توہی عشق توہی جنون|Tu Hi Ishq Tu Hi Junoon By Sahiba Firdous Episode 15



131 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


#توہی_عشق_توہی_جنون

#صاحبہ_فردوس

#قسط15سیکنڈلاسٹ
اس کے بعد عمائمہ  نے ایسے بیماری کا بہانہ بنا یا کے کسی نے ان پر لندن جانے کے لیے زور نہیں    دیا تھا   صبح کے بارہ  بجے  کا وقت تھا وہ راہداری  عبور  کرتے ہوئے باہر نکل رہی تھی تبھی وہ  اس کی راہ میں  حاہل ہو گیااور دھیرے سے بولا۔
"کہاجارہی ہو تم ؟"
" اب کیا تم  میرے ہر چیز کا حساب رکھوگے ؟" عمائمہ کا   جواب سن  کروہ غصے میں آچکاتھا ۔
"ہاں  ایک شوہر ہونے کے ناطے مجھے تمہاری ہر چیز  کا حساب رکھنا ضروری ہے اگر  ہرشوہر آنکھیں بند کرکے اپنی بیوی پر اندھااعتماد کرنے لگے تو  پھر بیویاں اسکا نا جائز  فائدہ اٹھاتی ہے جیسے کے تم نے اٹھایا تھا"۔آخر میں  اس نے عمائمہ پر چوٹ  کرتے ہوئےکہا ۔
"مجھے تمہارے منہ نہیں لگنا  ہے  میرا راستہ چھوڑو"۔عمائمہ کی بات سن کر وہ مسکراتے ہوئے قریب آگیااور دھیرے سے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا ۔
"تمہارا راستہ  چھوڑ دوگا تو  تم  بھاگ جاؤ گی   "۔اس کی بات سن کر عمائمہ کی آنکھیں  غصے سے سرخ  ہوچکی تھی وہ ارشمیل  کو پیچھے  ڈھکیلتے   ہوئے بولی ۔
"مجھے اس بارے میں اور  کوئی بات نہیں کرناہے اچھاہوگاکےتم بھی اس بات کو بھول جاؤ"۔
وہ دوبارہ اس کے قریب آیااوراس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتےہوئے بولا ۔
"اب تم اپنی آزادی بھول جاؤ  کیونکہ   میں تمہیں کہی پر بھی تنہا  نہیں جانے دےسکتا ہو آج سے تم جہاں بھی  جاؤگی میں سایے  کی طرح  تمہارے ساتھ رہوگا چلوں ا  بھی   میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہو "۔اس کی بات  سن کر عمائمہ   سخت لہجے میں بولی ۔
"میں پاگل خانے جا رہی ہو ایڈمٹ  ہو نے کیا تم چلو ں گے میرے ساتھ ؟"اس کا لہجہ ایسا تھا کے ناچاہتے ہوئے بھی ارشمیل کو ہنسی آگئی تھی  ۔
"ٹھیک ہے چلوں "۔اسے اپنے ساتھ چلنا پر پر تو ل  ہوتا دیکھ کر  عمائمہ  نے اپناسر تھا م لیا جھنجھلاہٹ  سے بولی ۔
"مجھے کئی   نہیں جانا ہے تم ہی چلے جاؤ "۔اتنا کہے کر وہ اندار کی جانب بڑھنے لگی تو ارشمیل  دوبارہ اس کی راہ میں حاہل  ہوتے ہوئے  بولا ۔
"اگر تم اکیلی گھرسےباہر نکلی تواپنے آگے کاانجام  سوچ  کر ہی نکلناسوچ لینا کے آگے تمہارے ساتھ کیا کیا حادثات   پیش آسکتے ہے  باقی تم  خود ہی سمجھدار  ہو "۔اس کی بات سن کر عمائمہ   حیدرتحقیر بھری  نظروں سے اس کی پُشت  کو  گھورتے رہ گئی تھی   وہ جانتی تھی کےاسکے  زیادہ ضد  کرنے کا انجام  بہت برا ہوسکتا ہے اس لیے وہ خاموشی سے واپس پلٹ  گئی ارشمیل اس کا خود  سے ڈرا  ہوا  چہرہ   دیکھ کر  مسکراتے ہوئے آفس کے لیے نکل گیا ۔
٭٭٭
شام کاوقت تھا جب وہ عدینہ اور شہلا بیگم کے ساتھ بیٹھی  گرماگرم  کافی کا لُطف  اٹھارہی تھی 
تبھی عدینہ کچھ سوچتے ہوئے بولی ۔
"آپی  کتنا عرصہ ہو چکا  ہے میں نے ہمارا گھر نہیں دیکھا  پتا نہیں آج کل  مجھے ہمارے گھر کی بہت یاد آرہی ہے کیوں نا ہم لوگ کل   اپنے گھر چلے "۔اس کی بات سن کر   عمائمہ   کے ہاتھ سے کافی کا مگ  گرتے گرتے  بچا تھا  وہ  اپنی گھبراہٹ  کو چپاتے ہوئے  بولی ۔
"ہاتھ  عدی بہت عرصہ ہو چکا ہے  تمہیں ہمارا گھر دیکھے ہوئے مگر ہم  وہاں  کل نہیں جا سکتے کیونکہ وہاں   کافی صاف صفائی کروانے کی ضرورت ہے اور میں  تمہیں اس حالت میں   وہاں  نہیں لے جاسکتی ہو "۔اس نے عدینہ کو بہلانے کے لیے  ٹال دیا تبھی اس کی بات سے شہلا بیگم  متفق  ہوتے ہوئے بولے ۔
"ہاں  عدینہ میں بھی عمائمہ کی بات سے اتفاق کرتی  ہو   تم کو وہاں اس حالت میں   نہیں جانا       چاہئے"۔شہلابیگم کی بات سن کر عدینہ اپنا سا منہ لے کررہ گئی عمائمہ نے  شہلا بیگم   کومسکرا تے ہوئے دیکھا جو سگی  ماں  کی طر ح عدینہ کااوراس کا    خیال   رکھتے  تھے جنھوں  نے کبھی   بھی ان دونوں  کو    احسا  س   نہیں  ہونے دیاتھا کے وہ ان  ساس   ہے بلکہ انھوں  نے ہمیشہ   یہ احسا  س  دلایا تھا  کے وہ ان کی    ساس نہیں ماں  ہے اس لیے تو وہ دونوں بھی شہلا  بیگم کو  ماں   کی طرح  سمجھتے  تھے اور ان سے ہربات بنا جھجکے شیئر  کرتے اور ان کی ہر بات کواہمیت دیتے   تھے شہلا بیگم ان دونوں  کو اپنے زمانے کے قصے  سنا رہے تھے اور وہ   دونوں  بھی محویت   سے ان  کی باتیں  سننے میں  مشغُول  تھے تبھی    وقار صاحب  ،احد اور ارشمیل  آفس  سے واپس آئے تھے عمائمہ  اور عدینہ  نے وقار صاحب کو دیکھااور ایک ساتھ سلا م  کیا ۔
"اسلام علیکم ڈیڈ "۔ان دونوں کے سلام کرنے پر وقار صاحب نے  خوش دلی سے ان کے سلا م  کا  جواب دیے اور وہی صوفے پربیٹھ گے احداور ارشمیل  بھی وہی  جم گےتھے  تبھی احد نے مسکراتے ہوئے شہلابیگم سے استفسار کیا ۔
"کیوں مام آپ   ساس بہوئیں  ہمارے آنے سے پہلے کیاباتیں کررہ تھے "۔ان کی بات سن کر  شہلا بیگم ہنستے ہو ئے بولے ۔
"بس بیٹااب کیا بتاؤ تمہاری   بیوی  اپنے گھر  جانے کی  ضد کررہی تھی  "۔بظاہر شہلا بیگم نے شرارت سے کہا تھا مگر احد اپنی جگہ حیرت  سے اچھل پڑا ۔
"عدینہ کیا مجھ سے کوئی غلطی  سر زرد  ہوگئی ہے جو تم مجھے چھوڑ کر جارہی ہو "۔احد بھی بہت  بڑا ڈرامے باز تھا   وہ جان گیا تھا کے شہلا بیگم مذاق کررہ ہے لہذا وہ بھی  شرارت سے بولا تھا ۔
"ہاں میں گھر جانا چاہتی ہو لیکن آپی مجھے نہیں جانے دے رہی ہے "۔احد اور عدینہ کی باتوں سے  شہلا بیگم   اور  وقار صاحب  محظُوظ ہوتے رہ   اور  وہ ارشمیل کو دیکھ رہی تھی جس کواس سارے ماحول سے کوئی سروکار نہیں  تھاوہ تو اپنے موبائیل  میں  گھسا  ہوا تھا   ان  سب  نے بہت خوش گوار ماحول میں   کھانا کھایا تھا  سوائے ارشمیل کو چھوڑ کر سب نے اسے کھانا کھانے کے لیے بہت اصرار کیا تھا مگراس نے انکار کردیااور اپنے روم میں چلا گیا   عمائمہ  کافی دیر بعد  سب کے بیچ  سے فارغ ہوکر  اپنے روم میں واپس آئی تو دیکھا وہ بیڈ پر اپنے منہ  تک چادر تانے  سو رہا تھا اسے اس طرح  سے دیکھ کر عمائمہ کو بہت حیرت ہوئی تھی  مگر اس نے  تھوڑاسا بھی  جاننے کی کوشش نہیں کی تھی کے اسے کیا ہوا ہے وہ تو عدینہ کے مطالبہ پر اپنی  جگہ  کھولی  بیٹھی تھی اسے نہیں پتا تھا کے اس کے بنا سوچے سمجھے کیے ہوئے فیصلے سے آگے چل کر اس ہی کے لیے پریشانی  کھڑی ہو سکتی  تھی  اس بار تواس نے عدینہ کو سنبھال لیا تھا مگر آگے  کیسے سنبھالےگی  اس کے یہ قطعی    سمجھ   نہیں  آرہا تھاایک  سوچ کے ساتھ کئی   ساری سوچیں  جنم لینے لگی   کئی دیرتک لامتانی  سوچوں کا سلسلہ جارہی رہا تھا  تبھی اس کا اس  کشادہ  سے روم میں  دم گھُٹنےلگا تھااس  لیے وہ خود پر   شال  لپٹتے  ہوئے با ہر  نکلنے لگی تھی کے اس کی نظر بیڈ سائیڈکے ٹیبل پرپڑے اپنے موبائیل پر گئی تو وہ موبائیل لینے  کے لیے  بیڈ کے قریب  آگئی  اس نے اپنا موبائیل  اٹھایااور وہاں سے جانا چا ہا تھا مگر بیڈ پر  سوئے ارشمیل نے سُرعَت   سے اس کا ہاتھ تھا م لیا  ارشمیل کے دہکتے ہوئے ہاتھ میں اپنا ہاتھ   دیکھ کر  وہ پہلے تو  گھبرا گئی تھی پھراسے کھا جانے والی  نظروں سے دیکھنے لگی  تبھی ارشمیل  اس کی  غصے سے لال ہوتی  ہوئی   نظروں  کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا ۔
"کئی دوبارہ رات کے اندھیرے میں فرار ہونے کا تو نہیں سوچ رہی ہو تم ؟"
"مسٹر ارشمیل  یزدانی آپ بے فکر ہو کر سو جائے میں کئی نہیں بھاگ رہی ہو اور اگر بھاگ بھی گئی تو آپ ہےنا آپ تو مجھے دنیا کے کسی بھی کونے سے ڈھونڈ کر لا نے کی طاقت اپنے پاس  محفوظ رکھتے ہے "۔اس کی بات سن کرناچاہتے ہوئے بھی ارشمیل کے لبوں پر مسکراہٹ  آگئی تھی  مگر سخت  بخار کے باعث   اس  کا نکھرا ہوا چہرہ مرجھاکرسر خ ہورہاتھاعمائمہ نےایک نظر اس کے چہرے پرڈالا پھراسکےچہرے سے نظریں  چراتے  ہو ئے اپنا ہاتھ چھڑانےکی خاطر بولی ۔
"اب تو یقین کر ےکے میں کئی نہیں جارہی ہو  "۔
"کیسے کر لو  تم نے تو مجھے یقین  دلانے کے  لیےایسا کچھ کیا ہی نہیں جس  سے میں  تمہاری بات پر ایمان لے آؤ "۔اس کی بات سن کر عمائمہ کاغصے ساتویں آسمان  پر پہنچ گیا تھا مگراس نے ارشمیل کی بیماری کو  مدےنظر  رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی بد مزگی  نا پیدا  کرتے ہوئے دھیرے سے بولی ۔
"پلیز میرا ہاتھ چھوڑوں تمہارے بخار کی تپش  کی وجہ سے میرا ہاتھ بھی جل  رہا ہے "۔
اس کی بات سن کر ارشمیل نے اس کا ہاتھ چھوڑنے پر آمادہ  ہوتے ہوئے بولا ۔
"چھوڑ دوگا مگر پہلے تم میرا سر دبا دوقسم سے      بہت درد  کررہا ہے"۔اس کی  بات سن کر  عمائمہ نے ایک جست سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں سے نکال لیااور پھنکارتے ہوئے بولی۔
"میں کیوں تمہارے کام کرو؟کیا میں  تمہاری  ملازمہ ہو ؟؟"ارشمیل کو اس  سے اس قدر جواب کی  امید  نہیں تھی تبھی تواس نے عمائمہ سے دوبارہ سردبانے کی فرمائش نہیں کیا تھا   آج  عمائمہ نے بے حسی کی ساری   حدیں پار کردی تھی کچھ دیر پہلے اسکا جو باہر جانے کااردہ تھااس نے ترک کردیااور کاؤچ پرجاکرکروٹ لے کر سو گئی اس نے یہ بھی سوچنے کی  زحمت نہیں کی تھی کے اس کی بیماری میں ارشمیل نے کس  طرح رات بھر جاگ کر اس کی دیکھ بھا ل کیا تھا کس قدر  اسے  دلاسے دیتا رہا تھا مانا کے اس نے عمائمہ کے ساتھ بہت کچھ غلط کیا تھا جواسے نہیں کرنا چاہئے تھامگراس نے کچھ اچھے بھی کام کیے تھے جسے  عمائمہ کو قطعی فراموش نہیں کرنا چاہئے تھا وہ  مزے سے خواب  خرگوش کی نیند لے  رہی تھی تبھی اسے بہت ہی بھیانک   خواب دیکھا تھا جس کے زیِرے اثر وہ اپنی جگہ گھبراکراٹھ  بیٹھی    پھراس کی نظرارشمیل پرپڑی جو  بخاراور شدیدسر کے درد کی وجہ سے سو نہیں پارہاتھااپنی جگہ بےچینی  سے کروٹ پر کروٹ بدل رہاتھا  عمائمہ  سے اس کی ایسی حالت دیکھے  نہیں گئی تھی اس لیے وہ اپنے جگہ سے اٹھی  اور اس کے بیڈ کے پاس چلی آئی   پھراس نے سائیڈ ٹیبل سے دوائیوں سے بھرا 
باکس نکالا اوراس  میں سے بخار کی گولی   نکال کراپنی ہتھیلی   پررکھ لیاپھرایک گلاس میں پانی نکالا اور اس کے بعد ارشمیل کو آواز دیتے ہوئے بولی ۔
"ارشمیل ۔۔۔۔ارشمیل " ارشمیل  جو بخارکے باعث سو نہیں پارہاتھا اس نےعمائمہ کی  آواز پر آنکھیں  کھول لیااوراسےسوالیہ نظروں سے دیکھنےلگاعمائمہ اس کے سرخ  چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے بولی۔
"یہ دوائی لے لو اس سے تمہارا بخار کم ہو جائے گا "۔ارشمیل کو اس کی بے حسی  پر بہت تاؤ آرہا تھا اس لیے اس نے عمائمہ کا ہاتھ جھٹک  دیا جس سےگولی زمین پر گر گئی  تھی۔
"مجھے تمہاری عنایت کی کو ئی  ضرورت نہیں ہے میں جس بھی حال میں  ہو مجھے رہنے دو تم جاؤ جاکر اپنی نیند پوری کر ؤ "۔اس کی بات سن کر عمائمہ غصے سے دھاڑتے ہوئے بولی ۔
"مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمہاری خدمت کرنے کا وہ تو  بس  تمہیں دیکھ کر انسانی ہمدری  کا جذبہ  جاگ گیاتھااس لیے ورنہ میری بلا سے تم کل کے  مرتے آج مرؤ نا  مجھے کوئی فرق نہیں پڑھتا  ہے  "۔بڑی سفاکی سے کہتے ہوئے وہ اپنی جگہ واپس چلی گئی اور ارشمیل اس کے روایے کودیکھ کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوچکا تھا ۔
صبح ہوتے ہی سب  کو ملازم کی معرفت  سے ارشمیل کی طبیعت  خرابی کا پتا لگاتو وہ  سب گھبرا گے تھے سبھی دوڑتے ہوئے روم میں آئے اورعمائمہ سے ارشمیل کاحال دریافت کرنے لگے تھے عمائمہ نے بھی  کہہ  دیا تھا کے خراب موسم کی وجہ  سے وہ بیمارہوا ہے پھر احد نے فوراً ڈاکٹر کو  کال  کرکے بلالیا دوائی انجکشن  لینے کے بعد  ارشمیل کو بہتر محسوس ہوا تو وہ آفس  جانے کے لیے تیار ہونے لگا عمائمہ اسے تیار ہوتادیکھتی رہ گئی تھی اس نے اسے روکنے کی کوشش نہیں 
کیاتھا  ارشمیل نے بھی اسے ایسے نظر انداز کیا تھا  کے وہ روم میں موجود  ہی نہیں   ہے کل رات عمائمہ کے روایے کی وجہ سے وہ بہت دل برداشتہ ہوا  تھااسے نہیں پتاتھا کے عمائمہ اس  سے اس درجہ تک نفرت کرتی ہےکہ اسے بیماری میں بھی بخشنےکےلیےتیارنہیں تھی  وہ تیار ہوکر لاونج  میں آیا توشہلابیگم نے  اسے ٹوکتے ہوئے کہا 
"ارشمیل بیٹا کہا جارہ ہو   ابھی ابھی تو تمہارا بخار کم ہوا ہے "۔
"مام آپ کو تو پتا ہی ہے میراآفس جانا کتنا ضرری ہے ایک دن  نہیں گیا تو کتنا نقصان  ہوسکتا ہے "۔وہ سچ کہے رہاتھا پچھلے دو تین   سالوں  سے آفس کے ہراہم اموار  وہ ہی سنبھالتاآرہا تھااس  لیے اس کا آفس جانا بہت ضرور  تھا  ۔
"مگر بیٹا تم ایک دن نہیں  گے تو ایسی  کو قیامت نہیں آجائے گی  عمائمہ تم ہی کچھ سمجھا "۔اب کے شہلا بیگم نے  ارشمیل کے  پیچھے آتی ہوئی عمائمہ کواسے  روکنے کی ذمے دار ی  دیے تھے وہ ان کی بات سن کر  بولی ۔
"میں نے تو بہت کہامگر یہ سننے کے لیے تیار نہیں ہے "۔یہاں بھی عمائمہ نے جھوٹ کا سہارا لیا تھا  ارشمیل اس کے جھوٹ بولنے پر اسے دیکھتے ہی رہ  گیاتھا کیا ہوتا وہ ایک با رجھوٹے منہ ہی سہی اسے روکنے کا  کہتی مگر نہیں اس نے ایک بھی بار ارشمیل کو روکنے کی کوشش نہیں کیا تھا 
ارشمیل کاٹ دار نظراس کے وجود پر ڈال  کر چلا گیا تھا۔
٭٭٭
ارشمیل  شام میں گھر واپس آیا تو کا فی تھکا تھکا  لگ رہا اس پرعمائمہ  کا خود سے بیزار  چہرہ دیکھ  کر اس کی تھکن  مزید بڑھ گئی  تھی   اس  نے عمائمہ کو مخاتب  نہیں  کیا تھا  اپناکوٹ دور اچھال دیا اور شوز سمیت    ہی  بیڈ پرجاکر لیٹ گیااس کا سرابھی بھی  بہت درد کررہا تھا  ایک پل کے لیے اس کا دل چاہا کے وہ  عمائمہ سے اپنا سر  دبانے  کا کہہ مگرکل رات  کاسین اس کے ذہن  کی اسکرین پر چلا آیا تو  اس نے  اپنے دل کی خواہش دل میں ہی دبا دیا  اور ملازم  کو انٹر کام   پر کافی  لانے کا حکم دے دیا  ملازم نے جلدی  سے اس کے لیے کافی لے آیا تھا کافی پی کر کچھ دیر آرام کرنے کے بعداس نے بہترمحسوس کیاتو وہ   اپنی جگہ سے اٹھ گیا  پھراپناسفری  بیگ نکال کر اس  میں اپنے کپڑے اور ضرورت کاسامان بھرنے لگا  عمائمہ جو خود کواس سے انجان ظاہر کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھی  اپنے نیلس   کو شیپ  میں  کررہی تھی  اورساتھ ہی ساتھ  چپکے  سے اس کی کار کردگی بھی دیکھ رہی تھی ارشمیل کو  شاید کئی جانے کی جلدی  تھی اس لیےوہ جلدی جلدی اپناسامان پیک کررہاتھااپناسامان پیک کرنےکےبعداس نے ملازم کو بلا کر اپنا بیک کار میں رکھنے کی  ہدایت   دیتے  ہوئے خود واش روم  میں  گھس گیا نہا کر وہ  واپس آیا تو وائٹ کلر کے شرٹ میں تھا شرٹ کے بٹن   کھولے تھے یہ دیکھ کر عمائمہ نے اپنی نظریں پھیر لی تھی  وہ اب آئینے کے سامنے کھڑا اپنے شرٹ کے بٹن لگارہا تھا  اس کے بعد اس نے شرٹینگ کیااور ٹائے
باندھنے کے بعد  اپنے شرٹ کا کالردرست کیاتو عمائمہ کی نظراس کی گردن  پر پڑ جس پراس کےنام ٹیٹو بنا ہوا تھا  وہ یہ دیکھ کر  سچ میں بہت حیران رہ گئی تھی اس کے ہاتھ نیل کٹر چھوٹ کر زمین  پر گر پڑا تھا کٹر گرنے کی آواز پر ارشمیل نے ایک نظراس پر ڈالا اس کی نظریں خود پر موجو د پاکر عمائمہ سٹپٹا  گئی تھی  اس نے جلدی سے نیل کٹر اٹھایااور    اسے دیکھانے کے لیے اپنے کام میں مصروف  ہوگی  اس کی  سمجھ نہیں آرہا تھا کے ارشمیل نے یہ سب کب کیا تھااور کیوں  کیا تھاوہ تواس سے اتنی  نفرت کرتا تھا کے اس نے پہلے  I hate umaima کا ٹیٹواپنی گردن پربناتھا پھر اب یہ سب کرکے کیاثابت کرناچاہ رہاتھا کیاوہ سچ میں اس سے محبت کرنے لگا تھاعمائمہ کا دل اور دماغ اس ہی کشمکش میں الجھا ہوا تھا  کے تبھی اس  نے یہ نہیں دیکھا کے اس نے  اپنےایک انگلی  کے  ناخون کو بہت   زیادہ کا ٹ  لیا ہے جس سے اس کی انگلی سے بہت زیادہ خون نکل رہاتھا احساس تو تب ہوا جب ارشمیل اس  کے پاس آیااور اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوئے بولا ۔
"یہ کیا کر دیا تم نے اس میں سے تو  خون بہے رہا ہے "۔اس کی بات سن کر   عمائمہ کی نظر اپنے ہاتھ سے بہتے ہوئے خو ن  پر پڑی  تو اس کے آنسوں نکل آئے وہ روتے ہوئےارشمیل   کے سینے سے  جا لگی کچھ دیر بعد اسے احساس ہواکے وہ اس کے بہت قریب ہے تووہ اس سے الگ ہوئی اور ارشمیل کو دیکھنے لگی  کل  رات اس نے جو کچھ بھی ارشمیل   کے ساتھ کیا تھا   اس کے بعد توارشمیل  کو اس سے بدلہ  لینےکا پورا موقع  مل گیا تھامگر اس نے ایسا نہیں کیاتھا   بلکہ وہ   عمائمہ کے ہاتھ پر مرہم پٹی  کرنے لگا  اس نے عمائمہ کے ہاتھ پر بینڈیج  لگادیااور وہاں سے چلا گیا  عمائمہ اپنی  بے خودی پر حیران ہوتے رہ گئی   تھی  وہ دوبارہ ارشمیل کو دیکھنے لگی تھی وہ اب جانے کے لیے  پوری طرح سے تیار  ہوچکا تھااس نے اپنا کوٹ پہنا  خود پر پر فیوم  اسپرے کیا 
اور وہاں سے چلا گیا وہ اسے جاتےہوئے دیکھتےرہ گئی تھی  اس کے دل میں شدید خواہش   جاگی تھی  کے وہ ارشمیل سے پو چھےکے وہ کہا جارہا ہے مگر اس نے اپنے دل کی خواہش  کو دل میں ہی دبا دیا اور اسے جانے دیااسے یہ تو پتاتھا کے وہ اتنی تیاری کے ساتھ  شہر سے باہرجارہاہے وہ بھی کچھ دن کے لیے مگر اسے یہ نہیں پتا تھا کے کونسے شہر میں جارہا ہے وہ بالکنی کی ریلنگ پرہاتھ رکھےکھڑےارشمیل کوجاتےہوئےدیکھنے لگی جو کار میں بیٹھ چکا تھااس نے کار میں   بیٹھنے سے پہلے ایک نظر اوپر دیکھا تھا  مگروہ اس کے دیکھنے سے پہلے ہی پیچھے ہٹ گئی تھی اب وہ اسے خود سے بہت دور ہوتے دیکھتے رہی ۔
٭٭٭
اسے گے ہوئے دودن  ہوچکے تھے مگرعمائمہ نے کسی سے بھی جاننے کی کوشش نہیں  کی تھی کے وہ کہا گیا ہے  ان دونوں میں اسے اپنے آپ کا بھی  ہوش نہیں رہا تھا  وہ تو بس   اپنے دشمن جان کویاد کررہی تھی ایسا پہلی  بار ہوا تھا کے  وہ  اس سے اتنے دور گیاتھااور یہ بھی  پہلی  بار ہوا تھا کے عمائمہ حیدر اسے دل و جان سے یاد کررہی تھی  وہ سب کے بیچ ہوکر بھی  کئی نہیں تھی  اس کے نا ہونے سے اسے احساس ہو اتھا کے و  ہ اب اس کی زندگی کا بہت اہم  حصہ بن  چکا ہے جس 
کے بنا ایک پل  کے لیے بھی سانس لینا محال  ہو چکا تھا وہ ابھی  سب کے بیچ بیٹھی  صبح کا ناشتہ کررہی تھی تبھی  احد  اس کی کیفیت   سے لطف اندوز ہو تے ہوئے بولا ۔
"لگتا ہے بھابھی کو بھائی بہت یاد آرہی ہے "۔احد کی بات سن کر اس کے لبو ں پر مسکراہٹ در آئی ایسا پہلی بار ہوا تھا کے وہ احد کے چھڑنے پر مسکرائی تھی  اسے مسکراتا دیکھ کر عدینہ بولی ۔
"آپی  آپ کا بھی مجھے سمجھ نہیں آتا ہے ایک طرف تو آپ   ہمارے سامنے ارشمیل بھا ئی سے بات تک نہیں کرتی ہے اور ان کے پیچھے انھیں اتنا یاد کررہی ہے ان کی یاد میں  کھانا بھی ٹھیک  سے نہیں کھارہی ہے "ناشتے  کی میز پر شہلا بیگم اور وقار صاحب نہیں تھے کیونکہ ان کا آج  جلدی  ناشتہ ختم  ہوچکا تھالہذا عدینہ اور احد آج اسے بخشنے  کے موڈ میں نہیں لگ رہ تھے ۔
"بھئی بھابھی کا پورا حق بنتا ہے بھا ئی کو یاد کرنے کا ان کے پاس بھائی کو یاد کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ بھائی لندن سے  پندرہ دن سے  پہلےواپس  نہیں آنے والے ہے "۔احدکی بات سن کر عمائمہ کو علم ہوا تھا کے  وہ شہر سے نہیں ملک سے باہر ہے  اوراس کے آنے میں پندرہ دن ہے اس کے بنادو دن بھی دوسو سال  کے برابر لگ رہ تھے اب یہ پندرہ دن  کیسے گزرے گے اسے نہیں پتا تھا ۔  
آٹھ دن یو ں ہی اسے یاد کرتے کرتے اس کا  انتظار کرتے ہوئے گزر چکے تھے ان آٹھ دنوں میں دونوں نے ایک  بھی بار  ایک دوسرے سے بات نہیں کیےتھے عمائمہ کو تو ارشمیل پررہ رہ کر
غصہ آرہاتھا کے وہ کیسے اسے بھول گیاحالا نکہ  اسے تو پتا تھا کے عمائمہ حیدر  خود ہوکراس سے کبھی  بات نہیں کرے گی تو وہ ہی اس  سے بات کرلیتا  مگر نہیں اس نے بھی  ٹھان لیا تھا کے وہ اس بار عمائمہ حیدر کےسامنے نہیں جھوکے کااپنی انا  کواس  بے حس  لڑکی کے سامنے  
کبھی پاش پاش نہیں ہونے دے گا وہ ایک مرد ہوکر اس کے  سامنے جھکنے کوتیار تھا مگر عمائمہ حیدر  وہ شاید ہی کبھی اس کے سامنے جھکنے والی تھی وہ بھی عمائمہ کو اتنی  ہی شدت سے یاد کررہا تھا جتنا  کے وہ اس نے کیسے یہ دس دن  اس کے بنا گزارے تھے یہ وہی جانتا تھا  پل پل اس کی یاد ستاتے رہی تھی کبھی کبھی تو ایسا دل چاہتا تھا کے وہ اُڑ کے  پانچ منٹ میں دشمنِ جان   کےپاس پہنچ جائے اوراسے بتادے کے وہ اس سے کتنی محبت کرنے لگا ہے مگر پھر  اس کا  پچھلا راویہ  یاد آگیا تو اس نے اپنے قدم پیچھے لے لیااس نے عمائمہ حیدر کوایک کال بھی کرنے کی زحمت نہیں کیا کیونکہ اس کا دل عمائمہ کے راویہ کے وجہ سے بہت بدگمان ہوچکاتھا  اب صلح  کی  شاید کوئی امید نہیں تھی تبھی اس کی یادوں کے بیچ اسے  ایلیف مل گئی تھی ایلیف  اس کی  کلاس  فیلو رہ چکی تھی  جب ارشمیل انگلینڈیونیورسٹی   میں ایم ۔بی ۔اے  کررہاتھا تب   وہ ارشمیل میں کافی زیادہ انٹریسٹیڈ  تھی  ارشمیل بھی آتے جاتے اسے چھیڑتے رہتا تھا اس چھیڑ چھاڑ کااس نے کچھ اور ہی مطلب اخذ  کرلیاتھا تب سے وہ   ارشمیل کے عشق میں بری  طرح گرفتارہوچکی تھی وہ رہنے والی ترکی  کی تھی مگرانگلینڈ میں  پڑمنے کے لیے آئی تھی اس کے ساتھ ہی ارشمیل پراپنادل ہار چکی  تھی  ابھی بھی ارشمیل اسے لندن میں ملاتواسے لگ رہاتھاکے ساری دنیاکی خوشیاں اسے مل گئی وہ بھی لندن  میں  بزنس کے سلسلے میں آئی  تھی اور ارشمیل بھی ارشمیل کو نہیں پتاتھاکےاس   کی کمپنی کی ڈیل ایلیف  کی  کمپنی کے ساتھ ہونےوالی تھی   پہلے پہل تووہ دونوں ایک دوسرے کودیکھ کر چونک  گے تھے پھر میٹنگ کے بعد  ان دونوں نے ایک  دوسرے کے ساتھ بہت اچھا ٹائم  گزاراتھا  ابھی بھی  عمائمہ کو یاد کرتے کرتے  ارشمیل کو ایلیف یاد آگئی جس کے ساتھ اس نے  ڈنر کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ  تیار ہوکر  ایلیف  کے ہوٹل میں  پہنچ گیاتھااس نے ایلیف کے لیے  وائٹ   روز لیاتھاکیونکہ اسے پتا تھا کے ایلیف کو وائٹ روز بہت پسند ہے  ارشمیل  ایلیف کے ہوٹل میں پہنچ گیاتھا اس  نے  ایلیف کے روم کےدروازے پردستک دیا ایلیف نے جلدی سے دروازہ  کھول دیااورارشمیل کو دیکھ کر مسکرانے لگی ۔
"ہیلو  بیو ٹی فل    گرل  "۔
" ہائے ہنڈسم "۔وہ بھی  ارشمیل کے ہی لہجے میں بولی تھی تبھی اس کی نظر اس کے ہاتھ میں  پڑے بکے  پر  گئی تو وہ  شائستہ  انگریزی میں بولی ۔
"This is for whom ? "ارشمیل نے اپنے ہاتھ میں  پڑے بکے پر نظر ڈالا پھر بولا ۔
"This is for the most beautiful girl " اس نے وہ پھول ایلیف  کے سامنے پیش کیا جس کواس نے بہت ہی خوش  دلی  سے تھام لیا تھا پھر ایلیف  اس کے ہاتھ میں اپناہاتھ ڈال کر اس کے ساتھ ڈنر کے لیے گئی وہ ایسی  ہی تھی  بہت  زیادہ بے باک     انھوں نے ڈنر پر 
ایک دوسرے سے بہت ساری باتیں کیے تھے اس ہی دوران   ارشمیل نے اسے اپنی شادی کا بتایا تھااور یہ بھی بتا یا تھا کے وہ عمائمہ سے بہت  محبت کرتا ہے یہ سن کر ایلیف بہت آپ سیٹ  ہوچکی تھی  ارشمیل جانتا تھا کے وہ کیوں خاموش ہوگئی ہے تبھی اس نے  ایلیف کے ہاتھ پر اپنا  ہاتھ  رکھ دیا اور اسے سمجھانے لگا تھا  اس نے ایلیف   کو عمائمہ سے زبردستی شادی سے لے کر  کے اپنے رشتے کی حقیقت تک بتا دیا تھا ایلیف کو اس کی  شادی شدہ لائف کے بارے میں جان کر بہت برا لگا تھا   تبھی اس  نے عمائمہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کیا  جسے سن کر پہلے تو ارشمیل بہت حیران ہوا تھا پھراس نے اسے اپنے گھر چلنے کا آفر دیا جس  کو ایلیف  نے با خوشی مقبول  کر لیا تھا  ایلیف  ارشمیل کی محبت کو دیکھنا چاہتی تھی وہ یہ دیکھنا چاہتی تھی کے  ارشمیل کی محبت کیسی  ہے جس  کا وہ بار بار  ذکر کرتے  نہیں تھک  رہا تھا ۔
٭٭٭
آج وہ نک سک سے تیار ہوئی تھی  کیونکہ آج ارشمیل  آنے والا تھا اس نے ارشمیل کا پسندید  بیلو   کلر کا مشرقی   لباس پہنا تھا  اس پر ہلکا سا  میک آپ کیا تھا  اس روپ میں وہ حد سے  زیادہ  خوبصورت لگ رہی تھی  وہ ارشمیل کا انتظار کرتے کرتے تھک چکی تھی مگر پتا نہیں وہ کیوں نہیں آرہا تھا اسے ارشمیل پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا کے پہلے ہی اس نے ایک فون کال نہیں  کیا تھا اور اب   آنے میں  بھی اتنا وقت لگا رہا تھا اس نے سوچ لیا تھا کے وہ  آج ارشمیل سےاپنی بےپہنابےلوث محبت کا اظہارکر 
دے گی وہ کہےدےگی کے وہ بھی اس سے بہت محبت کرتی ہے   اس کے جانے  کے بعد   اس نے ہر پل اسے ہی یاد کیا ہےصرف  اسے ہی سوچا ہے وہ اپنی سوچ میں مگن چل رہی تھی لہذا اسے احساس نہیں ہوا کے اس کے ڈھائی میٹر کر  دوپٹہ   زمین  کو چھورہا ہے  وہ مسلسل اسےہی سوچ رہی تھی تبھی اس کا پیر اپنے  ہی دوپٹے میں الجھ  گیااور وہ زمین پر بری  طرح گرنے والی تھی کے تبھی  کسی نے  اسے زمین بوس ہونے سے بچا لیا وہ  بند آنکھوں سے بھی جان چکی تھی کے اسے بچانے والا کون ہے تبھی تواس نے آنکھیں کھو ل کر دیکھنے کی جسارت نہیں کی تھی  ارشمیل نے اس کے بجلیاں گراتے ہوئے سرآپے سے نظر یں ہٹا یا  اوراسےاپنے سامنے کھڑا کیاوہ اتنے دن بعد اسے اپنے سامنے دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی  تبھی تو وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی ۔
"تم کب آئے ؟"ارشمیل کواس سے اس سوال کی امیدہرگز نہیں تھی  تبھی تووہ آگے بڑھ کر بیڈ کے کنارے پر ٹک کیااور اپنے پیر کوجوتے سے آزاد  کرتےہوئے بولا ۔
"ابھی  آیا ہو "۔اس کی بات  سن کر عمائمہ نے دوسرا سوال  داغ  دیا ۔
"کیا وہ ڈیل فائنل ہو گئی جس کے لیے تم وہاں گے تھے "۔ارشمیل کو وہ  بدلی ہوئی منفرد سی  عمائمہ حید ر کافی حیران کررہی تھی   تو  وہ اس کے سوال جواب کرنے سے  حیران ہو گیا تھاتبھی وہ اپنی حیرانی کم کرتے ہوئے بولا ۔
"ہاں ہوگئی "۔عائمہ  اس کے مختصر  سے جوابات پاکر حیران  نہیں ہوئی تھی کیونکہ اسے اندزہ تھا کے وہ اس سے ناراض ہو کر گیا تھااوراب اسے منانے کی سعی  بھی عمائمہ کو ہی کرنا ہو گی ۔
"مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنا ہے "۔وہ سیدھے مدے پر آئی تھی ۔
"ابھی مجھے فریش ہو کر ایلی کے ساتھ جا نا ہے بعد میں آکر تم سے بات کرتا ہو "۔وہ اس کے منہ سے انجانی لڑکی کا نام سن کر حیران ہوکر سوچنے لگی کے اب یہ ایلی نام  کی کونسی چڑیا اپنے ساتھ لے آیا تھا   تبھی وہ  سیڑیاں اتر کر نیچے لاؤنج میں آئی تو اس نے دیکھا ایک  بہت ہی مارڈن   سی نیلے آنکھوں  والی   سرخ و سفید رنگت کی مالک   خوبصورت   سی لڑکی  شہلا بیگم اور عدینہ کے درمیان بیٹھی  ان سے باتیں   کررہی تھی شہلا بیگم اور عدینہ اسے شاید پہلے سے ہی جانتے   تھے تبھی  تو اس سے   بہت مسکرا مسکرا  کر باتیں کررہ تھے   شہلا بیگم تو ایلیف کو   تب سے جانتے تھے جب سے وہ ارشمیل  کو جانتی تھی  ارشمیل  کئی بار انگلینڈ میں ایلیف کو   شہلا بیگم  سے ملانے لایاکرتا تھا اور عدینہ بھی انگلینڈ میں ایلیف سے   بہت بار مل چکی تھی اس لیے وہ بھی اس  سے آشنا  تھی   وہ ان سب کو دور سے ہی دیکھتے ہوئے کھڑی تھی کے ایلیف کی نظر عمائمہ پر پڑی تھی تبھی وہ اپنی جگہ سے اٹھ  کرعمائمہ کے پاس آئی اور شائستہ انگریز ی میں بولی ۔
"کیا تم عمائمہ ہو "۔ایلیف کے منہ  سے اپنا نام  سن کر عمائمہ حیران ہوگئی  تھی تبھی اس کے دل نے اسے گواہی دیا کے ایلیف کو ارشمیل نے ہی اس کے بارے میں کچھ نا کچھ برا بتا یا  ہوگا تبھی تو اسے جانچتی ہو ئی نظروں سے گھوررہی تھی  عمائمہ نے ایلیف کے خوبصورت سے چہرے پر اپنی  نظریں مر کوز کرتے   ہوئے مسکرا کر سر ہلاتے ہوئے بولی ۔
 "ہاں میں عمائمہ ہو "۔اس کی بات سن  کر ایلیف نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا اور بولی ۔
"میں ایلیف ہوارشمیل کی فرینڈ  "۔عمائمہ نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا  پھر وہ ایلیف کے ساتھ بیٹھ  گئی ایلیف  اس سے بہت ساری باتیں کررہی تھی جسکا وہ ہوں ہاں میں جواب دیتے  جارہی تھی پتا نہیں کیو ں اسے ایلیف کی   آمد بہت بری لگ رہی تھی وہ اس پر ظاہر تو نہیں  کر سکتی تھی اس لیے اندار ہی اندار  پیچ و تاب کھاتے  رہ گئی تھی  تقریباً آدھے  گھنٹے  بعد ارشمیل  اپنے روم سے پرفیوم  مہکاباہر نکلا تھااس نے عمائمہ کو سرے سے ہی نظر انداز  کرتے ہوئے ایلیف کو  مخاتب کرتے ہوئے  بولا ۔
"چلے ایلی  "۔وہ ایلیف کو ایلی  کہے کر پکارتا تھا یہ سن کر عمائمہ      ارشمیل  پر  غصہ ہوتے  رہ گئی تھی 
"کہا جا رہ  ہو  ابھی ابھی تو آئے ہو کچھ  دیر آرام کرنے کے بعد جا نا "۔شہلا  بیگم کی بات سن کر  ارشمیل بو لا ۔
"مام بہت ضروری کا م ہے ابھی جا نا ضروری ہے "۔اس کی بات سن کر شہلا بیگم نے دوبارہ کچھ  نہیں  کہا تھا کیونکہ انھیں  پتا تھا کے وہ اسے کتنا بھی  روکنے کی کو شش کر ے گے تو وہ روکنے والا نہیں ہے  پھر وہ ایلیف کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اسے اپنے ساتھ لے کر چلا گیااور عمائمہ اپنے
غصے و آنسوں کو ضبط کرتے ہوئے وہی بیٹھی رہی تھی اس نے  کتنا سو چا تھا کے ارشمیل کی آمد کے بعد وہ اسے  اپنی بے تابی و بے قراری  کےسارے قصے  سنا ئے گی  مگر اب اسے ارشمیل کو ایلیف  عرف  ایلی کے ساتھ دیکھ کر  بہت غصہ  آگیا اس نے ارشمیل اور ایلیف پر لانت  بھیج کر اپنے روم میں قید ہو گئی اس   نے وہ ڈریس بھی اتا ر  لیا تھا جو اس  نے خاص کر کے ارشمیل  کی آمد  کے لیے زیب  تن کیا تھا  ۔ 
شام کے چھ بجے کا گیا ہوا ارشمیل رات ایک بجےتک گھر  نہیں   آیا تو اس کا  غصہ دو چند ہو گیا وہ  جلے پیر کی بلّی بنے اس کا انتظار  کرتے رہی  با آخر  وہ اس کا  انتظار کرتے کرتے تھک چکی تھی  تب جا کر وہ  آیا تھاارشمیل اسے اتنے دیر تک جاگتا دیکھ کر حیران ہو چکا تھا  وہ آج اسے در پے در  حیران کرتے جا رہی تھی  اس نے کاؤچ پر بیٹھی الٹی  کتاب  ہاتھ میں تھامے عمائمہ پر نظر ڈالا اسے عمائمہ کی اس بے وقوفی پر جی  بھر کے ہنسی آرہی تھی  اس لیے وہ اپنی جگہ سےاٹھااوراس  کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں پکڑی کتاب کے طرف اشارہ کرتے ہو ئے بولا ۔
"عمائمہ تم نے الٹی  کتاب تھام رکھا ہے "۔اس کی ات سن کر عمائمہ سٹپٹاتے ہوئے بو لی ۔
" میں  کیسے  بھی  یہ کتاب  پڑھوں  اس سے  تمہیں مطلب ؟"اس کی بات سن کر ارشمیل اپنی  ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولا ۔
"ویسے تم اس وقت کیا بات کرنے والی تھی "۔عمائمہ نے کتاب پر سے نظر ہٹاتے ہوئے  
ارشمیل کی آنکھوں میں براے راست دیکھتے ہوئے بولی ۔
"میں یہ کہہ رہی تھی کے مجھے  تم سے ڈئیوارس چاہئے "۔اس کی بات سن کر ارشمیل   ہکا بکا سا اسے دیکھتے رہ گیاتھا۔