سرخ جوڑا ناول از زویا حسن |Surkh Jorra Novel By Zoya Hasan Part 2



460 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


سرخ جوڑا
دوسرا حصہ

میں جس رشتے کی تلاش میں اس دہلیز پہ آئی تھی وہ تو مجھے نہیں ملا لیکن جلد ہی یہ احساس ضرور ہوگیا کہ میں ان چند خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جنھیں قدرت نے بے شمار رشتے عطا کیے ہوتے ہیں۔۔ دو تایا۔۔ ایک چچا ۔۔ انکے کئی بچے اور ایک دادی۔۔ اور ہاں میرے بابا کے بچے اور بیوی بھی اسی گھر میں رہیتے تھے۔ لیکن مجھے پہلے دن ہی یہ بات اچھی طرح سے سمجھا دی گئی کہ میں اپنے سوتیلے بہن بھائیوں سے نہ تو بات کرسکتی ہوں اور نہ ہی مجھے ان کے کمروں میں جھانکنے کی اجازت ہے۔ اور اتنا ہی نہیں میری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آتے جاتے اگر میری سوتیلی ماں سے میرا سامنا ہوجائے تو مجھ پہ فرض ہے کہ میں راستہ بدل لوں۔۔ کیوں کہ مجھے دیکھ کے انھیں تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ وہ تو اپنے بچوں کو لے کے یہاں سے جانے والی تھیں۔۔ لیکن باقی گھر والوں نے انھیں مل کے سمجھایا کہ میرے وجود سے انھیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔۔ اسی شرط پہ وہ رک گئیں۔۔
میری ذمہ داری میری دادی کو سونپ دی گئی۔۔۔ کیونکہ مجھے سنبھالنے والا موزوں انسان اس پورے گھر میں اور کوئی نہیں تھا۔۔۔ دادی اور میری ماں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔۔ لگ بھگ ایک جیسی فطرت۔۔ کسی نہ کسی کو کوستے رہنا۔۔۔ اس سے بھی اگر دل نہ بھرے تو میری شامت آجاتی۔۔۔ لیکن میں اس سب کی شروع سے عادی تھی۔ اس لیے زیادہ فرق نہیں پڑا۔۔۔ پہلے ماں کی کھانسی رات بھر کانوں میں گونجتی رہیتی اور اب دادی کے خراٹے۔۔۔
چند مہینوں میں ہی میں اس گھر کے ماحول کی عادی ہوگئی۔۔۔ چھوٹی تائی اور بڑی تائی کے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں وقت گزر جاتا تھا۔۔ لیکن جب وہ سب سکول چلے جاتے تو میں اکیلی پڑی جاتی۔۔ ایک دن میں نے دادی سے ضد لگا لی کہ مجھے بھی سکول جانا ہے۔۔۔ پہلے پہل تو انھوں نے مجھے خوب لتاڑا۔۔۔ لیکن جلدی ہی میری حالت پہ انھیں ترس آگیا۔۔ اگلے دن ناشتے پہ انھوں نے سب کے سامنے اپنی بات رکھی کہ باقی بچوں کی طرح مجھے بھی سکول جانا چاہیے۔۔۔ لیکن انکی اس بات کو کوئی خاطر میں نہ لایا۔۔۔ سب کے خیال میں میں پڑھ لکھ کے کیا کروں گی۔۔۔ لیکن دادی میرا یہ حق دلوانے سے پیچھے نہ ہٹیں۔۔۔ بالآخر چھوٹے تایا نے اپنے بچوں کے سکول میں میرا داخلہ کرا ہی دیا۔۔۔ چچی  نے اپنی چھوٹی بیٹی عمارہ کی پرانی یونیفارم عنائیت کی ۔۔۔ کہیں سے بیگ ملا تو کہیں سے کتابیں۔۔۔ اور میں سکول جانا شروع ہوگئی۔۔۔ 
مجھے سکول جانے کا جتنا شوق تھا، پڑھائی سے اتنی ہی جان جاتی تھی۔۔۔ جیسے جیسے بڑی ہوئی تو گھر کے کام کاج کا بوجھ بھی کندھوں پہ آنا شروع ہوگیا۔۔۔ پڑھائی میں پہلے ہی کمزور تھی۔۔ رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔۔۔ خدا خدا کرکے دسویں کلاس تک پہنچی لیکن امتحانات کے عین دوران ملیریا ہوا۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔ قسمت کو منظور ہی نہیں تھا کہ میں میٹرک پاس کروں۔۔۔ حالانکہ میرا ارادہ تھا کہ میں ایک دفعہ پھر کوشش کرکے پاس کرلوں۔۔ لیکن دادی نے سختی سے گھر بٹھا دیا۔۔۔ اسکے بعد سے گھر کی ذمہ داری پوری طرح سے میرے سر پہ آگئی۔۔۔ ناشتے کے وقت بڑی تائی کی مدد۔۔ اسکے بعد برتن دھونا۔۔۔ دوپہر تک کپڑے دھونا اور رات کے کھانے میں چچی کا ہاتھ بٹانا۔۔۔ کوہلو کے بیل کی طرح میری زندگی میں بھی بس یہی ایک چکر رہ گیا۔۔۔۔ 
وقت گزرتا رہا۔۔۔ جن بچوں کے ساتھ میں کھیلا کرتی تھی اب وہ اپنی اپنی راہوں پہ نکل پڑے تھے۔۔ بچے جوان ہوئے تو گھر چھوٹا پڑنے لگا۔۔  اب اس گھر میں صرف دو بھائیوں کا خاندان گزارا کر سکتا تھا۔۔ پہلے پہل تو یہی طے پایا کہ اس گھر کو بیچ کے سب کو ان کا حصہ دے دیا جائے۔۔ لیکن اس بات پہ دادی بالکل راضی نہ ہوئیں۔۔ چنانچہ بڑے تایا اور اور میرے بابا نے باقی دو بھائیوں کے گھر کی ملکیت کے حساب سے رقم ادا کردی تاکہ وہ اپنے لیے الگ گھر کا انتظام کر لیں۔۔۔ اب اس گھر میں دادی اور میرے سمیت بڑے تایا اور بابا کا خاندان آباد تھا۔۔۔ بڑے تایا کے دونوں بیٹے آرمی میں بھرتی ہوگئے۔۔ نادیہ باجی کی بھی تعلیم مکمل ہوگئی۔۔ تائی کو اٹھتے بیٹھتے انکی شادی کی فکر لگی تھی۔ ان سے چھوٹی سعدیہ کا ایم بی بی ایس میں داخلہ ہوگیا۔۔۔ اور سب سے چھوٹا بیٹا انٹرمیڈیٹ میں تھا۔۔۔ میرے بابا کا خاندان شروع سے ہی اوپری منزل پہ رہیتا تھا۔ انکا کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا سب کچھ الگ تھلگ ہی تھا۔۔۔ کبھی کبھار ہی ان لوگوں سے میرا آمنا سامنا ہوتا ۔۔۔ بابا پہ کبھی  میری نظر پڑتی تو ان سے بات کرنے کو دل کرتا تھا۔۔۔ لیکن وہ ہر بار نظریں چرا کے وہاں سے چلے جاتے۔۔ 
انکا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں تھیں۔۔۔ ارباز سب سے بڑا تھا۔۔ انٹرمیڈیٹ میں ہی پڑھائی چھوڑ دی۔۔ تائی کے حساب سے اس جیسا آوارہ لڑکا انھوں نے دنیا میں نہیں دیکھا۔۔۔ بڑی بیٹی راحیلہ ایم فل کررہی تھی۔۔ اس سے چھوٹی نوشابہ  بی ایس سی کرکے گھر میں بیٹھ گئی تھی۔ اور سب سے چھوٹی صوبیہ بی بی اے کی طالبہ تھی۔۔ 
چھوٹی تائی اور چچی کے جانے سے لوگ تو کم ہوئے لیکن گھر کے کام کا بوجھ اتنا ہی تھا۔ بڑی تائی بھی اب زیادہ ہاتھ پاؤں نہیں چلا سکتی تھیں اور انکی پڑھاکو بیٹیاں  کام کاج سے دورہی رہیتی۔۔ دادی کو میری حالت پہ کبھی کبھی بہت ترس آتا تھا۔۔ اس لیے انھوں نے تایا سے ضد کرکے گھر میں ایک ملازمہ رکھوا لی۔۔۔ رخسانہ عمر میں مجھ سے کچھ بڑی تھی۔۔ لیکن اس سے جلد ہی میری دوستی ہوگئی۔۔ دادی کے علاوہ پورے گھر میں وہی تھی جس سے میں کھل کے دل کی باتیں کر لیتی تھی۔ اور وہ نہ صرف میری ہم راز تھی بلکہ ایک ہمدرد دوست کی سبھی خوبیاں تھیں اس میں۔ وہ صبح صبح آتی اور رات کے کھانے کے بعد جاتی تھی۔۔۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"خیریت تو ہے نہ ۔۔۔ آج چہرے پہ بڑی رونق ہے۔۔۔؟" برتن دھوتے دھوتے میں نے پوچھا
"ہاں۔۔۔ کیوں۔۔۔؟" وہ بولی
"لگتا ہے کوئی خاص بات ہے۔۔۔۔" میں اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی
"ہے تو سہی ۔۔۔ پر تم نہ ہی پوچھو۔۔۔۔"
"ارے۔۔۔ کیوں۔۔۔ مجھے کیوں نہیں بتاؤ گی۔۔۔؟"
"ہو سکتا ہے سن کے تمہیں دکھ ہو۔۔۔۔"
"ہیں۔۔۔ ! ایسا کیا ہے جسے سن کے میں دکھی ہوجاؤں گی۔۔۔"
"شائد بہت جلد ہمارا ساتھ چھوٹ جائے۔۔۔۔"
اسکی یہ بات سن کے میں ٹھٹکی۔۔۔ 
"ایسا کیوں بول رہی ہو۔۔۔؟" میں فوراً پریشان ہوگئی
"میری خالہ کے بیٹے کا رشتہ آیا ہے میرے لیے۔۔۔۔"
"اچھا۔۔۔ ! یہ تو خوشی کی بات ہے۔۔۔"
"ہاں۔۔ خوشی کی بات تو ہے۔۔۔ لیکن شادی سے پہلے مجھے یہاں سے کام چھوڑنا پڑے گا۔۔۔"
اسکی یہ بات سن کے میرے چہرے پہ اداسی اتر آئی۔۔۔
"رانی۔۔۔ ! تم نے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ سوچا ہے۔۔۔؟" وہ میرے پاس آکے بولی
"کیا ۔۔۔ ؟ میں نے کیا سوچنا ہے۔۔۔؟"
"شادی کا۔۔۔ ایک نئی زندگی جینے کا کچھ تو سوچا ہوگا۔۔۔"
اسکے اس سوال کا میرے پاس بالکل کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔
"بتاؤ۔۔ نا۔۔۔ ترس نہیں آتا اپنے آپ پہ۔۔۔۔؟"
"کیسا۔۔۔ ترس۔۔۔ اب جو زندگی ملی ہے وہی جینی ہے نا۔۔۔"
"تمہارے گھر والے تمہاری شادی کی بات نہیں کرتے۔۔۔؟"
اسکی اس بات پہ میری ہنسی نکل گئی۔۔۔
"بتاؤ نا۔۔۔ "
"کیا سننا چاہتی ہو تم مجھ سے۔۔۔۔؟ میری دادی کا کہنا ہے کہ جب تک وہ زندہ ہیں تب تک میری شادی نہیں ہوسکتی۔۔ کیونکہ میری شادی ہوگئی تو ان کا خیال کون رکھے گا۔۔۔ بچپن میں میرا خیال رکھ کے انھوں نے ایک قرض جو میرے سر پہ ڈالا ہے وہ تو اتارنا پڑے گا" میرا قہقہہ نکلا۔۔
"کتنے بے درد لوگ ہیں یہ۔۔۔۔ کسی کو تمہاری پرواہ نہیں ہے۔۔۔ تمہیں دکھ نہیں ہوتا اپنے ساتھ ایسی ناانصافی دیکھ کے۔۔۔"
"دکھ کیسا۔۔۔۔۔ ؟ دکھ تو تب ہو جب میں نے ان لوگوں سے ایسی کوئی امیدیں لگائی ہوں۔۔۔۔" 
میری اس بات پہ وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ 
رخسانہ کے جانے بعد جب  میں بستر پہ لیٹی تو بار بار ایک ہی بات میرے دماغ میں گونجتی رہی کہ کیا میری پوری زندگی ایسے ہی کٹے گی۔۔۔۔؟ پہلی بار ایک عجیب سی بے چینی تھی۔۔۔ میرے پریشان ہونے سے زندگی نہیں بدلنے والی۔۔ بہتر یہی ہے کہ بلاوجہ کے واہمے دل سے نکال کے جو چل رہا اسی میں خوش رہوں۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صبح کی نماز پڑھ کے فارغ ہوئی تو تائی سر پہ سوار ہوگئیں۔۔۔ نادیہ باجی کی کسی اچھی جگہ رشتے کی بات چلی تھی۔۔ وہ لوگ آج نادیہ باجی کو دیکھنے گھر آرہے تھے۔۔ تائی کے سر پہ ایک الگ ہی جنون سوار تھا۔۔ رخسانہ کو بھی جلدی کام پہ بلا لیا تھا۔۔۔ پورے گھر کی اوپر نیچے خوب صفائی کرائی۔۔۔ دوپہر تک تو میری کمر جواب دے گئی۔۔۔ ان لوگوں نے دوپہر کے کھانے پہ آنا تھا۔۔۔ کھانے پینے کے سارے لوازمات وہ خود دیکھ رہی تھیں۔۔ رخسانہ ان کے ساتھ کیچن میں لگی رہی اور میرے اوپر ہمیشہ کی طرح کپڑے دھونے کے ذمہ داری ڈال دی گئی۔۔۔ میں پچھلے صحن میں آگئی اور کمر کس کے اپنے روز مرہ کے کام پہ لگ گئی۔۔۔ میں اس بات سے قطعی بے خبر تھی تھی کہ گھر میں کیا چل رہا ہے۔۔ مہمان آئے یا نہیں۔۔۔ پہلے تو رخسانہ اپنے کام ختم کرکے میری طرف آجایا کرتی تھی لیکن کافی دیر سے اسکا بھی کوئی اتا پتا نہیں تھا۔۔۔ رخسانہ اکثر مجھ پہ ہنستی تھی کہ میں جب بھی کپڑے دھوتی ہوں ایسے لگتا ہے خود واشنگ مشین مین ڈبکیاں لگا رہی ہوں۔۔۔ کوشش کے باوجود بھی سر سے پاؤں تک بھیگ جاتی تھی۔۔
"اے۔۔ رانی۔۔۔ ! سن۔۔۔۔ تیری تائی تجھے بلا رہی ہے۔۔۔ جلدی آجا۔۔۔" 
میں کپڑے دھونے میں اتنی مگن تھی کہ مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کب رخسانہ آئی۔۔۔ میں بامشکل اسکی بات سن پائی۔۔ میں مڑی تو وہ آدھی ادھوری بات کہہ کے جا چکی تھی۔۔۔ میں نے اسے پیچھے سے آواز بھی دی لیکن مشین کے شور میں اسے سنائی نہیں دیا۔۔۔ میں اتنا تو سمجھ گئی تھی کے تائی نے بلایا ہے۔۔۔
 
بھاگم بھاگ تائی کے کمرے میں پہنچی۔۔۔۔  
انکے ہاتھوں میں نیلے رنگ کا سوٹ دیکھ کے  میرے جسم پہ کپکپی طاری ہوئی۔۔۔۔ 
"خدایا خیر۔۔  نادیہ باجی کا یہ سوٹ تو میں نے کل رات اچھی طرح سے استری کرکے رکھا تھا۔۔۔۔ کہیں سے جل گیا۔۔۔  یا  اب بھی سلوٹیں باقی ہیں۔۔۔ ؟ " 
آسمانی بجلی کی طرح کئی سوال میرے معصوم دماغ سے جا ٹکرائے۔۔۔
"سن۔۔۔ ! یہ پہن لے اور جلدی سے مہمانوں کے لیے   چائے لے آ۔۔۔۔!"  تائی نے سوٹ تھمایا اور کمرے سے نکل گئیں۔۔۔
"یہ  نیا سوٹ میں کیسے پہن لوں۔۔۔۔؟ میرا جسم نئے لباس کا کہاں عادی ہے۔۔۔؟"
"رانی۔۔۔ ! رانی۔۔۔ !  جلدی آ۔۔۔۔" 
رخسانہ کی آواز میرے کان میں پڑی۔۔۔  
کمرے کا دروازہ بند کرکے۔۔۔  میں نے جلدی سے اپنے بھیگتے ہوئے کپڑے اتارے  اپنے جسم سے اٹھتی سَرف اور صابن  کی خوشبو کو نظرانداز کرتے ہوئے۔۔۔    نیلا سوٹ  زیبِ تن کر کے سر پہ دوپٹا جمائے۔۔ کیچن میں پہنچی۔۔۔  رخسانہ  پہلے ہی چائے  کا ٹرے لیے  میرے انتظار میں کھڑی تھی۔۔۔  
"نگوڑی۔۔۔ ! منہ تو دھو لیتی۔۔۔۔!"  اسکی نظریں میرے چہرے پہ جمی تھیں
میں خود کئی سوالوں میں الجھی تھی۔۔۔ اسے کیا جواب دیتی۔۔۔
جلدی سے چائے کا ٹرے ہاتھ میں پکڑا اور صحن کی طرف چل پڑی جہاں مہمان بیٹھے تھے۔۔۔ 
"سن۔۔۔ ! یہ لوگ تجھے دیکھنے آئے ہیں۔۔۔" رخسانہ نے سرگوشی کی۔۔۔
میرے  قدم وہیں جم گئے۔۔۔ مڑ کے میں اسکی آنکھیں پڑھنے لگی۔۔۔  
"کیا اس بات کا وہی مطلب ہے جو ہر لڑکی کے لیے ہوتا ہے۔۔۔ یا ہمیشہ کی طرح مجھ پہ آکے سارے مطلب بدل گئے۔۔۔۔۔!!"
وقت کم تھا اس لیے میں صحن کی طرف چل پڑی۔۔۔ میرے دل  و دماغ میں عجیب ہی طوفان چل رہے تھے۔۔۔ رخسانہ کی بات کا اصل مقصد کیا تھا۔۔۔ 
ہمیشہ کی طرح صحن میں تین چارپائیاں آمنے سامنے پڑی تھیں ایک چارپائی پہ تایا اور تائی بیٹھے تھے اسکے سامنے والی چارپائی پہ بابا اور انکی بیوی۔۔ دادی ہمیشہ کی طرح اپنے بوسیدہ تخت پہ براجمان تھیں۔۔۔ انکے عین سامنے ایک اجنبی خاتون اور اور عمر رسیدہ آدمی تشریف فرما تھے۔۔ میں نے سر جھکا کے سب کو سلام کیا۔۔۔ اور ایک ایک کرکے چائے کی پیالی سب کو پکڑائی۔۔ میری نظریں ہمیشہ کی طرح جھکی ہوئی تھیں۔۔۔ چائے دے کے میں واپس مڑی تو خاتون نے مجھے آواز دی۔۔۔
"بیٹا۔۔۔ ! ہمارے پاس نہیں بیٹھو گی۔۔۔ ؟" 
میرے دل کی دھڑکن ایک دم سے بڑھی۔۔۔ واپس پلٹنے کی ہمت بالکل جواب دے گئی تھی۔۔۔ میں نے بلاساختہ دادی کے چہرے پہ نظریں جمائیں۔۔۔ انھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے واپس مڑنے کا اشارہ کیا۔۔۔ 
چارو ناچار میں خاتون سامنے جا کے کھڑی ہوگئی۔۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ بیٹھنے کی جگہ دی۔۔۔ باقی سب کے چہروں پہ بالکل خاموشی تھی۔۔۔ 
"میری بچی بہت سگھڑ ہے۔۔۔۔" دادی نے مسکراتے ہوئے زندگی میں پہلی بار میری تعریف کی۔۔ ایک پل کے لیے مجھے میرے کانوں پہ یقین نہیں آیا۔۔۔ 
خاتون نے انکی بات سن کے میرے چہرے کو بڑے دھیان سے دیکھا اور میرا ایک ہاتھ تھاما 
نادیہ باجی کا نیلا جوڑا۔۔ میرے ہاتھ کی سکڑی ہوئی انگلیاں اور جسم سے اٹھتی خوشبو کو نہ چھپا سکا۔۔۔ خاتوں میری حقیقت جان ہی گئی۔۔۔۔ پھر بھی انکے چہرے پہ ایک مسکان تھی۔۔۔ 
"ماشاء اللہ۔۔۔۔ واقعی بہت سگھڑ ہے۔۔۔۔ " 
میرے ہاتھ کو آہستگی سے دباتے ہوئے وہ بولیں۔۔۔

بقیہ اگلے حصہ میں۔۔۔۔ 

تحریر: زویا حسن