تیرے لیئے دل دھڑکا|Tery Liya Dil Dharka By Mehak Shah Qist Number 16



112 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


#تیرےلئے_دل_دھڑکا

مہک شاہ ✍
قسط 16
جہانگیر نے رفعت کو آنے سے منع کر دیا تھا اور اطلاع دی تھی کہ بابا جان کی طبیعت اب بہتر ہے۔ زین کے بہت اصرار کرنے پر یشب زرتاشہ کو لے کر منگنی کے فنکشن میں چلا آیا تھا۔ وہ عنایہ کو سب کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن اسے وہاں نہ پا کر پہلے سے زیادہ دلبرداشتہ ہوگیا۔۔

حرف زبان سے رکوع تک____! آنکهوں کے نیل سے سجود تک____! 

میرا عشق تیرے گرد هے____! فریاد سے کن فیکون تک____!

فرحین اور طلحہ بہت پیارے لگ رہے تھے۔ زرتاشہ سمیت سب لوگ بہت انجوائے کر رہے تھے۔ منگنی کا فنکشن دھوم دھام سے ہوا تھا۔ تقی زرتاشہ کو دیکھ رہا تھا جب روما کی نظر اس پر پڑی۔ روما کو بہت برا لگا۔ وہ سوچتی تھی کہ تقی اسے پسند کرتا ہے لیکن اب اسے زرتاشہ کی طرف ایسے دیکھنے سے وہ بہت ہرٹ ہوئی تھی۔ اس نے پہلے بھی کئی بار یہ محسوس کیا تھا لیکن آج اسے پورا یقین ہوگیا تھا کہ اب تک وہ محض ایک غلط فہمی میں جی رہی تھی۔ اس کا موڈ بہت بگڑ گیا تھا۔ وہ فوراً اٹھ کر ہال سے باہر نکل گئی۔ زین جو روما کو ہی دیکھ رہا تھا، اسے باہر نکلتے دیکھا تو اس کے پیچھے چلا آیا۔
روما ہال کے باہر لان میں پڑی ایک کرسی پر بیٹھ کر عنایہ کو میسج کرنے لگی۔
"کہاں ہو تم؟ آئی کیوں نہیں؟"
عنایہ کا فوراً جواب آیا۔
"گھر جا رہی ہوں، ضروری کام تھا۔"
زین نے گلا کھنکھارا۔
"خیر تو ہے؟ آپ فنکشن چھوڑ کر یہاں آ بیٹھیں۔۔۔"
"ہاں بس عنایہ نہیں آئی تو میرا بھی دل نہیں لگ رہا تھا فنکشن میں۔"
"اوہ ڈونٹ وری کوئی ضروری کام ہوگا انہیں، اسی لیے چلی گئیں۔ چلیں میں آپ کو اپنی بھابھی سے ملواتا ہوں۔"
روما کو عجیب لگا مگر وہ اس کے پیچھے چل دی۔ روما زین کے پیچھے چلتی شفق بھابھی کے پاس آپہنچی۔ زین نے دونوں کا تعارف کروایا۔ شفق کو روما بہت اچھی لگی تھی۔ وہ زین کی طرف دیکھ کر شرارت سے مسکرائی تو زین نے سر جھکا لیا۔ پھر شفق ہی روما کو کمپنی دیتی رہی۔ روما کا موڈ بھی کافی اچھا ہوگیا تھا۔ شفق کے کہنے پر زین ہی روما، فرحین اور نوشابہ کو واپس چھوڑنے آیا تھا۔ زین پہلے دن سے ہی روما کو پسند کرتا تھا لیکن اس بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔  نہ ہی زین نے کسی سے یہ بات شئیر کی تھی ....

*چلنے دو ____صاحب ____سلسلہ دلداری کا*

   *عشق _________تعلیم ____نہیں کے مکمل ہو جائے*
   *
عنایہ گھر جاتے ہی فاطمہ کے گلے لگ 
دونوں مگئ.....دونوں اں بیٹی کی  آنکھوں میں آنسو تھے.... "لیکن خوشی اور غمی کے آنسوئوں کا رنگ بھی ایک جیسا ہوتا ہے فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے"....عنایہ چینج کر کے نیچے آئ تو فاطمہ نے عنایہ کو بتانا شروع کیا " تمھارے دادا حیات ہیں ابھی...  تمہارے بابا نے مجھ سے  پسند کی شادی کی تھی. جبکہ تمہارے بابا اور عفت کا رشتہ بچپن سے ہی فکس تھا... تمہارے  دادا اور باقی  سب ہماری شادی کے خلاف تھے. ان کے سامنے صرف دو ہی آپشن تھے یا وہ اپنی کزن سے شادی کر لیں اور عیش و آرام کی زندگی بسر کر لیں یا مجھ سے شادی کر کے مشکلات  اور کٹھن  حالات کا سامنا کریں...  تمہارے بابا نے مجھے چنا اور اس طرح آغا خان  نے ان سے ہمیشہ کےلئے رشتہ توڑ لیا.......    
تمہارے بابا نے ہر مشکل اٹھائ ہمارے لیے...." تمہارے آنے کے بعد ان کا بزنس اچھا ہوگیا اور آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوگیا. نا ان کے پیچھے کبھی کوئ آیا نا ہی تمہارے بابا نے کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا.."
"کچھ دن پہلے ان کے بڑے بھائی اور تمہارے دادا آئے تھے...تمہارے بابا اور مجھ پر تو حیرت کا پہاڑ ٹوٹاتھا......وہ ہمیں ساتھ لے  جانے آئے تھے.... انہوں نے مجھے بہو کہہ کر پکارا تھا. ..ہمیں تمام حقوق دینا چاہتے تھے جن سے آج تک ہمیں محروم رکھا گیا تھا..لیکن تمہارے بابا نے انا میں آکر جانے سے انکار کر دیا..""
"کل ہی خبر ملی کے ان کی طبیعت شدید خراب ہو چکی ہے.اس بار ان کا پیار جیت گیا اور انا ہار گئی    ۔۔   وہ اپنے بابا سے ملنے جا پہنچے.۔۔ آغا خاں کی طبیعت کافی خراب ہے" "وہ چاہتے تھے کے ان بیٹے ہمیشہ کے لیے مل جاے .انہوں نے تمہارا اور اپنے پوتے کا نکاح کروا دیا..اب تمہارے بابا آئے گے تو پتہ چلے گا."
  عنایہ نے تمام بات بنا سوال کئے سنی تھی... "اب کیسی طبیعت ھے داداجان کی؟؟".   ,"اب کافی بہتر ہیں پہلے سے.".   ."ماما میں ان سے ملنا چاہتی ہوں میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں ان کو"..."ہاں بیٹا ضرور". ..جہانزیب نے فاطمہ کو کال کر کے پیکنگ کا کہا تھا.......
  ان کی ٹکٹ کنفرم کر دی گئی. کل صبح 9 بجے انہیں پشاور پہنچنا تھا..
شب کے گھر آتے ہی مسز رفعت نے زرتاشہ  اور ان کی سیٹیں کنفرم کروانے کا کہا تھا..جبکہ جہانگیر چاہتے تھے کے یشب آفس جائے سب کام سنبھال کر میٹینگ وغیرہ اٹینڈ  کرنے کے بعد پشاور پہنچے. اور ایسا ہی ہوا تھا....  زرتاشہ اور مسز رفعت  پشاور پہنچ چکی تھی. غلام رسول ڈرائیور کے ساتھ انہیں لینے پہنچا تھا..
حویلی پہنچ کر آغا خان  کے کمرے کی طرف چل دیا جہاں سب موجود تھے......    مسز رفعت  اور زرتاشہ سب سے ملی..زرتاشہ اپنی نانو سے حال چآل پوچھنے لگی انہیں اپنی سٹڈی کا بتانے لگی..
سب مطمئن تھے.. ہاجرہ  آغا خان  کےلئے سوپ اور باقی سب کےلئے چاہے لئے چلی آئ ساتھ ہی ان کی بیٹی باقی لوازمات  کی ٹکڑے اٹھائے  چلی آئ. زرتاشہ نے آگے بڑھ  کے ٹکڑے پکڑی اور میز پر رکھنے لگی..
آغا خان  کا کمرہ کافی وسیع تھا........
اس کے اندر ہی  ایک طرف  چھوٹی سی لائبریری  بھی بنی ہوئی  تھی....جہاں آغا خان کی پسند کی تمام کتابیں موجود تھیں ...... کھانے کے لئے ٹیبل چیئرز  الگ رکھی ہوئی تھی   ....   تھا تو اک کمرہ لیکن مکمل گھر جتنا .....
جہانزیب کے کمرے میں آنے پر جہانگیر اٹھ کر ان تک گیا.      جہانزیب نے مسز رفعت کو سر جھکا کر سلام دیا.    جب کہ  زرتاشہ نے آگے بڑھ کر انہیں ماموں کہا اور گلے لگ گئ. ..یہاں آکر وہ سب جان چکی تھی کہ  اس کے دوسرے ماموں بھی مل گئے ہیں....  جہانزیب کو وہ بلکل عفت ہی لگ رہی تھی..
جسے انہوں نے ہمیشہ اپنی بہن ہی مانا تھا. لیکن بڑوں کے فیصلے نے تضاد ڈال دیا تھا.
"ماموں مامی  اور ہماری کزن صاحبہ کب آئے گئی".؟؟؟؟؟ "بس ایک گھنٹے تک پہنچنے والی ہوں گی"....
.زرتاشہ خوشی سے سر ہلایا اور  صوفے پر جاکر بیٹھ گئی.....
 جہانزیب آغاخان کے پاس آ کر بیٹھ  گئے..
 
آغا خان  نے ان کا ہاتھ تھام کر کہا.."بیٹا میں اپنی تمام جائیداد اپنے سب بچوں کے نام لگا چکا ہوں        اپنی  پوتی سے مل لوں  اسے دیکھ لوں تو یہ خلش بھی مٹ جائے گی'"...  
آغا خان  اپنے دونوں بچوں اور بھائی  سے باتیں کرنے میں مصروف ہوگئے. .

مسز رفعت کو اپنے بیٹے کے خواب ٹوٹنے کا گہرا صدمہ تھا...  وہ جانتی تھی کے یشب ضدی ہے...  پتا نہیں کیا ہوگا..... مختلف اندیشے انہیں اندر ہی اندر کھا ئے  جارہے تھے..
زرتاشہ سے وہ سب کچھ شیئر کر چکی تھی......    زرتاشہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کے وہ یشب کو سمجھائے گی.. حالانکہ وہ خود بھی چاہتی تھی کہ یشب اور عنایہ ایک ہو جائیں ...
چھوٹی بی بی اور مسز رفعت بیٹھی باتیں کررہی تھین ....    جب ہارن کی آواز آئی......
فاطمہ بیگم اور عنایہ آچکی تھیں. .سب نظریں اٹھائے گیٹ کی طرف  دیکھ رہے تھے...
مسز رفعت اور زرتاشہ دونوں کی  آنکھیں کھلیں کی کھلیں رہ گئیں..... عنایہ کو فاطمہ کے ساتھ آتے دیکھ کر دیکھتی  رہ گئیں    تھیں....  عنایہ کی نظر زرتاشہ پر پڑی تو وہ بھی شوک ہوگئی... "زرتاشہ تم یہاں کیا کر رہی ہو¿     فاطمہ  اور  رفعت بیگم آگے بڑھ کر ایک  دوسرے سے ملیں  ... 
چھوٹی بی بی بھی فاطمہ کے گلے لگ گئ. جب کے زرتاشہ اور عنایہ ابھی بھی حیران تھیں...
عنایہ نے مسز رفعت کو بھی دیکھا. .زرتاشہ شوخی سے ان کا ہاتھ کھینچتی  ان تک لے آئی..
یہ ہیں آپ کی ساسو ماں. ..عنایہ کی ہارٹ بیٹ تیز ہوگئی تھی یعنی یشب کے ساتھ نکاح ہوا ہے اس کا...
وہ خوش دلی  سے مسز رفعت سے ملی. ..مسز رفعت بھی  دل ہی دل میں خدا کی قدرت کو دیکھ کر حیران اور شکر گزار تھیں..

عنایہ آج تک یہ سب ناولز میں پڑھتی آئی تھی یا صرف ڑرامہ مویز میں ہی دیکھتی آئ تھی لیکن آج اسے یقین آ رہا تھا کے معجزے اصل میں بھی ہوتے ہیں...
جس کے لیے اس کا دل دھڑکا تھا وہی اس کے نام بھی لکھا جاچکا تھا  پوری زندگی کے لیے. ...

آغا خان  عنایہ سے ملے تو انہیں فورن یاد آگیا ..جب انہوں نے اسے واپسی پر دیکھا تھا....   
 اس میں جہانزیب کی جھلک نظر آئی تھی انہیں. لیکن اس وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کے ان کا شک ٹھیک تھا  ...
....  انہوں نے عنایہ کو پیار دیا.  "  جب تمہیں پہلی بار دیکھا تھا میں تب ہی پہچان گیا تھا لیکن اس وقت مجھے cnfirm  نہیں تھا ....اسی لئے چپ رہا "...    انہوں نے عنایہ کو بتایا..... عنایہ نے سر ہلا دیا .. کہ اسے بھی یاد ہے دونوں پہلے مل چکے ہیں.....
جہانزیب عنایہ کے چہرے کی رونق دیکھ کر سمجھ چکے تھے کہ وہ اس رشتے سے خوش ہے....
لیکن پھر بھی اپنے دل کی تسلی کے لیے عنایہ کو ساتھ لے کر لان کی طرف چلے آئے...    "عنایہ میں نے پہلی بار زندگی میں تم سے تمہاری مرضی پوچھے بغیر فیصلہ لیا ہے. .....   وہ بھی جن حالات میں لیا ہے تم اچھے سے واقف ہوں.  تم نے میرا مان رکھ کہ میرا سر اونچا کیا ہے.              مجھے فخر ہے کے تم میری بیٹی ہو"....
"پاپا آپ نے بنا کہے میری ہر وش پوری کی ہے اور آج بھی میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا" اور نظر جھکا گئی.... 
جہانز یب نے سمجھتے ہوئے  اپنے ساتھ لگا لیا.. عنایہ نے اپنے بازوں ان کے گرد حمائل  کر دئیے. .."بیٹا آپ نے یہ کہ کر میرے دل کا بوجھ ختم کردیا. میں بہت خوش ہوں". ان کی آنکھوں میں آنسو تھے ....اور پھر بولے  " شکر ہے میری بیٹی کو میرے فیصلے سے کوئی اعتراض نہیں ہے ورنہ میں تو سمجھ رہا تھا جانے انجانے میں کہیں کوئی بھول نا ہوگئی ہو مجھ سے. ". عنایہ کچھ کہتی اس سے پہلے زرتاشہ ان کی طرف چلی آئی.....    " ماموں  سارا پیار عنایہ کو ہی دے دیں گے"...جہانزیب نے اسے بھی اپنے ساتھ لگا لیا.. ہر طرف خوشیاں بکھر چکی تھیں..

یشب  آفس کا تمام کام سمیٹ چکا تھا. ساتھ ہی ساتھ بہت پریشان بھی تھا عنایہ   بھی بغیر بتاے چلی گئی تھی.      
 
ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺧﯿﺎﻝ
ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ
ﺑﮯﺳﺒﺐ ﺍﻟﺠﮭﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ؟
💛💙💜💚❤💗

میٹنگ وغیرہ سب اٹینڈ کر کے آج شام کو اس نے پشاور  کے لیے نکلنا تھا... 
 
جہانزیب کو اپنا کام دیکھنا تھا اس لیےآغا خان   سے اجازت لے کر شام کو نکلنے کا ارادہ تھا..لیکن جہانگیر  نے ان سے یشب سے مل کر جانے کا کہا اس لیے انہوں نے صبح 9 بجے کی ٹکیٹس بک کروا لیں .....
زرتاشہ نے مسز رفعت کو یشب کو کچھ نا بتانے کا کہا اور عنایہ کو بھی روک دیا تھا کے وہ یشب سے نہ ملے شام کو یشب کے آنے پر زرتاشہ نے عنایہ کو سر پر پلو ڈلوا دیا تھا ..
یشب ایک نظر عنایہ پر ڈالتا فاطمہ بیگم سے ملا ارے اپنی بیوی کو تو سلام کرو. زرتاشہ  شوخی بن کر بولی یشب نے دھیمی سی آواز میں اسلام علیکم  کہا اسی ٹون میں سلام کا جواب دیا گیا تھا...   یشب کو یہ آواز جانی پہچانی سی لگی. ..
پھر آغا خان  کے روم کی طرف چل دیا. عنایہ اور زرتاشہ اس کے جاتے ہی ہنسنے لگیں. .آغا خان سے مل کر جہانزیب سے ملا....  جہانزیب اسے جانے  پہچانے  سے  لگلے  ....      لیکن اسے یاد نہیں آ رہا تھا  جبکہ جہانزیب پہچان چکے تھے پہلے سے..یشب ان سے گلے ملا اور بے دلی  سے کافی دیر بیٹھا باتیں کرتا رہا.     اس کا دھیان بار بار عنایہ کی طرف بھٹک رہا تھا...نا چاہتے ہوئے بھی اسے عنایہ کی یاد ستا رہی تھی.     اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کسی طرح اڑ کر عنایہ کے پاس پہنچ جاتا..
آغا خان  کی آواز پر وہ چونکا." میں چاہتا ہوں کہ دونوں کی باقاعدہ شادی ہوجائے جلد از جلد ...جہانگیر اور جہانزیب  دونوں نے مطمئن ہو کر. ہامی بھری تھی. ..لیکن بابا جان بچوں کی سٹڈی؟ ؟؟ جہانزیب نے پوچھا ....
یشب کان کھول کے سن رہا تھا. ."شادی کے بعد پڑھتے رہے گے یہ کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں ہے".    " لیکن بابا آج کل کے بچے ان باتوں کو معیوب سمجھتے ہیں.   شادی کے بعد پڑھنا مشکل ہوجاتا ہے." آغا خان جواب دیتے ہوے بولے  " یشب نے تو ویسے بھی بزنس سنبھالنا ہے.اور ہم نے کون سا اپنی بچی سے نوکری کروانی ہے".......  "کہہ تو آپ ٹھیک ہی رہے ہیں لیکن ایک بار بچوں کی رائے لے لی جائے تو بہتر ہے..... 
یشب فورا بولا تھا. " میں اپنی سٹڈی مکمل کرنے کے بعد ہی شادی کرنا چاہتا ہوں بابا ".
آغا  خان بھی خاموش ہو گئے.. "عنایہ بھی یہی چاہتی  تھی.   اس لئے جہانزیب نے بھی  یشب کا ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ ,"ٹھیک ہے بابا دونوں بچے پہلے پڑھ لیں اس کے بعد ہی شادی کروائیں گے" . . یشب کمرے سے نکل کر باہر چلا گیا. . سب مردوں  نے  الگ الگ کھانا کھایا . اور عورتوں نے الگ کھانا کھایا 'وہاں کا رواج تھا کے مرد اور عورتیں الگ الگ بیٹھ کر ہی کھاتے تھے ....
عنایہ اور زرتاشہ لاؤ نج  میں بیٹھیں آگے کا پلین بنا رہی تھین.      "عنایہ بولی یار میرے خیال سے یے ٹھیک نہیں ہے یشب کو بتا دینا چاہیئے" ....
"اچھا جی تمہیں بہت جلدی ہے بتانے کی تڑپنے دے اسے پھر بتانا "..... عنایہ منہ  بنا کر بیٹھ گئی زرتاشہ نے پلو اس کے سر پر رکھ دیا   ,"یہ  لے کر رکھو کبھی بھی ٹپک سکتا ہے وہ"
  زرتاشہ کے فون پر فرحین کی کال آ رہی تھی زرتاشہ کال ریسیو کرنے سے پہلے بولی, " عنایہ بولنا مت   ," ابھی کسی کو نہیں بتانا کہ ہم کزنز ہیں". عنایہ نے سر ہلایا زرتاشہ کال پک کر کے اٹھ کے سائیڈ پر چلی گئی. .. عنایہ یشب کے بارے م سوچنے لگی...... 
  
  کیا خبر تجھ کو،
کہ آہٹیں تیری،
میری، سانسیں بحال کرتی ہیں
💛💙💜💚❤💔💗

یشب نےاس کو  لان میں بیٹھے  دیکھا تو اس کی طرف ہی آگیا. وہ چاہتا تھا کہ اسے سب کچھ بتا دے کہ وہ اس شادی سے خوش نہیں ہے.اور پڑھنا چاہتا ہے ابھی. اگر اسے اعتراض ہو تو ابھی بھی دیر نہیں ہوئی..
"سنئیے". .."جی" عنایہ نے پلو سیٹ کر کے اس کی طرف پلو نکال لیا. ..,"کیا نام ہے آپ کا؟".    "آپ کا مجھ سے نکاح ہو چکا ہے اور ابھی تک میرا نام بھی نہیں جانتے."؟؟؟؟؟ ؟؟
  عنایہ غصے سے منہ بنا کر بولی. .

یشب اس کے یوں کہنے پہ چونکا. ..نہیں وہ میں اس.   وہ ... ..اس وقت ایکچولی سگنلز ویک تھے اس لئے میں  سن نہیں سکا ..."        "خیر جو بھی نام ہے آپ کا میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں". ...
"کیا مطلب ؟؟؟ " جو بھی نام ہے میرا!!!!". 
آپ کو میرے نام سے کوئی مطلب ہی نہیں ہے:/"
"؟؟؟
مطلب کچھ پتا ہی نہیں آپ کو.؟؟..
"یشب کو وہ اس وقت جھگڑالو بیویوں کے جیسی لگی تھی رعب دیکھاتی جھگڑے کرنے والی "...
ایک پل کو عنایہ کو بھول کر ہنسی اس کے لبوں کو چھوگئی...  
  "اچھا مس کیا نام ہے آپ کا ؟؟؟؟بتائیے!!!!!! "
...
"اب رہنے دیں  جب آپ کو فرق ہی نہیں پڑتا میرے نام سے تو مجھے بھی نہیں بتانا". .
ضدی بچوں کی طرح عنایہ بھی ضد پر آگئی تھی. یشب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا. اسے منائے یا جو وہ کہنے آیا ہے وہ کہے.......💟💟💟💟💟

دل تو چأہتأ ہے کہ 
تجھ سے روبروں ہوں میں 
پر ڈرتأ ہوں تیرے لفظوں سے