ربا قسمت میں رونا کیوں لکھا|Rabba Qismat Main Rona Kyun Likha By Ayat Noor Episode 19



175 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


#ربا_قسمت_میں_رونا_کیوں_لکھا

#آیت_نور ✍️

قسط 19
نو بجے کے قریب وہ سب شادی ہال پہنچے تھے... شاہ گاڑی خود ڈرائیو کر کے لایا تھا... سونا اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی... راستے میں شاہ نے اسے وارننگ دی تھی کہ یہ رونے دھونے والا ڈرامہ کرنا ہے تو اکیلے میں کرے... اب کسی کے سامنے وہ اسے روتی دھوتی آنسو بہاتی نظر نہ آۓ.. سونا نے خاموشی سے آنسو اپنے اندر ہی اتار لیے... یہ سب کرنا بہت مشکل تھا اس کے لیے... وہ کبھی اپنے جذبات چھپا نہیں پاتی تھی.... اس کے دل میں جو ہوتا چہرے سے سب عیاں ہوتا تھا... لیکن اب اسے یہ دوغلی ذندگی گزارنی ہی تھی... چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجانی ہی تھی... ہال میں پہنچ کر سکندر گاڑی سے اترا تھا... دوسری جانب أ کر گاڑی کا دروازہ کھولا... ہاتھ اس کی جانب بڑھایا... کوئ پرانا منظر یاد آیا تھا...  سفید لباس میں ملبوس پری کا ہاتھ تھامے سینیما ہال کی جانب بڑھتا شہزادوں کی سی آن بان والا شخص .. شاہ نے سر جھٹکا... نظر سونا پر جمائ جو کشمکش میں بیٹھی تھی... "ہاتھ دو اپنا.." دھیمے مگر ترش لہجے میں کہا گیا تھا... سونا نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا... پھر اپنے سامنے پھیلے اس کے ہاتھ کو... گہری سانس بھرتے ہوۓ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور باہر آئ... چہرے پر مسکراہٹ سجائ تھی... جھوٹی اور پھیکی مسکراہٹ... کیونکہ مووی میکر مووی بنا رہے تھے... دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہال میں داخل ہوۓ... درمیان میں راہداری سی بنی تھی... دلہا دلہن کے اسٹیج تک جانے کے لیے... جبکہ دونوں اطراف چئیرز لگائ گئ تھیں جن پر مہمان براجمان تھے... ملک کے بڑے بڑے عہدہ داران اور اثرورسوخ والے لوگ شامل تھے اس فنکشن میں... شاہ مضبوطی سے سونا کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتا چلا گیا...  سب کی نگاہیں ان دونوں پر جمی تھیں... اسٹیج کے قریب پہنچ کر شاہ نے اس کا ہاتھ چھوڑا... دو سیڑھیاں چڑھ کر اسٹیج پر پہنچ کر اپنا ہاتھ پھر سے سونا کی جانب بڑھایا... سونا نے لب کاٹتے ہوۓ اس کا ہاتھ تھاما اور اسٹیج پر چڑھ گئ... شاہ گھٹنے کے بل اس کے سامنے بیٹھا تھا... ایک سرخ گلاب پیش کیا تھا اسے... نوجوان ہوٹنگ کرنے لگے تھے اس کے اس انداز پر... سونا نے ہاتھ بڑھا کر پھول کو تھاما... شاہ اٹھا تھا... دھیرے سے بازو اس کی کمر میں ڈال کر اسے لیتا ہوا صوفہ کی جانب بڑھ گیا... اسے صوفہ پر بٹھایا اور پھر اس کے ساتھ ہی خود بھی براجمان ہو گیا تھا... 
کچھ دیر بعد عبدالہادی اسٹیج پر آۓ... سونا ان کے گلے لگی...یوں لگ رہا تھا جیسے ان سے ملے ہوۓ صدیاں بیت گئ ہوں... چینخ چینخ کر رونے کو جی چاہ رہا تھا لیکن وہ رو نہیں سکتی تھی اس وقت یہاں... کیسی بے بسی تھی... عبدالہادی اس کی حالت کو سمجھ رہے تھے... تبھی تسلی بھرے انداز میں اس کے سر کو تھپکا... اور سر پر بوسہ دیا... وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید سونا ان کی جدائ پر اتنی دل گرفتہ ہو رہی ہے... سونا ضبط کرتے ہوۓ ان سے الگ ہوئ... تبھی اس کی چاروں فرینڈز بھی اس کے پاس آئیں... چاروں اسے سے گلے ملی تھیں... "جی جناب... کیسے مزاج ہیں... کیسا لگ رہا ہے نیلی أنکھوں والے شہزادے کو پا کر... " سارہ اس کے گلے لگ کر دھیمے لہجے کیں شوخ ہوئ... سونا بھیگی أنکھوں سے پھیکا سا مسکرا دی... کوئ جواب نہیں بن پایا تھا... عبدالہادی اب شاہ سے مل رہے تھے... سونا واپس بیٹھ گئ صوفہ پر...وہ چاروں کچھ دیر اس کے پاس رہی تھیں... شرارتی فقرے پاس کرتیں... کبھی سونا کو چھیڑتیں کبھی شاہ کو... شاہ مسکرا کر ان کے ہر جملے کا جواب دے رہا تھا... خوش اخلاقی سے... سونا کی دفعہ یہ خوش اخلاقی, یہ بات کرنے کا انداز نہ جانے کہاں چلا جاتا تھا... سونا نے کڑھ کر سوچا...
•••••`•
رسم کے مطابق سونا اور شاہ ہال سے عبدالہادی کے گھر آۓ تھے... سونا عبدالہادی کے چہرے پر کھلتے خوشی کے رنگ دیکھ چکی تھی... اس لیے وہ ان کی خوشی کی خاطر اپنا غم چھپا گئ تھی... وہ کانچ کی گڑیا اپنے بابا کو خوش دیکھنے کے لیے اپنا درد چھپا کر مسکرانا سیکھ گئ تھی.. بہت دیر تک اس کی چاروں فرینڈز اسے گھیرے بیٹھی رہیں... اشتیاق سے اس سے کئ سوال پوچھتی رہیں... منہ دکھائ میں کیا ملا... پہلا جملہ کیا تھا جو شاہ نے اس سے کہا وغیرہ وغیرہ... سونا ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ خاموش بیٹھی رہی... وہ کیا کہتی انہیں... کیا بتاتی...تبھی شاہ روم سے باہر آیا تھا... "بس بھی کرو میری تمام سالیو... میری وائف کی جان بخش دو اب... صبح سے ترس رہا ہوں اس کے ساتھ دو پل بھہ بتانے نصیب نہیں ہوۓ..." شاہ نے شرارت سے دیکھتے ہوۓ آہ بھری... وہ چاروں ہنس دیں... جبکہ سونا کلس کر رہ گئ... " لے جائیں جیجا جی.... اب یہ آپ کی ہی امانت ہیں... ہماری کیا مجال جو آپ دونوں کے درمیان ہڈی بنیں..." منزہ نے بھی شرارت سے جواب دیا... شاہ ہنس دیا اس کی بات پر... پھر وہ واپس کمرے میں چلا گیا... سارہ نے ٹائم دیکھا... " سونا... ہم چلتے ہیں... انشاءاللہ پھر ملاقات ہو گی..." وہ چاروں اٹھ کھڑی ہوئیں.. "کچھ دیر اور رک جاؤ پلیز..." سونا کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ لوگ جائیں... "ارے... کیوں پریشان ہو رہی ہو... بھائ ویٹ کر رہے ہیں تمہارا... جاؤ تم بھی آرام کرو جا کر... تھک گئ ہو گی صبح سے... ہم کل پھر چکر لگائیں گے... اوکے..." سارہ نے اس کا گال تھپتھپایا تھا... سونا بمشکل مسکرا سکی... وہ سب اس سے ملی تھیں اور پھر باہر نکل گئیں... بابا اپنے روم میں تھے... سونا ان سب کو جاتا دیکھتی رہی... آنکھیں بھیگ رہی تھیں... وہ واپس لاؤنج میں آئ تو بانا کھڑے تھے وہاں... "چلی گئیں سب¿¿¿" بابا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ پوچھا... "جی بابا..." وہ بمشکل خود کو نارمل ظاہر کر پائ تھی ان کے سامنے... "اچھا چلو.. تم بھی سو جاؤ جا کر... تھک گئ ہو گی نا سارا دن..." انہوں نے اس کی پیشانی چومی تھی... سونا کے حلق میں نمکین سا گولہ اٹک گیا... بولنا مشکل ہو گیا... اس نے اثبات میں سر ہلایا اور تیزی سے کمرے کی جانب بڑھی... ڈر تھا کہ کہیں ان کے سامنے اپنا ضبط نہ کھو بیٹھے... وہ کمرے میں داخل ہوئ تو عبدالہادی بھی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا... 
کمرے میں جا کر سونا نے گہرے گہرے سانس لیے... شاہ نے گہری نظروں سے اس کی اس حالت کو دیکھا... وہ اس کے بیڈ پر نیم دراز تھا... ہاتھ میں موبائیل تھام رکھا تھا... 
"اب محسوس ہوتا ہے کہ مجھ پر کیا گزری ہے ان چار سالوں میں... میں کیسے ضبط کرتا أیا ہوں..." تمسخر سے کہا تھا اس نے... سونا سلگ اٹھی تھی... دل تو چاہا تھا کہ اسے اپنے کمرے سے نکال دے یا خود اس روم سے چلی جاۓ کہیں... لیکن دونوں کاموں میں وہ بے بس تھی... 
وہ آگے بڑھی... دوسری جانب جا کر بیڈ پر کروٹ کے بل لیٹ گئ... کمر اکڑ چکی تھی گویا... "اٹھو..." سخت آواز میں شاہ اس سے مخاطب ہوا تھا... سونا نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا جو کڑے تیور لیے اسے گھور رہا تھا.. وہ نظر انداز کیے لیٹی رہی تو وہ اٹھ کر اس تک آیا تھا... اسے بازو سے کھینچ کر بیڈ سے اٹھایا... "اٹھو یہاں سے... تم اس قابل نہیں ہو کہ یہاں میرے مقابل سو سکو ... تم وہاں سو گی... ذمین پر... تا کہ تمہیں تمہاری اوقات معلوم ہو سکے..." چبا چبا کر کہا گیا تھا... اس کی بات پر سونا طیش میں آئ تھی... "یہ میرا روم ہے سمجھے آپ...آپ کے گھر میں, آپ کے روم میں آپ کا یہ حکم چل سکتا ہے... لیکن میرے روم میں نہیں ... یہ میرا بیڈ ہے... اور اس بیڈ پر سونے کا حق بھی میرا ہے..." اسی کے انداز میں بولی تھی وہ... اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے.. اس کی بات پر شاہ ہنسا تھا... استہزائیہ ہنسی... "اچھا.. پھر میں کہاں سوؤں...¿¿¿" معصومیت سے دریافت کیا گیا تھا... سونا سلگ اٹھی اس کی بات پر... " وہ میرا نہیں آپ کا مسئلہ ہے... جہاں مرضی سوئیں..." وہ بھی اس کی طرح لاپرواہ ہوئ تھی.. اگر اسے سونا کی پرواہ نہیں تو پھر وہ کیون اس کی پرواہ کرے..
وہ مسکرایا تھا اس کی بات پر... دل جلانے والی مسکراہٹ... " تو میں ایسا کرتا ہوں... کہ یہاں سے چلا جاتا ہوں... ابھی اسی وقت... کیونکہ مجھے تو اس سے کوئ فرق نہیں پڑے گا... لیکن تمہارے باپ کی عزت ضرور خراب ہو گی... پھر تم اور تمہارا باپ صبح لوگوں کے سامنے جواب دہ ہونا...لوگوں کو وجہ بتانا... جب وہ پوچھیں گے کہ آخر ایسی کیا بات ہوئ جو آپ کا داماد رات کو ہی چلا گیا یہاں سے... جبکہ رسم کے مطابق اسے رات یہیں گزارنی تھی... تب کیا کہو گے تم لوگ ان سے... " تمسخرانہ لہجے میں کہا تھا اسے گویا اس کا مذاق اڑایا تھا... سونا کی پلکیں جھکی تھیں... آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر رخساروں پر بہہ نکلے تھے... چند لمحے وہ لب کچلتی رہی تھی... پھر شکوہ بھری نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا... "کیوں کر رہے ہیں آپ میرے ساتھ یہ سب..." بھرائ أواز میں شکوہ کیا تھا اس سے...
"کیوں... تم نے بھی تو مجھے تکلیف پہنچائ تھی...ذرا ترس نہیں آیا تھا تمہیں مجھ پہ... داد دینی پڑے گی ویسے تم لوگوں کو... پلاننگ تو بہت اعلی تھی... ہر لحاظ سے پرفیکٹ... لیکن وہ کیا ہے نہ.. . تم لوگ یہ بھول گۓ تھے کہ اوپر خدا بھی بیٹھا ہے.. اور مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے... اسی نے مجھے بچایا... نئ ذندگی دی اور پھر تم سے ملایا تا کہ اپنے ساتھ ہوئ ہر ذیادتی کا بدلہ لے سکوں میں تم سے... پہلے تم ایک پلان کے تحت میری زندگی میں شامل ہوئ تھی... اب میں نے ایک پلان کے تحت تمہیں اپنی ذندگی میں شامل کیا ہے...اب بدلہ لینے کا وقت آ گیا ہے... تیار رہو... میرے ساتھ کی ہر زیادتی کا حساب دینے کے لیے... ان گزرے چار سالوں میں ہر ہر پل میں جس اذیت سے گزرا ہوں اس کا حساب دینے کے لیے..." شاہ نے تلخی سے کہا تھا... "لل..لیکن... میں نے کیا کیا ہے... میرا گناہ تو بتائیں.. کس چیز کی سزا... کیسا حساب لینا چاہتے ہیں آپ مجھ سے... میں نے کیا کیا ہے..  مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آ ررہی" سونا نے ایک بار پھر کوشش کی کہ بات کلئیر کرے... وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ سب کیا کہا جا رہا ہے اس سے...بابا کے سنگ گزاری گئ تمام زندگی اس کی آنکھوں میں گھومی..  بابا کے سوا کوئ نہیں تھا اس کے ماضی میں..  ایک معصوم سی تنہا سی زندگی گزاری تھی اس نے..  چند دوستوں کے سنگ ہنستے مسکراتے..  
  اس کی بات پر شاہ نے اس کی طرف دیکھا... اس کی جانب بڑھا... ایک جھٹکے سے کھینچ کر اسے دیوار سے لگایا تھا... اپنا ایک ہاتھ دیوار سے لگایا... اور دوسرا اس کے کندھے پر جمایا... سختی سے... جیسے گوشت میں اترتی انگلیاں... وہ کراہی تھی...آنسو لڑھک کر گالوں پر بہہ نکلے تھے... شاہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا... نفرت سے... "میرے سامنے اب مزید ایکٹنگ نہ ہی کرو تو بہتر ہے... تمہاری اصلیت جانتا ہوں میں بہت اچھے طریقے سے..." 
نفرت سے کہتے ہوۓ ایک دم اس کے بالوں کو جکڑا تھا اس نے ... سختی سے... سونا اپنے بال چھڑانے کی کوشش میں رو پڑی تھی... اف... اتنا ظلم... "ایک بات بتاؤں تمہیں... تم اس دنیا کی گھٹیا ترین لڑکی ہو.. دوسروں کے جزبات سے کھیلنے والی... اور میں شاہزیب سکندر... تم سے نفرت کرتا ہوں.... بے انتہا نفرت... سمجھی تم..." ایک جھٹکے سے اس کے بال چھوڑے تھے... اس کے منہ سے ہلکی سی چینخ نکلی تھی... "شش... خاموش... بالکل خاموش... اگر آواز باہر گئ نا...تو یہیں دفن کر دوں گا تمہیں... ختم کر دوں گا... سمجھی..." اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہلکے سے دبایا تھا... سونا نے اذیت سے آنکھیں میچیں... شاہ نے اس کا چہرہ دیکھا... آنسوؤں سے تر... اس کے دل کو کچھ ہوا تھا... جھٹکے سے اسے چھوڑتا ہوا وہ پیچھے ہٹا تھا... نفرت بھری نگاہ اس پر ڈالی تھی... اور پگر جا کر بیڈ پر لیٹ گیا تھا... کروٹ کے بل... دوسرے جانب منہ کیے..سونا وہیں گر سی گئ... قسمت نے کتنا بڑا کھیل کھیلا تھا اس کے ساتھ...
ایسا کیوں ہوا تھا اس کے ساتھ... وہ کیا کیا سپنے لے کر آئ تھی یہاں... یہ دن تو بہت خاص ہوتے ہیں نہ ہر لڑکی کے لیے.. ان دنوں ہر لڑکی کو شہزادیوں سا پروٹوکول دیا جاتا ہے... تو پھر اس کے ساتھ کیا ہوا تھا...  اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں... اس کے بابا نے اسے پھولوں سے بھی زیادہ سنبھال کر رکھا تھا اسے اور اس شخص نے ان کی لاڈلی بیٹی کے سارے خواب توڑ دیےتھے... آنکھیں لہو لہان ہو گئ تھیں... وہ وہیں ذمین پر گھٹنوں میں سر دئیے سسک سسک کر رونے لگی... کر رودی..
_________
یہ شادی کے بعد تیسرا دن تھا... سونا اور شاہ حویلی واپس آ چکے تھے... رات کے گیارہ بج رہے تھے... شاہ کافی دیر پہلے ڈنر کر کے اپنے روم میں جا چکا تھا... سونا کا دل نہیں تھا ابھی جانےکا... اس لیے وہ شائستہ اور نادیہ کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی... روم میں جا کر پھر سے اسے اذیت سے دوچار ہونا تھا اسے... تو اس سے بہتر تھا وہ زیادہ سے زیادہ وقت یہاں گزارتی... پچھلی دو راتوں میں جس اذیت سے وہ گزری تھی آج بھی وہ سب سہنے کی ہمت نہیں تھی اس میں... اس لیے اس نے طے کیا تھا کہ وہ شاہ کے روم میں نہیں جاۓ گی... شاہ کے روم کے ساتھ والا روم خالی تھا... اس کا وہاں سونے کا ارادہ تھا... وہ شاہ کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی... کچھ دیر بعد شائستہ اور نادیہ بھی سونے کے لیے چلی گئیں... باقی سب اپنے اپنے کمروں میں تھے... سونا لب کچلتی ہوئ سیڑھیوں کی جانب بڑھی... ایک پل کے لیے شاہ کے روم کے سامنے رکی تھی.. دروازہ بند تھا... پھر وہ آگے بڑھ گئ اور ساتھ والے روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئ... دروازہ بند کر دیا...  گہری سانس لیتی ہوئ وہ واشروم کی جانب بڑھی... وضو کر کے نماز ادا کی اور پھر سونے کے لیے لیٹ گئ... دو راتیں اس نے مسلسل جاگتے ہوۓ گزاری تھیں... گرم گرم بستر پر وہ کب نیند کی آغوش میں گئ خبر ہی نہ ہو سکی...  اس کی نیند تب ٹوٹی تھی جب کسی نے اسے جھنجھوڑ کر جگایا... وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی کہ نہ جانے کیا قیامت آ گئ ہے... کچھ دیر لگی تھی حواس میں آنے میں... اس نے مندی مندی آنکھوں سے سامنے لب بھینچے خود کو گھورتے شاہ کو دیکھا... وہ ابھی بھی سمجھ نہیں پائ تھی کہ ہوا کیا ہے... ایسی کیا آفت آ گئ جو یوں اسے اٹھایا گیا ہے... تبھی شاہ نے ایک لفظ کہے بغیر اس کی کلائ کو تھاما اور کھینچتا ہوا اسے اپنے روم میں لایا تھا... اف کیا چاہتا ہے یہ شخص... کہیں سکون نہیں لینے دیتا... سونا نے کوفت اور بے زاری سے سوچا تھا... روم میں لا کر جھٹکے سے اسے چھوڑا وہ تھا... وہ گرتے گرتے بچی... حیران نظروں سے اسے دیکھا... "تمہیں عادت ہے کیا... ہر روز تماشا لگانے کی... طے کر کے آئ ہو کہ مجھے سکون کا سانس نہیں لینے دو گی تم..." وہ غرایا تھا... سونا نے سر جھٹکا.... سب کچھ خود کر کے الزام اب مجھ پہ لگا دیا... سکون تو انہیں خود نہیں ہے اور ساتھ میرا جینا حرام کر رکھا ہے... وہ دل ہی دل میں بڑبڑائ تھی... اس کی خاموشی پر شاہ پھر سے طیش میں آیا تھا... "تم سے مخاطب ہوں میں..." آگے بڑھ کے اسے کندھے سے پکڑ کر جھنجوڑا تھا... سونا نے بے زاریت سے اسے دیکھا.. " اب کیا کیا ہے میں نے... جو اتنا ہائپر ہو رہے ہیں..." اس نے نگاہیں پھیر لی تھیں... اس شخص کے چہرے کی طرف دیکھ کر وہ پگھلنے لگتی تھی... "کیا سوچ کر اس روم میں گئ تھیں تم.. اگر گھر والوں میں سے کوئ دیکھ لیتا تو... صبح سب مجھ سے سوال کرتے... اور تم... تم تو چاہتی ہی یہی ہو... کہ مجھے میرے گھر والوں کی نظروں سے بھی گرا دو... لیکن ایک بات یاد رکھنا تمہیں میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گا سمجھی تم..." انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا تھا... سونا کو غصہ تو بہت آیا لیکن ضبط کر گئ... اپنی کلائ چھڑائ اس سے اور دو قدم دور ہوئ تھی... " جب آپ کے اس بیڈروم میں میرے لیے جگہ ہی نہیں ہے... جب میری اتنی اوقات ہی نہیں کہ آپ مجھے اپنی بیوی کا مقام دے سکیں... جب آپ مجھے اپنے سامنے برداشت ہی نہیں کر سکتے تو پھر رہنے دیتے مجھے ادھر اس روم میں ہی... اس لیے ہی گئ تھی وہاں تا کہ آپ کو میرے شکل دیکھنے کی زحمت نہ کرنی پڑے..." سونا نے رخ موڑا تھا... وہ اپنی آنکھوں کی نمی اس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی... وہ اسے دکھانا چاہتی تھی کہ وہ اتنی کمزور نہیں ہے جتنا اسے سمجھ کیا گیا ہے... "جب تک ہم یہاں ہیں... تب تک تم مزید اس طرح کی کوئ فضول حرکت نہیں کرو گی... سمجھی... یہاں سب کی نظریں ہم پر ہی جمی ہیں ... اور میں کسی ہو شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتا... " سپاٹ سے لہجے میں کہتا وہ بیڈ کی جانب بڑھا اور لیب ٹاپ کی اسکرین کو فولڈ کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا... "جب تک یہاں ہیں مطلب...¿¿¿" سونا اس کے الفاظ میں الجھی تھی... اسے کچھ غلط محسوس ہوا تھا...شاہ نے گہری نگاہ اس کے رنگ بدلتے چہرے پر ڈالی... سائیڈ ٹیبل کی ڈرا میں سے کچھ نکالا تھا... اور چلتا ہوا اس کے سامنے آیا تھا... بے تاثر نگاہوں سے اسے دیکھا... "یہ ہمارے ٹکٹس ہیں... پرسوں ہم دونوں نیو یارک جا رہے ہیں... کل کا دن ہے تمہارے پاس... پیکنگ وغیرہ کر لینا.... " ٹکٹس اس کے ہاتھ میں تھما کر وہ واپس بیڈ کی جانب آیا تھا.. "آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ..." وہ چلائ تھی... آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے... شاہ جو بستر پر بیٹھ چکا تھا... تمسخر سے اس کے بہتے آنسوؤں کو دیکھنے لگا... اندر کہیں تکلیف کی لہر سے اٹھی تھی اس کے آنسو دیکھ کر... "کیا کر رہا ہوں میں..." سرد سی آواز میں پوچھا تھا... " شادی سے پہلے مجھے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ مجھے اور آپ کو نیو یارک جانا ہے... آپ جانتے ہیں میں اپنے بابا سے دور نہیں رہ سکتی... تو پھر.. یہ سب... نہیں....میں کہیں نہیں جاؤں گی... یہیں رہوں گی حویلی میں... آپ کو جانا ہے تو شوق سے جائیے... " اس نے ضدی لہجہ اپنایا تھا... "جانا تو پڑے گا مسز شاہزیب... اب یہ تم پر ڈیپینڈ کرتا ہے... اپنی مرضی سے چلو گی تو بہت بہتر... ورنہ مجھے ذبردستی لے جانا بھی أتا ہے... اور اب تک تم یہ تو سمجھ ہی گئ ہو گی کہ میں جو کہتا ہوں وہ کرتا بھی ہوں... صبح پیکنگ کمپلیٹ ہو جانی چاہئیے..." بے تاثر لہجے میں کہتا وہ کروٹ بدل چکا تھا جس کا یہی مطلب تھا کہ وہ مزید بحث نہیں کرنا چاہتا... وہ ظالم انسان اس معصوم لڑکی کی نیندیں اڑا کر خود چین کی نیند سو چکا تھا..
•••••••
شاہ اور سونا اس وقت سب کی دعائیں لے کر گھر سے نکلے تھے ائیر پورٹ کے لیے... اس معاملے میں بھی بالآخر فتح شاہ کی ہی ہوئ تھی... سونا بہت روئ تھی... وہ اس کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھی... جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ بابا سے اتنا دور نہیں رہ سکتی تھی... دوسری وجہ اس کا ڈر تھا... یہاں وہ سب اپنوں کے درمیان تھی... اپنوں کا کچھ سہارا تھا... وہاں وہ اسے رشتوں سے دور باکل اکیلا کرنا چاہتا تھا... یہاں تو پھر اپنے گھر والوں کا خیال کر لیتا تھا وہ... وہاں جا کر نہ جانے کیا سلوک کرے اس کے ساتھ... وہاں تو اسے کوئ پوچھنے والا بھی نہ ہو گا...  اس نے بابا سے کہا تھا کہ بابا شاہ سے بات کریں اور سونا جو یہیں روک لیں... عبدالہادی اس کے اس بچکانہ انداز پر مسکراۓ تھے... وہ اب شاہ کی ملکیت تھی... شاہ کی مرضی تھی اسے یہاں رہنے دیتا یا ساتھ لے جاتا... اور جب اس نے فیصلہ کر ہی لیا تھا سونا کو ساتھ لے جانے کا تو عبدالہادی اسے کیسے کہہ سکتے تھے کہ مت لے کر جاو اسے... کتنے بے بس ہوتے ہیں نہ ماں باپ... کہ جن بیٹیوں کو خود پیدا کیا... پالا پوسہ.. بعد میں ان سے ہی ہر اختیار لے لیا جاتا ہے بیٹیوں کا... دھچکا انہیں بھی لگا تھا جب شاہ کے اس فیصلے کی خبر ہوئ تھی... لیکن خود کو سنبھال گۓ تھے... شاہ کی بجاۓ وہ سونا کو سمجھاتے رہے تھے... کہ وہ شوہر ہے اس کا... اور جہاں شوہر ہو گا... ظاہر سی بات ہے بیوی کو بھی وہیں رہنا ہے... اور پھر دوری کیسی... سوشل میڈیا نے آج کے دور میں دوریاں رہنے ہی کب دی ہیں... سبھی فاصلے تو سمیٹ دئیے ہیں... اور یہ کہ وہ سونا سے رابطے میں ہی رہیں گے...  سونا کی آنکھیں متورم تھیں شدت گریہ کی وجہ سے... باقی سب نے بھی اسے تسلی دی تھی کہ پریشان نہ ہو... جب بھی وہ اداس ہو گی شاہ اسے لے آۓ گا سب سے ملوانے... اب یہ خقیقت تو سونا تک ہی محدود تھی کہ شاہ نے ہر وہ کام کرنے کی قسم کھا رکھی تھی جو سونا کو اذیت دے...  بہرحال سب کے کہنے اور سمجھانے پر وہ اس کے ساتھ آ گئ تھی... گاڑی میں بالکل خاموشی تھی... اس دن کے بعد سونا نے شاہ سے کلام نہیں کیا تھا... وہ گیلی آنکھوں سے ونڈو سے باہر بھاگتے مناظر دیکھ رہی تھی... جبکہ شاہ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی... آنکھوں میں اپنی منوا لینے کی چمک بھری تھی...
 •••••
نیو یارک پہنچ کر وہ دونوں ائیرپورٹ سے باہر آۓ... شاہ نے کال پر کسی سے بات کی تھی... اور پھر ایک طرف چل دیا... سونا بھی لب کاٹتی ہوئ اس کے پیچھے چلنے لگی... شاہ کا انداز ایسا تھا جیسے وہ اکیلا آیا ہے یہاں... اس کے ساتھ کوئ اور وجود نہیں... اتنی بے گانگی ظاہر ہو رہی تھی اس کے انداز سے... سونا کا رونے کو دل چاہ رہا تھا... کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد شاہ ایک لموزین کے قریب رکا.... شاہ کا ڈرائیور آیا تھا انہیں ریسیو کرنے... ڈرائیور نے آگے بڑھ کر ان کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا... شاہ نے سونا کو اشارہ کیا تھا بیٹھنے کو... پھر بعد میں خود بیٹھا... گاڑی کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا... ڈرائیور نے ان کا سامان گاڑی میں رکھا اور گاڑی آگے بڑھا دی... شاہ اپنے سیل پر مصروف تھا... سونا مسلسل باہر دیکھ رہی تھی... جیسے باہر کے مناظر بہت دلکش ہوں... سامنے نیویارک کی کشادہ صاف ستھری سڑکیں تھیں... اونچی اونچی عمارتیں... تیز, بھاگتی دوڑتی ذندگی... لیکن در حقیقت اسے اس سب میں کوئ دلچسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی... وہ اپنی اسی سادہ اور چھوٹی سی دنیا میں واپس جانا چاہتی تھی جہاں شادی سے پہلے سکون تھا... خوشیاں تھیں.. لیکن افسوس... اب ایسا ممکن نہیں تھا... اس نے آنسو اندر اتارے... عجب بے بسی تھی... اس نے کڑھ کر سوچا...
آدھا گھنٹا ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک بڑے سے گیٹ کے سامنے رکی تھی... گیٹ کیپر نے فورا دروازہ کھولا... گاڑی روش پر آگے بڑھنے لگی... سونا کی نگاہیں اٹھیں.... اور پھر پلٹنا بھول گئیں... بلا شبہ اس سے زیادہ خوبصورت اور شاندار گھر اس نے آج تک نہیں دیکھا تھا... کسی محل کی طرح حسین, عظیم... وہ حیران نگاہوں سے سامنے شاندار عمارت کو دیکھ رہی تھی... آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ تھیں... بے یقینی سے شاہ کی طرف دیکھا... پھر دوبارہ گھر کی طرف... اتنے بڑے گھر میں یہ اکیلے رہتے ہیں کیا... او مائ گاڈ... اس نے حیرت سے سوچا تھا... اس گھر کو دیکھ کر شاہ کی امارت کا اچھی طرح اندازہ ہو رہا تھا... تبھی محترم اتنے اکڑو ہیں... گردن میں جیسے سریا فٹ ہو... دولت آخر غرور پیدا کر ہی دیتی ہے انسان میں... سلگ کر سوچا تھا اس نے... "میڈم... اترنا پسند کریں گی آپ گاڑی سے... یا یہیں پر رہائش اختیار کرنے کا ارادہ ہے..." شاہ اتر چکا تھا اور جب کتنے ہی پل گزر گۓ سونا باہر نہ آئ تو وہ اس کی جانب آیا تھا... ڈرائیور کچھ فاصلے پر تھا اس لیے دھیمی مگر سخت طنزیہ آواز میں کہا تھا... سونا اپنے خیالوں سے چونکی اور خجل سی ہوتی باہر آئ... شاہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر کی جانب بڑھ گیا... جبکہ سونا ابھی بھی اشتیاق بھری نظروں سے اردگرد دیکھ رہی تھی... شاہ جس محل میں داخل ہوا تھا وہ تین منزلہ عمارت تھی... بہت خوبصورت... لیکن اس سے کچھ فاصلے پر ایک اور عمارت بنی تھی... وہ بھی تین منزلہ ہی تھی... لیکن دوسری عمارت سے زیادہ خوبصورت اور پرتعیش لگ رہی تھی... اور سونا کو اس عمارت میں جس بات نے اٹریکٹ کیا تھا وہ تھا اس کا نام... عمارت کے باہر... بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا  "Rose villa " 
نام پڑھ کر ایک رومینٹک سا تاثر آتا تھا مائنڈ میں... اور سونا کو اس نام کی وجہ بھی معلوم ہو گئ تھا. Rose villa" کے اردگرد گلاب کے  بے تحاشا,  سن گنت,  بءے حد و حساب پھول لگاۓ گۓ تھے... صرف سرخ گلاب... اور شاید ان گلابوں کی وجہ سے ہی یہ نام دیا گیا تھا اس بلڈنگ کو... "یہاں رہنے والے فرد تو صرف یہ مسٹر کھڑوس تھے... اور گھر ایسے بنا رکھا ہے جیسے سارا نیویارک یہیں آباد کرنا ہو انہوں نے... " وہ بڑبڑائ تھی.. پھر سر جھٹک کر اس بلڈنگ کی طرف بڑھ گئ جس پر "شاہ ہاؤس" لکھا تھا... نام شاہ تھا.. اور ذندگی اس نام سے بھی کہیں زیادہ شاہانہ تھی...
••••••
یہاں آ کر شاہ اس سے بالکل لاپرواہ ہو گیا تھا... اس گھر میں وہ اور شاہ تھے... یا پھر ملازمین کی ایک فوج تھی... سونا ملازمین کو دیکھ کے حیران ہوئ تھی... اتنے زیادہ ملازمین آخر کس لیے... جبکہ گھر کے افراد صرف دو تھے... اس نے ناقدانہ نظروں سے دیکھا تھا... سبھی ملازمین کا یونیفارم ایک سا تھا... موؤدب سے ہاتھ باندھے حکم کے انتظار میں کھڑے رہتے... شاہ کوئ کام کہتا تو اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے تعمیل ہو چکی ہوتی... شاہ گھر میں داخل ہوتا تو بوتل کے جن کی طرح فورا حاضر ہو جاتے... شاہ کی روٹین اچھی طرح معلوم تھی انہیں.. اس لیے جانتے تھے کہ اس کو کب کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے... اور اس کے کہے بغیر ہی ہر چیز حاضر ہوتی تھی... "بڑے ٹھاٹھ ہیں جناب کے..." وہ کندھے اچکا کر سوچتی... وہاں آنے کے بعد تین دن تک تو سکون رہا تھا... دونوں الگ الگ رومز میں رہ رہے تھے... کوئ بدمزگی بھی نہیں ہوئ تھی ان دنوں... سونا کوشش کرتی کہ اس کا سامنا ہی نہ ہو شاہ سے... شاہ بھی تین دن آفس ورک میں مصروف تھا... صبح اس کے جاگنے سے پہلے ہی آفس چلا جاتا اور رات کو لیٹ گھر آتا تب تک وہ اپنے روم میں جا چکی ہوتی تھی...  
یہ نیویارک آنے کے بعد چوتھا دن تھا... شاہ فریش سا اس وقت تھری پیس سوٹ میں ملبوس ناشتے کے لیے ٹیبل پر آیا تھا... انواع و اقسام کے کھانے سجے تھے ڈائننگ ٹیبل پر... ٹیبل سے کچھ فاصلے پر تین ملازم ہاتھ باندھے نظریں جھکاۓ ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر کھڑے تھے... کہ ناشتے کے دوران کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ فورا حکم پورا کر سکیں...شاہ نے گھڑی دیکھی... نو بج رہے تھے...اس نے لب بھینچے ...  پھر قریب کھڑے ملازم کو اشارہ کیا... ملازم جو اس کے حکم کے ہی انتظار میں کھڑا تھا فورا قریب آیا... "سونا کے روم میں جاؤ... اور اسے کہو...پانچ منٹ کے اندر اندر وہ یہاں موجود ہو ٹیبل پر..." تحکم سے کہا تھا... ملازم فورا وہاں سے ہٹا.... جا کر سونا کے روم کے دروازے پر دستک دی... تین بار دستک دینے کے بعد سونا کی نیند میں ڈوبی آواز ابھری "کون ہے..." لہجے میں بے زاریت تھی... "میم... سر آپ کو نیچے بلا رہے ہیں... بریکفاسٹ کے لیے... ان کا آرڈر ہے کہ پانچ منٹ کے اندر اندر آپ نیچے موجود ہوں..." ملازم نے شائستگی سے شاہ کا حکم سنایا... سونا کے منہ کے زاویے بگڑے تھے... منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑائ تھی... "اچھا آ رہی ہوں..." کوفت سے کہا... ملازم چلا گیا تھا وہاں سے... سونا اٹھی ... سلیپرز پیروں میں اڑسے... واشروم جا کر منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تھے... واپس آ کر ٹاول سے چہرے کو خشک کیا... تنقیدی نظروں سے کپڑوں کو دیکھا... سلوٹیں پڑی تھیں... اس نے ہاتھ سے ہی کپڑوں کی سلوٹیں دور کرنے کی کوشش کی... اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ شاور لے کر کپڑے بدلتی... شاہ کے دیے گۓ پانچ منٹ کا مطلب پورے پانچ منٹ ہی ہوتا تھا اور یہ بات اس سے زیادہ بہتر کون سمجھ سکتا تھا... وہ جلدی سے باہر آئ تھی کمرے سے... تیز تیز قدموں سے ڈائیننگ ہال کی جانب بڑھی... کہ دیر ہونے پر شاہ کا کوئ بھروسہ نہیں تھا ملازموں کے سامنے ہی اس کی انسلٹ کر کے رکھ دیتا..
•••••
وہ حیران بھی تھی کہ آج شاہ کو کیسے یاد آ گیا اسے ناشتے پر بلانے کا... اس سے پہلے تو کبھی اسے یاد نہیں کیا گیا تھا... ڈائیننگ ہال کے باہر رک کر چند گہرے گہرے سانس لیے... خود کو نارمل کرنا چاہا... پھر متوازن قدموں سے چلتی ہوئ اس تک آئ جو  کلائ پہ بندھی گھڑی پر اب بھی وقت دیکھ رہا تھا... پانچ منٹ سے پہلے وہ حاضر ہو چکی تھی... "جی...¿¿¿" اس نے ایک لفظ ہی بولا تھا اسے متوجہ کرنے کو... شاہ نے نظریں اس پر جمائیں.... آنکھوں میں ناگواری ابھری تھی اس کا حلیہ دیکھ کر... "بیٹھو..." اس نے اشارہ کیا تھا اسے... سونا کرسی کھینچ کر بیٹھ گئ... شاہ نے نیپکن گود میں بچھایا اور ناشتہ شروع کیا ... کانٹے اور چمچ کے پلیٹ سے ٹکرانے کی آوازیں ابھر رہی تھیں... اس کے علاوہ خاموشی چھائ تھی... "آئندہ میرے بلاۓ بغیر تم پورے آٹھ بجے یہاں موجود ہو... اور یہ سر جھاڑ منہ پھاڑ حلیے میں تم مجھے نظر نہ آؤ اب.. پرانہ لائف اسٹائل چھوڑ دو اب..." تلخی سے کہتے ہوۓ اس نے آملیٹ کا ٹکڑا کانٹے میں پھنسا کر منہ میں ڈالا... سونا کا حلق تک کڑوا ہو گیا... اس کے اس طعنے پر... لیکن ضبط کر گئ...  وہ وہاں خاموشی سے بیٹھی تھی... جب شاہ نے سوالیہ نظروں سے گھورا... چمچ پلیٹ میں پٹخا... "اب کیا مجھے خود اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا کر تمہارے منہ میں ڈالنے پڑیں گے... ایسے بت بن کر کیوں بیٹھی ہو... ناشتے کی ٹیبل پر ناشتہ کرنے کے لیے ہی بلایا ہے تمہیں..." ماتھے پر بل لیے اس نے ناگواری سے کہا تھا... "ہونہہ... آپ اتنے اچھے ہوں کہ خود نوالے میرے منہ میں ڈالیں تو کمی ہی کیا ہے پھر... ہر وقت مرچیں ہی چباۓ رکھتے ہیں..." سونا نے دل میں ہی بھڑاس نکالی... اس کے سامنے تو ایک لفظ کہنے کی ہمت نہیں تھی... شاہ دوبارہ ناشتے میں مشغول ہو چکا تھا... سونا نے بریڈ کی اور آملیٹ کی پلیٹ کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا جب شاہ نے اسے روک دیا... "رکو.." سونا نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا کہ اب نہ جانے کیا خطا ہو گئ... "تم یہ نہیں کھاؤ گی.. تمہارے لیے فرائیڈ فش بنی ہے... تم وہ کھاؤ گی..." وہ ناشتے سے فارغ ہو چکا تھا... ہاتھ صاف کرتے ہوۓ اس سے مخاطب ہوا... سونا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں... کچھ دیر بعد وہ بولنے کے قابل ہوئ... "لل... لیکن... مم...مجھے پسند نہیں ہے فش... میں نہیں کھاتی یہ..." ہکلا کر کہا تھا... اور یہ بات تو پہلے ہی شاہ جانتا تھا اسی لیے تو اس کے لیے فش بنوائ تھی... تمسخر سے اسے دیکھا... "مائ ڈئیر... اب تمہیں ہر وہ کام کرنا ہے... جو تمہیں نا پسند ہے... اس لیے بہتر ہے کہ جلد سے جلد خود کو عادی بنا کو اس سب کا... کھانی تو پڑے گی ہی تمہیں یہ فش... اب چاہے ہنس کر کھاؤ یا رو کر... اٹس ناٹ مائ پرابلم... " اس کا گال تھپتھپایا تھا اس نے پھر اٹھ کھڑا ہوا... سونا کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہوئیں... 
ان کی شادی سے پہلے کے وہ دن جب سونا حویلی میں چند دن کی مہمان بن کر آئ تھی.. انہی دنوں میں شاہ کو علم ہوا تھا کہ وہ فش پسند نہیں کرتی..  اس کی اماں اپنے ہاتھوں سے بنا بنا کر چکن کڑاہی کھلاتی رہی تھی اسے.. 
" میڈم کو آج تینوں ٹائم فش ہی بنا کر دینا... آفٹر آل... ان کی پسندیدہ ڈش ہے یہ... " 
"اور سارا دن ان کے کھانے کا خاص خیال رکھنا.. " اس نے کاٹ دار نظروں سے سب کو دیکھا.. ملازموں سمیت سونا بھی اچھی طرح اس خاص کا مطلب سمجھ گئ تھی... اسے بے تحاشا توہین کا احساس ہوا..  اتنی کم مائیگی , اتنی اہانت..  وہ بھی سب کے سامنے 
اس نے طنزیہ کہتے ہوۓ ملازموں کو حکم دیا تھا... اور پھر باہر نکل گیا.. ملازم اس کا بیگ اور بریف کیس تھامے اسے کے پیچھے گیا تھا... سونا نے نظریں اٹھا کر ڈائیننگ ٹیبل کی طرف دیکھا... کتنی چیزیں پڑی تھیں اس پر... لیکن اس ظالم انسان نے اسے وہی کھانے کا حکم دیا تھا جو اسے سخت ناپسند تھا... کیسی بے بسی تھی یہ... کیوں وہ ہر جگہ پر..  ہر وقت اسے ذلیل کرنے کے ہی مواقع ڈھونڈتا رہتا تھا... وہ آنکھوں میں نمی لیے بغیر کچھ کھاۓ ہی اٹھ گئ تھی...ملازموں نے تاسف اور ترحم سے اسے جاتے دیکھا... وہ بھی مجبور تھے... اپنے مالک کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتے تھے...کمرے میں آ کر سونا پھوٹ پھوٹ کر رو دی