مان بھروسہ پیار ازمہوش خان|Maan Bharosa Pyar By Mahwish Khan Episode 28

190 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
#مان_بھروسہ_پیار
از مہوش خان ✍️
قسط 28
ماہی کو سارہ سے بات کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا اس کے پیپرز چل رہے تھے پھر پیپرز کے بعد اسکی شادی کی تاریخ طے ہونے والی تھی ۔۔۔۔
سب کام اسے ہی دیکھنے تھے ، سمارہ بھابھی کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی تھی ۔۔۔بابا اور زارون بھاٸی کے کپڑے وغیرہ دیکھنا سب سے کام کروانا ، پھر اس کے پیپرز سے اسے ٹاٸم ہی نہیں مل رہا تھا کہ وہ سارہ سے احد کے متعلق بات کرے۔۔۔
اللہ اللہ کرکے اسکے پیپرز ختم ہوۓ تو اسکے سسرال والوں کے آنے کا عندیہ آگیا کہ وہ آرہے ہیں تاریخ طے کرنے۔۔۔۔۔تو ماہی اس کی تیاریوں میں لگ گٸ۔۔۔۔
بیل بجی تو وہ دیکھنے گٸی کہ کون آگیا تو سامنے سارے خاندان کے بڑے بزرگ موجود تھے۔۔۔۔۔
سارے تایا ، چاچو ، احد اور ہادی ، اسے حیرت ہوٸی سب کو دیکھ کر۔۔۔۔
وہ سب سے ملی پھر انکو بٹھایا پانی وغیرہ پوچھا۔۔۔۔۔
”تمہارے ابا کہاں ہے ماہی؟“۔۔۔بڑے تایا نے بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔۔۔۔
”وہ تو آفس ہے ، آپ نے انہیں آنے کا نہیں بتایا کیا؟“۔۔۔۔۔ماہی نے حیرت سے پوچھا کہ وہ اچانک کیوں بغیر بتاۓ آگۓ ، شاید میری ڈیٹ فکس ہونے والی ہے کل اس وجہ سے آۓ ہوں ، لیکن اتنی جلدی وہ کیسے آسکتے ہیں۔۔۔۔۔
”نہیں ،انہیں فون کرکے گھر آنے کا بولو“۔۔۔بڑے تایا نے سنجیدگی سے حکم دیا ،
ماہی نے باری باری سب کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
”سب اتنے سیریس کیوں ہیں ؟ کیا کوٸی بات ہوٸی ہے ؟ کہیں احد اور سارہ کا تو کوٸی سین نہیں ہے“۔۔۔۔۔ماہی نے پریشانی سے سوچتے ہوۓ بابا کو کال کرکے سب آنے کا بتایا ، تو بابا تھوڑی دیر میں ہی خبیب بھاٸی کے ساتھ آگۓ اور اسے انکے کھانے کا بندوبست کرنے کا کہا ، وہ کھانا بنانے کچن میں چلی گٸ۔۔۔۔
”بھاٸی جی خیریت یوں اچانک آگۓ گھر میں سب ٹھیک ہے ؟“۔۔۔۔فیروز صاحب نے پریشانی سے سب سے ملنے کے بعد پوچھا۔۔۔۔
”ہاں خیریت ہی ہے ، ہم آج تم سے کچھ مانگنے آۓ ہیں“۔۔۔۔۔بڑے تایا ڈاٸریکٹ اصل موضوع کی طرف آۓ، سب انکی طرف ہی متوجہ تھے۔۔۔۔
”جی بھاٸی جی آپ حکم کرے سب آپ کا ہی تو ہے“۔۔۔۔فیروز صاحب نے عاجزی سے کہا۔۔۔
”مجھے پتہ ہے سب میرا ہے ، تمہارے بچے بھی میرے ہیں ، جتنا تم ان سے محبت کرتے ہو اتنا ہی میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں اگر میں ان کے لیے کوٸی فیصلہ لوں گا تو مجھے امید ہے کہ تم میرا مان رکھ کر اسے مانو گے“۔۔۔۔فیروز صاحب نے چونک کر باری باری سب کی طرف دیکھا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔۔۔
”بھاٸی جی آپ مجھے پریشان کر رہے ہیں آپ بتاۓ میں نے کبھی آپ کی بات سے انکار کیا ہے“۔۔۔۔
”میں تم سے ماہ رخ کا رشتہ مانگنے آیا ہوں احد کے لیے“۔۔۔۔فیروز صاحب نے کچھ بولنا چاہا تو انہوں نے ٹوکا۔۔۔۔
”مجھے بات مکمل کرنے دو ، مجھے پتہ ہے کہ تم نے اسکا رشتہ پکا کردیا ہے ، لیکن دونوں بچے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ ہم کوٸی ایسا فیصلہ کرے جس کے بعد ہمیں پچھتاوا ہو“۔۔۔۔
انہوں نے احد کی ساری بات فیروز صاحب کو بتادی۔۔۔
جبکہ فیروز صاحب کا سر شرم سے جھک گیا انہیں یقین نہیں آیا کہ ماہی ایسا کرسکتی ہے۔۔۔
”لیکن بھاٸی جی میں نہیں مان سکتا کہ میری ماہی ایسا کچھ کر سکتی ہے“۔۔۔۔۔فیروز صاحب کے لہجے میں یقین تھا ، انہیں اپنی بیٹی پر مان تھا کہ وہ کوٸی غلط کام کر ہی نہیں سکتی ، انہیں اپنی پرورش پر بھروسہ تھا ۔۔۔۔۔
احد نے پریشانی سے ہادی کی طرف دیکھا کہ اب کیا ہوگا؟ انہیں تو یقین نہیں ہورہا ، تو اسنے آنکھوں کے اشارے سے مطمٸن ہونے کو کہا۔۔۔
”مجھے پتہ تھا تم یقین نہیں کروگے ، اپنے بچوں کے خلاف تم ایک لفظ نہیں سن سکتے تو اتنی بڑی بات کیسے قبول کرسکتے ہو ، لیکن غلطیاں بچوں سے ہوتی ہیں “۔۔۔بڑے تایا کو غصہ آیا انکی بات پر یقین نہ کرنے پر۔۔۔۔
” لیکن پھر بھی تم اپنی تسلی کے لیے احد کا موبائل دیکھ لو ، احد اپنے موباٸل میں میسجز اور تصویریں دکھاٶ “۔۔۔۔انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہتے ہوے احد کو کہا۔۔۔
فیروز صاحب نے اسے جِن نظروں سے دیکھا اسکا دل کیا وہ وہاں سے کہیں غاٸب ہوجاۓ۔۔۔۔
اسنے موباٸل انکو پکڑایا۔۔۔۔اس میں اتنے سارے میسجز تھے اظہارے محبت کے کہ انکو پڑھتے ہوۓ فیروز صاحب کو شرم محسوس ہوٸی۔۔۔۔
انکی بے شمار فاطمہ آپی کی شادی کی تصویریں جن میں وہ ساتھ کھڑے ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔
وہ ان میسجز پر یقین نہ کرتے اگر وہ ماہی کے نمبر سے سینڈ نہ ہوۓ ہوتے جوکہ سارہ کی کارستانی تھی ، اسنے ہادی کے کہنے پر وہ سب میسجز اور ماہی کی بہت سی پکچر سینڈ کردی تھی۔۔۔۔
فیروز صاحب کو یہ سب دیکھ کر دھچکا لگا تھا کہ انکی ماہی یہ کیسے کرسکتی ہے ۔۔۔۔
انہوں نے ایک دم غصے سے ماہی کو پکارا۔۔۔۔۔
۔
”ماہ رخ“۔۔۔۔وہ دھاڑے۔۔۔۔
”یا اللہ خیر کیا ہو گیا “۔۔۔۔سمارہ بھابھی ، سارہ سب ماہی کے ساتھ وہاں پہنچے ، فیروز صاحب غصے سے بھرے بیٹھے تھے۔۔۔۔۔
”ماہ رخ یہ تمہارا نمبر ہے ؟“۔۔۔۔۔انہوں نے موباٸل اسکے سامنے کرتے ہوۓ پوچھا۔۔۔۔ماہی نے انکے ہاتھ میں احد کا موباٸل دیکھا پھر اپنا نمبر دیکھ کر سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔
”جی بابا یہ میرا نمبر ہے“۔۔۔۔فیروز صاحب نے کرب سے آنکھیں بند کی۔۔۔۔
”اور یہ تصویریں؟“۔۔۔۔۔ماہی نے دیکھا اسکی بہت سی تصویریں احد کے موباٸل میں تھی ، لیکن اسکے پاس کیسے آٸی، اسنے سب کو دیکھا احد سر جھکاۓ بیٹھا تھا۔۔۔۔
”جی بابا “۔۔۔۔فیروز صاحب نے زور سے تھپڑ ماہی کے گال پر رسید کیا اور وہ صوفے پر منہ کے بل جا گری ، شکر تھا کہ ٹیبل ساٸڈ پر تھا ورنہ اسکا ہونٹ پھٹ جاتا ، احد ایک دم تڑپ کر کھڑا ہوا، ہادی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسےبٹھایا ۔۔۔۔
”تم جیسی بیٹی سے اچھا ہے اللہ مجھے کوٸی بیٹی نہ دیتا ، تم پیدا ہوتے ہوۓ مر کیوں نہیں گٸ ، کاش میں نے تم پر اتنا بھروسہ نہیں کیا ہوتا “۔۔۔۔۔انہوں نے ہارتے ہوۓ لہجے میں کہا۔۔۔۔
ماہی ایک دم سیدھی ہوٸی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسکے ساتھ ہو کیا رہا ہے اس کے بابا ایسا کیوں بول رہے ہیں صرف احد کے موباٸل میں اسکی تصویریں دیکھ کر اتنا شدید ردِعمل کیوں ظاہر کر رہے ہیں۔۔۔۔
”اپنی منحوس شکل لے کر یہاں سے دفعہ ہوجاٶ اس سے پہلے کہ میں تمہیں شوٹ کردوں “۔۔۔۔انہوں نے اسے غصے سے اسے دھتکارا ، سمارہ بھابھی خبیب بھاٸی کے اشارے پر اسے وہاں سے لے گٸ۔۔۔
فیروز صاحب کا بلڈ پریشر ایک دم بڑھ گیا ، خبیب نے ڈاکٹر کو بلایا تو ڈاکٹر نے سکون کا انجیکشن دے کر آرام کرنے کا کہا۔۔۔۔
احد کو دکھ ہو رہا تھا وہ اتنے شدید ردعمل کی توقع نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔ اسکی وجہ سے ماہی کو تھپڑ پڑا تھا ۔۔۔
”بھاٸی جی آپ اسکا نکاح کرکے اسے یہاں سے لے جاۓ میں اسکی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا“۔۔۔۔۔۔انہوں نے ہوش میں آکر سب سے پہلے سب کو بلا کر فیصلہ سنایا۔۔۔۔۔
”فیروز جلد بازی میں فیصلے نہیں ہوتے“۔۔۔۔چھوٹے تایا نے سمجھانا چاہا۔۔۔۔
”مجھے نہیں پتہ یاتو آپ اسے یہاں سے لے جاۓ یاں میں اسکا گلہ گھونٹ دونگا ، میں اسکا وجود اب اور برداشت نہیں کرسکتا“۔۔۔۔فیروز صاحب نے نفرت سے کہا۔۔۔۔
بڑے تایا نے سب کو منا لیا کہ نکاح کرکے رخصت کروا لیتے ہیں باقی سب کچھ ٹاٸم بعد ٹھیک ہوجاۓ گا۔۔۔۔۔
ماہی نے نکاح کا سنا تو فوراً انکار کردیا وہ اس جھوٹے ، دھوکے باز انسان کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔اُسے سمارہ بھابھی نے سب بتایا تو اسے یقین نہیں آیا کہ سارہ اور احد اس کے ساتھ ایسا کرسکتے ہیں اور سارہ نے اسکے موباٸل سے تصویریں سینڈ کی۔۔۔۔
”سارہ تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟“۔۔۔۔ماہی نے دکھ سے اس سے پوچھا کہ وہ اس کے ساتھ ایسا کیسے کرسکتی تھی۔۔۔۔۔
”سوری ماہی میں مجبور تھی “۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گٸ ، جبکہ ماہی بے ہقین تھی کے اسکا اپنا خون اسکے ساتھ ایسا کرسکتا ہے۔۔۔۔
اسنے فیصلہ کیا کہ وہ احد سے ہر گز شادی نہیں کرے گی چاہے کچھ بھی ہوجاۓ۔۔۔۔
جب فیروز صاحب کو اسکے انکار کا پتہ چلا تو وہ آخری بار اسکے کمرے میں آۓ۔۔۔۔۔
”اب کیوں انکار کر رہی ہو؟یہی تو چاہتی تھی نہ تم“۔۔۔۔۔انہوں نے سرد لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
”بابا میں نے کچھ نہیں کیا آپ میرا یقین کرے آپکی ماہی کیسے آپکا مان ، بھروسہ توڑ سکتی ہے“۔۔۔۔وہ ایک دم تڑپ کر انکے قریب آٸی ، تو انہوں نے نفرت سے اسے پیچھے کیا۔۔۔
”تم میری بیٹی نہیں ہو آج سے تم میرے لیے مر چکی ہو اگر تمہارے دل میں اپنے باپ کے لیے ذرا سا بھی پیار ہے تو تھوڑی دیر بعد نکاح خواں اندر آۓ گا اسے ہاں میں جواب دے دینا“۔۔۔۔
وہ یہ کہتے ہوۓ وہاں سے چلے گۓ جب کہ ماہی پیچھے خالی ہاتھ رہ گٸ، اسے سارہ پر شدید غصہ تھا۔۔۔
اسے احد سے نفرت محسوس ہونے لگی کہ جس کی وجہ سے اسکے بابا نے اسے بیٹی ماننے سے انکار کردیا ۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد وہ احد سے بدلہ لینے کے لیے نکاح کے لیے مان گٸی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہی کو ہادی کی بات بار بار ڈسٹرب کر رہی تھی وہ کیسے سچاٸی معلوم کرے کہ کیا سچ ہے ؟ اسنے کچھ سوچ کر احد کو نمبر ملایا۔۔۔۔
احد جوکہ کافی دیر سے پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا موباٸل پر ماہی کی کال دیکھ کر حیران ہوا، کہ ماہی جو اسکی کالز کا جواب نہیں دے رہی تھی اسے خد فون کر رہی ہے۔۔۔۔
”ہے ، ہیلو“۔۔۔۔۔۔ایک دم اسکے حلق سے آواز نہ نکلی ۔۔۔۔
”ہیلو تم جہاں کہیں پر بھی ہو فوراً سے گھر آٶ“۔۔۔۔دوسری طرف سے حکم صادر کیا گیا۔۔۔۔
”گھر ؟ کونسے گھر؟“۔۔۔۔اسے حیرت پر حیرت ہو رہی تھی کہ ماہی نے کال کی اور اوپر سے اسے بلا رہی ہے ، کہیں اسکے کان تو نہیں بج رہے۔۔۔۔۔اسنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ کر چیک کیا ، لیکن وہ صحیح تھے ۔۔۔۔
اسے معلوم نہیں تھا کہ ماہی گھر واپس آچکی ہے۔۔۔۔
”تمہارے کتنے گھر ہے ایک ہی گھر ہے نہ“۔۔۔۔۔ماہی نے بیزاری سے کہا ۔۔۔۔
”مطلب، یعنی۔۔۔ تم میرے ، مطلب ہمارے گھر گاٶں میں ہو؟“۔۔۔۔۔اسنے بےیقینی سے پوچھا ، اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ماہی گھر خد آگٸ ہے۔۔۔۔
”نہیں ایلفاٹاور پر تمہارا گھر ہے وہاں ہو“۔۔۔۔ ماہی کو اس کی بات پر شدید چڑ ہوٸی وہ اتنے بیوقوفوں والے سوال کر رہا تھا۔۔۔
”نہیں میرا ایلفا ٹاور پر کوٸی گھر نہیں ہے“۔۔۔احد نے معصومیت سے کہا ، اب وہ اسے جان بوجھ کر تنگ کر رہا تھا کیونکہ وہ خوش تھا اسے اتنے دنوں بعد ماہی کی آواز سننے کو مل رہی تھی ۔۔۔۔
”احد“۔۔۔۔۔اسنے غصے سے پکارا۔۔۔۔
احد کا دل کیا وہہ ساری زندگی ایسے ہی اسکا نام پکارتی رہے چاہے غصے میں ہی کیوں نہ پکارے۔۔۔۔
”جی فرماٸیے ، بندا ناچیز دل وجان سے حاضر ہے“ ۔۔۔۔وہ اسکے اپنا نام پکارنے پر نثار ہوا۔۔۔۔
” تمہارا تو اوپر والا فلور خالی ہے، اب اگلے بندے کا مت کرو اور جتنی جلدی ہوسکے گھر آجاٶ “۔۔۔۔۔اسنے جھنجھلا کر کہا اور ٹھاک سے فون بند کردیا۔۔۔۔۔
”حدید مجھے تھپڑ مارنا“۔۔۔۔اسنے اپنے دوست کو بولا جو ابھی ابھی کمرے میں آیا تھا۔۔۔۔
”کیا دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا“۔۔۔۔اسے اسکی بات پر حیرانی ہوٸی ۔۔۔۔
”نہیں، مجھے زور سے تھپڑ مارو ، مجھے یقین نہیں آرہا“۔۔۔۔
حدید نے کچھ بھی پوچھے بغیر زور سے مکا مارا ،
وہ اسے مارنےکا موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیتا جبکہ وہ خد اسے مارنے کا کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔
”کمینے اتنی زور سے بھی مارنےکا نہیں کہا تھا“۔۔۔۔۔احد نے اپنی کمر سہلاتے ہوۓ اسے گھور کر کہا۔۔۔۔۔
”کیا بات ہے آج دکھی آتما بڑی خوش ہے؟“۔۔۔۔حدید نے اسکی شکل دیکھ کر کہا جس پر ہر وقت تیرا بجے ہوۓ ہوتے تھے اور آج وہ خوشی سے چہک رہا تھا۔۔۔۔
”ہاں خیر ہی ہے ، میں جا رہا ہوں اور شاید واپس نہ آٶں“۔۔۔۔اسنے اپنا جلدی جلدی میں سامان سمیٹتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
” کیا ؟ پر کیوں اور تیری پڑھاٸی“۔۔۔۔اسے اسکی بات پر تعجب ہوا ۔۔۔۔
”کیوں وغیرہ بعد میں بتاٶں گا،ابھی مجھے دیر ہورہی ہے اللہ حافظ“۔۔۔۔۔وہ اسے گلے ملتے ہوۓ چلا گیا ، جبکہ پیچھے حدید کو اس پر تعجب ہوا ، اسنے کندھے جھٹکے .