محبت سیب کی صورت|Mohabbat Seep Ki Surat By Maryam Sheikh Episode 15

322 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
#محبت_سیپ_کی_صورت
#مریم_شیخ ✍️
قسط 15
تقدیر جے لِکھدی ماں بچیاں دی
محبت سیب کی صورت|Mohabbat Seep Ki Surat By Maryam Sheikh Episode 15
وہ اچھے سے جانتی تھیں انکی بیٹی کے اندر اپنی ماں کی ازدوجی زندگی دیکھ کر خوف سیمٹے ہوئے ہیں ۔
پہلی بار انہوں نے اسکی آنکھوں میں جگنو دیکھے تھے سارے طور طریقوں کو ایک طرف رکھ کر انہوں نے اسکی خواہش کا احترام کیا تھا ۔مگر اس سب کے باوجود بھی اگر قسمت اس پر مہرباں ہونے سے انکاری تھی تو کہاں جاتیں ۔کنواری بچی کو اتنے عرصے سے گھر بٹھانے کا کیا جواز دیتیں ۔رشتے داروں کی نظروں میں روز بروز اٹھتے سوال دیکھ کر وہ کانپ گئیں تھیں ۔
انکی ممتا دعاؤں کے سہارے رزک تو مول لے سکتی تھیں مگر بدنامی نہیں ۔۔۔۔
کل صبح انکی آبی دلہن بنے جا رہی تھی ۔مگر دلہنوں والی کوئی بات نہ تھی اس میں ۔
نہ ہاتھوں میں مہندی، گجرا، نا شرماتی مسکان، نا آنکھوں میں چمک ۔۔۔
چپکے سے کئی آنسو ان کی آنکھوں سے بہہ نکلے ۔۔۔
مجھے معاف کر دینا مری بچی میں تمہیں تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دینے سے قاصر ہوں تم نہیں جانتی کے بیٹیوں کی مائیں کتنی مجبور ہوتی ہیں ۔۔۔۔
وہ بند آنکھوں ساتھ ابلہ کے ہیولے سے مخاطب تھیں ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاب ہسپتال سے آیا تو سارا خاندان اکھٹا ہوا بیٹھا تھا ۔۔
دلہے میاں ادھر تو آئیں ۔۔۔
اس دیکھتے ہی ردا چہکی ۔۔۔
او آفت کی پرکالا آخر تم کیوں چاہتی ہو کہ میری شادی خیر خریت سے انجام نا پائے جو ادھر آ پہنچی ہو ۔۔۔
وہاب نے اسے دیکھتے ہی مصنوعی دانت پیسے ۔۔۔
اگر اتنا ہی ٹھیک ہے میں جا رہی ہوں آبی پاس دیکھنا پھر ایسے کان بھرؤں گی نا اسکے ۔۔۔
ردا نے منہ بناتے دھمکی دی ۔۔۔۔
دیکھ رہی ہیں بی اماں اپنی فسادن پوتی کو ۔۔۔
وہاب نے دادی کو دیکھتے احتجاج کیا ۔۔۔
ارے چھوڑ بچی ہے بھائی کے ساتھ مخول نہیں کرے گی تو کس کے ساتھ کرے گی ۔۔۔
انہوں نے اسے پاس بٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔
ہاں جی مخول مخول میں ہی ماحول بنا دیتی ہے یہ ۔۔۔
اس نے بچوں کی طرح منہ بسورا ۔۔۔
چلیں چھوڑیں بھائی اپنی شادی کی خوشی میں کچھ سنا ہی دیں ۔۔۔
رجا درمیان میں کودی ۔۔۔
اگر نہیں ہے تو جو آبی سناتی ہے وہ ہی سنا دیں ۔۔۔
ردا کو شرارت سوجھی ۔۔۔
اسکی بات پر ساری محفل وہاب کی طرف رخ روشن کر چکی تھی ۔۔۔
جبکہ وہاب ردا کی کمینگی پر دانت پیس کر رہ گیا ۔۔
وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ ابلہ نے وہاب کو کھری کھری سنانے کے علاوہ آج تک کچھ نہیں سنایا ۔۔۔
آہم اہم
جھوٹ بولنے والے پر اللہ کی لعنت ۔۔۔۔
ردا نے وہاب کی کنھکھار کو درمیان میں ہی روکا ۔۔
جس پر اس نے ایسی نظروں سے دیکھا کہ بس اگر ادھر کوئی نا ہوتا تو ردا کا قتل پکا تھا ۔۔۔
چلیں بھائی شروع بھی کریں گے کہ پہلے سٹیپسلز دیں ۔۔۔بھائی کی کیسٹ اڑی دیکھ کر فاطمہ کی زبان پھسلی ۔۔۔
آخر بہن سے بھی بھائی کی عزت برداشت نہیں ہوئی تھی ۔۔۔
او منڈا لاہور دا
چڑ چلا گھوڑی تے
سنو او سکھیو
اڑاؤ نہ مکھیو
ویر تیرا اڑ چلا
سوہنی ہیر لے کے
آج خوشیاں دے ڈیرے نے
اس منڈے دے ویڑے چے
ہو جائے کچھ میٹھا
ویر تیرا رج کے چیٹا
چیٹے ویر دے بھاگ جاگ جانے
جدوں آنی ڈاکڑانی بھابھی
سارے کس بل نکل جانے ۔😂😜😉
ردا آگ لگا کر بھاگ چکی تھی جبکے وہاب دانت پیستا ادھر سے اٹھ گیا ۔آج کا دن ہی بے عزتی والا تھا ۔۔۔
پیچھے وہ سب آوازیں دیتی رہ گئیں تھیں مگر وہ بچی کھچی عزت لے کر غائب ہو چکا تھا ۔😂
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہور کسے دا نئیں ہونا
مینوں تیرے ہوں دا چاہ باھو
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔لمحہ بہ لمحہ گزرتا وقت اس کے سینے میں سوئیاں کھبوتا جا رہا تھا ۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ روز جلدی گھر آ جاتا تھا اس کا یہی معمول تھا ۔
مگر آج اس کے نا آنے پیچھے کوئی اور وجہ تھی ۔
آنے والے وقت کا سوچ کر اسکی سانسیں گھٹتی جا رہی تھیں ۔۔۔
اگر وہ شخص آج بھی خالی ہاتھ ۔۔۔۔۔۔
اس سے آگے وہ سوچ نہ سکی ۔۔۔
ڈولتے جسم کے ساتھ وہ اٹھی اور وضو کر کے رب کے آگے گڑگڑانے لگی اس شخص کے لیے جسے اس نے اپنی جان سے بڑھ کر چاہا تھا جس کی مسکراہٹ کے لیے اس کا رواں رواں دعاگو ہوتا تھا ۔۔۔
وہ ہرجائی جو غلطی سے بھی اس پر نظر ڈالنا گوارا نہیں کرتا تھا ۔۔۔
رات چپکے سے گم ہوگئ ۔صبح کی سفیدی نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے تھے ۔نہ اسکی دعاؤں کا سلسلہ تھما تھا نا وہ ظالم لوٹ کر آیا تھا ۔۔۔
نا جانے کتنا وقت یونہی گزر گیا ۔لاک گھمانے کی آواز پر وہ پرسکون ہوتی مڑنے کو ہی تھی جب وہ آہستہ آہستہ چلتا اس کے رو برو بیٹھ گیا ۔
جائنماز کو تہہ لگاتے ہاتھ ادھر ہی ٹہر گئے ۔
اس نے نظریں اٹھا کر گلہ کرنا چاہا ۔مگر مقابلہ کی حالت دیکھ کر وہ تڑپ اٹھی ۔۔۔
سرخ آشام آنکھیں گرد میں لپٹے کپڑے، بکھرے بال جگہ جگہ جسم پر جلے کے نشان ۔۔۔
نادیہ نے بے اختیار نکلنے والی سسکی کا گلہ گھونٹے تھے ہوئے اپنا کانپتا ہاتھ اس کے زخم پر رکھنا چاہا ۔۔۔
جس کو اس نے راستے میں ہی تھام لیا تھا ۔۔
یہ اختیار اس نے بھلا اسے دیا ہی کب تھا اور آج اسکی حالت چیخ چیخ کر بتا رہی تھی وہ ایک بار پھر ناکام لوٹا ہے اور یہ نکامی ان دونوں کی زندگیوں کو سیاح بخت میں بدلنے والی تھی ۔۔۔
نادیہ کا کردار اسکی زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہونے والا تھا ۔۔۔
کیہڑی فرض نماز محبتاں دی
میتھوں یار قضاء ھو گئی اے
ھِک تو ںنئیں رُسیا نال میرے
کائنات ___ خفا ھو گئی اے
میرے دِلبر تیرے دِل دے وِِچ
اُکا ختم __ وفا ھو گئی اے
تیتھوں نِکھڑ کے انج لگدا اے
جیویں موت سزا ھو گئی اے💔💔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امبر ۔۔
امبر موٹی ۔۔۔۔
میری جرابیں کدھر رکھی ہیں ....
سنان کے مسلسل چلانے پر امبر خذیفہ کی تیاری بیچ میں چھوڑ کر اس تک پہنچی ۔۔۔
مسئلہ کیا ہے آپکے ساتھ کیوں شور مچا رہے ہیں سب چیزیں ساتھ رکھ کر گئ تھی ۔۔۔
امبر کے مسلسل جھنجھلانے پر سنان نے مسکراہٹ روکتے ہوئے اسکی طرف دیکھا ۔۔
مگر مجھے نہیں مل رہیں ۔۔۔
سنان نے مسکینی سی صورت بنائی ۔۔۔
ایک تو باپ بیٹے سے بڑھ کر ہے ۔۔
مسلسل ڈھونڈنے پر بھی جب نا ملیں تو امبر سر پکڑ کر بیٹھ گئ ۔۔۔
سنان نے ایک نظر بیڈ کے نیچے چھپائی جرابوں کو دیکھا پھر امبر کی طرف دیکھ کر ہنسی لبوں میں چھپائے اس کے ساتھ بیٹھ گیا ۔۔۔
ہر وقت آپ مجھے ستاتے رہتے ہیں کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا ۔۔۔
امبر نے دکھڑا سنایا ۔۔۔۔
تمہے ایسا کس نے کہا؟
سنان نے سر کھجیا ۔۔۔
کہنا کس نے ہے نظر نہیں آتا سارا دن باپ بیٹا مجھے گھمائی رکھتے ہیں ۔۔۔
امبر اس کی طرف رخ موڑ کر جوش سے بولی ۔۔
دیکھو موٹو تم نہیں چاہتی آج تمہارا شوہر سب سے پیارا لگے ۔۔۔
سنان شرارت سے بولا۔۔۔
کیوں شوہر کا ولیما ہے ۔۔۔
امبر تڑپ کر اٹھی ۔۔۔
اس کے انداز پر سنان قہقہہ لگاتا بیڈ پر ڈھیر ہو گیا ۔۔
دیکھا دیکھا میں صحیح کر رہی ہوں نا اب مجھے کوئی پیار نہیں کرتا ۔۔۔
سنان کو ہنستے دیکھ کر امبر کا آنسو ٹپکا ۔۔۔
اے اے لڑکی رونا مت دیکھو آگے ہی ہم لیٹ ہوگئے ہیں تمہاری اکلوتی دوست کی شادی ہے ۔اور سوچو ذرا جب ایسی رونی صورت لے کر میرے ساتھ جاؤ گی تو سب یہی کہیں گے نا اتنے ہینڈسم کہ ساتھ ایک چڑیل ۔۔۔
سنان کی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ امبر نے غصے سے بال کھولنے چاہے ۔۔
اس سے پہلے کے وہ ساری تیاری خراب کرتی سنان نے اسکا ہاتھ بروقت تھام لیا ۔۔۔
نہیں چھوڑیں مجھے اتنے کہیں کہ ہینڈسم ہیں نا لے کر آئیے گا آج دوسری ۔۔۔
امبر اس سے ہاتھ چھڑواتی خذیفہ کی طرف بڑھ گئ ۔۔۔
دیکھ لو تم مجھے اپنے پورے ہوش وحواس میں اجازت دے رہی ہو ۔۔۔
سنان ہنسی روکتا سنجیدگی سے بولا ۔۔۔
ہاں ہاں دے رہی ہوں میں بھی تو دیکھو آخر کس میں اتنا دم ہے یہ صرف میرا ہی حوصلہ ہے ۔۔میری طرف سے ایک چھوڑ چار لائیں وہ بھی آج ۔۔۔
امبر خذیفہ کا پیمپر چینج کرتے جوش و خروش سے بول رہی تھی مگر آخر تک اسکی آواز بیٹھ چکی تھی ۔۔۔
یہ تم سب عورتوں کو آخر یہ گمان ہی کیوں رہتا ہے کہ دوسری کا تو حوصلہ ہی نہیں ہونا ۔۔۔
سنان ایک بار پھر اسے تنگ کرنا چاہا مگر اسکی آنکھ سے آنسو ٹپکتا دیکھ کر وہ بے چین ہوگیا ۔۔۔
سارا مزاق ایک طرف رکھے وہ اسکی طرف بڑھا اور اسکو تھام کر اسکا رخ اپنی طرف کیا ۔۔۔
اچھا سنو نا ۔۔۔
منانا چاہا ۔۔
مجھے نہیں سننا ۔۔۔اس نے منہ موڑا
میری موٹو نہیں ؟
نہیں
گول گپا ؟
نہیں ۔۔۔۔
پاپڑی چاٹ ۔۔؟
نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
صفا چٹ انکار آئے ۔۔۔
دیکھو میں مزاق کر رہا تھا ۔۔۔
مگر میں مزاق نہیں کر رہی ۔۔۔
وہ خزیفہ کو شرٹ پہنانے لگ گئ ۔۔
دیکھو یار اب راتوں رات میں لڑکی کیسے ڈھونڈوں گا ۔۔۔
اس نے شرارت سے سر کھجایا ۔۔۔
وہی لانا جس نے تمہے دیکھتے ہی روح افزا کی طرح ڈولتی جانا تھا ۔۔۔
مائی گاڈ ۔۔۔۔
سنان کا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا ۔۔۔
جس پر امبر کا دل کیا اس کمرے سے باہر کر دے ۔۔
اچھا یار سنو نا ۔۔۔
سنان نے اسے بائیں بازو سے تھام کر مقابل کیا ۔۔
کیا ہے ۔۔۔
وہ کھا جانے کو دوڑی ۔۔۔
تم ایویں چنگی لگدی ایں
جداں افطاری ٹائم دودھ سوڈا ۔۔۔
سنان کہ اظہار پر نا چاہتے ہوئے بھی وہ ہنس دی ۔۔۔
کبھی نہ میری ڈھنگ سے تعریف کر نا ہر ٹائم دل جلاتے ہیں کبھی جانوروں سے ملایا ہوتا ہے تو کبھی کھانے والی چیزوں سے ۔۔۔
وہ نروٹھے پن سے بولی ۔۔۔
اچھا سنوپھر جانم ۔۔۔۔
سنان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ آگے بولتا امبر چیخ پڑی ۔۔۔
تم پہلے والے ہی ٹھیک لگتے ہو ۔۔۔
امبر کے شرمانے پر سنان ہنس پڑا ۔۔۔
سنان کے بچے ۔۔۔
اس ہنستا دیکھ کر وہ چیخی ۔۔۔
لے کر تو جا رہا ہوں ۔۔۔
سنان نے شرارت سے خذیفہ کی طرف اشارہ کیا جسے تھامے وہ کمرے سے جا چکا تھا ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں امبر بھی مسکراتی باہر کو ہو لی کیونکہ آج کا دن بہت خاص تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری ذات سے آگے تو کوئ راستہ ہی نہیں
میرے سفر تو یہی پر تمام ہوتے ہیں
شام ڈھل رہی تھی سورج چاند کے استقبال کے لیے بیتاب دیکھائی دیتا تھا ۔
ایسے میں وہ اپنے فلیٹ سے کچھ فاصلے پر موجود میدان کے ایک لکڑی کے بینچ پر بیٹھی ان گزرے سالوں کا شمار کر رہی تھی جب الوک احمد کا اسکی زندگی میں گزر ہوا تھا ۔
کیا شخص تھا وہ جو بغیر اجازت داخل ہوتا گیا تھا ۔جس خاموشی کے ساتھ آیا تھا اسی خاموشی ساتھ چلا بھی گیا تھا ۔
ساڑھے چار سال اس کے ٹھیک ہونا کا انتظار کیا تھا ۔
وہ انتظار کر سکتی تھی ۔انتظار محبت کی گھٹی میں لکھا ہوتا ہے۔آخری دم پر بھی آنکھیں وصل کی خواہش لیے اس دنیا سے کوچ کر جاتی ہیں ۔
مگر آج وہ ہار گئی تھی اس کی محبت انتظار سب ہار گیا تھا ۔کیا کچھ نہیں کیا تھا ۔کونسے وظیفے تھے جو اسکی زندگی کی خاطر نہ کیے ہوں ۔کونسی نماز تھی جس میں اسکی صحت یابی کی دعا نا مانگی ہو ۔صرف ایک سوال کے جواب کے لیے ۔وہ انتظار کرے یا چل دے ۔اور اب سب سوال خودبخود ختم ہو گئے تھے ۔وہ کسی کی یقین دہانی کچھ گھنٹوں بعد اپنی موت آپ مر جانی تھی ۔چند گھنٹوں بعد اسکی زندگی کسی اور کے نام لکھی جانی تھی ۔اور عشق و وفا کی اس کہانی میں کون بے وفا ٹہرا یہ فیصلہ وقت کرنے چلا تھا۔
اس بھرے شہر کے ہنگاموں میں دو لوگ اپنی موت آپ مر چلے تھے ۔فرق صرف اتنا تھا وہ بسترے مرگ پر تھا ۔مگر ابلہ فاروق کی روح جسم سے ساتھ چھوڑ چکی تھی ۔
وہ اپنی گود میں بیٹھے اس بلے کو پیار کر رہی تھی جو اس نے الوک کی یاد میں پچھلے چار سال سے سنبھالا ہوا تھا ۔
جی بھر کے آنسو بہانے کے بعد اس نے اس بلے کو گود سے اتار دیا کہ اب اسکو ساتھ رکھنے کا جواز ختم ہوا چلا جاتا تھا۔۔
وہ کیا گیا کہ رونق درو دیوار گئ محسن
اک شخص لے گیا میری دنیا سمیٹ کر
دائیں ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے وقت بے دردی سے ہنستے ہوئے اس کے قہقے میں اتنا درد تھا کہ وہ جانور ڈر کر اس سے لپٹ گیا ۔۔۔
جسے بے دردی سے خود سے دور کرتے اس نے اپنے قدم فلیٹ کی طرف بڑھا دیے ۔
واپسی پر اسکا چہرہ ہر قسم کے احساس سے عاری تھا ۔کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ چند گھنٹے بعد وہ اپنی متاع حیات کو کھونے والی تھی ۔
مگر دیکھنے والی آنکھ نے دیکھا تھا وفا اور بے وفائی کی اس کہانی میں ابلہ بے وفا ہو کر بھی با وفا ٹہری تھی ۔روح تو کب کی جسم کا ساتھ چھوڑ چکی تھی اس پر حق صرف الوک احمد کا تھا ۔ہاں جسم تھا جسے وہاب کو سونپ کر وہ بے وفائی کی مہر پکی کرنے والی تھی ۔
اور یہ دیکھنے والی آنکھ اس مجبور ماں کے سوا کسی کی ہو سکتی ہے؟
ابلہ نے اپنے ساتھ اندر قدم رکھنے والے بلے کو اندر آنے سے پہلے ہی باہر کر دیا اور خاموشی سے دروازہ بند کرتی اپنے کمرے کی اور چل دی ۔
محبت دے دل چوں پلیکھے نئیں جاندے
محبت دے مجبور ویکھے نئیں جاندے
محبت نے مجنوں نوں کاسہ پھڑایا
محبت نے رانجھے نو جوگی بنایا
محبت دے لُٹے تے ہو جان دیوانے
جس تن نوں لگدی اے اوہ تن جانے
محبت دی دنیا دے دستور وکھرے
محبت دی نگری دے مجبور وکھرے
محبت دلاں دی کدورت مٹاااااوے
محبت ہی بندے نوں رب نال ملاوے
محبت نے یوسف نوں مصر وکایا
محبت زلیخااااا نوں وی آزمااااایا
محب دے وکھرے نے تانے تے بانے
جس تن نوں لگدی اے اوہ تن جانے
محبت دے رونے تے ہاسے نے وکھرے
محبت دے چڑکاں دلاسے نے وکھرے
محبت نے کھٹیاں نے دودھ دیاں نہراں
محبت نئیں منگدی کسے دیاں خیراں
محبت دی سب توں ہے وکھری کہانی
نہ سُکھی راجا تے نہ سُکھی رانی
محبت دے جنہے وی گاااائے ترانے
جس تن نوں لگدی اے اوہ تن جانے
محبت نے ہیرااااں نوں زہراں پیائیاں
محبت دی نگری چوں گئیاں نہ آئیاں
محبت دے اجڑے کدی وی نئیں وسدے
محبت دے روندے کدی وی نئیں ہسدے
محبت نے مہنیواااااال نوں آااااازمایا
محبت نہ ویکھے اپناااااااا پرااااااایا
محبت دے بدلن کدی نہ زماااانے
جس تن نوں لگدی اے اوہ تن جانے
محبت پئی سسیاں نوں ریتاں تے ساڑے
محبت نے وسدے کئی گھر اجاڑے
محبت پئی سوہنی چناں وچ روہڑے
محبت لہو پئی دلاااااں داااا نچوڑے
محبت نے منصور سولی چڑھااااایا
محبت نے صادق بُلھاااااا نچااااااااایا
محبت دی اکھ دے نے وکھرے نشانے
جس تن نوں لگدی اے اوہ تن جاااانے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مم میں ایک بار ہار گیا ہوں میں ہمیشہ کے لیے تنہا رہ گیا ۔
میرا سینہ مسل دو مجھ سے اب اور برداشت نہیں ہوتا ۔
بہت درد ہے بہت زیادہ ہے ۔
وہ کراہتے ہوئے اس کے آنچ میں سر چھپا گیا تھا ۔
اور وہ جو صدیوں کی پیاسی تھی ۔جس کا سانس ابھی ختم ہو چلا تھا ۔
کیسی کایا پلٹی تھی وہ ہر جائی اس کے پہلو میں بیٹھا اپنا حال دل بیان کر رہا تھا ۔
وہ جس کی سماعتیں صدیوں سے کچھ سننے کو بے تاب تھیں ۔
آج اسکا ہر درد سن رہی تھیں ۔
وہ مسیحا جو اپنے مریض کی مسیحائی کے لیے بے چین رہتی تھی اپنا غم بھولے اس کے ایک ایک زخم کی مسیحائی کر رہی تھی ۔
وہ جو کب سے کسی ایسے مسیحا کا پیاسا تھا آج جی بھر کر ٹوٹا اپنے آنسو بہا گیا تھا ۔۔۔
نادیہ کی ذات ایک بار پھر کہیں پیچھے چلی گئ تھی ۔
اگر کوئی تھا تو صرف ارسل اس کا مجازی خدا اسکا محبوب ۔جس کی مسیحائی اس پر فرض کر دی گئی تھی ۔
اس دن وہ نجانے کتنے گھنٹے سکون سے سویا تھا ۔اور نادیہ کا چڑیا جیسا دل ایک بار پھر خوشگمانیوں کی ڈگر پر چل دوڑا تھا ۔۔۔
چلو کچھ خواب بنتے ہیں،
جو پورے نہ بھی ہوں،
تو زندگی کا احساس ہی رہ جائے،
کہ جینا نہ بھی ہو،
جینے کی آس رہ جائے۔
چلو کچھ رستہ چلتے ہیں،
کہ فاصلے طے نہ بھی ہوں،
منزل نہ بھی ملے،
کہ چلنے کا گماں کر لیں گے،
چلو چاند اور تاروں کو ،
تم میرے ہمدم،
میرے آنچل پہ رکھ دینا،
میں اپنے آسماں میں،
خوش گمانی کی ساری داستانیں،
اپنی پلکوں سے ٹانکوں گی،
چلو کچھ دیر رہتے ہیں،
وہ جھرنوں کی وادی میں
نیلے امبر اور بلند جوٹیوں میں،
بہتے پانیوں کے سارے جزبوں میں،
چلو کچھ دیر یہ گماں بھی سہی،
کہ محبت کی داستانوں میں،
ایک معمولی سی کہانی میں،
ایک بار ہم بھی گزرے ہیں،
چلو کچھ خواب بنتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسل سو کر اٹھا تو نادیہ کمرے میں ادھر سے ادھر بھاگتی دکھائی دی ۔
اسکے چہرے پر عجیب سی خوشی رقصاں تھی ۔جیسے خالی کنویں میں اچانک سے پانی آ جانے پر ہوتی ہے ۔
وہ کن اکھیوں سے اسکی کاروائی دیکھ رہا تھا ۔
شام ڈھل چکی تھی ۔اور وہ آج ابلہ کے نکاح میں شرکت کرنے کی تیاریوں میں لگی تھی ۔
اسکی خوشی دیکھ کر نا چاہتے ہوئے بھی وہ اندر سے خالی ہوتا چلا گیا ۔
رات کا واقعہ فلم کی طرح اسکی آنکھوں کے سامنے چلنے لگا جب وہ ٹوٹا ہارا واپس لوٹا تھا ۔آج اس کا ضبط ٹوٹ گیا تھا کچھ بعید نا تھی کہ وہ اپنے ہاتھوں اس وجود سے چھڑکارا حاصل کر لیتا ۔۔۔
جب اسے اس کا چاند سا چہرہ نظر آیا جو جائے نماز بچھائے شاید اسی کے لیے دعا گو تھی ۔
اس کے قدم خود بخود اسکی طرف اٹھتے چلے گئے ۔
اسکی حالت دیکھ کر اسی پری کی آنکھوؤں میں سمندر آ جانا پھر کچھ کھو دینے کا خوف اتنا واضح تھا کہ وہ سب بھول گیا کہ وہ کون تھی ۔اسے اس نے کوئی اہمیت دی تھی یا نہیں ۔یاد رہا تو صرف اتنا کے روئے زمین پر اس وقت صرف ایک ہستی ہے جو اب بھی اسکی طالب ہے وہ واحد ہے جس تک اگر ارسل کی موت کی خبر پہنچے تو وہ اسی کے ساتھ دم توڑ جائے گی ۔
یہی خوشگمانی اسے ہارا گئی تھی ۔موت کی دہلیز پر امید کی ہلکی سی کرن بھی زندگی دے جاتی ہے ۔اور یہ نادیہ ہی تھی جو اس لمحے اسکے جینے کا جواز بنی تھی ۔
جس کی گود میں سر رکھے کسی بچے کی طرح روتے اپنی ہر دکھ بیان کر گیا تھا ۔
اور وہ اسکی ایک ایک تکلیف کو چنتے ہوئے اس کے دکھ اپنی ذات میں اتارتی گئ تھی ۔۔۔
چوڑیوں کی کھنک پر وہ حال میں لوٹا ۔
اسکا دل غم سے بھر گیا ۔کیا تھی وہ لڑکی اسکی اتنی سے توجہ پر سب بھول بیٹھی تھی ۔
اسکے سپنے ٹوٹ گئے تو تم کو کیا نیند آئے گی
گڑیا جیسی لڑکی کو یوں آس دلانا ٹھیک نہیں
نادیہ کی نظر جونہی جاگتے ہوئے ارسل پر پڑی وہ سب کچھ بیچ میں چھوڑ کر اسکی طرف بڑھی ۔
سائیڈ ٹیبل سے مرہم اٹھا کر اس کے زخموں پر لگانا شروع کی ۔
ارسل نے روکنا چاہا مگر ہمت نا ہوئی ۔
فارغ ہو کر وہ جیسے ہی اٹھی ارسل نے اسکی چوڑیوں سے سجی کلائی تھام لی ۔
جو شاید اس نے پہلی بار پہنی تھیں ۔
اسکی اس حرکت پر وہ خاموشی سے بیٹھ گئ ۔
اس کے ہاتھ کی کپکپاہٹ ارسل واضح محسوس کر سکتا تھا ۔
کچھ دیر لب بھینچے وہ اس کے ہاتھ کو تھامے یونہی بیٹھا رہا ۔
پھر جب بولا تو اس کے الفاظ نادیہ کی روح فنا کر گئے ۔
پلیز آپ میرے صبح والے رویے پر مت جائیے گا میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے پھر کسی کا دل ٹوٹے ۔
میں وہ سب آپکو اپنا ہمدرد سمجھ کر بتاتا چلا گیا تھا ۔مگر میں اب بھی پہلے دن والی بات پر قائم ہوں ۔
وہ پتھر سی بنی اس ظالم دیو کو دیکھ رہی تھی دل چاہا اس کا گریبان تھامے اور پوچھے کہ تمہیں ابھی بھی لگتا ہے میرا دل نہیں ٹوٹا؟
میری آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں کیوں نہیں تمہیں نظر آتیں؟
مگر ہمیشہ کی طرح وہ کچھ بھی نا کہہ سکی ۔
ارسل اسکے یوں جانے پر لب بھینچے بیٹھا رہ گیا ۔۔
آنسوؤ بہاتی آنکھوں کے ساتھ وہ اٹھی اور باتھ روم میں قید ہو گئی ۔
وہی چہرہ جو چند لمحوں پہلے ایسے جگمگا رہا تھا کہ اس کو دیکھ کر ہر کوئی جینے کی خواہش کرے اور اب ایسا تھا جیسے صدیوں سے اجاڑ ہو ۔
میرا ددر اس عورت جیسا ہے
منہ دکھائی میں جسے طلاق ملی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل نے تیرے بارے میں پوچھا تو بہت رویا
وہ شخص جو پتھر تھا ٹوٹا تو بہت رویا
یہ دل کہ جدائی کے عنوان پہ برسوں سے
چپ تھا تو بہت چپ تھا رویا تو بہت رویا
آسان تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا
جو شخص نہ رویا تھا تپی ہوئی راہوں میں
دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا
اک حرف تسلی کا اک حرف محبت کا
خود اپنے لئے اس نے لکھا تو بہت رویا
پہلے بھی شکستوں پر کھائی تھی شکست اس نے
لیکن وہ تیرے ہاتھوں ہارا تو بہت رویا
جو عہد نبھانے کی دی تھی دعا اس نے
کل شام مجھے تنہا دیکھا تو بہت رویا
پچھلے دو گھنٹوں سے وہ کسی بے تاب مچلی کی مانند اسے کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔
چلتے چلتے اس کے پیر شل ہو چکے تھے ۔تنفس تھا کہ ہر گزرتے سمے ساتھ تیز ہوتا چلا جا رہا تھا ۔سانس اکھڑنے لگا تو وہ سینے پر بازو رکھے کرسی پر بیٹھ گیا ۔
اور آنکھیں میچ لیں ۔
اپنی سالوں کی تکلیف کہیں اڑن چھو گئ ۔یاد رہی تو سامنے لیٹے وجود کے جسم میں کھبی اک سوئی کی ۔جس کی اذیت اس کے اپنے جسم میں اترنے والی ہزاروں سوئیوں سے زیادہ تھی ۔
وہ کیسے کیسے دیکھ سکتا تھا اسے معمولی سی تکلیف میں ۔
اسکی جان پر بنی ہوئی تھی اور وہ کب سے اسکی جان لینے پر تلی ہوئی تھی ۔۔۔
کمرے میں ان دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا ۔
کوئی ہوتا تو دیکھتا اس دیوانے کی دیوانگی کو جس کی زندگی اس سے چند گز کے فاصلے پر موجود تھی ۔اور وہ ایسا دیوانہ تھا کہ نظر اٹھا کر نہ اسے دیکھتا تھا ۔
مبدا وہ اس گستاخی پر روٹھ ہی نا جائے ۔۔
محبت بندگی ھے،اس میں قرب نہ مانگ. .
کہ جس کو چھو لیا جائے، اسے پوجا نہیں کرتے. . .
بند آنکھوں کے پردوں پیچھے وہ نا جانے کیا پڑھ پڑھ کر اس پر پھونک رہا تھا ۔۔۔
کوئی اس پاگل کو دیکھے اور پوچھے اب ایسی بھی کیا بات ہے جو وہ یوں باولا ہوا جاتا ہے ۔۔۔
پھر وہ بتائے کہ کیا بات ہے ۔۔۔
محبوب پاس اور محب آنکھ جھپک لے یہ ممکن ہے؟
اور جہاں محب دو گھنٹوں سے روٹھا ہو اور وہ محبوب سولی پر نا لٹکا ہو یہ کیسے ممکن ہے ۔۔
جاؤ صاحب پہلے محبت کے قرینوں کو تو سمجھ آؤ پھر اس عاشق کی دیوانگی پر سوال اٹھانا۔۔۔۔
کھٹکے کی آواز پر اس نے تڑپ کر آنکھیں کھولیں ۔۔
وہ نیم بے ہوشی میں ہاتھ مار کر کچھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔
اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا ۔۔۔
تو کیا وصل کا لمحہ آن پہنچا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نادیہ باتھ روم سے نکلنے سے پہلے چہرہ اچھی طرح دھو کر آئی تھی ۔
ارسل کی نظر اس کے دھلے چہرے پر پڑی تو وہ ایک بار پھر سر تا پیر شرمندہ ہوگیا ۔۔۔
ہر بار نا چاہتے ہوئے بھی وہ سب کا دل دکھا جاتا تھا ۔
اب بھی اسکے الفاظ نادیہ کے دکھ کا مداوا نہیں ہو سکتے تھے ۔۔۔
اس کا چہرہ ہر قسم کے احساس سے عاری تھا ۔
وہ سنگہار میز کے سامنے کھڑی ایک بار پھر اپنے چہرے کو ایسے سجا رہی تھی کہ غم کسی دبیز لہر تلے چھپ جائیں ۔
بھلا غم بھی کبھی چھپے ہیں ۔اسکا چہرہ چیخ چیخ کر ان کہی داستان سنا رہا تھا ۔۔
تیار ہونے کے بعد اس نے چادر اوڑھی پرس اٹھایا اور باہر کو چل دی ۔۔
ارسل اس کے پیچھے آیا اور اسے چھوڑ کر آنے کا کہا۔
اسے کہاں اجازت تھی کہ وہ اس موقع پر شریک ہو سکے ۔۔
وہ اسے کوئی بھی جواب دیے بغیر رکشہ میں بیٹھ چکی تھی۔۔۔
وہ جس نے سوچا تھا کہ آج اسکا ہاتھ تھامے فخر سے محفل میں شامل ہو گی وہ ایک بار پھر تنہا رہ گئ تھی ۔
محبت اپنے ہونے پر بلبلا ہی تو اٹھی تھی ۔۔
بلا کر اپنے حجرے میں
کہا اک پیر نے مجھ سے
کہو کس بات کا دکھ ھے,,؟؟
کلیجہ پھٹ پرا میرا
کہا تیرے سینے سے
بلائیں آن چمٹی ہیں
محبت بے بہا دے کر
ملا نہ کچھ تجھے اب تک
میرا تعویز لے جاؤ
بہت گہرا اثر ہو گا,,
ہوئے نہ جو تیرے اب تک
تیری تسبیح کریں گے وہ
ذرا سی دیر سوچا پھر...
جھکائے سر چلی آئی
محبت بھیک ہے کوئی
جو در در مانگنے جاؤں
جنہیں میری محبت بھی
میری اطراف نہ لائے
انہیں تعویز لائیں گے؟؟
انہیں تعویز لائیں گے؟؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اداسی کی کوئی تو آخری حد ہو...!!!
کہ جس کے بعد
ممکن نہ رہے کچھ اور غم سہنا
یا پھر یوں ہو کہ...!!!
غم سہنے کی عادت اس طرح کچھ ہو
کہ سہہ کر بھی
نہ جنبش ابرووں میں اور نہ ماتھے پہ بل آئے
شکستہ ٹوٹتے اعصاب پہ طاری تھکن نہ ہو
لبوں سے بے ارادہ 'آہ' نہ نکلے
نہ دل ڈوبے
کبھی ہلکی نمی رخسار پر
آنکھوں سے نہ اترے
لبوں کو سی لیا جائے
نمی کو پی لیا جائے
چبھن میں اور تھکن میں
خامشی سے جی لیا جائے
اداسی کی کوئی تو آخری حد ہو..
ابلہ ہوش میں آئی تو پہلی سوچ جو اس کے دماغ میں آئی وہ اس کے حواس کھونے کی وجہ تھی ۔
یہ کیسے ممکن تھا وہ شخص کیسے اچانک اٹھ گیا تھا ۔چلو اگر ٹھیک بھی ہوگیا تھا تو اس کا ادھر آنے کا جواز کیا تھا ۔
کیوں وہ لٹے مسافر کی بربادی دیکھنے پہنچ گیا تھا آخر کیوں؟
سوچتے سوچتے اسے اپنے قریب کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو گردن موڑ کر دیکھا، ۔
بائیں جانب وہ کھڑا تھا ۔
جھکے سر اور جھکی آنکھوں ساتھ ۔
ہاں وہ ہوبہو وہی تھا ۔۔۔
وہ ایک دم اٹھ بیٹھی اس سے پہلے کے وہ نظریں اٹھتا وہ ڈوپٹے کے حالے میں اپنا چہرہ بھی چھپا چکی تھی ۔۔۔
وہ اسکی اس حرکت پر تھم ہی تو گیا ۔۔۔
محبت کی ایسی ادا آج تک دیکھی ہی کس نے تھی ۔
وہ جس کو ہر سانس کے ساتھ مانگا ہو اور جب سامنے آیا تھا تو سب بندھ باندھ دیئے گئے تھے ۔۔
اور ایک وہ تھا جو عشق کی نا جانے کونسی معراج کو چھو کر آیا تھا ۔اس نے اسکا پردہ پیچھے کرنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔
وہ تو بس نم آنکھوں ساتھ مسکرائے جا رہا تھا ۔
اگر اسکے بس میں ہوتا تو قہقہے لگانے شروع کر دیتا ۔۔
وہ ہیرا جس کے مقدر میں ہوتا اسکی قسمت سوار دیتا ۔
کیوں نہ وہ ناز کرتا اس ہیرے پر جو صرف اسکا تھا ۔
صرف اور صرف الوک احمد کا نصیب ۔۔۔۔
تجھے یاد کر لیا ھے آیت کیطر ح
مرنے تلک رہے گی تو عادت کیطرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام رخصت ہو کر کب سے رات کے اندھیرے کا روپ دھار چکی تھی ۔مگر ایک ابلہ تھی کہ جب سے باہر سے آئی تھی کمرہ بند کیے بیٹھی تھی ۔
انہوں نے اسکے پیچھے جاننے کی کوشش نہیں کی تھی ۔وہ چاہتی تھیں آج وہ جی بھر کر اپنے نقصان پر رو لے تاکہ کل نئی زندگی شروع کرتے اسے دقت کا سامانہ نہ ہو ۔
وہ رب کے خضور گڑگڑاتے ہوئے اسکی بہتری کی دعائیں مانگ رہی تھیں ۔۔
جب اوئل جنوری کی سرد رات میں بیل کی چنگہاڑتی آواز نے درو دیوار میں ارتعاش پیدا کر دیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدت کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تھی
ہم دونوں ہنس دیئے تھے اک دوجے کے حال پر
الوک خاموشی سے پاس پڑی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا ۔
جبکہ ابلہ آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی لیے اس کے جھکے سر کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔
یہ کیسا امتحان کا لمحہ آن پہنچا تھا ۔
وہ اس بے وفا کو دیکھنے خود آ گیا تھا ۔
دل تھا کہ حلق میں اڑ گیا تھا ۔
وہ جو بے سائبان چھوڑ گیا تھا اب اچانک سے کس سائیبانی کا سرا تھامے آن پہنچا تھا ۔۔۔
"بہت برا ہوں نا میں بہت رولایا ہے آپکو بہت دیر کر دی نا میں اپنا وعدہ پورا کرنے میں "
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھے بول رہا تھا ۔وہ تو خود سے نالاں دکھائی دیتا تھا ۔
ابلہ کی ہچکی نکلی ۔وہ آنکھیں پھیلائیں اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جس کی چاکلیٹی آنکھیں پہلی بار اس سے ملی تھی ۔
وہ ان آنکھوں کی ویرانیوں میں ایسا کھویا تھا کے درد قطرہ قطرہ آنکھوں سے ٹپکنا شروع ہو گیا تھا ۔
آخر کس چیز سے بنا تھا وہ ۔ابلہ کی بے وفائی کا کوئی ذکر ہی نہیں ۔
اسے صرف اپنی خطا یاد تھی جس کو وہ ذمے دار بھی نہیں تھا ۔آخر اس شخص نے عشق کی کونسی حدوں کو ابھی چھونا تھا ۔۔۔
ایک لمحے کی خطا پر چشم شب بیدار کا
روئے جانا، روئے جانا، روئے جانا عشق ہے 🔥💫
"مجھے ان آنکھوں کے جگنو لٹا دیں نا یہ ایسے اچھی نہیں لگتیں اب تو میں اپنا وعدہ بھی پورا کر چکا ۔"
وہ نم لہجے میں کہا رہا تھا ۔۔۔
تو تو تو کیا اسکا نکاح الوک سے ہوا تھا ۔۔۔
یا خدا یہ کیسا سچ تھا ۔دماغ تھا کے مانتا نا تھا دل تھا کہ سامنے موجود شخص پر ایمان رکھتا تھا ۔
اسکی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں ۔۔
اسکی آنکھ کے سوال کو پڑھ کر الوک کا سر اقرار میں ہلا ۔
وہ رنگ ساز بلا کا تھا کہ جس نے قنبر
اداس رت میں بھی آنگن میں پھول بوئے ہیں
ابلہ کا ہاتھ پہلو میں آ گرا ۔پردہ چھٹ گیا ۔۔۔ساری روکاوٹیں دور ہو گئیں ۔۔
بے جان بت کی آنکھوں سے جمی برف پگھلنے شروع ہوئی ۔دیکھتے ہی دیکھتے سوکھے لبوں کی ندی مسکراہٹ کا روپ دارے پھیلتی چلی گئ ۔
وہ جوگن اپنے جوگی کے وصل پر پاگل ہو چلی تھی۔
الوک اپنی دھڑکنیں آنکھوں میں سمائے اپنے محب کا دیدار کر رہا تھا ۔
جس کی آنکھوں سے جھرنے بہہ رہے تھے ۔
چھے سال کی مسافت تہہ کی تھی اس نے اس چہرے کے دیدار کے لیے ۔۔۔
کیا دنیا میں محبوب کو دیکھنے کے منظر سے بھی حسین کوئی منظر ہوگا ۔۔۔
کوئی اپنی جاں سے ہاتھ ہی نہ دھو بیٹھے۔۔
زرا سنبهال کر رکھ سحر اپنی آنکهوں کا .. ❤
اسکی آنکھیں الوک پر وہی سحر طاری کر رہی تھیں جو پہلی بار کیا تھا۔
وقت کہیں تھم سا گیا تھا وہ دونوں دنیا بھولے ایک دوسرے کو حیرت اور بے یقینی سے تکے جا رہے تھے جیسے کہ اگر آنکھ جھپکی تو خواب ٹوٹ جائے گا ۔۔
جب وہ مجھ سے کلام کرتا ہے
دھڑکنوں میں قیام کرتا ہے
لاکھ تجھ سے ہے اختلاف مگر
دل ترا احترام کرتا ہے
دن کہیں بھی گزار لے یہ دل
تیرے کوچے میں شام کرتا ہے
ہاتھ تھاما نہ حال ہی پوچھا
یوں بھی کوئی سلام کرتا ہے
ابلہ نے گلہ کیا ۔
فسوں سے نکلتے الوک اسکے گلے پر مسکرایا ۔۔۔
وہ اسے پہلی بار مسکراتے دیکھ رہی تھی ۔
ایسی شہزادوں والی مسکراہٹ کہ دل قدموں میں لپٹ جانا چاہے ۔۔۔
محب سامنے ہو اور ناز برداری نا دکھائے اور محبوب اسکی ادا پر جان سے ہاتھ نا دھو بیٹھے ایسا کہاں ہوا ہے؟
الوک تھوڑا سا آگے کو جھکا اور اس کی بائیں آنکھ پر اپنے کپکپاتے لب رکھ دیے۔
ابلہ ادھر ہی تھم چکی تھی ۔
محبوب کو پہلی بار چھونے کا لمس کیسا جان لیوا ہوتا ہے ۔کوئی الوک سے پوچھتا جس کی دھڑکنیں ہاتھوں میں آ ٹہری تھیں ۔۔۔
جسے خود سے بھی چھپائے رکھا ہو اسے چھونے پر کونسی کرامت ہوتی ہے کوئی اس سے پوچھتا جس کے ہاتھ یہ خزانہ لگا تھا ۔۔۔
اے سَچے سُچّے اُجلے۔۔۔
اے دلدار سائیں۔۔۔
وَالَّیْل کی آیت پھونکو ناں
کچھ زلف کے گنجل بھی سلجھیں۔۔۔
کبھی کرو تلاوت "یوسف" کی
مرے بیچ زلیخا روتی ہے۔۔۔
مجھے کبھی "ضُحٰی" کا پاٹ دَسو
مرا مکھڑا روشن ہووے۔۔۔ بھاوے سانول کو۔۔۔
"وَالْعَصْر" کو گھولو سینے میں
مجھے گھاٹے نا منظور سائیں۔۔۔
"اخْلَاْصْ" بسا دو روح اندر
مجھے اب ہر جائی ہونا ہے۔۔۔
مجھے وصل دِیَو سرکار سائیں
مجھے ایک اکائی ہونا ہے
ابلہ اس کے سینے پر سر رکھے ۔دیوانہ وار رو رہی تھی ۔
وہ جو کب سے خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے بیٹھا تھا ۔اس کے ساتھ رو دیا ۔دونوں ہی تو ایک راہ کے ڈسے تھے ۔درد ایک تھا ۔دل ایک تھا ۔روح ایک کیوں نہ ہوتی ۔۔
وہ الوک کے دل پر سر رکھے اسکی بے ترتیب دھڑکنیں محسوس کر رہی تھی ۔وہ شخص جو اتنا لاغر ہو چکا تھا کہ کہیں سے اسکا الوک نا لگتا تھا ۔
مگر اس کے سینے کے اندر موجود اس کا دل اور دھڑکنیں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں ہاں وہی ابلہ کا الوک ہے ۔
وہ کسی بچے کی طرح اپنے ہر غم کی شکایت لگا رہی تھی ۔
اور وہ کبھی روتے تو کبھی مسکراتے اسکا ہر شکوہ، درد سن رہا تھا ۔اس نے اپنی رواداد سنائی چاہی مگر لب سی لیے ۔
محبت کے شایان شان ہی یہ کب ہے کہ محب بولے اور محبوب نہ سنے ۔۔۔
اس کا ضبط ۔۔۔ ٹوٹ رہا تھا ، میں نے بات ۔۔ادھوری چھوڑ دی۔!!!