ناگن ناول از ناصر حسین|Nagan Novel By Nasir Hussain Qist 1



2161 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


بسم اللہ الرحمن الرحیم__
_____ ناگن ______
......... قسط 1 ............
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
اس نے کالی رات میں سفید پتهروں پہ اپنا قدم رکها.ٹهنڈی ہوا کا ایک جهونکا اس چهو کر نکل گیا...خاموشی اور اندهیرا اتنا تها کہ انسان اپنے ہی سائے سے ڈر جائے..مگر وہ نہیں ڈر رہی تهی..کالی سیاہ چادر اوڑھے وہ اپنے قدم آگے بڑھا رہی تھی..کوئی اس کا انتظار کر رہا تھا. .اور اسے جلد پہنچنا تها اس تک.... .اس کی بهوری آنکھیں اندهیرے میں چمک رہیں تهیں...اور ہونٹوں پہ ایک تلخ مسکراہٹ تهی........
راستے سنسان اور کهٹن تهے اور انہی راستوں پہ اسے اپنی منزل تلاش کرنی تهی..منزل شاید اب اتنی بھی دور نہ تهی...وہ قریب تهی اپنے منزل کے بہت قریب. .
برسوں سے وہ اس بهیانک راستے پہ اکیلی سفر کر رہی تهی....
وہ ایک شکاری تهی.. ایک ایسی شکاری جو زندگی میں کهبی نہیں ہاری.اس نے آج تک جس شکار پہ نظر ڈالی اسے اس کے سامنے زیر ہونا ہی پڑا..وہ اب تک ستانوے شکار کر چکی تهی اسے سو شکار مکمل کرنے تهے . صرف تین شکار اور...تبهی وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی تهی......
اور آج بھی وہ ایک شکار کرنے جا رہی تهی.....اور وہ کسی جانور یا کسی پرندے کا شکار کرنے نہیں ایک جیتے جاگتے انسان کا شکار کرنے جا رہی تهی............
_____________________________
شہر سے میلوں دور پہاڑی خوبصورت علاقے میں ایک گاوں( نور پور ) آباد تها....جو اپنی خوبصورتی اور قدرتی حسن کے لحاظ سے بہت ہی منفرد مانا جاتا تھا. ..لیکن وہ خوبصورت صرف دور سے دیکهنے والوں کو ہی لگتا تها..اس گاوں کے قلب میں جو ایک گہرا پراسرار راز دفن تها اس سے باہر کے لوگ انجان تهے..........
دور سے آنے والے سیاح نور پور میں بس کچھ دن کا ہی بسیرا  کرتے .اور پھر واپس اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ جاتے....اس لیے وہ اس گاوں کی حقیقت سے نا آشنا تهے.........
لیکن اس گاوں کے رہائشی وہ تو اس گاوں کو موت کا ایک گڑھا کہتے تھے. .ایک ایسا گهڑا جو زندگیوں کو نگل جاتا ہے...اسی وجہ سے وہ گاوں کسی بیوہ کی سہاگ کے مانند اجڑا ہوا تها.  ..وہ گاوں ہمیشہ سے ہی ایسا نہیں تها کهبی یہ گاوں کے رہائشیوں کے لیے فخر کا باعث تها . کهبی یہاں بہت خوشحالی ہوا کرتی تهی..زندگی بسا کرتی تهی اس گاوں میں لیکن اچانک اس گاوں سے زندگی نے منہ موڑنا شروع کر دیا. . پتا نہیں کب کیوں حالات نے ایک ایسی بهیانک کروٹ بدلی کہ اس گاوں نے اچانک عزرائیل کا روپ دهار لیا......
اس لیے آہستہ آہستہ نور پور کے اکثر رہائشی اپنی زندگیوں اپنی سانسوں کو محفوظ رکهنے کے لیے اس گاؤں سے نقل مکانی کرنے لگے...جو تیس چالیس کے قریب گهرانے باقی رہ گئے تھے. .ان کے لیے تو بهاگنے کا کوئی راستہ ہی نہیں تها وہ پیدا بھی یہیں ہوئے اور یہیں پہ ہی دفن ہونا چاہتے تھے .اور بهاگ کر جاتے کہاں ان کا تو نور پور گاوں کے علاوہ کوئی اور ٹھکانہ بھی تو نہیں تها.............
نور پور سب سے پہلے ایک بنجر ویران علاقہ تها..
سال دو سال میں کهبی کهبی خانہ بدوشوں کی کوئی ٹولی یہاں کچھ دنوں کے لیے پڑاو ضرور ڈال لیتی لیکن پهر سارا علاقہ پہلے کی طرح سنسان ہو جاتا..نور پور کی کہانی سنانے والے جانے کیسی کیسی باتیں من سے گهڑ گهڑ کر سناتے ہیں. .لیکن سچائی صرف اتنی ہے کہ اس گاوں کو نور خان نامی ایک پٹهان نے سب سے پہلے آباد کیا تها...پهر دیکهتے ہی دیکهتے نور خان کی طرح کئی ایسے گهرانے اپنا برتن باسن سمیٹ کر اس گاؤں میں آ کر آباد ہو گئے.......
پهر آہستہ آہستہ اس گاوں کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا....لیکن  گاوں کے آباد ہونے کے کچھ عرصہ بعد ایسی گاوں میں اک ایسی حقیقت کا انکشاف ہوا کہ اکثر لوگ جو کهبی بڑے شوق سے اس گاوں میں آ کر آباد ہو گئے تھے وہ اپنا بوری بسترا سب سمیٹ کر آہستہ آہستہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے. ....
اب جو چلے گئے وہ تو گئے جو یہیں رہ گئے ان کے پاس تو جانے کا کوئی راستہ ہی نہیں بچا تها...
اس لیے وہ اس بهیانک گاوں کے سامنے بے بس مجبور اور لاچار ہو چکے تهے. .
.وہ دیکھ رہے تھے اس گاؤں کو تیزی سے زندگیاں نگلتے مگر وہ صرف دیکھ سکتے تھے.  ...کیا کرتے...؟..اور کر بھی کیا سکتے تھے. ..؟..کچھ کرتے تو تب ناں جب انہیں پتا ہوتا کہ یہ زندگیاں ختم کرنے والا کون ہے...برسوں سے چودھویں کی رات کو اس گاوں کا کوئی ایک شخص قربانی کا بهینٹ چڑهتا آ رہا تها. .لیکن اتنے برسوں میں بھی کسی کو یہ پتا نہیں چل سکا کہ گاوں کے لوگ غائب ہو کر کہاں جا رہے ہیں. ..کس لیے جا رہے ہیں.  .؟..ایسے کئی سوالات جن کے جواب وہ برسوں سے تلاش کر رہے ہیں. ..جو کوئی بھی یہ سب کر رہا تھا وہ کوئی بہت ماہر کھلاڑی تها اپنے پیچھے نشان تک نہیں چهوڑتا تها....وہ اب تک کئی ماؤں سے ان کے بیٹے چهین چکا تها کئی لڑکیوں نے بهری جوانی میں ہی بیوگی کی چادر اوڑھ لی تهی اور کئی معصوم بچے اپنے باپ کے سائے سے محروم ہو گئے. .......
اور تعجب کی بات تو یہ تهی کہ وہ جو کوئی بھی تها اپنے شکار کے لیے صرف نوجوان لوگوں کا ہی انتخاب کرتا......
گاوں والوں نے اپنی طرف سے بھی بہت کوشش کی کہ کسی طرح انسانی زندگیاں نگلنے والے اس گاوں سے وہ وجود ہی ختم کر دیا جائے جو ان سب کا باعث ہے جو یہ سب کر رہا ہے. ..........
جب وہ لوگ اپنی طرف سے ناکام ہوئے تو نور پور گاوں کے کچھ پڑهے لکهے لوگوں نے سرکار کے نام درخواستیں بهیجنی شروع کر دیں. ..اپنی تحفظ کے لیے انہیں سرکار کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا..لیکن وہاں سے بھی ان کے امید کا دیا روشن نہیں ہوا.............
کالی وردی میں سرکار کے کئی افسر آئے گئے..لیکن کسی کو کوئی پتا نہیں چل سکا..اور ایک بار تو بہت بڑی فوج آئی تهی شہر سے گاوں والوں کی امیدیں ایک بار پهر روشن ہونے لگیں.....وہ بہت دنوں تک جدوجہد کرتے رہے لیکن اس جدوجہد کے نتیجے میں انہوں نے اپنا ہی ایک نوجوان سپاہی کهو دیا..اور اپنا سا منہ لے کر واپس اسی راستے پہ چلے گئے جہاں سے وہ آئے تهے..نور پور والوں کی زندگی ایک بار پھر اسی راستے پہ آ گئی..وہ زندگی جی رہے تھے لیکن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر. جب گاوں والے ہر طرف سے اور ہر طرح سے نا کام ہو گئے تو وہ اس نتیجے پہ پہنچے کہ اس گاوں میں کسی آسیب کا سایہ ہے..یہ قتل کوئی انسان نہیں بلکہ کوئی روح یا کوئی جن بهوت کر رہا ہے. .....  
________________________________ 
ٹرین سے اتر کر اس نے اپنا بهاری بیگ سنبھال لیا. .اور وہیں ریلوے اسٹیشن پہ ہی کهڑے ایک لڑکے سے نور پور گاوں کے پولیس اسٹیشن کا پتا معلوم کر کے وہ اپنے قدم آگے بڑهانے لگا.ایسے گاوں میں جہاں انسان برائے نام نظر آ رہے ہوں وہاں سواری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. .اس لیے مجبوراً اسے اپنے پاوں کو تکلیف دینی پڑ رہی تھی..............
اس کے چہرے پہ جنجھلاہٹ اور بیزاری کے آثار واضح نظر آ رہے تھے. .وہ چلتے ہوئے آس پاس علاقے کا جائزہ بهی لے رہا تها. .اسے یہ گاوں کافی حد تک خوبصورت نظر آئی..سفید اونچے پہاڑوں کے درمیان خوبصورت لمبے درخت ماحول میں ایک خوشگوار تاثر پیدا کر رہے تھے. ...........
دهند کی وجہ سے اسے سردی کا بھی احساس ہونے لگا..اس نے کالی وردی کے اوپر جو نیلے رنگ کی سویٹر پہنی تهی وہ اس سردی کو روکنے میں ناکام نظر آ رہا تها...ایک ایک قدم اسے پولیس اسٹیشن کی طرف جو اس کی منزل تهی وہیں لے کر جا رہا تھا. ..
وہ نوجوان تها..اس کا نام آبیل شہزاد تها..اس کا تبادلہ مظفر گڑھ پولیس اسٹیشن سے اسی گاؤں میں ہوا تھا. .گاؤں کا ماحول اسے شروع سے ہی نا پسند تها لیکن وہ ایک سرکاری افسر تها اس لیے اسے سرکار کے حکم پہ ہی کام کرنا تها اب وہ چاہے چهانگا مانگا جنگل میں بهیج دیتے یا اس طرح کے کسی گاوں میں. .وہ سرکار کے ماتحت کام کر رہا تھا اور سرکار کے سامنے ہی جواب دہ تها.....
یہ گاوں دیکهنے میں تو بہت خوبصورت نظر آ رہا تها لیکن جو بات اس نے سن رکهی تهی اس گاوں کے بارے میں اس پہ اسے یقین آیا بھی اور نہیں بھی. .......
وہ چلتے چلتے اس گاوں کے اندر داخل ہو چکا تها ..اپنا بهاری بیگ اٹهائے وہ کافی تهکن محسوس کر رہا تها. .پہاڑی علاقے میں پیدل چلنے کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا. .یہاں تک آتے آتے اس کی بیزاری میں مزید اضافہ ہو چکا تها. ...
اسے دور کہیں ایک عورت بکریاں چراتی نظر آئی اور پاس ہی ایک بوڑھا لکڑیاں کاٹ رہا تها..بچے بھی پاس پتهروں کے گهر بنا کر کهیل رہے تهے.....
لیکن اب چونکہ سبهی کی نگاہ اس پہ پڑ چکی تهی اس لیے سارے بچے کهیل چهوڑ کر اس کی طرف حیرت سے دیکهنے لگا..اور صرف بچے ہی نہیں وہ بکریاں چراتی عورت اور وہ بوڑھا جو لکڑیاں کاٹ رہے تها سب اسے گهور کر دیکھ رہے تهے جیسے وہ کوئی عجوبہ ہو یا کوئی آسمانی مخلوق جو غلطی سے اس گاوں میں آ گیا ہو..وہ سمجھ نہیں سکا کہ آخر وہ لوگ کیوں اسے اتنے غور سے دیکھ رہے ہیں کیا پہلے انہوں نے کسی کو کالی وردی میں نہیں دیکها یا انہوں نے کوئی پولیس والا نہیں دیکها اب تک...؟.......
اسے ان کا اس طرح کام روک کر گهور کر دیکهنا ناگوار گزرا مگر وہ رکا نہیں آگے چلتا رہا اور گاہے گاہے ان لوگوں کو بھی دیکھ رہا تها ..ایسے سین اس نے صرف فلموں میں ہی دیکھ رکهے تهے مگر اب چونکہ اس کا واسطہ حقیقت میں ایسے لوگوں سے پڑ رہا تها اس لیے وہ تهوڑا کنفیوز تها  .............
بہرحال تهکن سے نڈھال بڑے لمبے سفر کے بعد وہ پولیس اسٹیشن تک پہنچ ہی گیا. .لیکن پولیس اسٹیشن کی ٹوٹی پھوٹی عمارت دیکھ کر اس کی حیرت ختم نہیں ہو رہی تهی. .رنگ اترنا تو خیر معمولی بات تهی لیکن وہ عمارت تو بالکل ہی ایک کهنڈر کا سماں پیش کر رہا تها..ایسا لگ رہا تها جیسے برسوں سے  استعمال نہیں ہوا....اس نے اپنا پہلا قدم اندر رکها اور پہلا قدم رکهتے ہی اسے عجیب بدبو کا احساس ہوا بے ساختہ اس نے اپنی پینٹ کی جیب سے رومال نکال کر ناک پہ رکها..اور ادهر ادهر کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑهنے لگا ..لیکن جب وہ پوری طرح عمارت کے اندر داخل ہو چکا تو وہ ٹهٹک کر رک گیا.......
دیواروں پہ رنگ کا نہ ہونا اور عمارت کا ٹوٹا پھوٹا ہونا یہ تو کچھ بھی نہیں تها اس منظر کے سامنے جو وہ کهلی آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھ رہا تھا. ....
ہر طرف کالی سفید بھیڑیں بندهی تهیں..ایسا خوفناک منظر تو اس نے کسی فلم میں بھی نہیں دیکها..اس میں ناگواری کے ساتھ ساتھ غصے کی بهی شدید لہر ابهری. .یہ پولیس اسٹیشن ہے یا انیمل پلانٹ ..کڑھتے ہوئے اس نے سوچا...اس نے دیوار پہ غصے سے لات مار کر اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کی. .مگر اس کوشش میں اس کے اپنے پاؤں پہ ہی چوٹ آئی.......
بے اختیار وہ اپنے سے اعلیٰ عہدوں پہ فائز ان افسران کو خوبصورت گالیوں سے نوازنے لگا جنہوں نے اسے اس عجائب گھر نما پولیس اسٹیشن میں بهیجا ہے. .ایک پل بھی مزید وہاں رکے بنا وہ باہر نکل آیا..وہ ابهی بهی غصے سے کهول رہا تها.........
وہ اپنا بیگ وہیں رکھ کر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا شمال کی طرف چلنے لگا اب اسے سب سے پہلے جو بھی نظر آتا اس کی تو خیر نہیں تهی..وہ لال چہرے کے ساتھ اپنے افسران کو گالیوں سے نوازنے کے علاوہ ان گاوں کے رہائشیوں کو بھی نہیں بخش رہا تها....اسے اپنا غصہ اتارنے کے لیے بہرحال ایک لڑکا مل ہی گیا  ..وہ بوری اٹهائے کہیں جا رہا تھا وہ یکدم اس کے سامنے جا کر کهڑا ہو گیا اس بیچارے کو رکنا ہی پڑا..وہ اس کے سامنے جاتے ہی شروع ہو گیا. .......
شرم نہیں آتی تم لوگوں کو ..پولیس اسٹیشن کی کیا حالت بنا رکهی ہے..؟.وہ پولیس اسٹیشن ہے کوئی تم لوگوں کے باپ دادا کی ملکیت نہیں.  کہ جو دل میں آئے وہی کرو اس کے ساتھ. ..؟..پولیس اسٹیشن میں بهیڑ باندهنے کی کون سی تک بنتی ہے...؟...اس کے جو منہ میں آیا وہ بولے چلے جا رہا تها یہ جانے بنا کہ سامنے کوئی اس کی بات سن بھی رہا ہے یا نہیں.. ؟..وہ کافی دیر جب اپنا غصہ نکال کر ریلکس ہوا تو اس نے سوالیہ نگاہوں سے اس لڑکے کی طرف دیکها جو منہ کهولے اسے دیکھ رہا تھا  .......
بولتے کیوں کچھ نہیں   ؟..منہ میں زبان نہیں ہے کیا..؟ وہ بھیڑیں کس کی ہیں. ..؟..وہ اب خاموش تها..پهر اس لڑکے نے ہاتھ سے کوئی اشارہ کیا..اور اس کا دل چاہا وہ اپنا سر پیٹ لے مطلب اتنی دیر سے وہ ایک گونگے پہ اپنی انرجی ویسٹ کر رہا تها....؟..جو غصہ اس پہ نکال کر ایک بار وہ ختم کر چکا تها وہ غصہ ایک بار سے کہیں آ گیا..اب وہاں اس کا رکنا بے کار تها اس لیے وہ پهر سے آگے کی جانب بڑھا. ...........
کچھ ہی آگے جانے کے بعد اسے ایک بوڑھی عورت نظر آئی وہ پتا نہیں ایک پتھر پہ بیٹھ کر جانے کیا کر رہی تهی.. اس بار اس نے سابقہ تجربات کی روشنی میں سب سے پہلے اس بوڑھی عورت سے یہی سوال کیا...
آپ گونگی تو نہیں ہیں. ..؟..اس سوال پہ اس بوڑھی عورت نے اسے گهور کر دیکها اور ایک دم پتهر سے اٹھ کهڑی ہوئی ....
ارے گونگا ہو گا تو تیری ماں. .؟ ..سالے پینٹو تجھے شرم نہیں ہے... کپڑوں کے ساتھ ساتھ تمیز بھی گهر چهوڑ آیا....وہ پتا نہیں اور بھی کیا کیا کہتی رہی جب وہ اپنا سارا غصہ نکال چکی تب اس نے شریفانہ انداز میں پوچها . پولیس اسٹیشن میں بهیڑیں کس کی ہیں. ..بڑے نخرے کے بعد بہرحال اس نے بتا ہی دیا کہ وہ بهیڑیں یہاں کے چوہدری صاحب کی ہیں. ..اس نے اس چوہدری صاحب کی حویلی کا پتا بھی معلوم کر لیا...اور پھر وڈیرے کی حویلی کی طرف روانہ ہو گیا. ...
وہاں پہنچ کر اس وڈیرے کے منشی نے اس بڑی حویلی کے ایک چارپائی پہ بٹهایا اور خود اس چوہدری صاحب جس کا نام چنگیز خان تها اسے بلانے چلا گیا...وہ بیزاری سے جمائی روک کر ادھر ادھر کا جائزہ لینے لگا....
 تهوڑے وقفے کے بعد ایک سفید پگڑی والا چہرہ نمودار ہوا وہ احتراما کهڑا ہو گیا...چوہدری صاحب اس سے گرم جوشی سے ملے اور اسے بیٹهنے کو بھی کہا ...حال احوال کے بعد اس نے سیدهے ان سے اسٹیشن میں بهیڑوں کے بارے میں پوچها. .....
دیکھ پتر.. برسوں سے اس پولس اسٹاشن (پولیس اسٹیشن) میں کوئی پولس والا نہیں آیا ..اس لیے وہ برسوں سے بند پڑا ہے ..یہاں کوئی پولس والا اب تک نہیں ٹکا پتر..تینوں تے پتا ہو گا ناں ساڈے پنڈ دی حقیقت. ..( آپ کو تو پتا ہو گا ناں ہمارے گاوں کی اصلیت ) ..چوہدری صاحب اردو اور پنجابی مکس کر کے اسے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تها....
اتنا تو اب تک سمجھ چکا تها..کہ یہ کیس کوئی آسان کیس نہیں ہے مگر یہ کیس اتنا مشکل ہو گا یہ اندازہ نہیں تھا اسے..وہ اپنے ادارے میں سب سے بہادر مانا جاتا تها..وہ اب تک بہادری کے کئی تغمے اپنے نام  کر چکا تها ..اور اس میں ایک خاصیت ہے وہ ایک بار جس کیس کو شروع کرتا ہے تو اسے تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہے..اس نے اپنے کسی کیس میں ہار نہیں مانی..اور اس کی اسی خصوصیت کی وجہ سے اسے یہاں بهیجا گیا............
لیکن شاید یہ کیس تو اس کی سوچ سے بھی بالاتر تها ..چوہدری صاحب نے اسے جو کہانی سنائی تهی اس کے مطابق قتل ایسے ہوتے ہیں کہ قاتل اپنا نشان تک نہیں چهوڑتا اور چوہدری صاحب نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ قتل کوئی انسان نہیں کر رہا.اور انہیں یقین بھی نہیں تها کہ قتل ہو بھی رہے ہیں یا ویسے ہی بندے غائب ہو رہے ہیں.....
قاتل کو پکڑنا آسان ہے اگر معلوم ہو جائے قاتل کون ہے اور کیوں قتل پہ قتل کر رہا ہے...لیکن یہاں تو سرے سے قاتل کا کوئی نام و نشان تک نہیں تها ..اور ایسے میں قاتل تک پہچنا مشکل نہیں ناممکن تھا. ..لیکن وہ بھی اپنے نام کا ایک تها..............
وہ کوئی پراسرار مخلوق ہوگی جو یہ سب کر رہا ہے اور پراسرار مخلوق سے ٹکر لینا کوئی آسان کام نہیں. .چوہدری صاحب نے اسے سمجهایا کہ وہ واپس لوٹ جائے جیسے اس سے پہلے والے پولیس اہلکار لوٹ گئے.یہاں صرف خطرہ ہے یہاں زندگی کی بازی لگتی ہے..جسے جیتا بھی نہیں جا سکتا...
..نہیں یہ اس کے معیار اس کے اصولوں کے خلاف تها وہ اپنی زندگی میں کوئی کیس نہیں ہارا.....
چوہدری صاحب اس کی ضد کے آگے کچھ بول نہیں سکے لیکن صاف لگ رہا تها وہ ان کی اس بے وقوفی سے خوش نہیں ہیں. .پولیس اسٹیشن کی جو حالت تھی اس کے بعد کم از کم وہ وہاں تو رہائش نہیں اختیار کر سکتا تها...چوہدری صاحب نے اسے اپنے مہمان خانے میں رہنے کی دعوت دی جواس نے خوشی خوشی قبول کر لی. .پهر انہوں نے اپنا ایک بندہ بهیج کر اس کا سامان یہیں لانے کو کہا. ..........
چوہدری صاحب کے ساتھ چلتے ہوئے وہ ان کے مہمان خانے میں آیا جو کوئی پانچ مرلے کی چهوٹی جگہ تهی ..دو کمروں اور ایک واش روم  پر مشتمل وہ مہمان خانہ اسے اس اسٹیشن سے تو کہیں زیادہ بہتر لگا...چوہدری صاحب وہاں سے چلے گئے وہ آرام کرنے کی غرض سے ایک کمرے میں آ گیا.......
کمرے کا دروازہ کهول کر اس نے کمرے کا جائزہ لیا جس میں ایک چارپائی رکهی ہوئی تھی اور دو پرانی کرسیاں...اس نے ناگواری سے چارپائی کی شیٹ درست کی اور اس پہ نڈهال ہو کر لیٹ گیا......
وہ چهت کو گهورتے ہوئے اپنے اس عجیب و غریب کیس کے بارے میں سوچ رہا تها جو اسے سونپ دیا گیا تها.وہ اپنی پانچ سالہ نوکری کے دوران مختلف تجربات سے گزرا..مختلف خطرات کا اس نے سامنا کیا تها لیکن یہ اس کی زندگی کا سب سے پراسرار کیس لگ رہا تها..اس لیے وہ سمجھ نہیں پا رہا تها کہاں سے کیا شروع کرے... .اس نے چوہدری صاحب سے جو معلومات حاصل کیں ان کے مطابق ہر مہینے کی چودھویں رات کو اس گاوں کا ایک نوجوان غائب ہو جاتا ہے. ..اور ایسے غائب ہو جاتا ہے کہ کسی کو اس کا نام و نشان تک نہیں ملتا...اس کے ذہن میں کئی سوالات تهے. ...
کون یہ سب کر رہا ہے. ...؟
کیوں کر رہا ہے...؟
کیسے کر رہا ہے...؟
اور صرف چودھویں کی رات کو ہی وہ یہ سب کیوں کرتا ہے. .؟
کیا حاصل ہوتا ہے اسے یہ سب کر کے...؟..
اور بهی کئی سوالات اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے سوال کئی تهے لیکن جواب ایک کا بھی نہیں تها. .وہ اپنے ذہن کے ساتھ ہی الجها ہوا تها کہ اسے کسی کی آمد محسوس ہوئی...اس نے وہیں لیٹے لیٹے ہی دروازے کی طرف دیکها تو منشی جی کهڑے تهے .وہی جن سے ابھی وہ تهوڑی دیر پہلے ملا تها..وہ ہاتھوں میں ایک ٹرے لیے کهڑا تها. ......
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا جبکہ وہ منشی مسکراتے ہوئے حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا جیسے یہاں آتے وقت گاوں والے اسے دیکھ رہے تهے..اسے منشی جی کی نظروں سے عجیب جهجک کا احساس ہوا. .اس نے کھنکار کر اس منشی جی کو ہوش میں لانے کی کوشش کی..اور اس کا یہ تجربہ کام کر گیا منشی جی ہڑبڑا کر آگے بڑها اور ٹرے اس کے پاس رکھ دیا ..اس نے ایک نگاہ ٹرے پر ڈالی چائے کے ساتھ ساتھ بسکٹ بھی لائے گئے تھے. .. 
اس کے جانے کے بعد اس نے چائے کے ساتھ ساتھ بسکٹ کهانے شروع کیے..بهوک کافی لگ رہی تهی اسے... اس نے راستے میں بھی کچھ نہیں کهایا تها...چائے سے فارغ ہو کر وہی پهر سے لیٹ گیا..اور اس بار وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا. ........
_______________________________ 
  سورج کا سفر مشرق سے شروع ہو کر مغرب تک تقریباً ختم ہونے والا تها...پرندوں کی چہچہاہٹ میں بھی آہستہ آہستہ کمی محسوس ہو رہی تهی. ..سب گاوں والوں کے چولہے روشن تهے..بچوں کے رونے کی آوازیں بھی آ رہیں تهیں........
سورج اپنی منزل تک پہنچ چکا تها..اب چاند نے اپنا سفر کرنا شروع کر دیا. .آج چاند کی چودھویں رات تهی..چاند کی ہلکی ہلکی روشنی اندهیرے کو مات دینے کی کوشش کر رہی تھی. .....
اجمل اپنی ٹارچ کی روشنی کے سہارے بڑی بڑی جھاڑیوں کے درمیان چلتا ہوا اپنی محبوبہ سے ملنے جا رہا تها .جو اس کانٹوں بهرے راستوں کے اختتام پہ اس اونچی پہاڑی کے اوپر اس کے انتظار میں کهڑی ہو گی..اس نے کل شام ہی اسے ملنے کے لیے کہا تها کل ہی وقت اور جگہ طے پایا گیا تها...اس کے دل میں ایک خوشی تهی اپنی محبوبہ سے ملنے کی خوشی..اس لیے وہ لمبے لمبے قدم اٹهاتا ہوا آگے جا رہا تها..تیز چلنے کی وجہ سے اس کا سانس پهول چکا تها..لیکن اس کے قدموں کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی..جھاڑیوں بهرا مشکل راستہ ختم ہو چکا تها اب وہ اونچی پہاڑی پہ چڑھنے کے لیے اپنا قدم رکھ چکا تها.اب اس نے اپنا ٹارچ منہ میں دبا لیا کیونکہ پہاڑی پہ چڑهنے کے لیے بعض مقامات پہ اسے اپنے ہاتھوں کا استعمال بھی کرنا تها.گہری خاموشی میں جب وہ قدم رکهتا تو ہر طرف ایک شور پیدا ہو جاتا ..پتهروں سے پتهر ٹکرانے کا شور..ایسے میں وہ خود کی قدموں سے پیدا ہونے والی آواز سے بھی ڈر جاتا.....
ایک تو رات کا وقت تھا اور دوسرا وہ کسی کو بتا کر نہیں آیا کہ وہاں کہاں جا رہا ہے اور ایسی باتیں کهبی بتائی نہیں جاتیں...وہ اس پہاڑی کے نصف حصے تک پہنچ چکا تها..وہ اب کافی حد تک تهک چکا تها بہت لمبا سفر طے کر کے آیا تها. ..وہ پہاڑوں کا بیٹا ضرور تها اس نے اپنا بچپن لڑکپن یہیں پہ گزارا تها انہی پہاڑی علاقوں میں. ..مگر ان سب کے باوجود وہ ایک انسان بھی تها اور انسان کهبی حد سے زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتا. .تهوڑی دیر ایک بڑے پتھر پہ بیٹهنے کے بعد اس نے ایک بار پھر سے اپنا سفر شروع کیا اور ایک بار اس پہاڑی پہ چڑهنے لگا.....اب اس کی محبوبہ اس کے قریب تهی وہ تقریباً اپنی منزل تک پہنچ چکا تها. ...
وہ جس لڑکی سے ملنے اتنے مشکل راستے طے کر کے جا رہا تها اس سے وہ بہت محبت کرتا تها. .اور یہ محبت کوئی زیادہ پرانی نہیں تهی ..ایک مہینے پہلے جب وہ چکی پہ آٹا پسوانے لے کر جا رہا تها تبهی اس نے راستے پہ ایک بہت حسین لڑکی کو دیکھا. .یہ کہنا غلط نہیں کہ اس نے اپنی زندگی میں کهبی اس جیسی خوبصورت لڑکی نہیں دیکهی..وہ لڑکی اس کے گاوں کی نہ تهی یہ تو وہ جانتا تھا. .مگر وہ کس گاوں کی ہے یہ وہ نہیں جانتا تھا. ..وہ لڑکی اسے دیکھ کر مسکرانے لگی اور یہ اس کے لیے غنیمت تها ..اس نے بات شروع کرنے کے لیے اس لڑکی سے پوچھا وہ یہاں کیا کر رہی ہے. .اس لڑکی نے بتایا کہ وہ شہر سے آئی ہے. .پولیو مہم کی طرف سے. .اور باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اس کے بعد ان دونوں کی دوستی ہو گئی اور دوستی کو محبت میں بدلتے بالکل دیر نہیں لگی. ............
اور آج وہ ( اجمل ) اس سے ملنے جا رہا تها...وہ اب بالکل اس پہاڑی کے اوپر پہنچ چکا تها اور متلاشی نگاہوں کے ساتھ ادهر ادهر دیکهنے لگا..ہر طرف دیکهنے کے بعد جب اسے وہ کہیں دکهائی نہ دی تو اسے مایوسی ہوئی..وہ ایک بار پھر اس پہاڑی سے نیچے اترنے لگا ابهی اس نے پہلا قدم نیچے کی طرف رکها ہی تها کہ اسے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی..اس نے آہستہ سے گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکها...سامنے اس کی محبوبہ پورے جسم پہ سیاہ چادر اوڑھے کهڑی تهی..اس کے چہرے پہ مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ حیرت کے آثار بھی نمودار ہوئی. .کیونکہ ابهی تهوڑی دیر پہلے تک اس پہاڑی پہ جب اس نے ہر طرف اچھی طرح دیکها تب وہ کہیں نظر نہیں آئی لیکن اس کے اس طرح اچانک آ جانے پہ وہ تهوڑا حیران ضرور تها.........
وہ اب اپنی بانہیں کهولے اسے اپنی طرف آنے کی دعوت دے رہی تھی. .اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تهی ہونٹوں پہ پراسرار مسکراہٹ. .......
آ گئے تم ! میں تمارا ہی انتظار کر رہی تھی. .اس کی آواز بھی پہاڑوں سے ٹکرا رہی تهی..وہ اپنے قدم اٹهاتے ہوئے مسکرا کر اس کی طرف بڑهنے لگا....
اٹھانوے. ....اس لڑکی نے جیسے ہم کلامی کی. 
[ناگن اور شکاری تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پہ بھی دستیاب ہے ]
________________________________
چاند کی چودھویں رات کی اگلی صبح سبهی گاوں والوں کے لیے قیامت کا دن ہوتا ہے. .ہر طرف رونے کی آوازیں ماحول میں ایک عجیب افسردگی اور ڈر...
وہ بھی ایسی ہے ایک صبح تهی جب ہر طرف آنسو کی برسات ہو رہی تهی. .غلام فرید کا بیٹا اجمل جو کل رات سے غائب تها .اور سب کو سمجهنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ کہاں غائب ہو گیا..کسی کی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تها..اور ایسا صرف کل رات نہیں ہوا تها یہ سلسلہ تو برسوں سے چلا آ رہا ہے..ہر چودھویں رات کو کسی نہ کسی ماں کا بیٹا اس سے دور ہو کر ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتا اور ایسا غائب ہو جاتا کہ اس کی لاش تک نہ ملتی...............
اور اس صبح بجلی غلام فرید کے اوپر گری تهی.اجمل ان کا اکلوتا بیٹا تھا ان کے بڑهاپے کا سہارا لیکن تقدیر کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا. ....
وہ بھی چوہدری صاحب کے مہمان خانے میں آرام سے سویا ہوا تھا. .کہ چوہدری صاحب نے صبح صبح اسے جگا کر یہ خبر سنائی تهی..اس خبر سے اسے ڈر نہیں لگا لیکن حیرت ضرور ہوئی تھی وہ چوہدری صاحب کے ہمراہ ہی غلام فرید کے گهر گیا..انہیں حوصلہ دینے کے بعد انہوں نے غلام فرید سے مختلف سوالات کیے...
کہ ان کا بیٹا کہاں گیا تها...؟
کیوں گیا تها...؟
کس وقت گیا تها...؟
اس سوال کا جواب غلام فرید تبهی دے سکتا تها جب خود اسے معلوم ہوتا لیکن وہ تو خود انجان تها بس اس کی بیوی نے صرف اتنا بتایا کہ وہ کل رات مغرب کے وقت گهر سے نکل گیا اور یہ نکلنا ایسا ثابت ہوا کہ اس نے واپس مڑ کر نہیں دیکها...غلام فرید کے ساتھ ساتھ سب کے چہرے مرجهائے ہوئے تها..وہ اب تک ان باتوں کو اتنا سریز نہیں لے رہا تها لیکن آج اس گاؤں میں آئے ایک ہفتے بعد اسے احساس ہوا یہ واقعی کوئی آسان کیس نہیں ہے. ..........
وہ اگر ذہین ہونے کا دعویٰ کر رہا تها تو یہ اس کی ذہانت کا امتحان تها اور اگر وہ خود کو ہر چیلنج جیتنے والا سمجهتا تها تو یہ اس کے لیے ایک چیلنج تها..لیکن وہ کہاں سے پتا کرے کیسے پتا کرے..؟..اگر کوئی قتل کرتا اور لاش اسے ملتی تب شاید وہ اپنی طرف سے لاش کی چهان بین کر کے کچھ نہ کچھ معلوم کر ہی لیتا لیکن یہاں ایک عجیب کیس سے واسطہ پڑ رہا تها اس کا...جہاں انسان غائب ہو رہے ہیں. .اگر مان لیا جائے کہ انہیں اغوا کیا جا رہا ہے تو اغوا صرف چاند کی چودھویں رات کو ہی کیوں کیا جا رہا ہے...اغوا کے لیے تو کوئی دن مقرر نہیں ہونا چاہیے. .اغوا تو کسی بھی دن کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے. ......
نہیں. ..نہیں. ..یہ کوئی اغوا کا کیس ہر گز نہیں ہے یہاں کچھ بہت غلط ہے. ..کچھ ایسا جو اس کی تو کیا پورے گاوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے. ..اب وہ سمجهنے لگا کہ اس سے پہلے اس گاوں میں آئے پولیس والے واپس کیوں لوٹ گئے......کیونکہ ان کے لیے اس قاتل یا اغوا کار جو بھی تها اس کا پکڑنا نا ممکن ہو گیا تها کہیں سے کوئی کڑی ہی نہیں مل رہی تهی ایسے میں وہ یہاں رک کر اپنی ہی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتے تھے. ......
لیکن وہ. ..وہ...اب اس راز کا کیسے پتا لگائے..اس کے ذہن میں الجهن ہی الجهن تهی اور اسی الجھن کے ساتھ وہ ایک بار پھر چوہدری صاحب کے مہمان خانے میں لوٹ آیا.........
◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆
ناصر حسین کے ناولز پڑهنے کے لیے گوگل میں سرچ کر کے ناصر حسین ناولز " لکهیں مکمل لسٹ آ جائے گی ....
[ ◆ ناصر حسین مکمل ناولز لسٹ  ◆ ]
[ دهڑکن_ جیون ساتھی_ تم سے اچها کون ہے_ ہم قدم_ دلہن_ ناگن اور شکاری_ دل کی عدالت_ ہم تم اور محبت_ خونی قبرستان_ منزل _موت کی آواز_ اصراط_ ایمان اور عشق _جنت کی کنجی ___
◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆◆ 
______________________________
صبح صبح ہی منشی اس کے لیے چائے ناشتہ لے آیا تها..بستر سے اٹھنے کو اس کا دل تو نہیں چاہا بہرحال چائے ٹهنڈی ہو رہی تهی اس لیے اس بستر چهوڑنا ہی پڑا..بستر سے اٹھنے کے بعد ایک بار انگڑائی لے کر وہ پانی کے نلکے تک گیا ...وہاں سے لوٹے میں پانی بهر کر وہ اپنے منہ ہاتھ دهونے لگا...پانی ٹهنڈا تها اس لیے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ...........
وہ چارپائی پر بیٹھ کر گرم گرم پراٹھے کو دہی میں ڈبو کر کهانے لگا..ساگ اور مکهن بھی تها...اسے گاوں کے دیسی کهانے کے علاوہ کسی بھی چیز میں دلچسپی نہیں تهی...چوہدری صاحب مکمل طور پر اس کہ دیکھ بهال کر رہے تھے وہ ان کا احسان مند تها...رہائش کے علاوہ کهانے پینے کا بھی خاص بندوبست ہوتا تها........
کهانا کهاتے ہوئے بے ساختہ اسے اپنی ماں کی یاد آئی وہ بھی ایسے مزیدار پراٹھے بنا کر اسے اپنے ہاتهوں سے کهلایا کرتی تهیں.......
ناشتہ کر لینے کے بعد اس کا ارادہ چہل قدمی کا تها..اسے کچھ معلومات بھی حاصل کرنی تهیں.وہ یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھ سکتا تها لوگوں کی زندگیاں داو پہ لگیں تهیں....اور اسے بڑی امید کے ساتھ یہاں بهیجا گیا. ..وہ جو اس کا باس تها جس کے سامنے وہ جواب دہ تها.اسے ان کو جواب دینا تها...........
ناشتے کے برتن سائیڈ پہ رکھ کر اس نے اپنے بالوں کا حلیہ درست کیا اور سویٹر پہن کر ساتھ ایک گرم شال بھی اوڑھ لی گاوں کی اس شدید سردی کو روکنے کے لیے صرف سویٹر تو نا کام تها....جوگرز کے تسمے باندھ کر وہ باہر نکلا...باہر خاموشی کا راج تها....
دهند کے باعث شاید لوگ اپنے گھروں میں بستروں کی زینت بنے ہوئے ہوں گے. .وہ گاوں کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑهنے لگا. ..چلتے چلتے اچانک اسے احساس ہوا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے. ..اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا دور دور تک کوئی نہیں تها. ..شمال جنوب ، ہر طرف دیکهتا رہا لیکن کوئی بھی تو اسے نظر نہیں آیا...اگر واقعی وہاں کوئی نہیں ہے تو پھر اسے ایسا کیوں محسوس ہوا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے. .سر جهٹک کر ایک بار وہ چلنے لگا.............
لیکن چلتے چلتے پهر اس کے قدم چلنے سے انکاری ہو گئے...اسے ایک بار پھر محسوس ہوا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ایک بار پھر اس نے مشرق، مغرب ،شمال جنوب ہر طرف اپنی نگاہ دوڑائی. .اس بار بھی اسے کچھ نظر نہیں آیا ........
بے ساختہ اس نے اپنے ہاتھ سے ماتهے کو چهوا تو اسے جیسے کرنٹ لگا ہو...اس کے ماتھے پہ پسینہ تها.. ......
جاری ہے___
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ 
یہ ایک فرضی کہانی ہے_اسے لکهنے کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے__یہ میں نے سات مہینے قبل لکهی ہے__اس کی تین یا چار اقساط ہیں جو روازنہ رات آٹھ بجے آپ پڑھ سکیں گے مکمل ناول گوگل پہ بھی دستیاب ہے مزید ناولز کے لیے مجهے فالو کریں شکریہ__اور یہ قسط کیسی لگی اپنی رائے ضرور دیں___
[ناگن اور شکاری تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پہ بھی دستیاب ہے ] 
جنت کی کنجی _ _ Coming Soon