تیرے لیئے دل دھڑکا|Tery Liya Dil Dharka By Mehak Shah Qist Number 5



136 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


#تیرےلئے_دل_دھڑکا

مہک شاہ ✍
قسط 5
 تبھی یشب بولا۔
''عنایہ وہ لڑکی ہے جسے میں فول کرنے میں ناکام رہا، باقی سب لوگ میرے مذاق میں آگئے، پر ان موصوفہ نے مجھے کنفیوز کر دیا۔'' 
اسکی بات سن کر سب اووووووووو اور ہاہاہاہاہاہا کرنے لگ گئے۔
''عنایہ پلیز کم آن  دی اسٹیج.''
عنایہ جانا نہیں چاہتی تھی مگر روما نے تقی کے اشارے پر اسے اٹھنے کے لیے کہا۔ عنایہ اپنا گاؤن سنبھالتی سٹیج کی طرف بڑھنے لگی۔ ہر طرف تالیوں کی گونج تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی سٹیج پر پہنچی اور یشب کے ساتھ جا کر کھڑی ہو گئی۔ شور اور تالیوں کی آواز ابھی بھی گونج رہی تھی۔
"شکریہ مس عنایہ سٹیج تک آنے کے لیے اور یونیورسٹی میں خوش آمدید۔" یشب نے یہ کہتے ہوئے ایک خوبصورت پیکنگ والا تحفہ عنایہ کی طرف بڑھایا۔
''دل کی گہرائیوں سے میری معذرت قبول کریں۔''
عنایہ نے گھبراتے ہوئے تحفہ پکڑ لیا اور شکریہ کہتی ہوئی سٹیج سے جانے ہی لگی کہ یشب نے کہا۔
''مس عنایہ پلیز ہم سب کے لیے ایک گانا سنا دیں۔''
تالیاں پھر سے بجنے لگیں۔ عنایہ کنفیوز سی کھڑی سب کو دیکھنے لگی۔ یشب کو لگا کہ اس نے پھر سے غلطی کر دی۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک سریلی سی آواز آئی۔
''تنکا تنکا، ذرا ذرا
ہے روشنی سے جیسے بھرا
ہر دل میں ارمان ہوتے تو ہیں
ہر دل میں ارمان ہوتے تو ہیں
بس کوئی سمجھے ذرا۔۔''

سب لوگ اور ٹیچرز بھی تالیاں بجانے لگے۔
یشب عنایہ کی آواز میں کھویا ہوا تھا۔ وہ کافی دیر ایسے ہی کھڑا اسے دیکھتا رہا، جب عنایہ نے اس کے سامنے آ کر چٹکی بجائی تو وہ اپنے حواسوں میں لوٹا۔ ہال ابھی تک تالیوں سے گونج رہا تھا۔ عنایہ نے مائیک اسے پکڑایا اور سٹیج سے اتر کر روما اور فرحین کے پاس آئی جو سٹیج کے پاس ہی کھڑی ہوگئی تھیں۔ 
یشب نے سب کو خاموش کروا کر عنایہ کی تعریف میں کہا۔ ''بیوٹی فل وائس مس عنایہ،،'' ایک بار پھر تالیاں  بجنے  لگیں۔

''اب بڑھتے ہیں نیکسٹ سیگمنٹ کی طرف۔'' 
اگلے سیگمنٹ میں سب ٹیچرز کو سٹیج پر بلایا جا رہا تھا جہاں آکر وہ اپنا تعارف کروا رہے تھے اور پھر سب کی خدمت میں پھولوں کے گلدستے پیش کئے جا رہے تھے۔
عنایہ کو لگا کہ یشب اسے سب کے سامنے گانا گانے کا کہہ کر اسے نیچا دکھانا چاہتا تھا حالانکہ سب نے اس کے گانے اور آواز کو بہت پسند کیا پھر بھی اس کا موڈ آف ہو چکا تھا۔ وہ فرحین اور روما سے چلنے کا کہنے لگی تو وہ دونوں گرلز روم سے اپنی اپنی شال لینے چلی گئیں۔ تقی عنایہ کے پاس آیا اور اس کے گانے کی تعریف کرنے لگا جس پر عنایہ نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ دونوں واپس آگئیں تو تقی نے حیرت سے پوچھا۔
''آپ لوگ اتنی جلدی جا رہی ہیں؟'' 
فرحین اور روما نے ناراضگی سے عنایہ کو دیکھا اور کہا۔
''آپ کے دوست کو پہلے سے عنایہ کو مطلع کرنا چاہیے تھا، ایسے تو کوئی بھی کنفیوز ہو سکتا ہے۔''
تقی نے کہا۔ ''یہ ہمارے سیگمنٹ کا حصہ تھا اور یشب کی طرف سے میں معذرت کرتا ہوں، ویسے بھی عنایہ نے کافی اچھا گایا ہے۔''
روما بولی۔
''یہ تو الگ بات ہے، اگر وہ نا گا پاتی تو کتنی شرمندگی ہوتی۔'' 
تقی نے متفق ہو کر سر جھٹکا اور انہیں جاتے دیکھتا رہا۔
وہاں تو ان دونوں نے عنایہ کا ساتھ دیا مگر واپس آکر اس پہ غصہ کرنے لگیں۔
''دس اس ٹو مچ یار، اتنی سی بات کو اتنا بڑا مسئلہ بنانے کی کیا ضرورت تھی، وہاں ہال میں سب اتنی تعریف کر رہے تھے، اتنے سب سوڈنٹس میں تم واحد تھی  جسے اتنا اچھا ریسپانس مل رہا تھا اور تم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر موڈ آف کر کے واپس آگئی۔''
عنایہ کو خود بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس نے یہ سب کیوں کیا۔ 
یشب سے غلطی ہوئی تھی وہ اس بات کو مانتا تھا کیونکہ وہ خود بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اور عنایہ کی تعریف کرے۔ تقی نے جب اسے بتایا تو اس نے عنایہ سے معافی مانگنے کا سوچا۔
عنایا اپنے روم میں آ کر چینج کر کے سو گئی۔ صبح آ کر
فرحین نے عنایہ اور لاریب کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ آج لاریب کے ڈیپارٹمنٹ کی پارٹی تھی۔ اکنامکس اور لاء ڈیپارٹمنٹس کے لیے آف تھا۔ لاریب فوراً اٹھ کر تیار ہونے لگی۔ فرحین اور عنایہ نے اس کی مدد کی۔ زنک فراک میں لاریب بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اسکا جسم فربہی مائل تھا مگر اسکی مسکراہٹ بہت پر کشش تھی۔ وہ دونوں لاریب کو ہاسٹل کے گیٹ تک چھوڑ کر واپس آئیں اور نچلے پورشن میں بیٹھ کر باتوں میں مصروف ہوگئیں۔
پارٹی میں انہوں نے جو پکس لی تھیں، وہ سبکو بہت پسند آئیں۔ فرحین نے عنایہ کا گانا بھی ریکارڈ کیا تھا۔ ان کے ہاسٹل میں چھ لڑکیاں تھیں اور عائشہ کے علاوہ باقی سب کی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ یہ بلڈنگ مسز وردہ کی تھی، جو وقتاً فوقتاً سب لڑکیوں پر نظر رکھتی رہتی تھیں۔ ہاسٹل کی بلڈنگ کے ساتھ ہی انکا خوبصورت سا گھر تھا جہاں وہ اپنی کام والی کے ساتھ رہتی تھیں۔

یشب صبح سے اپنے کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا لیکن اسے آئیڈیا نہیں آیا کہ کیسے سوری کرے۔ اس نے سیل اٹھا کر تقی کا نمبر ملایا۔
''ہیلو! کیسے ہو؟''
''میں ٹھیک ہوں تم سناؤ؟''
''میں بھی ٹھیک ہوں۔ یار کوئی آئیڈیا دے کہ کیسے سوری کروں۔ تجھے تو پتہ ہے کہ آج تک ایسی نوبت نہیں آئی کہ یشب جہانگیر کسی لڑکی سے سوری کہے۔'' 
تقی ہنسنے لگااور بولا۔
''یار یہ تمہارا ذاتی مسئلہ ہے میں کیا بتا سکتا ہوں؟''
''یشب نے منہ بنایا اور بولا۔
''ہمممم اچھا۔''
''سنو؟" تقی نے کہا۔ ''تم اسکو پھول اور سوری کارڈ بھیج دو۔'' 

''کیا یہ صحیح ہوگا؟ میرا مطلب ہے کہ ہاسٹل میں تو اور بھی لڑکیاں ہوں گی۔۔۔۔۔ یہ نہیں صحیح لگ رہا۔''
''چلو جیسا تم بہتر سمجھو وہی کرو.'' تقی نے کہا اور فون کاٹ دیا۔
یشب کافی دیر سوچتا رہا لیکن اسے یہ آئیڈیا کسی صورت بھی مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ وہ نہیں  چاہتا تھا کہ عنایہ کسی مشکل سے دوچار ہو۔ وہ سوچتے سوچتے لیٹ گیا۔ صبح سے کھڑکی بھی بند تھی پتہ نہیں وہ ہاسٹل میں ہے بھی یا نہیں۔ تبھی اس کے سیل کی بیل بجی "زائیشہ کالنگ" لکھا آرہا تھا، اس نے کال پک کی۔
''ہیلو یشب خان! کہاں غائب ہو اتنے دنوں سے کوئی خیر خبر ہی نہیں ہے تمہاری؟''
''بس یار ادھر ہی ہوں۔''
''اچھا بتاؤ پارٹی کیسی رہی تم لوگوں کی؟''
''بہت اچھی۔''
''تمہارے لہجے سے تو کچھ اور ہی لگ رہا ہے یشب۔!''
''کچھ نہیں یار بس ذرا موڈ ٹھیک نہیں ہے، خیر تم کب آرہی ہو واپس؟''
''بس آچکی ہوں گھر۔ کل سے یونی آؤں گی۔''
""دیٹس گڈ، چلو کل ملتے ہیں۔ ﷲحافظ۔''
یشب نے کال کاٹ دی اور زائیشہ سوچنے لگی کہ اسے کیا ہو گیا یہ تو کبھی ایسے بات نہیں کرتا۔۔۔ کچھ دیر بعد خود سے کہنے لگی۔
''کوئی بات نہیں مجھے دیکھے گا تو ٹھیک ہوجائے گا۔''(اس نے آئینے میں دیکھتے ہوئے خود پر ایک ستائشی نظر ڈالی اور زیرِلب مسکرا دی۔)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
یشب آج جلدی اٹھ گیا تھا۔ اور فوراً تیار ہو کر نیچے آگیا۔ مسز جہانگیر لان میں مالی کو پودوں کو پانی دینے کی تاکید کرتی اندر آئیں تو یشب نے انکو گڈ مارننگ کہتے ہوئے گلے لگایا۔
''ماشاءاللہ آج میرا بیٹا جلدی اٹھ گیا۔۔ سب ٹھیک ہے نہ یشب؟''
''سب ٹھیک ہے! ماما یہاں آکر بیٹھیں مجھے کچھ بات کرنی ہے۔''
یشب چاہے جتنا بھی بگڑا ہوا کیوں نہ تھا لیکن اپنے ماں باپ کا لاڈلا تھا، اسکو کوئی اگنور نہ کرتا تھا۔ ہر بات کہنے سے پہلے پوری ہوتی تھی... رفعت نے بیٹھتے ہوئے رحیم بابا کو ناشتہ لانے کے لیے کہا اور یشب کی بات سننے لگیں۔
''کچھ خاص بات نہیں ہے مما۔
بس  یونی میں ایک لڑکی کو میں نے پہلے دن فولنگ کے چکر میں بہت تنگ کیا تھا۔''
''اچھا پھر؟''
''پھر کل پارٹی میں سب سٹوڈنٹس سے فولنگ کے لیے معذرت کی۔ اسے بھی کہا لیکن بعد میں اسے گانا سنانے کا بول دیا اور وہ ناراض ہوگئی۔''
''اووہ۔'' مسز جہانگیر کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔ ''اس میں کوئی بڑی بات نہیں بیٹا آپ جاؤ اور اسے اپنی بات کی وضاحت کردو۔''
''لیکن ماما وہ بہت غصے والی ہے پتہ نہیں میری بات سنے گی بھی یا نہیں۔''
''اچھا آپ ایسا کرو میری بات کروا دو اس سے، میں اس سے آپکی طرف سے بات کر لیتی ہوں۔''
''نہیں ماما میرے پاس اسکا نمبر نہیں  ہے اور میں خود دیکھ لیتا ہوں اس معاملے کو۔''
''چلو بیٹا آل دی بیسٹ، میرا دل کہہ رہا ہے کہ آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے اور وہ ضرور معاف کر دے گی۔''
''تھینک یو ماما'' یشب جلدی میں بریڈ پر مایونیز لگانے لگا۔
''آرام سے بیٹا، جلدی کس بات کی ہے ابھی تو آٹھ بجے ہیں اور یونی کی ٹائمنگ تو نو بجے ہے نا۔''
''ہاں ماما لیکن ذرا جلدی جا رہا ہوں آج، جا کر سوچوں گا کہ کیسے معافی مانگوں، پہلی بار کسی سے معافی مانگنے جا رہا ہوں۔''
رفعت مسکرائیں اور یشب بائیک سٹارٹ کر کے گھر سے نکل گیا۔
یشب یونی پہنچا تو تقی پہلے سے اسکا انتظار کر رہا تھا۔ تقی دل میں سوچ کر آیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح یشب کو عنایہ سے بات نہیں کرنے دے گا۔ اسے افسوس ہو رہا تھا کہ کاش وہ یشب کو بتاتا ہی نہیں کہ عنایہ پارٹی سے اس سے ناراض ہو کر گئی ہے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
یشب اور تقی گیٹ کے سامنے والے گراؤنڈ کے ایک بینچ پر جا بیٹھے۔ یشب عنایہ کا انتظار تو کر رہا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ سنے گی بھی یا نہیں۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ فرحین اور عنایہ گیٹ سے آتی دکھائی دیں۔ 
یشب فوراً ان کی طرف لپکا لیکن تقی وہیں مٹھیاں بھینچ کر بیٹھا رہا۔
"ہیلو عنایہ میں آپ سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتا ہوں پلیز دو منٹ میری بات سن لیں۔۔۔۔" یشب کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی عنایہ بولی۔
"دیکھیں مسٹر میں یہاں صرف پڑھنے آتی ہوں، آپ جیسے ایرے غیروں کی باتیں سننے نہیں۔ اور دوبارہ میرا پیچھا مت کریں۔ مجھ سے دور رہیں۔"
باقی لوگ بھی ان کی طرف ہی دیکھنے لگے تھے۔ یشب کا منہ احساسِ توہین سے سرخ ہو رہا تھا۔ اس کا دل کیا کہ فوراً یہاں سے غائب ہو جائے لیکن اب اسے بھی غصہ آچکا تھا۔
"ایکسکیوز می مس عنایہ؟ آپ نے خود کو سمجھ کیا رکھا ہے۔ میں آپ سے ارام سے بات کر رہا ہوں اور آپ کچھ بھی بولتی چلی جا رہی ہیں۔ یشب جہانگیر کو لڑکیوں کی کمی نہیں ہے۔ میں صرف آپ سے معذرت کرنا چاہتا تھا لیکن آپ نے تو حد کر دی۔ نا جانے کیا سمجھتی ہیں آپ خود کو۔"
عنایہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن فرحین نے روک دیا۔ یشب غصے سے عنایہ کو گھورتا وہاں سے چلا گیا۔ تقی یہ سب دیکھ کر مسکراتا ہوا عنایہ کے پاس آیا۔
"پھر سے ہنگامہ کھڑا کر دیا، ہمیشہ ایسا یہ کوئی سین کریئٹ کر دیتا ہے یہ۔ اس کی طرف سے سوری، یشب کافی ناسمجھ ہے کبھی کبھی ایسی حرکتیں کر دیتا ہے غصے میں۔ پلیز آپ اس سے دور رہیے گا ورنہ وہ پھر کچھ نہ کچھ الٹا کر دے گا۔"
فرحین بولی '' وہ تو سوری کرنے ہی آیا تھا مگر عنایہ نے اوور ری ایکٹ کیا ہے۔ غلطی عنایہ کی ہے۔'' 
تقی کو یہ سب سننے کی امید نہیں تھی اس لیے فوراً بولا۔
''ہاں سو تو ہے لیکن سب کے سامنے بے عزتی نہیں کرنی چاہیے تھی اسے، خیر عنایہ اس کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں۔''
''کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو بار بار اسکی طرف سے معافی مانگنے کی اور آپ کی معافی مانگنے سے میں اسے معاف کر دوں گی یہ آپ کی بھول ہے۔''عنایہ نے جواب دیا اور وہاں سے چلی گئی۔

آج صرف سر رضا کا لیکچر ہوا تھا جس کے بعد فرحین روما اور عنایہ کینٹین کی طرف چلی گئیں ۔ عنایہ کا بالکل بھی دل نہیں تھا۔ روما صبح کے واقعے سے بے خبر تھی۔ ان دونوں نے چائے کا آرڈر دیا لیکن آج عنایہ اپنے لیے کولڈ ڈرنک لینے خود کینٹین کی طرف بڑھی۔