دوں گی..نہیں نہیں. .تعبیر تم بہت بڑی غلطی کر رہی ہو...تمہیں نہیں پتا اس کی غلطی کی تمہیں کتنی بڑی سزا مل سکتی ہے. .تم اندازہ بھی نہیں کر سکتی میری سوچ کا..جہاں تم جیسے چهوٹے لوگوں کی سوچ ختم ہوتی ہے میری سوچ وہیں سے شروع ہوتی ہے. .......
تمہیں کیا لگتا ہے تعبیر تم ایک بار پھر عنید کے دل میں جگہ بنا لو گی ...اور تمہیں لگتا ہے میں ایسا ہونے دوں گی.....عنید کی بیوی کی حیثیت سے اتنے بڑے گهر میں رہنے کی نا تو تماری اوقات ہے اور نا میں تمہیں ایسا کرنے دوں گی........
تمہیں پتا تو ہے عنید کے لیے میں کس حد تک جا سکتی ہوں...اور میں کس حد تک گئی....
جو چیز میری ہے وہ میں اتنی آسانی سے تمہیں کیسے دے دوں گی....اس عنید کو پانے کے لیے میں نے کیا کیا نہیں کیا........؟ اور تم مجھے راستے سے ہٹا کر ایک بار آ کر عنید کے دل میں جگہ بنا لو گی..........
نہیں. ..نہیں. ..نہیں. ..تعبیر تم مجھ سے مت ٹکراو ، ٹوٹ جاو گی تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے میں کیا کر سکتی ہوں....جو ہوا ہے اسے بهولو مت.......اور نہ میں تمہیں بهولنے دوں گی.
...اس زندگی میں تو عنید کهبی تمارا نہیں ہو گا...عنید کے دل میں اپنے لیے نفرت تم ختم کرو یہ ہو نہیں سکتا اور تم اپنے دل میں عنید کے لیے محبت پیدا کرو یہ میں کهبی ہونے نہیں دوں گی......
____________________________
وہ آناب کے ساتھ کمرے میں بیٹهی کوئی کارٹون مووی دیکھ رہی تھی. آناب اس کی گود میں تها وہ مووی دیکهنے کے ساتھ ساتھ اسے پیار بھی کر رہی تھی. .آناب وقفے وقفے سے اس سے مختلف سوالات بھی کر رہا تها...دروازے پہ دستک کی آواز پہ اس کے ساتھ آناب نے بھی مڑ کر دیکھا. .....
سامنے عنید کهڑا تها. ..اسے دیکھ کر وہ اپنا دوپٹہ درست کرنے لگی اور پاوں سیدهے کر کے بیٹهی.....
آو پاپا ہم مووی دیکھ رہے ہیں آپ بھی دیکهو....آناب نے اسے آفر کی وہ دوسری طرف صوفے پہ بیٹھ گیا..........
کون سی مووی دیکھ رہا ہے ہمارا ہیرو..ہمیں بھی بتاو زرا..؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے سوال کیا. ....
پاپا کارٹون مووی ہے آپ کو سمجھ نہیں آئے گی...عنید نے بے اختیار قہقہہ لگایا. ..عنید گاہے گاہے اسے بھی دیکھ رہا تها ...اسے دیکهنا اسے ہمیشہ اچھا لگتا ہے. ......
مما آپ میرے اور پاپا کے لیے کل کی طرح اچھی کهیر بناو...آناب نے فرمائش کر دی اور وہ اس کی فرمائش پر نیچے کچن میں چلی گئی. ..اب کمرے میں وہ دونوں باپ بیٹے بیٹهے تهے. .آناب سے مووی دیکهتے وقت تو بات کرنا ہی بے کار تها کیونکہ اس وقت وہ کهبی بات نہیں کرتا اس لئے اس نے ٹائم پاس کے لیے ٹیبل پہ رکها ڈائجسٹ اٹها لیا...تهوڑی دیر میں ہی آناب کی مووی ختم ہو گئی اور اب وہ اپنے پاپا کو دیکھ رہا تھا. .......
پاپا......؟
ہاں...انہوں نے نگاہیں ڈائجسٹ پہ رکھ کر ہاں کہا...
پاپا ممی اب یہیں رہیں گی ناں...؟ .وہ حیران ہوا اس نے ڈائجسٹ واپس اپنی جگہ پہ رکها...
پتا نہیں. ...خشک لہجے میں اس نے کہا.....
پاپا پلیز ممی کو جانے مت دینا ..مجھے ممی کے بنا نہیں رہنا پاپا....وہ التجا کرتے ہوئے بولا جبکہ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اس کے چہرے پہ سنجیدگی تهی.........
پاپا آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہو ناں....؟
ہاں یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے...انہوں نے مسکرا کر کہا. ....
تو میری ممی سے کہیں اب وہ مجھے کهبی چهوڑ کر نہیں جائے.....وہ اب باقاعدہ رونے لگا تها...عنید نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا. ....
کیا یار چهوٹے بچوں کی طرح رو رہے ہو تم تو بہت بہادر ہو ناں...؟ اور بہادر بچے کهبی نہیں روتے....
بڑی مشکل سے وہ اسے چپ کرانے میں کامیاب ہوا تهوڑی دیر بعد تعبیر کهیر لیے آئی. .....
اور پھر وہ دونوں باپ بیٹے کهیر کهانے لگے جبکہ وہ دوسرے صوفے پہ بیٹھ کر کوئی ناول پڑھنے لگی. ............
عنید نے محسوس کیا آج برسوں بعد بھی اس لڑکی کے ہاتھوں میں وہی ذائقہ ہے وہ ہمیشہ اس کے ہاتھوں کی بنی ڈشز پسند کرتا تھا. ...لیکن اب نہ تو وہ لڑکی تهی اور نہ ہی وہ وقت تھا. .....
________________________________ 
وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر جا رہا تها. .
پاپا ممی کب واپس آئیں گی. .....؟
یہ خط میں نے اللہ میاں کے نام لکهی ہے......
اللہ میاں پلیز میری ممی مجھے واپس کر دیں. ....
اللہ میاں مجھے میری ممی کب گفٹ کریں گے. ..
پاپا آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہو ناں....؟
ہاں یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے...
تو میری ممی سے کہیں اب وہ مجھے کهبی چهوڑ کر نہیں جائے.....وہ اوپر اس کے کمرے کی طرف جا رہا تها سوچوں کا ایک انبہار لیے. ...وہ ایک ایسا فیصلہ کرنے جا رہا تها جو اس کے لیے بہت مشکل تها..لیکن مجبوری میں اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے مجبوراً اسے یہ فیصلہ کرنا ہی پڑا. .......
اولاد کی محبت اس کی خوشی سے بڑھ کر والدین کی انا نہیں ہوتی............
صبح صبح آناب سکول چلا گیا تها وہ اس کے بنا گهر میں بور ہو رہی تھی کسی بھی کام میں اس کا دل نہیں لگ رہا تھا. ..بس وہ یونہی بے مقصد کھڑکی کهولے باہر موسم کا کهیل دیکھ رہی تھی. ...
اس نے اپنے کمرے میں کسی کی آمد کو محسوس کیا اس نے گردن گهما کر دیکها تو سامنے وہی انسان کهڑا تها جو کهبی اس کی زندگی ہوا کرتا تها.................
مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے....؟ ..وہ کچھ نہیں بولی....اور سپاٹ اور سوالیہ چہرے کے ساتھ اس کی طرف دیکهنے لگی...
دیکهو تعبیر جو دس سے پہلے ہو چکا ہے میں اسے بهول جانا چاہتا ہوں. .. میں چاہتا ہوں تم آناب کی خوشی کے لیے یہیں رہو.....وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی. ..
کمال ہے مسٹر عنید رضا آپ اپنی ماں کے قاتل کو اپنے گهر میں کیسے رہنے دے سکتے ہیں. جس جس سے آپ اتنی نفرت کرتے ہیں .وہ استہرانہ انداز میں اسے دیکھ رہی تھی ........
میں ان سب باتوں کو بهلا چکا ہوں...اور آپ نے کیا کیا ہے مہربانی کر کے اپنے گناہ مجھے یاد مت دلاو...تم نے جو کیا ہے وہ نا تو میں کهبی بهولا ہوں اور نہ ہی کهبی بهول سکتا ہوں..میں صرف اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے تمہیں اس گهر میں رہنے کی اجازت دے رہا ہوں...........
جی نہیں. ..میں یہاں نہیں رہ سکتی ...اور رہی بات آناب کی تو وہ میرا بیٹا ہے اس سے ملنے کے لیے مجھے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی. ..جب بھی میرا دل چاہا میں اس سے مل سکتی ہوں..وہ پر اعتماد لہجے میں بولی.................
اپنی گناہوں کی فہرست میں اور اضافہ مت کرو .اتنی خود غرض مت بنو اپنے بچے کے بارے میں سوچو..ہمیشہ کی طرح صرف اپنے بارے میں مت سوچو...میں اس کی خوشی کے لیے تمہیں اس گهر میں رکهنے کے لیے تیار ہوں........
لیکن میں نے آپ سے اجازت کب مانگی ہے .. ؟ .آپ کی ان عنایات کا بہت بہت شکریہ مسٹر عنید رضا. ..لیکن میں اس گهر میں صرف دو تین دن کے لئے آئی ہوں وہ بھی اپنے بیٹے کے لیے. .......
میں نے آناب کو تمارے بارے میں کچھ نہیں بتایا .میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ ساری زندگی اس بهیانک سچ کے ساتھ گزارے کہ اس کی ماں اس کی دادی کی قاتل ہے....................
آپ تو کهبی غلط نہیں ہوتے آپ نے تو کهبی غلط نہیں کیا مسٹر عنید. ...اس کے لہجے میں پتا نہیں ایسا کیا تها جو عنید کے دل کو اندر سے زخمی کر گیا وہ کون سی بات اسے جتا رہی تھی. ......
تعبیر میں تماری ہر گناہ کو نظر انداز کر دوں گا میں تماری ہر غلطی کو معاف کر دوں گا........
آپ مجھے معاف کر سکتے ہو لیکن میں آپ کو کهبی معاف نہیں کر سکتی. وہ غصے سے چلا کر بولی
..
تمارے گناہوں کی فہرست تو بہت طویل ہے ..انہیں تو دنیا کی کسی بھی عدالت میں معاف نہیں کیا جا سکتا لیکن میرا ظرف دیکهو ...تماری ہر خطا نظر انداز کرنے کے لیے ایک بار پھر تیار ہوں........
..میں نے کیا کیا ہے کیا نہیں. . میرا گواہ خدا ہے اور میں خدا کے سامنے اپنی ہر گناہ کے لیے جواب دہ ہوں. .اور مجھے انصاف بھی خدا کی عدالت میں چاہیے. .......
میں نے تماری ہر غلطی کو  برداشت کیا ..تم نے جو گناہ کیے ان کی کوئی انتہا ہی نہیں .لیکن میں نے تمہیں کوئی سزا نہیں دی میں آج بھی تمہیں معاف کرنے کے لیے تیار ہوں...............
آپ کوئی خدا  نہیں ہو جو آپ مجھے سزا دیتے..سزا جزا کا فیصلہ تو میں نے اب روز محشر پہ چهوڑ دیا ہے...اب میں تم سے حساب اللہ کی عدالت میں لوں گی........وہ ایک پل وہاں مزید نہیں رکی ...وہ حیرت سے گنگ کهڑا رہا .......
کیا کہہ رہی تهی وہ..کیا کہہ گئی وہ......
اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے صرف اسی کا سوچ کر وہ اس کے پاس آیا اور اسے لگا وہ خوشی خوشی رہنے کے لیے تیار ہو جائے گا. .مگر وہ تعبیر کا نیا رنگ دیکھ رہا تھا. ............ 
______________________________
سنہری خوبصورت شام اپنے اختتام پہ تها.. وہ آناب کے ساتھ لان میں بیٹھ کر لڈو کهیل رہی تھی. .
لڈو کا ایک گیم مکمل ہونے کے بعد وہ عنید کی فرمائش پہ نوڈلز بنانے کچن میں آئی. ..اسے آئے ہوئے ابهی تهوڑا ہی وقت ہوا کہ اسے باہر سے کسی کی شور کی آواز سنائی دی وہ بهاگتے ہوئے باہر لان تک آئی. ..................
وہاں تمنا آناب کو کسی بات پہ ڈانٹ رہی تھی آناب اسے دیکھ کر اس سے لپٹ گیا اور رونے لگا.....
تمنا تماری ہمت کیسے ہوئی میرے بیٹے کو ڈانٹنے کی.....اس نے غصے سے سوال کیا. ........
جس طرح تماری ہمت ہوئی ہے میرے گهر میں گهس کر میرے شوہر پہ قبضہ جمانے کی.....وہ بھی چلا کر بولی. ...........
یہ گهر تمارے باپ کا نہیں ہے تمنا...یہ گهر میرا ہے اور اگر میں چاہوں تو تمہیں دهکے مار کر اس گهر سے باہر نکال سکتی ہوں..............
میں تمہیں وارننگ دے رہی ہوں تعبیر دفعہ ہو جاو اس گهر سے..ورنہ مجھے ایک بار پھر سے تمہیں گهر سے نکالنے کے لیے اپنا کوئی طریقہ اپنانا پڑے گا.......وہ انگلی اٹھا کر بولی.........
مجھ پہ انگلی اٹھانے کا حق انہیں ہے جن کا اپنا دامن صاف ہو ..تم تو غلاظت کی دهلی ہو..مجھ سے بڑھ کر تمارے گناہوں کا گواہ دوسرا کون ہے...؟ 
تو ثابت کرو ....ثابت کرو اپنی سچائی. ..تم کهبی ثابت نہیں کر پاو گی تعبیر. ..
مجھے کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے. ثبوت وہی لوگ دیتے ہیں جو گناہ گار ہوں ...تمارے اپنے گناہ تمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اب ہر پل تمہیں یہی ڈر لگنے لگا ہے کہ تمارا بهانڈا کہیں پهوٹ نہ جائے.....تم نے جو کیا ہے ناں تمنا وہ نا تو میں کهبی بهولی ہوں اور نہ کهبی بهولوں گی اور اگر میں چپ ہوں تو یہ میری کمزوری نہیں شرافت ہے.....
وہ آناب کا ہاتھ پکڑ کر اندر چلی گئی. .اور تمنا کا حال ایسا تها جیسے بن پانی مچھلی. .........
______________________________
ہر طرف اندھیرا تھا سڑک بالکل سنسان تها..آسمان آج خوب برس رہا تها..موسلا دھار بارش نے ایک طوفان مچا رکها تها..لیکن اس پہ بارش کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تها ..وہ بارش میں بهیگتا ہوا جانے کس طرف جا رہا تها......................
میں نے جو کیا ہے اس کا گواہ خدا ہے اور میں خدا کے سامنے اپنے گناہ کے لیے جواب دہ ہوں اور مجھے انصاف بھی خدا کی عدالت میں چاہیے. ....
اس کے کانوں میں اس لڑکی کی آواز گونجی ....
آپ کی ان عنایات کا بہت بہت شکریہ آپ نے مجھے معاف کر دیا لیکن میں نے ابھی تک آپ کو معاف نہیں کیا مسٹر عنید رضا............
بارش تیز ہو رہی تهی ہر طرف بارش کا شور تھا.  لیکن اس لڑکی کی آواز بارش کے شور پہ حاوی تها..................
آپ تو کهبی غلط نہیں ہوتے آپ نے تو کهبی غلط نہیں کیا. ..اس کے لہجے میں کیا تها ..طنز ، غصہ،  یا کوئی شکایت .اس کا لہجہ کتنا زخمی تها..وہ اپنے آپ کو کسی بھی گناہ کے لیے قصوروار نہیں سمجهتی...لیکن کیوں...؟
میں لعنت بهیجتی ہوں تم پر تمارے گهر پر اور تمارے شوہر پر. ....اس دن اس کے لہجے میں کتنی نفرت تهی کتنا غصہ تها...اس نے اپنی زندگی میں کهبی اسے چلاتے ہوئے بات کرتے نہیں دیکها. دس سال پہلے اس نے ایسا کیوں کیا تها یہ بات وہ آج تک نہیں جان سکا....کیوں اس نے مما کو زہر دیا تها اور کیوں وہ بنا کچھ کہے گهر چهوڑ کر چلی گئی تھی. ..اور اس دن وہ آناب کے پاس جو کاغذ چهوڑ کر گئی تھی اس پہ یہ کیوں لکها تها. ..
میرے بیٹے کے ساتھ نا انصافی کهبی مت کرنا. .کیا مطلب تها اس کی اس بات کا. .وہ کیا کہنا چاہتی تهی..وہ ایسے لکھ کر گئی تهی جیسے وہ اس سے پہلے بہت بڑی نا انصافی کر چکا ہو.....
مگر..کب..؟ کس کے ساتھ. ..؟ اس نے آخر یہ  کیوں لکها تها. ...............
عنید بیٹا میرا دل نہیں مانتا کہ تعبیر ایسا کر سکتی ہے. ..برسوں پہلے دادی کی کہی گئی وہ بات اسے آج یاد آ رہی تهی...وہ اس دن دادی سے کہہ نہیں سکا کہ اس کا اپنا دل بھی نہیں مانتا کہ تعبیر ایسا کر سکتی ہے....وہ کسی اور کو تو کیا اپنے دل کو بھی کهبی یہ یقین نہیں دلا سکا کہ دس سال پہلے جو حادثہ ہوا وہ تعبیر کی وجہ سے ہوا.......
اس دن پہلی بار اس نے اپنے گهر کی سیڑھیوں پہ جس لڑکی کو دیکھا تها وہ تو بہت معصوم تهی وہ قتل کیسے کر سکتی ہے. ......
اس نے خود اپنی پوری زندگی اس کے ساتھ گزاری ہے اپنا بچپن لڑکپن،  جوانی ...اس سے بڑھ کر اور کون گواہ ہو سکتا ہے اس کی بے گناہی کا. .....
وہ لڑکی جو اتنی پیاری باتیں کرتی تهی اس کی اتنی اچھی دوست تهی ہر قدم پہ اس کی ہر غلطی کی اصلاح کرتی تهی وہ خود اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتی ہے. .وہ اس کی ماں کی جان کیسے لے سکتی ہے........وہ....وہ...تو بہت پیار کرتی تهی مما سے..اس کے کان کے قریب ایک بہت پرانی بہت خوبصورت آواز ابهری. ...........
اگر کهبی میں تم سے بہت دور چلی جاوں تو...؟تو کیا کرو گے عنید . . .؟
تو...میں تمہیں جانے نہیں دوں گا...
اور اگر میں پهر بھی چلی گئی تو....؟ 
میں بہت روں گا...
اور اگر میں تم سے دور ہو جاوں تو....؟ 
نہیں تم کهبی مجھ سے دور نہیں جا سکتے... اچها اگر میں بوڑھی ہو جاوں تب بھی تم ایسے میرے ساتھ دو گے....؟
میں کهبی تم سے دور نہیں جاوں گا...تم میری سب سے اچھی دوست ہو...تم میرے علاوہ کهبی کسی اور کو اپنا دوست مت بنانا...او کے  .؟ ....
برستی بارش کے ساتھ اس کی آنکھوں سے بھی بارش شروع ہو گئی. .......
ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا چاہیے. جهوٹ کے پاوں نہیں ہوتے اس لیے یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی. جهوٹ بولنے والا کهبی نہ کهبی ٹهوکر کها کر گر جاتا ہے.......وہ لڑکی تو اسے سچ بولنے کی تلقین کرتی تهی...اور خود ...خود کیا کر گئی. ......
اس لڑکی کی ہر بات اس کے ذہن میں گونج رہی تهی...
میں تم سے ناراض نہیں ہوں تمنا..میں تم سے بالکل بھی ناراض نہیں ہوں. ...وہ اس سے آگے کیا یہ کہنا چاہتی تھی کہ تمنا میں تم سے ناراض نہیں ہوں میں تو کسی اور سے ناراض ہوں.کسی بہت اپنے سے مجھے بہت شکوے ہیں. ...اگر وہ ایسا کہنا چاہتی تهی تو اس نے کہا کیوں نہیں. .........
مجھے کسی کا دل دکها کر رات کو نیند نہیں آتی..
اس دنیا میں مجھ سے بھی بڑھ کر کوئی خوش قسمت ہوگا جس گهر میں پلی بڑی اسی گهر میں شادی ہو گئی. .........
آپ جلدی سے گهر واپس آ جائیں میں آپ کا بہت بہت انتظار کر رہی ہوں عنید. ......
اس دن وہ فون پہ کتنی خوش تهی کتنی شدت سے اس کا انتظار کر رہی تھی. ....لیکن جب وہ گهر گیا تو وہ کتنی بدل چکی تهی ..وہ اس کے بدلے ہوئے رویے کو نہیں سمجھ سکا آخر وہ کیوں ناراض تهی اس نے کیا کیا تها.جو لڑکی کهبی اس کے بنا کهانا نہیں کهاتی تهی وہ ان سب سے الگ اپنے کمرے میں کهانا کهانے لگی تهی....
 .اس نے اپنی آنکھیں بند کیں یہ یاد کرنے کے لیے کہ اس نے آخر ایسی کون سی خطا کون سا گناہ کیا تها جو تعبیر اس سے اتنی دور ہو گئی. ......................
کیسی ہو تعبیر. ..؟
تمارے بنا کیسی ہو سکتی ہوں. ..؟
تعبیر مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے . میں شادی کرنا چاہتا ہوں. ....
کیا....؟
میں شادی کرنا چاہتا ہوں. ..دیکهو تعبیر اگر تم اجازت دو گی تو میں شادی کروں گا. ......
اور اگر میں اجازت نہ دوں تو. ....؟
تو تمہیں وجہ بتانے پڑے گی دیکهو تعبیر میں جتنی محبت تم سے آج کرتا ہوں ہمیشہ کرتا رہوں گا. ...
ٹهیک ہے اگر میری اجازت تمارے راہ کی رکاوٹ ہے تو میری طرف سے اجازت ہے تمہیں. .........
اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ آنکھیں کھول دیں.او میرے اللہ. ..اس نے اپنا سر تهام لیا. ..
 تو کیا یہ وجہ تهی تعبیر. ..؟ اسے یاد آیا اس کے بعد تعبیر نے رابطہ تقریباً ختم کر دیا تها...وہ اس سے ناراض تهی اس حد تک ناراض تهی تهی کہ اس نے اپنی ناراضگی کا اظہار تک نہیں کیا....وہ تمنا کو اپنے ساتھ گهر لے گیا وہ چپ چپ رہنے لگی تهی..اس نے اس سے کوئی بات نہیں کی وہ کتنی کمزور ہو گئی تهی .................
قصور. ...قصور اس لڑکی کا نہیں تها..قصور اس کا اپنا تها دهوکہ اس لڑکی نے نہیں دهوکہ تو خود اس نے اسے دیا تها.. اس نے اپنی زندگی اپنی بچپن کی دوست اپنی محبت اپنی جیون ساتھی کی جگہ کسی اور کو دے دی وہ لڑکی یہ کیسے برداشت کر سکتی تهی..جو اس کا تها وہ ایک پل میں ہی کسی اور کا ہو گیا. [جیون ساتھی تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پہ بھی دستیاب ہے ] ........
اس نے شادی کی تمنا سے پیار کرنے لگا تها لیکن اس نے کوئی شکوہ شکایت نہیں کی. ..اس کی جگہ اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو وہ ناراض ہوتی غصہ کرتی چیختی چلاتی.....مگر وہ.. وہ  خاموش رہی لیکن کیوں. ...؟ کیا وہ اس سے اتنی ناراض تهی کہ اس نے شکوہ تک نہیں کیا..........
اسے کرنا چاہیے تھا شکوہ. ....کیوں نہیں کیا اس نے کوئی شکوہ. ....اسے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہیے تھا. ..اسے ایک بار کہنا چاہیے تھا عنید تم محبت کے جو اتنے دعوے کر کے گئے تھے وہ سب جهوٹے تهے......مگر اس نے کچھ نہیں ایک لفظ تک نہیں کہا........اور بنا کوئی شکوہ بنا کوئی شکایت کیے وہ گهر چهوڑ کر چلی گئی. .......
اگر اسے جائیداد میں کوئی دلچسپی ہوتی تو وہ جانتی تھی مما نے سب کچھ اسی کے نام کر دیا ہے پھر وہ سب کچھ چھوڑ کر کیوں چلی گئی وہ تو آسانی سے سب کو گهر سے باہر نکال سکتی تهی..لیکن اس نے کسی سے کچھ نہیں کہا بلکہ خود اپنا سب کچھ چهوڑ کر چلی گئی. ...........
اور وہ اتنی خودار اتنی غیرت مند تهی کہ جاتے وقت کوئی شکوہ شکایت تو دور خدا حافظ تک نہیں کہہ کے گئی.وہ جس کے ساتھ اس نے اپنی ساری زندگی گزاری ہر پل ہر لمحے جو اس کے ساتھ تهی وہ اسے آخری بار جاتے ہوئے دیکھ بھی نہیں سکا.......
وہ جو اس کے بچپن کی دوست تهی اس کی محبت تهی وہ اس سے اتنی ناراض تهی کہ اس نے ایک بار بھی شکوہ نہیں کیا.............
قانونی طور پر وہ آناب کو بھی اپنے ساتھ لے جا سکتی تهی مگر وہ اسے بھی نہیں لے کر گئی. وہ اس گهر سے ایک سوئی تک نہیں لے گئی وہ اس گهر کے کسی ایک شے پہ بھی اپنا حق نہیں سمجهتی تهی....حالانکہ وہ سب کچھ اسی کا تها...تو وہ کیوں چلی گئی. ..........
بارش اپنی رفتار سے جاری تهی ...وہ آہستہ آہستہ چل رہا تها بے سمت. ..بے مطلب. ..لیکن اس کے پاس اس کے کسی سوال کا بھی جواب نہیں تها..وہ آخر کیوں چلی گئی کہاں گئی اس نے مما کو زہر کیوں دیا...اگر وہ اس سے ناراض تهی تو اس نے کوئی شکوہ کیوں نہیں کیا...............
کچھ تو غلط تها کچھ ایسا جو اسے نظر نہیں آ رہا تها..کہیں کوئی مسئلہ ضرور تها اس کا دل آج بھی اس بات کو ماننے سے انکاری ہے کہ اس کی مما کو قتل تعبیر نے کیا ہے. ..................
ضرور بات کچھ اور تهی سچ کچھ اور تها مگر کیا...؟ اس کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تها ...اور اسی کشمکش میں وہ گھر واپس آیا ۔۔
_______________________________
اگلی صبح دیر سے اس کی آنکھ کهلی..ساری رات بارش میں بهیگنے کے بعد اسے نزلہ ہو چکا تھا. اس کی آنکھیں سوجهی ہوئی تهیں..وہ ناشتے کے لئے بھی نیچے نہیں گیا....تمنا اس کے لیے جوس لے آئی وہ جوس پینے لگا...تمنا وہیں اس کے پاس بیڈ پہ بیٹھ گئی. .اسے لگا وہ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر کہہ نہیں پا رہی ...وہ شاید جهجک رہی تھی..وہ خود سے کچھ کہتی یا نا کہتی بہرحال اس نے اپنی طرف سے پوچھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے.......اس کا اندازہ سہی نکلا وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی. ..وہ ایک پل رکی الفاظ ڈهونڈنے کے لیے. ..........
یہ......وہ...تعبیر مزید کتنے دن رہے گی یہاں...؟
وہ کچھ نہیں بولا..اسے خود نہیں پتا تها وہ کتنے دن رہنے والی ہے. اس نے تمنا سے بھی یہی کہا اسے نہیں پتا..........
دیکهو عنید مجھے وہ اس گهر میں ایک پل بھی اچھی نہیں لگ رہی..کیسے پورے حق کے ساتھ رہ رہی ہے...؟ وہ بهول چکی ہے کہ اس نے کیا کیا ہے. .؟ اس کا گناہ معافی کے قابل نہیں ہے..مجھے تو آج بھی سوچ کر تکلیف ہوتی ہے جو آنٹی جی اس سے اتنا پیار کرتیں تهیں اس نے انہی کی جان لے لی. ............تمنا خالی گلاس اٹها کر باہر چلی گئی مگر اس کے لیے سوچوں کا ایک نیا انبہار چهوڑ گئی. .........اس نے وہیں لیٹے لیٹے آنکھیں بند کر دیں..یہ سوچنے کے لیے کہ کہاں کچھ غلط ہے...وہ آخر اپنا سب کچھ چهوڑ کر کیوں چلی گئی. ..وہ اس حد تک ناراض تهی اس سے کہ آناب کو اپنے بیٹے کو بھی ساتھ نہیں لے گئی. .مگر وہ اگر ناراض تهی بھی اگر اسے کوئی غصہ تها بھی تو اسے مما کے ساتھ یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا. ......
برسوں پہلے اس رات وہ اپنے بستر پہ گہری نیند میں لیٹا ہوا تها جب دروازے پہ دستک ہوئی اس نے دروازہ کهولا تو تعبیر کو رات کے دو بجے اپنے کمرے میں دیکھ کر حیرت ہوئی اور اسے غصہ بھی آیا اس دن اس نے کیا کہا................
مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے. ..اس وقت اس نے غصے سے اسے وہاں سے جانے کو کہا.....
شٹ اپ تعبیر. مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی دفعہ ہو جاو یہاں سے. ....کتنا زہریلا لہجہ تها اس رات اس کا...آج اتنے سال بعد اپنی وہ بات یاد کر کے اسے اتنی تکلیف ہو رہی ہے. .اس رات اسے پتا نہیں کتنی تکلیف ہوئی ہوگی.....وہ اس رات خاموشی سے واپس پلٹ گئی اور اس کا دل کہہ رہا تها اس کی آنکھوں میں آنسو تهے. ...........
وہ اس رات کیا کہنے آئی تهی..؟ معافی مانگنے....؟ اپنی غلطی بیان کرنے...؟
نہیں. ...نہیں. ....نہیں. ....
.معافی کوئی دلیل کوئی جواز پیش کرنے نہیں بلکہ وہ لڑکی اس رات اس سے کوئی بہت ضروری بات کرنے آئی تهی .وہ ایسی لڑکی نہیں تهی جو صرف معافی مانگنے کے لیے رات کے دو بجے کسی کے کمرے میں جاتی.....وہ لڑکی اسے کوئی بہت اہم بات بتانے آئی ہوگی...کام کتنا ضروری ہو سکتا ہے اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ رات کو دو بجے آئی تهی.................
اسے اب اپنے آپ پہ غصہ آ رہا تها اس نے اس رات اس کی بات کیوں نہیں سنی کیا کہنے آئی تهی وہ..؟ اس نے اتنا ظالمانہ رویہ کیوں اختیار کیا...؟ کیا ہو جاتا اگر وہ اس کی بات سن لیتا....؟ دوستی کے ناطے نہ سہی کزن ہونے کے ناطے نہ سہی ایک بیوی کی حیثیت سے بھی نہیں مگر انسانیت کے ناطے وہ کم از کم اس کی بات تو سن لیتا.......
کہیں کوئی کڑی نہیں مل رہی تهی..
تم اگر چراغ لے کر بھی ڈهونڈو گے ناں تب بھی تمہیں تعبیر جیسی لڑکی کہیں نہیں ملے گی. ...اس کی ماں کتنا بهروسہ کرتی تهی اس پہ وہ کتنی محبت کرتی تهیں اس سے.........
تماری بیوی کو سمجهنے میں ' میں نے بہت بڑی غلطی کر دی. .وہ میری جان لینا چاہتی ہے عنید. ..
ایک طرف مما اس پہ بهروسہ کرتیں تهیں دوسری طرف انہیں اس سے خطرہ تها اور اگر انہیں اس سے خطرہ تھا تو انہوں نے اپنی ساری جائیداد تعبیر کے نام کیوں کر دی........
اس کے ذہن میں سوال ہی سوال تها مگر جواب ایک کا بھی نہیں تها اس کے پاس.....
کہیں وہ لڑکی واقعی بے گناہ نہ ہو....ہو سکتا ہے حقیقت کچھ اور ہو.... وہ ...وہ...تو یہاں نہیں تها پهر اسے کیسے پتا کہ حقیقتاً یہاں اس دن کیا ہوا تها...وہ جب گهر پہنچا تو اس کی مما زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تهی ....مگر اس سے پہلے کیا ہوا تها....اس کے گهر پہنچنے سے پہلے کچھ نہ کچھ تو ہوا ہو گا......ہو سکتا ہے تعبیر نے مما کو زہر نہ دیا ہو......
نہیں. .....نہیں. ....تعبیر. .تعبیر ایسا کهبی نہیں کر سکتی وہ اس پہ بهروسہ کرتا تها مما اس پہ بهروسہ کرتیں تهیں دونوں کا بهروسہ تو غلط نہیں ہو سکتا ..دونوں تو اسے سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتے. .. ....اس دن جب اس نے اسے تهپڑ مار کر پوچها تو اس نے کچھ کہا کیوں نہیں. ..انکار یا اقرار کچھ بھی تو نہیں بولی وہ.....وہ اپنی صفائی میں کچھ بول سکتی تهی یا پھر کوئی جهوٹ بول کر بچ سکتی تهی...مگر وہ تو گهر چهوڑ کر چلی گئی یہ سزا اس نے کس کو دی اسے یا اپنے آپ کو.......لیکن اب اسے سچ کا کیسے پتا چلے گا. لیکن وہ سچ جانے بنا رہ بھی نہیں سکتا...اب یہ سچ جاننا اس کے لیے بہت ضروری ہے. تعبیر تو اس حد تک خودار تهی کہ اس نے اتنے عرصے میں ایک بار بھی شکایت نہیں کی. .کسی بات کے لیے بھی..............
تعبیر کے کمرے میں بهی تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے وہ سچ کا پتا لگاتا......اچانک ایک خیال آنے پہ وہ تیزی سے بستر سے اٹها.......
ڈائری. .....؟..؟..؟
ہاں ڈائری. ...تعبیر کو ڈائری لکهنے کی عادت تهی اس نے اپنی ڈائری میں وہ سچائی ضرور لکهی ہو گی....وہ ڈائری وہیں اس کے کمرے میں ہو گی وہ یہاں سے کچھ بھی نہیں لے کر گئی. ..اور اس کے جانے کے بعد اس کے کمرے کو تالا لگا دیا گیا تھا. .اور ان دس سالوں میں کوئی بھی اس کے کمرے میں نہیں گیا.....لیکن ا وہ جانا چاہتا تھا اس کمرے میں دس سال بعد ایک بار پھر. ...لیکن وہ اس وقت وہاں اس کے کمرے میں نہیں جا سکتا وہ رات کو جائے گا جب سب سو چکے ہوں گے..........
کیا لکها ہوگا اس ڈائری میں. ..سچ کیا ہوگا...اور اگر وہ ...
وہ بے گناہ ہوئی تو. ..؟ تو وہ خود کو کیسے کهبی معاف کرے گا...