جس تن نو لگدی او تن جانڑے از دیا مغل|Jis Tan Nu Lagdi Oo Tan Janray By Diya Mugal Qist Number 6

172 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
ناول: جس تن نو لگدی او تن جانڑے
تحریر: دیا مغل
قسط نمبر: 6
--------------------
زجاجہ کو لگا ولید نے اسے اس کئی اوقات دکھائی ہے ۔۔۔۔۔ آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔۔۔۔۔ وہ کمرے میں اندھیرا کئے آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی تھی جب ماما اندر آئیں ۔۔۔
"زجی کیا ہوا بیٹا " انہوں نے لائٹ آن کی اور زجاجہ کے پاس آ کے بیٹھ گئیں ۔۔۔۔۔ "تمہیں تو بخار ہے " وہ اس کی پیشانی چھوتے ہوئے فکرمندی سے بولیں
"کچھ نہیں ہے ماما ۔۔۔۔۔ تھکن کی وجہ سے ہے ۔۔۔۔ٹھیک ہو جائے گا " وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
"ایسے کیسے ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔ کہتی ہوں تمہارے بابا کو کہ ڈاکٹر کے پاس لے کے جائیں تمہیں" وہ کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں ۔۔۔۔۔
زجاجہ جانتی تھی اب کچھ کہنا بیکار ہے ۔۔۔ سو وہ خاموشی سے اٹھ گئی ۔۔۔۔۔
بابا اسے قریبی کلینک لے آئے ۔۔۔۔۔ اس کی باری آنے میں ابھی دیر تھی ۔۔۔۔بابا نماز پڑھنے چلے گئے تو وہ وقت گزاری کے لئے اطراف کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔۔ ایک بنچ پر اسے مسز یزدانی بیٹھی نظر آئیں ۔
"میم یہاں کیسے ۔۔۔۔۔ پتا نہیں کیا ہوا میم کو " وہ اٹھ کر ان کے پاس چلی گئی ۔
"السلام علیکم میم " اس نے قریب جا کر انہیں سلام کیا ۔۔
*وعلیکم السلام ۔۔۔۔ زجاجہ بیٹا آپ ادھر ۔۔۔۔۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی؟؟؟ " مسز یزدانی نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا ۔۔
"جی میم ۔۔۔ہلکا سا بخار آ گیا تھا " وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گئی" لیکن ماما بابا کو کون سمجھائے یہ کوئی ایسی بیماری نہیں کہ ڈاکٹر کے پاس آ جائے بندہ ۔۔۔۔ سو میں چپ چاپ آ گئی "
"بیماری تو ہے یہ بھی ۔۔۔۔ آپ میرے ولید کئی طرح بخار کو بیماری نہیں سمجھتی نا " ولید کے نام پر زجاجہ کے دل نے بیٹ مس کی ۔۔۔۔۔ "مان لیا کہ بخار بذات خود بیماری نہیں ہے " انہوں نے اپنی بات جاری رکھی ۔۔۔۔۔
"چلیں مما " ولید ان کے پاس آ کر بولا ۔۔۔۔ اس کی نظر زجاجہ پر پڑی تو ٹھٹک گیا "انہیں کیا ہوا "
"ہاں بیٹا چلتے ہیں ۔۔۔۔ یہ زجاجہ بھی ادھر آئ ہوئی ہیں۔۔۔ بخار ہے ان کو ۔۔۔۔" وہ ولید کو بتانے لگیں "لیکن یہ بھی وہی تم نوجوان نسل کی لاجک دے رہی ہیں کہ بخار کوئی بیماری تو نہیں نا ۔۔۔۔ میں کہہ رہی تھی اگر بخار بیماری نہیں ہے تو اس کے پیچھے کوئی وجہ تو ہو گی نا ۔۔۔۔ بلاوجہ تو بخار نہیں ہوتا نا بیٹا "
ان کی اس بات پر اس نے قہر آلود نظروں سے ولید کئی طرف دیکھا ۔۔۔ جیسے کہنا چاہ رہی ہو "میرے بخار کی وجہ آپ کا بیٹا ہے "۔۔۔۔۔ ولید اس کی نظروں کا مطلب سمجھ گیا تھا ۔۔۔۔ اس نے بمشکل ہنسی کنٹرول کی ۔۔۔۔ زجاجہ منہ پھیر گئی ۔
"میں بلڈ پریشر چیک کروانے آئی تھی۔۔۔۔ اللہ پاک آپ کو صحت دے ۔۔۔۔ " مسز یزدانی اٹھتے ہوئے بولیں "اور ہاں اگر طبیعت نہ ٹھیک ہو تو صبح چھٹی کر لینا " انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ نرمی سے مسکرا دی ۔۔۔۔ وہ ان کو جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔۔
ولید نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک لے جاتے ہوئے دور سے ہی سوری بولا تو زجاجہ کو اس کے انداز پر ہنسی آ گئی ۔۔۔ ولید بھی مسکرا کے باہر نکل گیا ۔۔۔
اتنے میں بابا بھی آ گئے ۔۔۔۔وہ بابا کو مسز یزدانی کے بارے میں بتانے لگی ۔۔۔۔۔ اس کا نام بلایا گیا تو وہ ڈاکٹر کے روم میں چلی گئی ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے اسے موسم کا اثر بتا کر آرام کرنے کو کہا ۔۔۔۔۔ بابا نے اس کی دوائی لی اور کلینک سے نکل آئے ۔۔۔۔۔ واپسی پر بھی وہ ولید کے بارے میں ہی سوچتی رہی ۔۔۔
"زجاجہ کھاؤ گی کچھ " ماما اس کے بال سہلاتے ہوئے بولیں
"نہیں ماما ۔۔۔۔ بلکل بھوک نہیں ہے ۔۔۔بس اب سونا چاہ رہی ہوں " وہ ان کا ہاتھ تھام کر بولی ۔۔
"ٹھیک ہے میری جان ۔۔۔۔ آرام کرو " وہ اس کا ماتھا چوم کر باہر آ گئیں ۔۔۔۔ زجاجہ نے سونے کی غرض سے آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ موبائل کی بپ ہوئی ۔۔۔ اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو ولید کا میسج تھا
"صبح چھٹی نہیں کرنا "
اس کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔
عجیب شخص ہے مجھ سے گریز پا بھی ہے
نظر نہ آؤں تو مجھے ڈھونڈتا بھی ہے
زجاجہ نے موبائل سائیڈ پہ رکھا اور آنکھیں موند لیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقاش بہت دنوں سے دیکھ رہا تھا کہ ولید کچھ بدل سا گیا ہے ۔۔۔۔۔ بات بے بات ہنس پڑتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اس کا دھیان موبائل میں بھی کچھ زیادہ رہنے لگا ہے ۔۔۔۔۔ آج وہ سوچ کر آیا تھا کہ وجہ معلوم کر کے رہے گا ۔۔۔۔ وہ اچانک اس کے آفس ہی آ گیا ۔۔۔۔
"ہیلو ہینڈسم کزن " نقاش نے دروازہ کھولتے ہی ہانک لگائی ۔
"اوئے تم کدھر ۔۔۔۔ بتایا بھی نہیں " ولید حیران ہوا ۔
"بس میں تمہیں راہ فرار نہیں دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔"نقاش آنکھیں سکیڑ کر بولا
"کیا مطلب۔۔۔۔۔۔ کیسی راہ فرار " ولید اس کی بات سمجھ نہیں پایا ۔
"شانتی شانتی ڈیئر برو ۔۔۔۔ جلدی کیا ہے " نقاش نے پیپر ویٹ گھماتے ہوئے کہا "پہلے کوئی چائے پانی تو منگواؤ"
"بھوکے ہی مرتے رہنا ہر وقت " ولید نے کہتے ہوئے انٹر کام اٹھا لیا ۔۔۔۔۔
"وہ لڑکی کون ہے " نقاش کا حملہ براہ راست تھا ۔۔۔۔
"کون لڑکی " ولید نے اپنے پیچھے دیکھتے ہوئے نا سمجھی سے کہا
"بس بس ولید حسن ۔۔۔۔۔ مانا تو معصوم ہے لیکن اتنا کاکا چوچا بھی نہیں کہ میری بات نہ سمجھ سکے " نقاش نے اس کی معصومیت کو اس انداز میں بیان کیا کہ وہ تلملا کے رہ گیا "اب سیدھا سیدھا بتا "
"یار وہ ۔۔۔۔۔" ولید کہتے کہتے رکا "وہ بس ہے کوئی ۔۔۔تجھے کیا لگے " ولید نے تیزی سے کہتے ہوئے فائل کھول لی ۔۔
"ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔۔ جیسے تمہاری مرضی " نقاش نے کندھے اچکائے "ویسے جنگل میں رہتے ہوئے شیر سے دشمنی مہنگی بھی پڑ سکتی ھے "
اس کی بات پر ولید کا قہقہہ بلند ہوا "بڑی چیز ھے تو ۔۔۔۔ماموں ٹھیک تجھے استاد کہتے ہیں "
نقاش نے کالر جھاڑے اور ولید کی بات کی طرف متوجہ ہو گیا جو اسے بتانے پر آمادہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ ولید کے ساتھ یونیورسٹی آئی تھی ۔۔۔۔ وہ بھی میم کے کہنے پر ۔۔۔ ٹرانسپورٹرز نے ہڑتال کر رکھی تھی اور اس کی بہت ضروری کلاس تھی ۔۔۔۔۔ میم نے اسے پریشان دیکھا تو ولید کے ساتھ چلے جانے کا کہا
"نہیں میم ۔۔۔۔۔ اٹس اوکے ۔۔۔میں کچھ ارینج کرتی ہوں " اس نے انکار کرنا چاہا ۔
"دیکھیں بیٹا میں نے سارے سٹاف کو ہمیشہ اپنی فیملی ہی سمجھا ھے ۔۔۔۔ اور اگر انسان ہی انسان کے کام نہ آئے تو انسان ہونے کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ھے ۔۔۔۔ ولید ادھر ہی تو جا رہا ھے ۔۔۔۔۔آپ بھی چلی جاؤ ساتھ " انہوں نے اس انداز سے کہا کہ وہ منع نہ کر سکی ۔۔۔۔۔
ولید : "زجاجہ "
زجاجہ : "جی "
ولید : "گرمی تو نہیں لگ رہی "
زجاجہ : "گرمی وہ بھی نومبر میں " زجاجہ کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا
ولید : "میں نے سنا تھا محبت میں بندہ ہر چیز کا فرق بھول جاتا ھے ۔۔۔ اس لئے ذرا چیک کر رہا تھا "
زجاجہ اس کی شرارت پر محض دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔
ولید : " اس دن میں نے shout کیا ۔۔۔۔ اس کے لئے سوری۔۔۔۔ اصل میں مجھے عادت نہیں ھے اس طرح کی باتوں کی اور محبت کا بھی پہلا experience ھے نا سو۔۔۔۔۔۔۔ "
"اٹس اوکے ۔۔۔۔۔ غلطی میری تھی ولید سر " زجاجہ اعتراف کرتے ہوئے بولی " میں اوور ری ایکٹ کر گئی تھی "
" ہمم ۔۔۔۔ مے بی ۔۔۔۔۔ لیکن مجھے اس طرح بی ہیو نہیں کرنا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔۔ " وہ سچ میں شرمندہ ہو رہا تھا " یو نو زجی میں کبھی کبھی بہت جلدی ہائپر ہو جاتا ہوں ۔۔۔۔ پلیز آپ برداشت کرنا "
"آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں سر " وہ کنفیوز ہو گئی ۔۔۔"جو ہو گیا بھول جائیں "
"لیکن یقین کریں آپ کے بخار میں میرا کوئی ہاتھ نہیں تھا "
اس کی بات پر زجاجہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔۔۔۔۔ یونیورسٹی پہنچ کر وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کے پاس اترتے ہوئے رک گئی
"مجھے آپ مت بولا کریں ولید سر ۔۔۔۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا "
"ہمم ۔۔۔۔۔۔ مشکل میں ڈال دیا ہے " وہ سر کھجانے لگا "چلو صحیح ہے ڈیل کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں آپ نہیں بولوں گا اور آپ سکول سے باہر مجھے سر نہیں بولیں گی ۔۔۔۔ منظور ؟؟؟" ولید نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔۔۔ جو کچھ توقف کے بعد زجاجہ نے "اوکے " کہہ کر تھام لیا ۔۔۔۔
"واپسی پہ ادھر سے ہی پک کر لوں گا ۔۔۔۔۔ ٹیک کیئر " ولید نے کہتے ہوئے گاڑی پارکنگ کی طرف بڑھا دی ۔۔۔۔ جبکہ اس کی "دیوانی " وہیں کھڑی اس راستے کو دیکھتی رہی جدھر وہ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
"داستان کا آغاز کئی سو سال پہلے ان پلیٹوں سے ہوا تھا جو ایک مدفون شہر کی کھدائی کے دوران دریافت ہوئی تھیں اور ان پر ایک داستان لکھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ وہ داستان ایک شہزاد ے کی تھی جس کا نام گل گامش تھا اور جو اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک شیطان کا مقابلہ کرتا ہے ۔۔۔۔۔ "پروفیسر سہیل کی آواز ہال میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ سب سٹوڈنٹس بہت غور سے لیکچر سن رہے تھے ۔۔۔۔
"بیا میں ولید سر کے ساتھ واپس جاؤں گی ۔۔۔۔۔ ہی ول ڈراپ می " اس نے سر گوشی میں بیا کو بتایا
"میں بھی چلوں گی ساتھ " بیا نے سکون سے جواب دیا ۔
"تم کیوں چلو گی" اس نے حیرت کا اظہار کیا ۔
" کیونکہ مجھے تم پہ اعتبار نہیں ہے " بیا نے شرارت سے آنکھ دبائی تو وہ کچھ دیر ناسمجھی کی کیفیت میں اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔ اور سمجھ آنے پر اس کی پسلیوں میں زور دار کہنی مارتے ہوئے غصے سے بولی
"شرم کر بےشرم عورت ۔۔۔۔۔۔ تجھے میں ایسی دکھتی ہوں "
"ایسی دکھتی نہیں ہو ۔۔۔۔یہی تو مسئلہ ہے نا " بیا اپنا پہلو سہلاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ زجاجہ دانت پیس کر رہ گئی ۔
کلاس ختم ہوئی تو ڈیپارٹمنٹ کے باہر اس نے ولید کو اپنا منتظر پایا ۔۔۔۔ آج ولید حسن فل بلیک میں تھا۔۔۔۔۔۔ بلیک پینٹ شرٹ کے ساتھ بلیک جیکٹ پہنے ۔۔۔۔۔ بلیک سن گلاسز لگائے وہ نظر لگنے کی حد تک شاندار لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ زجاجہ نے اسے نظر بھر دیکھا لیکن اگلے ہی پل نظر لگ جانے کے خیال سے آنکھیں جھکا لیں ۔۔۔۔۔۔ وہ اور بیا گاڑی کے پاس آ کر رک گئیں ۔۔۔۔بیا نے ولید کو سلام کر کے ڈراپ کرنے کی ریکویسٹ کی تو ولید نے "شیور " کہتے ہوئے دروازہ کھول دیا ۔۔۔۔۔
"وہ دیکھو میمونہ " بیا نے زجاجہ کی توجہ سامنے سے آتی میمونہ کی طرف موڑی تو زجاجہ کے ماتھے پر شکن پڑ گئی
"چلیں ولید سر " اس نے ولید سے چلنے کو کہا ۔۔۔
ولید بھی میمونہ کو دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔ اور زجاجہ کا موڈ بھی بھانپ چکا تھا لیکن وہ کوئی بدمزگی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔ اس لئے خاموشی سے گاڑی سٹارٹ کر دی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں بہت جلد بہت قریب آ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔ ولید کو لگتا وہ کئی سالوں سے زجاجہ سکندر کو جانتا ہے ۔۔۔۔۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وہ لڑکی اس کے لئے بہت قیمتی ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ولید کا بس چلتا تو اسے سب سے چھپا کے کہیں محفوظ کر لیتا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ زجاجہ کی دیوانگی سے بھی واقف تھا ۔۔۔۔۔وہ اکثر کہتا
"یہ تمہارے جذبے کی سچائی تھی زجاجہ جو مجھے یہاں تک لے آئی ورنہ زندگی نے بہت مواقع دیے اور ولید حسن اونی جگہ سے نہیں ہلا تھا "
اس اقرار پر زجاجہ اترا جاتی اور کہتی "ولی میں مغرور ہو جاؤں گی ۔۔۔۔۔ اور آپ کو پتا ھے نا غرور اللہ پاک کو پسند نہیں ھے "
"کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔ ہو جاؤ مغرور ۔۔۔۔۔ میں اللہ پاک سے معافی مانگ لوں گا " ولید کے جواب پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی اور ولید حسن دیکھتا رہ جاتا ۔۔۔
جاری ہے