جیا ناول از ثانیہ علی|Jiya Novel By Sania Ali Episode 2

2138 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
#جیا
#ثانیہ_علی ✍️
#پاٹ2سیکنڈلاسٹ
زونائشہ کے ساتھ وقت گزرنے کا پتا نہیں چلتا تھا وہ جیسے معلومات کا سمندر تھی ابتسام کی علم کی طلب اس سے باتیں کر کے پوری ہوتی تھی ۔۔
وہ بہت خوش تھا زونائشہ کا ساتھ پا کر ایسے ہی دو سال کا عرصہ گزر گیا کہ اسے پتا چلا آنسہ کی شادی ہے سب نے اسے بلایا اس نے ہمیشہ کی طرح ٹال دیا اور آنسہ کو بہت سے گفٹ بھجوائے ۔۔۔
انوشے آپی کی شادی کے بعد یہ پہلا فنکشن تھا گھر کا اور وہ وہاں نہیں ہے یہ سوچ کر اکثر دکھی ہو جاتا تھا۔۔۔۔۔ان دنوں وہ روز ہی گھر بات کرتا وڈیو کال پر شادی کی تیاریاں دیکھتا اور خود کو وہاں سمجھ کر بہل جاتا
ایک دن وہ انوشہ آپی سے بات کر رہا تھا جو آج کل زیادہ ہی آئی ہوتی تھیں ان کا بیٹا ایان پاس کھیل رہا تھا آپی سے بات کرتے ہوئے اس نے لیپ ٹاپ کی سکرین پر دیکھا
علیزے تیزی سے روم میں آئی اور بولنے لگی
"آپی دیکھیں یہ شرٹ بہت ٹائٹ ہے یہ نہیں صحیح سلی افف اب کیا ہو گا تھوڑے سے تو دن رہ گئے فنکشن میں"
آپی اس کی طرف متوجہ ہو چکی تھیں
اور ابتسام کی نظریں ساکت رہ گئیں وہ مبہوت سا علیزے کو دیکھے گیا ۔۔۔۔
علیزے اتنی خوبصورت ہے اسے پتا ہی آج لگا سادہ سا معصوم چہرہ اور بال اتنے لمبے جب وہ آیا تھا تو چھوٹے تھے ، آنکھیں بڑی بڑی کاجل سے بھری اور ہنستے ہوئے اس کی گال کے ڈمپل وہاں سے ہوتے ہوئے اس کی نظر اس کے سراپے پر ٹھہر گئ دوپٹے کے بغیر اس کا سراپا ۔
__________
ابتسام کو جھجک سی آئی کہ وہ اسے کیسے دیکھ رہا ہے اس نے لیپ ٹاپ بند کر دیا اور اپنی سوچ کو بدلنے کیلئے زونائشہ کی تصویریں دیکھنے لگا اور تھوڑی کوشش سے ہی وہ اپنی کیفیت پر قابو پا چکا تھا
۔۔۔۔
شادی کا فنکشن گزر گیا تصویریں ملتی رہیں وہ جانے انجانے علیزے کو دیکھنا چاہتا تھا اس کی تصویروں میں جیسے زندگی نظر آتی زوم کر کر کے علیزے کو دیکھتا
مہندی کے فنکشن میں گھاگرہ چولی اور ناک میں نتھلی ڈالے وہ دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی ایک تصویر میں تھوڑی حیران سی جس میں اس کی آنکھیں مزید بڑی لگ رہی تھی وہ دیکھتا رہا پھر اس کو اسکرین سیور لگا لیا
وہ اپنے دل کی بے ایمانی پر بڑا حیران اور کنفیوژ تھا گھر آتے ہی لیپ ٹاپ پر جیا کو دیکھنا اس کی روٹین بن گئ ۔۔۔۔۔ زونائشہ کافی بار شکوہ کر چکی کہ اب زیادہ بات نہیں کرتے ابتسام ٹال جاتا وہ خود کو سمجھاتا اور زونائشہ سے باتیں کرنے لگتا
۔۔۔۔
ہوٹل کے مسحور کن ماحول میں ڈنر کرتے ہوئے زونائشہ بڑی ادا سے بولی "میں کیسی لگ رہی ہوں"
ابتسام نے اسے دیکھا تو چھن سے تصور میں جیا کی تصویر آ گئ اس نے خود کو سمجھایا اور توجہ سے زونی کو دیکھ کر تعریف کی اور اس وقت وہ خود کو منافق سا لگا ۔۔۔ وہ بار بار زونی کو دیکھتا اور سوچتا کہ کیا میں اسے پسند کرتا تھا مگر کیوں؟ یہ مصنوعی میک اپ زدہ چہرہ شولڈر کٹ بال ، کیا دیکھا میں نے ؟ اس کا کانفیڈینس بھی اسے عجیب لگ رہا تھا ۔۔۔۔
دن گزرتے رہے گھر سے آنے والی تصویروں میں جیا نہیں ہوتی تھی وہ دیکھنا چاہتا تھا ایک دن زوہا سے آخر بول ہی دیا کہ علیزے کی پکس نہیں ہوتیں تو کہنے کی دیر تھی جیا کی تصویریں ہی تصویریں آنے لگی کبھی وہ ککنگ کر رہی کبھی آٹا منہ پر لگا کہیں وہ لان میں پودے لگا رہی ہوتی کہیں کرکٹ کھیل رہی کہیں امی ساتھ کہیں چچی ساتھ اور ایک تصویر میں طلحہ ساتھ کسی بات پر ہنس رہی تھی طلحہ ساتھ بے تکلفی سے ہنستی ہوئی ابتسام کو بہت بری لگی۔۔۔۔
____________
ایک دن زوہا نے بتایا سامی بھائی جیا کا رشتہ آیا ہے اچھے لوگ ہیں ابا سوچ رہے ہیں اور طلحہ بھائی (پھپھو کا بیٹا) بھی رشتہ بھیج چکا ہے گھر کے بڑے سوچ رہے ہیں حمزہ چھوٹا ہے نہیں تو اسی سے کر دیتے جیا کی شادی جیا میں جان ہے سب کی۔۔
وہ اور پتا نہیں کیا کیا کہہ رہی تھی مگر ابتسام کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی
اس نے لیپ ٹاپ بند کر کے اپنے نروس کو کنٹرول کیا اور بے چینی سے سیگریٹ سلگا کر کھڑکی پہ آ گیا ۔۔۔۔۔
یہ کیسی آگ تھی کیسی تپش تھی وہ جیا کو چاہنے لگا تھا وہ کیا کرے اب ؟
کیسے بابا سے بات کرے چاچو ہرٹ ہوئے تھے کیا وہ معاف کریں گے
میرا فیوچر جاب ؟
وہ سوچتا رہا اور سلگتا رہا
وہ سمجھدار سا سنجیدہ سا بندہ کیا کر رہا ہے ، کیوں وہ ایک بے وقوف سی لڑکی کے لئے پاگل ہو رہا ہے ؟
اس نے پھر لیپ ٹاپ آن کیا اور جیا کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پا رہا تھا شاید وہ جیا کو لاشعوری طور پر شروع سے سوچتا رہا ہے ورنہ حسین لڑکیاں تو وہ روز دیکھتا ہے شاید وہ اسے تب بھی چاہتا تھا جب وہ دو سال کی تھی اس کے گال پر تھپڑ مار کر رلا کر اسے مزہ آتا تھا ،،،وہ اسے تب بھی چاہتا تھا جب انوشہ آپی کی شادی پر مہندی والے ہاتھ اس کے کپڑوں پر لگا بیٹھی اور سوری سامی بھائی کہتی بھاگ کر چھپ گئ ۔۔۔
شاید یہ جھنجھلاہٹ اسے اسی لئے تھی کہ اس کو سوچتا آیا چاہے غصہ سے ہی ۔۔۔۔
جیا میری ہے بس
صرف میری۔۔۔۔۔
ایک فیصلہ کر کے اٹھا اور مطمئن ہو گیا ۔۔۔۔
_______
پاکستان آتے ہوئے وہ زونائشہ کیلئے اداس تھا جس نے دوستی کا حق ادا کر کے مسکرا کر الوداع کیا جو بھی تھا زونی ایک اچھی لڑکی تھی اس کا دل دکھا تھا ۔۔۔۔
گھر آ کر سب سے مل کر وہ رو پڑا ابا اور چاچو کتنی کتنی دیر تک اسے گلے لگائے رہے امی کی گود میں سر رکھ کر ان کی ممتا محسوس کر کے وہ حیران تھا کہ وہ اتنا ترسا ہوا تھا اپنوں کیلئے۔۔۔
اس کی نظریں علیزے کو دیکھنا چاہتی تھی وہ نظر نہ آئی ایک دن پورا گزرا وہ نہیں سامنے آئی اس نے کسی سے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا پھر دوسرا پھر تیسرا آخر صبر مشکل ہو گیا اس نے زوہا سے پوچھا تو اس نے بتایا آپ نے اسے ہرٹ کیا تھا آپ کی باتیں اس نے سن لی تھی جب آپ نے انکار کیا تھا اس لئے ایسا کر رہی ہے ۔۔
وہ بے چین سا ہو کر چچی کے پورشن میں آگیا اور وہیں بیٹھا رہا الجھے ذہن اور بے لگام دل کے ہاتھوں مجبور۔۔۔۔
وہ اسے آتی دکھائی دی گرمی سے چہرہ سرخ لئے وہ کچن سے پانی پینے گئ تو ابتسام اس کے پاس چلا آیا اور اسے دیکھتا رہا علیزے کے رویے پر غور کرتا رہا جب وہ صوفے پر بیٹھ کر خود کو مصروف شو کرتی رہی وہ اس کو بڑے پیار سے دیکھتے ہوئے اپنے دل میں اتارتا رہا ۔۔ وہ علیزے کے سامنے مجرم سا سمجھتا رہا کہ چچی نے بلایا واپس آیا تو لاؤنج میں علیزے نہیں تھی وہ پیپر تھا جس نے اس کو نئ زندگی دے دی اور ذہن پر چھائی کثافت دھل گئ۔۔
_________
اور جیا نے انکار کر دیا
ابتسام چپ سا بیٹھا رہ گیا جب ابا نے بتایا کہ جیا نے انکار کر دیا
"بابا پلیز کچھ کریں پلیز بابا "
ابا نے بڑے پیار سے اپنے خوبرو بیٹے کی طرف دیکھا اور اس کی تڑپ محسوس کی
"بیٹا وہ غصے میں ہے مان بھی سکتی اگر تم اپنا رویہ درست کرو اور اس سے معافی مانگو
ہماری تو خواہش ہے جیا کہیں نہ جائے تمہارے چاچو کو بھی نہیں کوئی اعتراض مگر ہماری جیا جو کہے گی وہی ہو گا "
ابتسام سوچ رہا تھا کیسے منائے کہ اسے لڑکیاں منانے کا کوئی تجربہ نہ تھا ابا نے چھیڑتے ہوئے کہا "خیر سے محبت ہو گئ ہے میرے بیٹے کو "
ابتسام گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گیا اور شرماتے ہوئے سر ابا کی گود میں رکھ دیا :))
__________
صبح صبح واک کی غرض سے ابتسام روم سے نکلا تو لان میں علیزے کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔۔
علیزے شاید نہا کر آئی تھی لمبے بال کمر پر بکھرے اور سفید سوٹ وہ اس وقت کوئی روح ہی لگ رہی تھی وہ دیکھتا دیکھتا اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا
"جیا "
علیزے نے چونک کر دیکھا اور سنبھل کر بیٹھ کر بولی "میرا نام علیزے ہے پلیز مجھے جیا نہ کہا کریں "
ابتسام نے مسکراتی نظریں اس پر جما دیں
" تم نے انکار کیوں کیا؟
"میری مرضی "ٹکا سا جواب آیا
" کچھ تو ریزن ہو گی میں چاہتا ہوں ہم بات کر لیں کھل کے"
کوئی ریزن نہیں بس میری مرضی " یہ کہہ کر علیزے اٹھنے لگی تو ابتسام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکنا چاہا
"علیزے پلیز میری بات سن لو ایک بار "
"آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی اور کیا بات سنوں آپ کی بس نہیں کرنی آپ سے شادی کسی بھی چرسی ، نشئ سے کیوں نہ کرنی پڑے آپ سے نہیں کرنی شادی ، سن لیا ؟
ابتسام گنگ سا بیٹھا رہ گیا علیزے لان کی دوسری طرف چلنے لگی پھر علیزے نے بالوں کا جوڑا بنایا سر پر دوپٹہ لیا اور گیٹ کھول کر باہر چہل قدمی کرنے چل دی ۔ ۔۔۔
ابتسام نے خود کو ہمت اور حوصلہ کرنے کو کہا اور ابھی اٹھ کر گیٹ کی طرف بڑھنے ہی لگا کہ۔۔
علیزے چیختی ہوئی آئی اور اس سے لپٹ گئ اس کے پیچھے پیچھے ایک بڑا سا کتا بھی گیٹ کے اندر تک آیا
"بچاؤ کتا بچاؤ بچاؤ "
کتا بے چارہ اس سین کو دیکھ کر یا ابتسام کو دیکھ کر واپس بھاگ گیا
ابتسام نے دل ہی دل میں کتے کا شکریہ ادا کیا اور شرارت سے بولا
" کس حق سے مجھے ہاتھ لگایا ؟ تم لڑکیوں کے ڈرامے بہانے سے گلے لگ گئ "
جیا نے شرمندہ سی ہو کر اس کی شرٹ چھوڑ دی اور اندر کی طرف دوڑ لگا دی
پیچھے ابتسام کا جان دار قہقہ سنائی دیا ؛))
___________
""سنا ہے ایک لڑکی سر عام سامی بھائی سے لپٹ گئ حمزہ "
صبح سے پتا نہیں کتنی بار زوہا اسے چھیڑ چکی تھی دو تین بار تو لڑائ بھی ہوئی مگر زوہا بھی زوہا تھی اس کا جینا حرام کر رہی تھی۔۔۔
علیزے اب تنگ آ کر اس کو اگنور کر کے بل دار پراٹھے بنانے میں مگن تھی
"واہ جیا مزہ آگیا بھائی کہہ رہے ہیں ایک اور پراٹھا لاؤ '
""حمزہ سے کہو میں نوکر نہیں لگی"
"یار حمزہ نہیں سامی بھائی ناشتہ کر رہے ہیں چاچو ساتھ حمزہ تو نیچے جا چکا "
کیا؟
کیوں؟
کس لئے "
علیزے نے غصے سے کہا
"یہ میرے چاچو کا گھر ہے اس لئے " جواب کہیں اور سے آیا
ابتسام نے گہری نظر اس پر ڈالی اور ٹشو پکڑ کر اس کے ماتھے سے آٹا صاف کیا اور اس کے سامنے سے پراٹھا اٹھا کر باہر چلا گیا
"ہائے ہائے اففف افف کیا کیا سین چل رہے ہیں ہمارے گھر
زوہا نے بولتے ہوئےاسے ہلایا وہ کھوئی کھوئی سی چپ چاپ اپنے روم میں آگئ۔۔۔