تو ہی میری دعا|Tu He Meri Dua By Anaya Ahmed Qist Number 24



85 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


#تو_ہی_میری_دعا

#عنایہ احمد ✍
قسط24
ابان جو پاگلوں کی طرح اسکے پیچھے بھاگ رہا  تھا ۔ابھی اسنے ایک سیڑھی ہی چڑھی ہو گی کہ عین کنارے پہ اسکے پاوں پڑا وہ توازن نہ کھ پایا اور دیوار کی اس پار ان اونچے نیچے کھڈوں میں گر گیا تھا۔اسکا سر پتھر پہ لگا تھاکوئی نوکیلے چیز سر میں گھسنے کا احساس ہوا تھا ۔اسنے ہمت نہ ہارتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اٹھ نہ پایا تھا ۔خون کی دہار نکلی تھی اور وہ ہوش وخرد سے بیگانہ ہوتا چلا گیا تھا۔
عمارت کے پچھلا حصہ  آگ کی لپیٹ میں آیا تھا۔قربان شاہ بزدل تھا۔بزدل لوگ ایسےہی بھاگتے ہیں ۔وہ اس عمارت میں پناہ کی تلاش میں گیا تھا۔مگر خدا نے اسکی سزا کا انتظام کر رکھا تھا۔وہ وہاں جھلس کے مر گیا تھا۔گناہ کی دنیا کے ایک سردار کا آج خاتمہ ہو چکا تھا۔خدا نے کسی کے بھی ہاتھ اسکے گندے خون سے نہ رنگے تھے بلکہ وہ وہاں سسک سسک کے مر گیاتھا۔
ابان کی ٹیم کو بھی یہ لگا تھا کہ وہ اس عمارت میں ہے۔مگر خدا اپنے اچھے بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا انکی مدد کرتا ہے۔مشن رات تین بجے شروع ہوا تھا اور چند گھنٹوں میں مکمل ہو چکا تھا۔ابان کو ذرا ہوش آیا اور اسکے دماغ نے کام کرنا شروع کیا تھا تو وہ مشکل سے بھاگتا ہوا اس عمارت میں آیا تھا  تو ابان کو وہاں پا کے سب نھ جان میں جان آئی تھی۔اسکو فورا ریسکیو کیا گیا تھا۔وہ خطرے سے باہر تھا ۔سر پہ چوٹ کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوا تھا۔
اسکو قربان شاہ کی موت کا پتہ چلا گیا تھا۔
مشن کے کامیابی سے مکمل ہونے پہ سب اپنے خدا کے شکر گزار تھے۔مگر ابھی تو اور بہت سے قربان شاہ تھے ۔جن سے نمٹنا تھا۔ہمیں ان سے لڑنے کے لیے بہت سے ایس پی ابان جیسے مخلص اور پر عزم لوگوں کی ضرورت ہے۔ہمیں سر ابراہیم جیسی مخلص قیادت کی ضرورت ہے ۔جو ہر کام میں اپنے آفیسرز کو سپورٹ کریں ۔اور افراز جیسے لوگوں کی سپورٹ کی۔
➖➖➖➖➖➖➖
افراز نے پھر  اسے رانیہ کو یوں اس طرح بلانے کا آئیڈیا دیا تھا۔ساتھ ابان کا بھی کام نکل گیا تھا۔سو لگے ہاتھوں اس نے اسکے گن پوائنٹ والے چیلنج کو بھی پورا کر دیا تھا۔
“کیا حال کر لیا ہے رو رو کے اپنی آنکھوں کا۔”ابان نے اسکا چہرہ تھماتے ہوئے اسکی آنکھوں کو اپنے انگھوٹے سے چھوا تھا۔
“ابان ابھی ابھی آپ نے اس سے کیا کہا تھا۔اور کون تھا وہ ۔اور یہ لوگ کچھ بھی کہے بغیر کیسے چلے گئے۔”رانیہ کے دماغ میں کئے سوال تھے۔
“اوں ہوں ۔ابھی آپ صرف میری اور اپنی بات کریں ۔”ابان بد مزہ ہوا تھا۔
“ابان مجھے بتا رہے ہیں کہ میں خود جا کے پوچھ لوں ۔آخر چل کیا رہا تھا۔”رانیہ اب کے بری طرح چڑی تھی۔
“دوبارہ بلوا لیتا ہوں میں اب ۔کہ ڈاکو بھائی پھر آ جائیں ۔”ابان نے کہا تھا۔
“ابان ۔”رانیہ نے اپنے لہجے میں اسے کہا تھا۔
“اچھا بابا ۔سن لیں پھر ناراض مت ہونا ۔۔”ابان نے بات شروع کرنے سے پہلے اس سے کہا تھا۔رانیہ نے اسے گھورا تھا ۔تو ابان نے آنکھ دبائی۔
“خود ہی آپ نے چیلنج کیا تھا ۔اور پھر مجھے بھی لگا کہ اگر اپنی بات کا جواب مجھے چاہیے تو گن پوائنٹ پہ ہی مل سکتا ہے۔کیونکہ میری رانیہ ذرا الگ کیس ہیں سب سے۔”ابان نے پر شوق نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
“جواب چاہیے تھا ناں آپکو ۔تو یہ سب کیوں کیا آپ نے پتہ ہےآپ کو کھونے کا ڈر میرے لیے کتنا جان لیوا تھا۔
پچھلے کچھ گھنٹے سے میری جان سولی پہ لٹکی ہوئی تھی ابان ۔”رانیہ نے اسکی شرٹ کا کالر پکڑتے ہوئے غصے سے کہا تھا۔
“ایم سوری رانیہ۔ مائے لو۔”ابان نے اسکی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
“ابان ۔ابان میں آپ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں۔آئندہ ایسے کچھ بھی کیا تو مجھ سے برا کوئی بھی نہیں ہو گا۔”رانیہ نے اسے وارن کیا تھا۔
“پرامس ۔لیکن اگر مجھے تنگ کیا تو میں کوئی گارنٹی نہین دے سکتا ہوں۔”ابان نے اسکو سامنے کرتے ہوئے کہا تھا۔
“مجھے اب گھر جانا ہے۔”رانیہ نے اسکی طرف سے منہ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
“آپ کو آپ کے گھر ہی لے کے جانے والا ہوں میں ۔بس آپ غصہ تو کم کریں ۔”ابان کو پتہ چل گیا تھا کہ وہ ناراض ہو گئی ہے۔کیونکہ اسنے منہ پھیر لیا تھا۔ناراض ہونا بھی بنتا تھا اسکا ویسے۔
“مجھے کسی سے بھی ناراض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”رانیہ نے پھولےپھولے منہ سے کہا ۔
“اس کسی کو آپ نے کچھ ٹائم پہلے دھڑلے سے آئی لو یو بولا تھا۔”ابان نے اسکی طرف دلچسپی سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
“ہاں تو ریکارڈ کر لیتے ناں ۔اچھی بلیک میلنگ ہاتھ آ گئی ہے ۔اب ہر بات پہ آپ اس بات کو بیچ میں لایا کریں گے۔”رانیہ نے غصے سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
“اوئے میری تیکھی مرچی ۔کیوں غصہ کر رہی ہیں ۔اپنی شوہر کو ہی بولا تھا۔۔”ابان نے اسکے غصے سے لال ہوتے چہرے کو دیکھ کے کہا تھا۔

“کبھی کہتے ہیں ۔شیرنی ،سٹورٹ ،اور اب یہ تیکھی مرچی ۔۔۔”رانیہ نے ہاتھ اسکو گھورتے ہوئے کہا تھا۔
“ساتھ میری بھی لگا لیں ناں ۔”ابان نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا تھا۔اور اسکی ناک دبائی تھی۔
“کیونکہ آپ میرے لیے سب کچھ ہیں ۔میری شیرنی بھی۔میری تیکھی مرچی ۔مائے لٹل سٹورٹ ۔مائے لو ۔مائے گرل۔یو آر مائے سن شائن ۔پریٹی سن شائن ۔”ابان نے اپنے سر اسکے سر سے ٹکراتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا تھا۔
“مجھے گھر جانا ہے۔”رانیہ نے پھر اپنی بات دہرائی۔
“یار ادھر میں ذرا کوئی اپنے دل کا بات شروع کروں ادھر آپکو کوئی ناں کوئی دوسری بات سوجھ جاتی ہے۔”ابان چڑا تھا۔
“سب گھر ویٹ کر رہیں ہوں گے ۔میں کسی کو کچھ بتا کے بھی نہین آئی۔آپ کے اس پلان کی وجہ سے۔”اسنے ابان کو گھورا تھا آخری بات سن کے۔تو ابان ہنس پڑا تھا۔
“پہلی بات یہ کہ میں آپکو بتا دوں کہ میرا مشن الحمداللّٰہ کامیاب ہو چکا ہے۔دوسری بات آپ آج گھر جا رہیں ہیں میرے اور اپنے گھر ۔مطلب ہمارے گھر۔
میں ممانی کو کال کر کے بتا دوں گا۔”ابان نے اسے کہا تھا اور چئیر سے اپنی جیکٹ اٹھائی تھی اور گاڑی کو چابی نکالی تھی۔
“مگر ابان میں کسی کو بتایا بھی نہیں۔”رانیہ نے اپنے اس بگڑے ہوئے شوہر کو دیکھ کے کہا تھا۔
“نو اگر مگر ۔چلیں یا اٹھا کے گاڑی تک لے کے جاوں ۔”ابان نے اسکو ساتھ لگاتے ہوئے کہا تھا۔رانیہ نے اسکو گھورا اور ہٹی تھی۔
“کبھی پیار بھری نظروں سے بھی دیکھ لیا کریں ۔ہر ٹائم گھورتی رہتی ہیں ۔”ابان نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا۔
وہ چپ چاپ چلتی رہی تھی۔ابان گیٹ سے نکلا تھا پاس سے گزرتے ہوئے افراز پہ نظر پڑی تو رانیہ نے کہا تھا۔
“افراز بھائی آپکی تو خیر نہیں ہے۔”ابان نے سن کے قہقہہ لگایا تھا۔
“اف اف آج تو مسز ابان آتش فشاں بنی ہوئی ہیں ۔”ابان نے رانیہ کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا وہ اندر بیٹھ گئی تو ابان نے کہا تھا۔
“اور اگر یہ آتش فشاں پھٹ گیا تو اچھا نہیں ہو گا۔”رانیہ نے اسکو گھورتے کہا  تھا۔ابان نے ادھر ادھر دیکھا تھا کوئی بھی متوجہ نہ تھا۔وہ اسکی پیشانی پہ جھکا تھا۔اور اسکی پیشانی کو چھوا تھا۔رانیہ کی بولتی بند ہو گئی تھی۔
“میں دو منٹ میں آتا ہوں ۔پھر اپنے آتش فشاں کی ساری شکایتیں دور کرتا ہوں ۔”وہ اسکے لرزتے ہوئی پلکوں کو دیکھتے ہوئے ہلکی آواز میں بولا تھا۔
وہ افراز اور سر ابراہیم کی طرف بڑھا تھا۔اور اس سے کیس پہ بات کر کے نکل آیا تھا۔صبح کا سب کام تو ہو چکا تھا۔
“بھابھی کا موڈ کیسا ہے۔”افراز نے ابان سے پوچھا تھا۔
“تیری تو خیر نہیں بچوں ۔”ابان نے اسکو ڈرایا۔
“پلان چاہے میرے تھا مگر کام تو تیرا نکلا ہے ناں ۔”افراز نے کہا تھا اسکو گھور کے۔ابان کو خوش دیکھ کے وہ بھی بہت خوش تھا۔ابھی چند گھنٹے پہلے تو ابان نے اسکی جان نکال دی تھی
➖➖➖➖➖➖➖
کچھ ہی دیر میں وہ اسے گھر لے آیا تھا۔سب اسے دیکھ کے خوش ہوئے تھے۔ابان کا تو پوچھے مت خوشی سے کیا حال تھا۔ابان کے ماتھے پہ پٹی اور زخم دیکھ کے تانیہ بیگم کا دل لرز گیا تھا۔مشن کا تو وہ اسے بتا چکا تھا کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہا ہے۔
“رانیہ جاو چندہ کمرے میں جاو ۔ابان تم بھی چینج کرو۔اور ریسٹ کروں ۔اور تم بھی جاو۔میں ابھی نوافل پڑھ کے آتی ہوں۔ردا تم کچھ کھانے کے لیے بنوا دوں۔”تانیہ نے دونوں کو پیار کرتے ہوئے ردا کو بھی کہا ۔
وہ دونوں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔ابان آ کے بیڈ پہ بیٹھا تھا۔اور اپنی جیکٹ اتری۔رانیہ کی نظر پڑی تو اسکی آنکھوں کے سامنے کچھ ماہ پہلے والا منظر دوڑ گیا تھا۔آج بھی وائٹ شرٹ ہی تھی۔اور کندھے پہ خون کاداغ لگا ہوا تھا۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اسکے پاس آ کے بیٹھی تھی۔اور بے اختیار اسکا ہاتھ اسکے کندھے پہ چلا گیا تھا۔ساتھ ہی آنکھ سے آنسو گرے تھے۔ابان نے اسکو روتا دیکھ کے اسکی طرف مڑا تھا۔
“رانیہ میں ٹھیک ہوں بلکل ۔مجھے ایک بہادر رانیہ چاہیے اپنی بیوی کے روپ میں بھی ۔جو یوں چھوٹی چھوٹی چوٹیں دیکھ کے روئے نہیں ۔بلکہ ہر مشن میں میری تیاری میں میرے ساتھ ہو مجھے اپنی دعاوں کے سایے تلے رخصت کرے۔اپنے ہنستے ہوئے چہرےکے ساتھ روانہ کرے۔میرے حوصلے بلند کرے۔میری ہمت بنی رہے ۔”ابان نے اسکے چہرے سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔وہ ااسکی بات سمجھتے ہوئے۔سر ہلا گئی تھی۔رانیہ کو پتہ تھا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے مگر اسے اپنے شوہر کا ساتھ دینا تھا اس کام میں۔اور وہ اسکا ساتھ دینے کا ارادہ باندھ چکی تھی۔کیونکہ ابان کے عزم ،ارادے اور جذبے سچے اور کھرے تھے۔
“ابان آپکو یاد ہے آپکو کچھ ماہ پہلے بھی جب گولی لگی تھی۔”اسنے ابان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
“تب آپ پہلی دفعہ میری قریب آئیں تھیں ۔میرے دل کے۔مجھے آپ کے ہونے کا احساس تب ہوا تھا۔آپ کی فکر اور کئیر نے مجھے آپ کے وجود کا عادی بنا دیا تھا۔”ابان نے اسکے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا تھا۔وہ روتے ہوئے ہنس دی تھی۔اور ابان اس جھلی کے روپ میں کھو گیا تھا۔
“رانیہ میں آج آپ کے ساتھ اپنے دل کی ہر بات شئیر کرنا چاہتا ہوں ۔آپ کے بغیر رہنا ابھی مشکل ہی نہیں ناممکن لگنے لگ گیا ہے۔”ابان الگ ہی دنیا میں تھا۔
“چلیں جائیں چینج کر یں پہلے بہت تھک گئے ہیں ۔میں آپ کے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں۔پھر آپ جتنی چاہے باتیں کر لیجئے گا۔”رانیہ نے اسکو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
ابان اسکی گال سے گال رگڑتے اٹھا گیا تھا۔
رانیہ نے اسکے کپڑے نکال کر رکھ دئیے تھے۔وہ فریش ہو کے آیا تو رانیہ کھانا لا چکی تھی۔کھانا کھا کے ابان بیڈ پہ لیٹ گیا تھا۔ہاتھ بڑھا کے رانیہ کو بھی ساتھ بیٹھایا تھا۔اور اسکی گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا تھا۔وہ اسکے بالوں میں ہاتھ چلانےلگ گئی تھی۔ابان کافی دنوں سے جاگا ہوا تھا۔ابھی تھکن سے برا حال تھا ۔کچھ اسکا دماغ ریلکس تھا ۔اور رانیہ بھی اسکے پاس تھی۔وہ رانیہ سے باتیں کرتے ہوئے نیند کی وادی میں اتر گیا تھا۔۔