قلعہ رانی کوٹ|Ranikot Fort



674 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


                               قلعہ رانی کوٹ

قلعہ رنی کوٹ کے بارے میں بعض لوگ دعوی کرتے ہیں کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے جو اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ یہ قلعہ ” رنی کوٹ ” سندھ کے ضلع جامشورو کے علاقے کھیرتھر میں واقع ہے ۔ اس سے ملحقہ دیوار جو کہ کسی حد تک دیوار چین کی مانند ہے ۔ اس دیوار کی لمبائی 32 کلومیٹر ( 20 میل ) ہے ۔ اور اُنچائی 30 فُٹ ہے ۔ بعض لوگوں کے مطابق اس دیوار کو سکندراعظم – چندر گُفتاغوریا چچ سومروا کروڑا اور ٹالپور حکمرانوں نے تعمیر کیا ہے ۔
قلعہ رانی کوٹ حیدرآباد سے جانب ِشمال 90کلومیٹر دور کیرتھر پہاڑیوں کے قریب واقع ہے۔جی ایم سید کا آبائی قصبہ،سن جانب ِ جنوب مغرب30کلومیٹر دور ہے۔یہ دنیا کے گنے چنے عظیم الشان قلعوں میں ایک ہے۔سندھی محقق،بدر ابڑو کی تحقیق کے مطابق اس قلعے کا اندرونی رقبہ تقریباً چھ ہزار ایکڑ(8.9 مربع میل) علاقے پہ پھیلا ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت اس نامی گرامی قلعے کی تاریخ و بنیادی معلومات سے ناواقف ہے۔وجہ یہی کہ یہ بے آباد اور ویران علاقے میں واقع ہے
جب اس کی باریکی سے تحقیق کی گئی تو دلچسپ انکشافات سامنے آئے۔ دنیا کی اولین انسانی بستیاں دریائوں کے کنارے آباد ہوئیں تاکہ انھیں چوبیس گھنٹے زندگی کا منبع یعنی پانی ملتا رہے۔سو علاقہ کیرتھر میں ایک بڑی ندی(اب رانی کوٹ ندی)کے کنارے بھی پانچ ہزارسال قبل ’’امری‘‘نامی بستی کی بنیاد پڑی جس کے آثار قدیمہ قلعہ رانی کوٹ کے قریب ہی واقع ہیں۔اس ندی کا پانی دریائے سندھ سے جا ملتا ہے جو تب 40 میل دور بہتا تھا۔راستہ بدلنے کی وجہ سے اب دوری 20 میل رہ گئی ہے۔ اس بستی کے آثار بتاتے ہیں کہ تب یہ علاقہ انسانوں کی گذرگاہ بن چکا تھا۔خیال ہے کہ یہ بستی ’’وادی ِسندھ کی تہذیب‘‘کا حصّہ اور سندھ و راجھستان وپنجاب کی دیگر بستیوں سے بہ راہ منسلک تھی۔ 80 قبل مسیح میں یونانی باختری سندھ پہ حکومت کر رہے تھے۔تب تک سندھ میں مشہور بندرگاہ’’بھنبھور‘‘ کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔(اس بندرگاہ کے آثار کراچی کے مضافاتی علاقے، دھابیجی کے نزدیک واقع ہیں)۔انہی دنوں ایرانی نژاد قبائل،سیتھی(ساکا)افغانستان میں اپنی سلطنت قائم کر چکے تھے۔70 قبل مسیح میں سیتھی قندھار کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہوئے۔بلوچستان پہ قبضہ کرتے وہ سندھ پہنچے ،تو کیرتھر کی پہاڑیوں میں سیتھی اور یونانی باختری لشکروں کے درمیان جنگ ہوئی۔
یہ امر بھی واضح کرتا ہے کہ علاقہ کیرتھر تب تک تجارتی قافلوں اور افواج کا راستہ بن چکا تھا…کیونکہ بلوچستان،سندھ،پنجاب اور راجھستان کی کئی گزرگاہوں کا وہاں سنگم ہوتا تھا۔ سیتھی کامیاب رہے اور انھوں نے سندھ پر بھی قبضہ کر لیا۔تاہم مشرقی ہندوستان پہ حکمران ایک اور ایرانی نژاد قبائل،پارتھیائی ان پہ حملے کرتے رہے۔اسی دوران ایک اہم عالمی تبدیلی رونما ہوئی اور عظیم سلطنت ِروما وجود میں آئی۔جلد ہی وہ اس زمانے کی اکلوتی’’سپرپاور‘‘بن گئی۔ تمام سپر پاورز کے مانند رومی بھی دنیا جہاں کی لگژری اشیا اپنے ہاں منگوانا چاہتے تھے۔سو چین، تبت، ہندوستان اور افغانستان سے مختلف سامان (کھالیں، موتی،قیمتی پتھر،لوہا،اونی کپڑے،جا نور، مسالے، ریشم، سوت، شیشم، پھل، چاول،اناج، وغیرہ) رومی سلطنت پہنچنے لگا۔بدلے میں چینی،ہندوستانی اور افغانی سونے چاندی کے برتن،گلاس،سّکے،شراب اور مختلف رنگ درآمد کرتے۔
1ء تک جنوبی ایشیا و چین اور سلطنت ِروما کے مابین ہونے والی اس تجارت کا سب سے ایک بڑا مرکز بھنبھور کی بندرگاہ بن گئی۔وجہ یہ ہے کہ وہی اپولوجس(Apologus)، عدن،سکندریہ اور رومیوں کی دیگر اہم بندرگاہوں کے نزدیک ترین واقع تھی۔چنا چہ چین،افغانستان،تبت اور ہندوستان سے کثیر سامان پہلے بھنبھور پہنچتا اور پھر بحری جہازوں کے ذریعے باہر چلا جاتا۔رومیوں نے اس بندرگاہ کو’’بربریکون‘‘ (Barbarikon)کا نام دیا۔ اسی تجارت کے باعث کیرتھر کی گذرگاہ نے بہت اہمیت اختیار کر لی،کیونکہ بیرون سندھ سے آنے والے بیشتر تجارتی قافلے وہیں سے گذر کر بھنبھور جاتے تھے۔سو اس اہم تجارتی راستے کو دشمنوں کی دسترس سے محفوظ کرنے کی خاطر سیتھیوں نے بستی امری کے نزدیک ایک بہت بڑا قلعہ بنایا جہاں مستقل طور پہ بڑی فوج قیام کر سکے۔
یوں قلعہ رانی کوٹ وجود میں آیا۔ رفتہ رفتہ سیتھی اور بستی امری قصہ ِپارنیہ بن گئے مگر قلعہ قائم رہا۔تب اس میں برج موجود نہ تھے۔یہ 45 برج1812ء میں سندھ کے دو تالپور حکمرانوں(میر کرم خان اور میر مراد علی خان)نے تعمیر کرائے تاکہ وہاں توپیں رکھی جا سکیں۔یہ قلعہ آج عظمت ِرفتہ کی یاد دلاتا ہے۔اس کا نظارہ اور سیاحت کرنے ضرور جائیے۔ سیتھی 400ء تک موجودہ پاکستان اور بھارت کے علاقوں پہ حکومت کرتے رہے۔تاہم آہستہ آہستہ ان کی سلطنت سکڑتی رہی۔آخر چندر گپت موریہ نے ان کی حکومت ختم کر ڈالی مگر سیتھیوں کے آثار ختم نہ ہوئے ۔ ماہرینِ بشریات کی رو سے جٹ، گوجر، آہیر، راجپوت،لوہاراورترخان نسلیں انہی سیتھیوں کی اولاد ہیں۔