تیرےعشق میں میری جان فناہوجاٸے|Tere Ishq Mein Meri Jaan Fanaa Ho Jaye By Hoor Sehar Part 5



132 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


#تیرے_عشق_میں_جان_فنا_ہو_جاٸے

#حورسحر ✍️

قسط 5
وقت اپنے محسوس رفتار سے گزر رہا تھا ۔۔ جہاں اوصاف اپنی لاٸف میں آگے بڑھ چکا تھا ۔۔وہی اشکاف بھی اب پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بجاٸے آگے بڑھ چکی تھی ۔۔۔
اوصاف تو اشک کو بلکل بھول ہی چکا تھا ۔۔ اور پھر جب سے باپ بنے کی خوشخبری ملی تھی اسکے پیر تو زمین پہ ٹک ہی نہیں رہے تھے ۔۔۔ ایسے میں تو  سمرا بھی پورا پورا فاٸدہ اٹھا رہی تھی آخر کو ماں بنے کی جو خوشی اسے ملی تھی ۔۔۔صدا کی مغرور اور مفاد پرست سمرا اب تک نہیں بدلی تھی ویسی کی ویسی چالاک اور مکار تھی۔۔۔ 
فاروقی ولا کے در و دیوار ساڑھے تین سال بعد خوشی سے جگما رہے تھے ۔۔۔ ہمدان فاروقی بظاہر تو خود کو سب کے سامنے خوش ظاہر کر رہاتھا ۔۔۔ مگر اسکے چھوٹے لاڈلے بیٹے  کو گٸے ہوٸے پورے ساڑھے تین سال ہو گٸے تھے ۔۔۔ وہ اندر سے بہت ٹوٹ چکا تھا خاموشی کی چادر تھان لی تھی ۔۔جس کا جو دل چاہتا وہ اف تک نہیں کرتا تھا ۔۔۔
نجمہ بیگم اور عثمان صاحب خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ انکا بیٹا بالاآخر جو بھی ہے جیسا بھی زندگی کی طرف لوٹ آیا ہے ۔۔ اور پھر دادا دادی بنے کی خوشی میں وہ بھی بھٶلے ہو رہے تھے ایسے میں مکار سمرا سب کومٹھی میں جکڑنے کی بھر پور کوششوں میں تھی اور فاروقی ولا پہ راج کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی ۔۔۔اب وہ جو  بھی منہ سے نکالتی اوصاف بھاگم بھاگ پورا کرتا ۔۔۔

آج وہ کاقی دنوں بعد مولوی کرامت کے پاس آیا تھا ۔۔۔ 
مٹھاٸی کو ڈبہ سامنے کر وہ آداب سے سر جھکاٸے سامنے مسخری پہ بیٹھ گیا ۔۔۔اور مولوی صاحب کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا ۔۔
مولوی صاحب آنکھیں بند کیے  تسبیح   ہاتھ میں لیے زکر وعبادت میں مشغول تھا ۔۔۔ 
تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھول کر کچھ پڑھ کر دونوں ہاتھوں پہ پھونکا اور دونوں ہاتھ چہرے پہ پھیر کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ اوصاف بھی جلدی سے اٹھ گیا مولوی صاحب نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا ۔۔۔ کیسے ہو بچے ۔۔۔اور یہ مٹھاٸی کس سلسلے میں ۔۔۔ 
مولوی کرامت نے  اپنے نرم لہجے میں دریافت کیا ۔۔۔
اوصاف ہولے سے مسکرایا ۔۔ مولوی صاحب ۔۔ وہ اللہ نے مجھے باپ بنے کی خوشی دی ہے ۔۔
واہ ۔۔مبارک ہو برخوردار ۔۔۔ اللہ تمہں نیک اور صالح اولاد عطا کرے ۔۔۔
آمین ۔۔اوصاف نے دھیرے سے آمین کہا ۔۔
میری دعا ہے بچے تم ہمیشہ خوش رہو ۔۔۔۔ ہو سکے تو اس رب کا شکر بار بار ادا کیا کرو ۔۔کیونکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہے جن کی قسمت میں یہ خوشی نہیں ہوتی ۔اور نہ ہی اس خوشی کو  دولت سے خریدا جاسکتا ہے ۔۔۔
بچے یہ اُس رب کریم کا تم پر احسان ہے ۔۔اسکے احسان کی قدر کرو ۔۔رب سے لو لگانے کا صلہ ہے یہ ۔۔۔ اب اسے ضاٸع مت کرنا ۔۔۔ 
مولوی کرامت کی باتیں سیدھا اسکے دل پر اترتی تھی ۔۔۔ واقعی ہزاروں لوگ ایسے بھی ہے جو اولاد کے لٸے تڑپتے ہیں ۔۔۔ مگر اس میں بھی اس رب کی مصلت پوشدہ ہے ۔۔ جسے چاہے رحمت سے نوازے جسے چاہے نعمت سے اور جسے چاہے دونوں سے اور جس کو چاہے محروم رکھے ۔۔۔۔مگر جس کو اللہ اس سے نوازے تو سچے دل سے اسکا شکر ادا کر ۔۔ 
صدقہ و خیرات دے ۔۔ کیونکہ اس سے برکتیں حاصل ہوتی ہے۔۔۔ 
پھر کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد اوصاف نے جانے کی اجازات مانگی ۔۔۔
گاڑی میں بیٹھ کر جیسے ہی اس نے انگیشن میں چابی گھماٸی ۔۔۔ نظر مرر سے باہر اس وجود سے جا ٹھکراٸی ۔۔۔حجاب سے چھلکتی  وہی براٶن آنکھیں جو خواب میں آ کر بار بار اسے ڈسڑب کرتی تھی ۔۔ کبھی حرام پاک کا طواف کرتے اسکی نگاہیں جب سامنے جاٹھکراتی تو چاندیوں کی چمک لٸے مسکراتی آنکھیں ۔۔۔ اسے ساکت کر دیتی ۔۔۔
کبھی کسی خوبصورت آبشار کے پانی کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتی اسکی طرف دیکھ کر مڑتی چمکتی آنکھیں ۔۔۔
 
وہ ایسے کھو گیا کہ پیچھے گاڑی کی لگارتار  ہارن سے ہوش میں آیا ۔۔۔
اسے اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک دیا اور گاڑی آگے دوڑا دی ۔۔۔۔
یا اللہ اب اور آزماٸش نہیں ۔۔۔ پلیز اللہ میاں ان آنکھوں کی سحر سے مجھے نکال دو 
۔۔ میں اب سمرا کو اور دکھ نہیں دے سکتا ۔۔۔جیسے اشک کی یاد میرے دل سے نکال دی ویسے ہی ان آنکھوں کے سحر سے نکال دے ۔۔۔ 
سارے راستے وہ دعاٶں میں مگن رہا ۔۔۔
کیا ایسے ہو سکتا ہےکہ اللہ اپنے بندوں کا برا چاہے ۔۔۔ وہ بندوں کے ساتھ کبھی غلط کر ہی نہیں سکتا ۔۔۔
***********

اسلامک اکیڈمی جواٸن کرنے کے بعد وہ کافی چینج ہو گٸی تھی ۔۔۔ اب وہ ناصرف باقاعدگی سے جانے لگی بلکہ  حجاب بھی کرنے لگی تھی ۔۔۔ وہ سب کچھ بھول بھال کر اپنے رب سے لو لگانے میں کامیاب ہوٸی تھی ۔۔۔ مگر اکثر اپنی طرف اٹھتی اکید کی نگاہیں اسے پریشان کر دیتی تھی ۔۔۔ اسکی بولتی نظریں اسے باور کرواتی تھی مگر وہ انجان بنے کی ایکٹنگ کرتی ۔۔۔ 
اسکا دل اکید کے نام پہ بے قابو ہونے لگتا ۔۔مگر پھر معلمہ کی باتیں اسکے دماغ میں گونجنے لگتی ۔۔۔ 
کسی اور کی محبت کو اپنے رب کی محبت پہ مت حاوی آنے دو ۔۔۔کسی نامحرم کی محبت تمہیں جہنم کا ایندھن بھی بنا سکتی ہے ۔۔
جب ہمارے رب نے ہمیں راستہ دکھایا ہے نکاح کا ۔۔۔ تو پھر کیونکر دوسرا راستہ اختیار کرکے خود کو گناہ کا مرتب ٹھہراٸے۔۔۔ 
اگر وہ چاہتا ہے تو سیدھا نکاح کرے ۔۔نا کہ فضولیات میں پڑ کر تمہیں بھی گمراہی کرے اور خود بھی جہنم کا سامان کماٸے ۔۔۔
وہ کھڑکی سے ہٹ کر  بیڈ پہ آ کر بیٹھ گٸی ۔۔۔ 
اس نے تو کبھی اظہار تک نہیں کیا ۔۔۔اگر اسکے دل میں کوٹ ہوتی تو وہ آجکل کے لڑکوں کی طرح اظہار کرتا ۔۔۔دل نے اسے ہر الزام سے بھری کیا۔۔۔
 
اف۔۔۔۔۔مجھے اتنا نہیں سوچنا اکید کا ۔۔۔اک دفعہ وہ بنا گناہ کے گنگار ٹھہراٸی گٸی تھی ۔۔۔اب پھر سے نہیں ۔۔۔

**************

بلک عبایہ پہنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی وہ حجاب بنا رہی تھی ۔۔جب نعمان صاحب نے دروازہ ناک کیا۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔ 
پاپا ۔۔آپ ۔۔میں بس آہی رہی تھی ۔۔ اس نے پن لگاتے ہوٸے کہا ۔۔۔آج اسکا آخری پیپر تھا وہ بہت خوش تھی کہ اب بس ساراوقت  اسلامک سنٹر میں ہی گزارونگی ۔۔۔وہاں اسکا دل پرسکون ہوتا ۔۔کوٸی غم کوٸی دکھ اسے بےچین نہیں کرتا تھا۔۔۔
نعمان صاحب خاموشی سے اسے دیکھنے لگے ۔۔۔ اشک حجاب بنا کر مڑی تو نعمان صاحب کو اپنی طرف دیکھتے پاکر بولی  ۔۔۔ پاپا ۔۔ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ 
بس دیکھ رہا ہوں کہ میری بیٹی بہت پیاری لگتی ہے ۔۔۔ نعمان صاحب نے آگے بڑھ کر اس سے خود سے لگایا ۔۔۔ 
اشک نے سر انکے سینے میں رکھتے ہوٸے آنکھیں موند لٸے ۔۔۔
لو یو پاپا ۔۔۔ وہ دھیرے سے بولی ۔۔۔ 
لو یو ٹو میری جان ۔۔۔ نعمان صاحب نے  لب اسکے سر پہ رکھتے ہوٸے کہا ۔۔۔
وہ بہت خوش تھا کہ اسکی بیٹی زندگی کی طرف لوٹ آٸی تھی ۔۔۔ وہ آمیرہ کا بے حد مشکور تھا کہ اس نے اسکی نازوں پلی بیٹی کو واپس کر دیا تھا ۔۔۔
پاپا اور آپی جلدی بھی کرے ۔۔۔ایلاف نے نیچے سے ہانکا ۔۔۔
چلیں ۔پاپا  اشک نے سر اٹھاتے ہوٸے کہا ۔۔۔
ہاں چلو ۔۔نہیں تو ایلاف نے آ جانا اور پھر لڑنے بیٹھ جاٸے گی ۔۔۔
اس سے پہلے اشک کچھ کہتی ۔۔اندر آتی ایلاف نروٹھے پن سے بولی ۔۔۔
کر لیں کر لیں جتنا مرضی کرے۔۔کر لیں اپنی بیٹی سے پیار ۔۔۔ میں کونسا آپکی اپنی بیٹی ہوں ۔۔۔ آپ بس یہی سمجھتے رہے مجھے لڑنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا ۔۔۔
آہاہاہا ۔۔۔ تم تو میری دھڑکن ہو نعمان صاحب نے قہقہ لگاتے ہوٸے کہا ۔۔۔اور اشک کے گرد بازو لپیٹ کر اسکی طرف آیا اور دوسرا  بازو اسکے گرد لپیٹا ۔۔۔ 
وقت انکو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔۔۔ قسمت رشک کر رہی تھی ۔۔مگر کیسے کیامعلوم تھا کہ کاتب تقدیر کیا لکھ رہا ہے ۔۔۔ سب انجان تھے ۔۔۔ آنے والے وقت سے ۔۔۔

***********

اکید مجھے کچھ کہنا ہے تم سے ۔۔۔ آمیرہ نے سیڑھیاں چڑھتے اکید کو دیکھا تو پاس آتے ہوٸے بولی ۔۔۔
ہوں ۔۔ سیل فون کان سے لگاٸے سیڑھیاں چڑھتا اکید وہی رک کر اسکی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔
اگر کوٸی کام نہیں تو لان میں بیٹھ کر بات کرے ۔۔۔آمیرہ نے اسکے قریب کھڑے ہوتے سوالیہ انداز سے کہا۔۔۔وہ کافی دنوں سے اس سے بات کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ 
فاٸنل ایگزم شروع ہو چکا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ ایگزمز ختم ہوتے ہی یہ رشتہ ہوجاٸے ۔۔۔

ہوں ۔۔۔کیوں نہیں ضرور ۔۔
اکید نے سیل کان سے ہٹاتے ہوٸے  خوشگوار انداز اپنایا۔۔۔
آمیرہ میڈ کو چاٸے لانے کا کہتی اسکے پیچھے چل پڑی ۔۔۔
اردگرد کی باتوں کے علاوہ وہ بالاآخر اپنے مطلب کی بات پہ آٸی ۔۔۔
اکید ۔۔۔ تم اشک کو چاہتے ہو۔۔ 
آمیرہ نے نظریں اسکے چہرے پہ گاڑتے ہوٸے پوچھا ۔۔
اکید نے مجرموں کی طرح سر جھکا لیا ۔۔۔
دیکھو ۔۔اکید ۔۔ میں نہیں چاہتی کہ کسی نامحرم کو دیکھنے کی وجہ سے میرا بھاٸی گناہ کا مرتکب ٹھہرے ۔۔۔ہمارے رب نے ہمارے سامنے نکاح کا آپشن رکھا ہوا ہے ۔۔۔ 
تم چاہتے ہو اسے پسند کرتے ہو ۔۔۔۔ تو سیدھا اسے اپنے نکاح میں کیوں نہیں لیتے ۔۔۔ 
میرے پیارے بھاٸی ۔۔۔ہمارے رب نے جس چیز کو  ہمیں پورے استحقاق سے اپنانے کا کہا ہے تو پھر کیونکر ہم خود کو گہنگار ٹھہراٸے ۔۔۔
اکید خاموشی سے سر جھکاٸے سن رہا تھا ۔۔۔ واقعی وہ صحیح کہہ رہی تھی ۔۔۔ کیا وہ پسند کر سکتا تھا اشکاف پہ کسی نظریں ۔۔۔نہیں نا ۔۔۔تو پھر وہ کس  رشتے کی بنیاد پر اسے نظر بھر دیکھتا ہے ۔۔ اسکی تصویریں اپنے پاس رکھتا ہے ۔۔۔
اسکو خاموش دیکھ کر وہ پھر سے بولی ۔۔۔
اکید ۔۔۔میں نہیں چاہتی میرا بھاٸی اپنے رب کے حکم کی توہین کریں ۔۔۔

آمیرہ ۔۔۔میں نے تو کبھی غلط نگاہ سے اسے نہیں دیکھا ۔۔۔ اس نے تڑپ کر کہا۔۔
بےشک تیری نیت میں کوٹ نہیں تھی ۔ مگر اپنے رب کی نافرمانی تو کی ناں ۔۔۔ 
کہاں گیا وہ شہزادہ اکید بن عابدین جو اسلامی اصولوں پہ سختی سے عمل پیرا تھا جو اپنے رب کی نافرمانی کا کبھی متحمل ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔ وہ کیسے کسی نامحرم لڑکی کی تصویروں کو رات بھر دیکھتا ہے وہ کیسے اسکی وجود پہ نظریں گاڑتا ہے ۔۔۔ 
بھول گیا اکید وہ سب ۔۔۔
ہمارے رب نے ہمیں  نظر کی حفاظت کا حکم دیا ہے ۔۔۔ اکید نہ صرف تم خود گناہ کما رہے ہو ۔۔بلکہ اس انجان لڑکی کو بھی گہنگار بنا رہے ہو۔۔۔۔
واقعی وہ صحیح کہہ رہی تھی ۔۔۔وہ غلط کر رہا تھا ۔۔۔ بہت غلط ۔۔۔
آمیرہ اسے سوچوں میں گم چھوڑ کر چلی گٸی ۔۔۔

**********

اکید ۔۔تم ہوش میں تو ہو ۔۔۔
مہرماہ خاتون  .. یہ سن کر آپے سے باہر ہوگٸی ۔۔۔ 
تم نے سوچ بھی کیسے لیا ہاں ۔۔۔ کہ میں اس دوٹکے کی معمولی طلاق یافتہ لڑکی  سے تمہاری شادی کرٶاٶنگی ۔۔۔
وہ شاک کی سی کیفیت میں اسے گھورے جارہی تھی ۔۔۔
مادام محترم ۔۔۔میں نے بھی کہہ دیا ۔۔ شادی کرونگا تو صرف و صرف اشکاف فاروقی سے ۔۔۔
اکید نے جھکے سر سے کہتے ہوٸے لب سختی سے بھینچ لیے ۔۔۔

شہزادے ۔۔۔ تم بھول رہے ہو کہ تم اک شہزادے ہو ۔۔ اور تمہاری شادی کسی شہزادی سے ہوگی ۔۔۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے ۔۔۔تم جاسکتے ہو۔۔۔اب ۔۔۔
اکید نے کچھ کہنے کے لٸے لب وا کٸے ہی تھے ۔۔۔ 
کہ ملکہ مہرماہ خاتون نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کا کہا ۔۔۔
وہ غصے سے بنا کچھ کہا باہر نکلا ۔۔۔ اگر وہ ملکہ عالیہ تھی تو یہ بھی اسکا ہی بیٹا تھا 
روم میں آتے ہی اسکا سر پھٹ رہا تھا ۔۔۔پھر شاہ سیلمان بن عابدین سے بات کرنے کا فیصلہ کرتے ہوٸے وہ مطمٸن ہوا ۔۔۔ 
شاہ سیلمان بن عابدین نجی دورے پر مصر سے باہر گٸے تھے ۔۔۔ اشکاف کا ایگزمز ختم ہوگیاتھا اسلٸے آمیرہ کے کہنے پہ اس نے شادی کی بات کر دی ۔۔۔ 
آمیرہ جانتی تھی کہ مادام محترم کبھی نہیں مانے گی البتہ  والد محترم مان لیں ۔۔۔