وہ جوتیری راہ تکتےہیں|Woh Jo Teri Rah Takty Hain By Hiba Shah Last Episode 18



250 Views

Blog Written By: Sadaf Muskan



Scan QR Code to Read Blog on Mobile

QR Code Not Available


#وہ_جو_تیری_راہ_تکتےہیں

#حباءشاہ ✍️

#قسط18آخری

"اگر میں وآپس چلا جاتا تو کیا یہ بات ہمیشہ کے لیئے مجھ سے چُھپی رہتی؟ رومانہ نے کیوں مجھے سب کچھ نہیں بتایا؟"وہ اپنے سر کو ہاتھوں میں دیتے ہُوئے بولا.
"تم اُس کا اعتبار کھو چُکے تھے وہ تمہیں کیسے بتاتی؟" بدر کی آواز بالکل مدھم تھی.اُس کے چہرے پر سنجیدگی تھی.اُس کی بات پر زعرآن کو اپنے اندر چُھریاں چلتی محسوس ہُوئی.تیز تیز چُھریاں جو اُس کی رُوح کو لہو لوہاں کرنے لگیں.
"میں کیسے اپنے کیئے کا کفارہ ادا کروں بدر؟"وہ قریب ہی پڑے بڑے بڑے پتھروں میں سے ایک پر بیٹھ گیا.
"تم وآپس چلے جاؤ زعرآن."بدر کے جواب پر اُس نے حیرآنی سے اُسے دیکھا.
"یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟"اُس کے چہرے پر بے حد تعجب تھا.
"میں صحیح کہہ رہا ہُوں.اُسے اگر پتہ چلے کہ تم اُس کے پاس بیماری کی وجہ سے ترس کھا کر واپس آئے ہو تو یہ بات اُسے مزید تکلیف پہنچائے گی زعرآن.تم دونوں کے لیئے بہتر ہے کہ ایک دُوسرے سے دُور رہو.تم اُس کے قریب ہو گے تو اُسے زیادہ تکلیف ہو گی.تم اُسے مزید تکلیف مت پہنچاؤ."
"بدر میں اُس پر کوئی ترس نہیں کھا رہا.میں تو اُسے مزید تکلیف برداشت کرنے سے بچا رہا ہُوں.اب کچھ بھی ہو جائے میں اُسے چھوڑ نہیں سکتا.اُس سے دُور ہونا میں افورڈ ہی نہیں کرسکتا."وہ خاموش ہوگیا اور بدر اُس کے ساتھ آکر بیٹھ گیا.
"اگر تم میرے دوست ہو تو میری مدد کرو."زعرآن ایسے جیسے بھیگ مانگ رہا تھا اُس سے.
"تمہارے بعد وہ بالکل بدل گئی ہے زعرآن.وہ بہت بار ٹُوٹی ہے.اُس کے ضمیر کو بہت ٹھیس پہنچائی گئی ہے.وہ اب پتھر کی بن چکی ہے اور اُسے پتھر بنانے میں صرف تمہارا کمال ہے.وہ اب زندگی کی طرف وآپس نہیں لوٹے گی.وہ باہر سے نا صحیح لیکن اندر سے مر چُکی ہے زعرآن.اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دو تو بہتر ہے."یہ کہہ کر وہ اُٹھ گیا.
"وہ جان بُوجھ کر ایسی بنی ہے.اُسے زندگی میں کوئی ایسا مِلا ہی نہیں جو اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے زندگی کی طرف لے آئے.وہ ضِد میں آکر دُنیا اور اِس کے لوگوں سے دُور ہُوئی ہے."وہ بھی کھڑا ہو گیا اور اپنے ریت والے ہاتھ آپس میں صاف کرتے ہُوئے بولا.
"اور اگر وہ ضدی ہے تو میں ہر کام میں اُس سے دو قدم آگے ہُوں."یہ کہہ کر وہ بنا بدر کو دیکھے آگے بڑھ گیا.بدر بھی نفی میں سر ہِلاتا اُس کے پیچھے چل پڑا.
                                     ※ ※ ※ ※ ※ ※ ※ ※ ※ ※ 
اُس کی نگاہ کتاب پر سے ہٹتے ہُوئے سامنے دیوار کی طرف اُٹھی.دیوار پر لگی وال کلاک پر اُس نے وقت دیکھا.رات کے آٹھ بج رہے تھے.کمرے میں ہیٹر کی وجہ سے گرمی پر اُس نے اپنا ڈارک برآؤن کمبل اُتارا اور اُسے ٹانگوں تک لے گئی.اُس نے سیاہ رنگ کی کمیز پہن رکھی تھی.وہ آج کچھ ویکسینیشنز کروانے کے لیئے ہاسپٹل میں ہی تھی.اُس کے ایک ہاتھ میں نالی پیوست تھی.وہ کمرے میں اکیلی ہی بیٹھی ہُوئی تھی.کچھ دیر پہلے حناء واپس گئی تھی اور نو بجے کے قریب ریحان نے آنا تھا.اُس کا ذہن کتاب میں بالکل محُو تھا کہ دروازے پر دستک ہونے کی آواز تک بھی اُسے نا سنائی دی.دروازہ کُھلا اور اُس کی نگاہیں آہستگی سے اوپر کی طرف اُٹھیں.سامنے دروازے سے دآخل ہوتے ہُوئے اُسے دیکھ کر جیسے رومانہ کا دل تھم گیا ہو،سانس رُک گئی ہو اور لمحہ جیسے ساکت ہو گیا ہو.اُس کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں.وہ اُس کے پاس چل کر قریب آرہا تھا.رومانہ کی ٹانگوں سے جیسے جان نکلنے لگی.رومانہ کے ہاتھوں سے کتاب نیچے کی طرف سِرک گئی.
"رومانہ."اُس کی تاسُف بھری آواز پر رومانہ کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور اُسے اُس کی موجودگی کا یقین آیا.وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگی.
"زعرآن."بےانتہا حیرآنی سے بُلائے گئے نام کے بعد فوراً اپنے ساتھ بیڈ پر پڑا سیاہ سکارف لیا.اور فوراً سے اپنے سر کو ڈھانپ لیا.
"رہنے دو اِسے.مت چُھپاؤ کچھ بھی."زعرآن اُس کے پاس آکر کھڑا ہو گیا اور تکلیف سے اُسے دیکھ کر سر سے آہستگی سے سکارف اُتارا.رومانہ نے اُسے روکا نہیں اب جو بھی تھا ہونے دیا.زعرآن کو اُس کا سر دیکھ کر کچھ یاد آیا.
"مجھے اپنے بال بہت پسند ہیں."دُور سے اُسے رومانہ کی فخرآنہ آواز آتی سُنائی دی."تم نے اتنی تکلیف کیوں برداشت کی،کیسے برداشت کر لی؟"اُس نے درد بھرے ذہن سے سوچا.زعرآن بیڈ کے پاس پڑی کُرسی پر بیٹھ گیا جہاں اب سے کچھ دیر پہلے حناء بیٹھی ہُوئی تھی.
زعرآن نے پاس ہی کتاب پر پڑا اُس کا ہاتھ نرمی سے اُٹھا کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا جس میں ایک نالی پیوست تھی.وہ سر جُھکائے اُسی ہاتھ کو کچھ پل دیکھتا رہا.رومانہ کی نگاہ اُسی کے نادم چہرے کی طرف مرکوز تھی.
"تم نے مجھے یہ سب کیوں نہیں بتایا تھا؟"وہ بولا.
"اپنے آپ کو توڑنے کا اختیار تمہیں صرف ایک بار دینا چاہتی تھی بار بار نہیں."اُس نے افسردگی سے کہا.
"تمہیں لگا کہ یہ جان کر میں تمہیں چھوڑ دُوں گا.بس اتنا ہی یقین تھا تمہیں مجھ پر؟"اُس کی آنکھیں ابھی تک اُس کے سفید رنگ کے ہاتھ پر تھیں جن میں سبز رنگ کی ناڑیں نمایاں تھیں.
"اِس یقین کی مضبُوطی میں تُمہی نے میرا ساتھ دیا تھا.مُجھے تو آخر میں سب ہی ایک ٹُوٹے ہُوئے کِھلونے کی طرح دُور پھینک کر چھوڑ جاتے ہیں.تم سے تو مجھے کوئی گِلہ ہی نہیں زعرآن."وہ بےانتہا تکلیف سے بولی.
"رومانہ میں نے تم سے محبت کی ہے.سچی محبت! آخر میں مجھے تمہارے پاس ہی وآپس آنا تھا.میں جہاں بھی چلا جاتا،تم سے جتنی بھی دُور ہو جاتا مجھےتمہارے پاس ہی واپس آنا تھا."
"اب دیکھ لیا کہ میں کس حال میں ہُوں اور تمہارے کسی لائق بھی نہیں ہُوں.اسی لیئے واپس چلے جاؤ.مجھے میرے حال پر چھوڑ دو."
"رومانہ! مجھے افسوس ہے کہ تم مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں پا رہی.میں نے.........میں نے تمہاری ظاہری حالت یا پھر تمہاری شکل و صورت سے محبت نہیں کی .میں نے تمہارے نام سے محبت کی ہے،تمہارے احساس سے محبت کی ہے.میں نے...........میں نے تمہارے بعد تمہاری یادوں سے محبت کی ہے رومانہ.مجھے رومانہ ہاشمی سے محبت ہے،ایک مٹی کے بنے پُتلے سے نہیں بلکہ ایک محبت بھرے دل سے پیار ہے."وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہا تھا.
"اگر میں مر گئی تو."رومانہ نے کچھ دیر خاموشی کے بعد کچھ سوچ کر بولا. 
"تو مجھ پر بھی زندگی حرآم ہو جائے گی."اُس کی بات پر رومانہ کی فوراً ہنسی چھُوٹ گئی.
"تم اپنے فلمی ڈآئیلاگز بولنے سے ابھی تک بھی باز نہیں آئے."زعرآن مُسکرایا.
"یہ سچائی ہے."وہ بولا اور رومانہ ایک بار پھر سنجیدہ ہو گئی.
"رومانہ! مُسکراتی رہا کرو.پلیز خوش رہا کرو."
"مُسکرانے یا خوش رہنے کی کوئی وجہ بھی ہوتی ہے.بلاوجہ مُسکرانے والوں کو لوگ پاگل کہتے ہیں."وہ اب مُسکراتے ہوئے بول رہی تھی.
"خوش رہنے کے لیئے کوئی وجہ ضروری تو نہیں ہوتی.اِنسان تو اپنے لیئے بھی خوش رہ سکتا ہے."وہ مسکرایا.
"اور مجھے اپنا آپ زہر لگتا ہے."
"پھر تو صرف ایک ہی وجہ رہتی ہے جس سے تم خوش ہو سکتی ہو."وہ اپنی مُسکرآہٹ دُبا کر بولا.
"وہ کیا؟"
"میرا ساتھ!..................تُم میرے ساتھ بہت خوش رہ سکتی ہو."اُس کی بات پر رومانہ کی مسکرآہٹ ایک بار پھر مدھم ہو گئی.
"تم اتنے ضِدّی کیوں ہو؟ بُھولو مت کہ اب میں بھی بہت ضِدّی ہو گئی ہُوں."وہ مُسکراتے ہوئے بولی.
"اور تم یہ مت بُھولو کہ مجھے ضِدّی ہونے کا اُستاد مانا جاتا ہے."اُس کی بات پر رومانہ نے ہنستے ہُوئے اپنا سر جھٹکا.زعرآن نے اُس کا دوسرا ہاتھ بھی اپنے ہاتھوں میں تھام لیا.
"مجھ سے امریکا جانے سے پہلے شادی کرو گی؟"
"کیوں؟"رومانہ بولی.
"کیونکہ جتنی تکلیف تم نے اکیلے سہنی تھی وہ تم سہہ چُکی.اب کی بار تمہارے ہر درد اور تکلیف میں'میں تمہارے ساتھ ہونا چاہتا ہُوں.تم اب اکیلی کچھ بھی بردآشت نہیں کرو گی."
"تم سے کس نے کہا کہ مجھے کوئی تکلیف ہوتی ہے.مجھے تو کوئی درد نہیں ہوتی."وہ مسکرائی.
"تم مجھ سے کم از کم کچھ بھی نہیں چُھپا سکتی.مجھے پتہ ہے کہ تم یقیناً چُھپ چُھپ کر روتی ہو گی.بظاہر تم بہادر بنی سب کو بتاتی ہو گی کہ تم ٹھیک ہو لیکن اندر سے اُتنا ہی درد میں جل رہی ہو گی."اور اِس سچ پر جیسے رومانہ نے اُسے حیرآنی سے دیکھا.اُس کے چہرے پر سے ایک بار پھر مسکرآہٹ غائب ہو گئی.وہ تو اب بھی اُس کی نگاہوں میں دیکھ کر اندر کی حالت کو جانچ لیتا تھا.زعرآن اُس کی حیرآنی پر مُسکرایا.
"تم یقیناً سوچ رہی ہو گی کہ میں اب بھی تمہاری آنکھوں میں دیکھ کر تمہاری اندر کی حالت کو جان لیتا ہُوں."اور اِس بات پر رومانہ کو دوبارہ حیرآنی کا ایک دوسرا جھٹکا لگا.اُس کی آنکھیں مزید پھیل گئیں.
"تمہیں کیسے پتہ چلا؟" رومانہ کی بات پر اُس کے چہرے پر پھیلی مسکرآہٹ مزید بڑھ گئی.
"بس اس لیئے تو کہا ہے کہ مجھ سے زیادہ اچھا بندہ تمہیں اس دنیا میں کوئی بھی نہیں مِلے گا."
"تم میری بیماری کا جان کر مجھے پھر بھی اپنانے کے لیئے تیار ہو؟"بے اختیار اُس کی آنکھوں میں سے آنسو پھسلنے لگے.
"تمہیں تو کوئی اپنا ہی نہیں سکتا...............تمہیں پانے کے لیئے تو سب بھیگ مانگیں تب بھی کم ہے."رومانہ اس کی بات پر زیرِ لب مُسکرائی.
"بہت بڑے ڈرامےباز ہو."وہ منہ میں بڑبڑائی.
"سو مِس رومانہ ہاشمی! کیا آپ اِس فقیر سے شادی کرنے کے لیئے تیار ہیں؟"زعرآن مُسکرایا.
"صرف ایک شرط پر."رومانہ مُسکرائی.
"تمہاری ہر شرط مجھے منظور ہے."
"اگر اب کی بار تم نے مجھے دوبارہ چھوڑنے کا سوچا بھی تو میں بِنا سوچے سمجھے تمہیں شُوٹ کر دُوں گی."آنسُو مُسلسل اُس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے.وہ آنسُو جو ہمیشہ اُس نے زعرآن کے سامنے ہی ظاہر کیئے تھے.وہ آنسُو جو زعرآن کے سامنے ہی بےاختیار نکل بھی پڑتے.
"تمہیں حق ہے.لیکن تم پھر کیا میرے بغیر رہ لو گی؟"زعرآن اپنی بائیں آبرو اچکا کر بولا.
"بالکل! پھر تو میں جشن مناؤں گی کہ آخر کار میں نے اپنی تمام تر تکالیف کا بدلہ لے ہی لیا."یہ کہہ کر اُس نے بھی اپنی آبرو اچکائی.
"ظالم تو تم اب بھی بہت ہو مخترمہ."
"اصل ظالم تو تم ہو زعرآن.اب تو اِس بات کو مان لو."اُس کے معنی خیز انداز پر زعرآن کے چہرے سے مُسکرآہٹ غائب ہو گئی.
"ہاں! مان لیا کہ ظالم تو میں ہی ہُوں."اُس کے چہرے پر ایک زخمی سی مُسکرآہٹ اُبھر آئی.لیکن پھر وہ فوراً بولا.
"میری بھی ایک شرط ہے؟"
"لیکن مجھے منظوُر نہیں ہے."اُس نے کہہ کر زعرآن کو دیکھا.وہ وہیں پر خاموش ہو گیا.رومانہ اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کِھلکِھلا کر ہنس دی.زعرآن نے فوراً اُس کی آنکھیں اپنے ہاتھ کی پوروں سے صاف کیں.
"تمہاری آنکھوں سے اب ایک بھی آنسو نا نکلے."رومانہ مسکرا دی.
"یہ آنسُو تو سمجھو صرف تمہارے سامنے ہی نکلتے ہیں.اصل میں تم پر ہی چلے گئے ہیں نا.ایک نمبر کے ضِدّی.باہر نا نکلنے سے باز ہی نہیں رہتے."اُس نے اپنی آنکھیں مِسلیں.
"تمہیں درد تو نہیں ہو رہی؟"وہ ڈرپ کی طرف دیکھ کر بولا.رومانہ نے نفی میں سر ہِلایا.
"زعرآن تم مجھ سے اب تک نارآض ہی تھے؟"
"نہیں رومانہ.میں واپس صرف تمہارے لیئے آیا تھا.صرف تمہیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیئے آیا تھا.میں تم سے کبھی بھی نارآض نہیں ہو سکتا.وہ ایک وقتی غصہ تھا جو تم پر نکلا.جب تم نے منگنی توڑی تو میرا غصہ مزید بڑھ گیا.لیکن مجھے پتہ تھا کہ آخر کو مجھے تمہارے پاس ہی آنا تھا."
"اگر میری کسی اور جگہ شادی ہو گئی ہوتی تو؟"وہ شریر لہجے میں بولی.
"ایسا ہونا ناممکن تھا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ تم بھی کہیں نا کہیں میرا انتظار کرتی رہی ہو گی."
"جی نہیں! میں نے کبھی بھی تمہارے واپس آنے کا انتظار نہیں کیا."وہ اپنی ہنسی دُبائے بولی.
"مجھ سے تو کم از کم تم کچھ بھی نہیں چُھپا سکتی."وہ مُسکرایا.زعرآن کی نگاہ اُس کی ناک پر گئی جہاں پر اُس نے گولڈ کی لونگ پہن رکھی تھی جس میں سیاہ رنگ کا چمکتا ہُوا ڈائیمنڈ پیوست تھا.
"تم نے اپنی ناک کب سلوائی؟"اُسے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب وہ اُس کی ناک کی تعریف کیا کرتا تھا اور اُس کو ناک سلوانے کا کہا کرتا تھا.
"جب تمہاری یاد میں'میں مرنے ہی لگی تھی۔"وہ دُکھ سے مُسکرا کر بولی.زعرآن بھی سر جُھکائے مسکرانے لگا.
"اچھا بتاؤ امریکا کب جا رہی ہو؟"
"ایک دو مہینے تک."اُس نے سوچ کر بتایا.
"ٹھیک ہے پھر میں بھی ساتھ جا رہا ہُوں تمہارے."
"آپ جیسے مشہور اور مصرُوف بزنس مین کے پاس میرے لیئے اتنا وقت ہو گا؟"اُس نے جان بُوجھ کر یہ سوال کیا.
"اب تو ہم بھی تمہارے اور ہمارا وقت بھی."اُس کے انداز پر رومانہ بےاختیار ہنس دی.
"میرے پیچھے کِیا شاعری کرتے رہے ہو؟"
"پُوچھو مت تمہاری جُدائی میں کیا کچھ کرتا رہا ہُوں."
"اچھا اچھا! اس کا مطلب لڑکیوں سے فلرٹ کرتے رہے ہو."وہ چہرے پر شرارت لیئے بولی.
"قسم سے کچھ بھی نہیں کِیا.تمہارے جیسی کوئی ملتی تو کر بھی لیتا.بہت ڈھُونڈا لیکن کہیں بھی نا تم تھی اور نا تمہارے جیسا کوئی."رومانہ نے اُس کی بات پر مسکرا کر وال کلاک کی طرف دیکھا.نو بج چُکے تھے.
"بھائی پتہ نہیں کیوں نہیں آ رہے؟"
"تمہارے بھائی کو میں نے منع کر دیا ہے کہ کچھ وقت کے لیئے رومانہ کے پاس مت آئیں."وہ معنی خیز لہجے میں مسکرایا.رومانہ کی نگاہیں فوراً اُس پر گئیں.اُن میں حیرت تھی.
"اچھا تو بھائی کو تمہارے یہاں پر آنے کا پتہ ہے؟"
"کوئی شک! پتہ ہے اُنہوں نے مجھے کیوں تم سے بات کرنے دی.................کیونکہ وہ تمہیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں."
"ضرُوری تو نہیں کہ تمہارے ساتھ رہنے میں مجھے خوشی ملے یا تم میرے ساتھ خُوش رہو."
"دل تو نا توڑو میرا.ایک بار کوشش تو کر لینے دو."وہ مایوسی سے منہ بنا کر بولا.
"اچھا اچھا.ایسے بچوں کی طرح منہ تو مت بناؤ."وہ پیار سے بولی.
"زعرآن! اب مجھے نیند آرہی ہے."وہ مُسکرا کر بولی.زعرآن بھی مُسکرا دیا.
"چلو پھر لیٹ جاؤ."زعرآن بولا اور رومانہ نے کتاب سائیڈ پر رکھی اور اُس کی طرف چہرہ کر کے لیٹ گئی.زعرآن نے اُٹھ کر اُس کو اُوپر تک کمبل دیا پھر واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا.
"تم اتنی جلدی سو جاتی ہو؟"وہ اُس کے اتنی جلدی سونے پر حیران ہوا.
"ہاں! تمہارے بعد تنہائی اور نیند سے بہت دوستی ہو گئی تھی.اب اگر آپ واپس لوٹ آئے ہیں تو اِن دونوں کو چھوڑ تو نہیں سکتی نا.بہت ساتھ دیا ہے اِنہوں نے میرا جُدآئی کے لمحات میں."
"تم اب کچھ زیادہ طنز نہیں کرنے لگ گئی."وہ اپنی آنکھیں سُکیڑ کر بولا.
"طنز تو نہیں ہے fact بتا رہی ہُوں."یہ کہہ کر اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں.لیکن پھر کچھ ہی سیکنڈز کے بعد کھول بھی لیں.
"زعرآن! ایک بات پُوچھوں."زعرآن جو اُسے ہی دیکھ کر مدھم سا مُسکرا رہا تھا اُس کے سوال پر مزید مُسکرانے لگا.
"پُوچھو؟"
"تمہیں............تمہیں میرے بالوں کے نا ہونے سے کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟آئی مین ڈاکٹرز کہہ رہے تھے کہ اگر آپریشن ہو جائے تو اُس کے بعد یہ جلدی سے گرو کرنے لگ جائیں گے.سو تم اِس وجہ سے اَپ سیٹ مت ہونا."اُس نے کسی ڈر سے یہ کہا.
"رومانہ! مُجھے کوئی بھی مسئلہ نہیں ہے.اِنفیکٹ مجھے تمہارے بالوں کے ہونے یا نا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اگر فرق پڑتا ہے تو صرف تمہاری صحت سے.مجھے تم ہر صورت میں صحت یاب چاہئیے ہو.میں تمہاری تکلیف برداشت نہیں کر سکتا.بس تم ہمت کرو اور اِس مُشکل وقت کو جلدی سے پار کر لو."وہ اُس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بےحد پیار اور اپنائیت سے بول رہا تھا.
"اگر تم ساتھ ہو تو سب کچھ آسان ہے زعرآن."وہ اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہُوئے بولی.زعرآن کے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ سِمٹ آئی.
"میں اب تمہارے ساتھ ہی ہُوں."رومانہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہت غور سے اُسے دیکھنے لگی.
"کیا ہُوا؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"وہ محبت سے مسکراتے ہوئے بولا.
"تمہیں دیکھ رہی ہُوں.تمہاری آنکھیں،تمہاری یہ ہلکی ہلکی دآڑھی اور مُونچیں،تمہارے بال.تم اب بھی پہلے جیسے ہی ہو.شاندار پرسنیلٹی کے مالک،بےحد خوبصورت اور ہینڈسم."وہ اُسے مُسکرا کر دیکھ رہی تھی جواباً زعرآن بھی مُسکرا دیا.
"ظاہری خوبصورتی کا کیا ہے.یہ تو آتی جاتی رہتی ہے.اصل بات تو زندگی میں خُوبصورتی کی ہوتی ہے۔اور میری زندگی میں خُوبصورتی کی وجہ صرف تم ہو.تم میرا سکون ہو رومانہ!"اُس کے جواب پر رومانہ محظوظ ہو کر اُسے دیکھتی رہی.
"اور اب تم سو جاؤ."زعرآن فوراً بولا.
"تم ایسے تھک جاؤ گے.گھر چلے جاؤ اب ویسے بھی میں نے سونا ہی ہے.بات تھوڑی ہی کرنی ہے تم سے."وہ بولی.
"بہت دیر بعد تمہیں دیکھ رہا ہُوں.اب تمہیں دیکھتا رہنا چاہتا ہُوں.کچھ دیر کے بعد چلا جاؤں گا.تم بے فکر ہو کر سو جاؤ."وہ پیار سے بولا کہ رومانہ کی بھی مُسکرآہٹ گہری ہو گئی اور اُس نے اپنی آنکھیں مُوند لیں.زعرآن اُس کی بند آنکھوں کو غور سے دیکھتا رہا.اُس کی صحت کے لئیے دل ہی دل میں بہت سی دُعائیں بھی کرتا رہا.وہ اللہ سے اُس کی زندگی مانگتا رہا.وہ اب کسی قیمت پر بھی اُسے کھو نہیں سکتا تھا کیونکہ اُسے کھونا تو اب وہ افورڈ ہی نہیں کرسکتا تھا نا.رومانہ کے پُرسکُون چہرے کو دیکھتے ہُوئے اُسے جیسے اطمینان مل گیا تھا اور اب اِس اطمینان کو وہ اپنے ہاتھ سے کبھی بھی نہیں جانے دے گا.یہ پکا عہد وہ خُود سے کر چُکا تھا.
                                       ※ ※ ※ ※ ※ ※ ※ ※ ※ ※

(چھ سال بعد)
                             اوڑھ کر اپنے تنِ نازک پہ چادر چاندنی۔  
                             اَوجِ گردوں سے اُتر آئی زمین پر چاندنی
رات نے پر پھیلائے اور سیاہ پردے تانے ہُوئے تھے.ہر طرف گُھپ اندھیرا تھا،ایسا اندھیرا کہ خوف کا پھیرا.اُس تاریک اور خاموش کمرے میں صرف دیوار پر لگی گھڑی کی سُوئیوں کی آوازیں گُونج رہی تھیں.اُس کی اچانک آنکھ کُھلی اور اپنی طرف کا سائیڈ لیمپ جلایا.کمرے میں اچانک مدھم سی روشنی اندھیرے پر غالب آگئی اور تاریکی کا خاتمہ ہُوا.اُس نے اپنے ساتھ ہی میز پر پڑا فون اُٹھایا اور اُسے آن کر کے وقت دیکھا.رات کے ڈھائی بج رہے تھے.فون کی اندر سے آتی ہُوئی چمکتی روشنی سے اُس کا پہلے سے ہی چمکتا ہُوا چہرہ مزید چمکا.اُس کی آنکھیں ادھ کُھلی تھیں.سردی کی ایک شدید لہر اُس پر سے گُزری اور اُس نے فوراً سائیڈ ٹیبل پر پڑا اے سی کا ریموٹ اٹھا کر سامنے دیوار پر لگا اے سی  بند کر دیا اور خود اُٹھ کر بیٹھ گئی.اپنے سرہانے کو اُس نے ذرا سا اُوپر کیا اور نیچے سے کیچر نکالا.کیچر سے اُس نے اپنے کُھلے ہُوئے کندھوں تک آتے بالوں کو جُوڑے کے اندر بند کر دیا اور اپنے اوپر سے چادر ہٹاتے ہُوئے اُٹھ گئی.اُس نے سفید رنگ کی قمیص کے نیچے سفید رنگ کا ہی پلازو پہن رکھا تھا.اُٹھتے ہی وہ سیدھی باتھروم کی طرف بڑھی.وُضُو کرنے کے بعد وہ باہر نکلی اور سامنے کاوچ پر پڑا اپنا ڈوپٹا اُٹھا کر اپنے سر پر لے لیا.ڈوپٹے کے ہالے میں لپٹا اُس کا پُرنور چہرہ مزید تروتازہ لگنے لگا.اپنی طرف جائے نماز بِچھا کر تہجّد کی نماز پڑھنے لگی.تہجّد پڑھ کر اُس نے دونوں اطراف میں سلام پھیرا اور ہمیشہ کی طرح اُسے اپنے پاس زمین پر بیٹھا ہوا پایا.وہ اُسے دیکھ کر مُسکرائی.وہ بھی سفید شلوار سوٹ میں ملبوس اُسے دیکھتا پہلے سے ہی مسکرا رہا تھا.
"مجھے بھی اپنے ساتھ ہی جگا دیا کرو."وہ اپنی آنکھیں مسلتے ہُوئے بولا.
"اُونہوں.....اگر میں تمہیں جگا دُوں گی تو اللہ کی آواز پر خودبخود جاگنے کا مزہ خراب ہو جائے گا."وہ پہلے نفی میں سر ہلاتے اور پھر مُسکراتے ہوئے بولی.وہ دونوں ہی اللہ کے بہت قریب ہو چُکے تھے فرق صرف اتنا تھا کہ رومانہ کو خدا خود اپنے نزدیک لایا تھا لیکن زعرآن کو رومانہ کی بیماری نے خدا سے مِلا دیا تھا.
"چلو تم وضو کر آؤ.میں ذرا بالکونی میں بیٹھ کر قرآن پاک پڑھ لُوں."یہ کہہ کر وہ اُٹھ گئی اور زعرآن بھی اُسی کے ساتھ اُٹھ گیا.
"کیوں؟ آج باہر بیٹھ کر کیوں پڑھ رہی ہو؟"وہ اُٹھتے ہُوئے بولا.
"آج چودھویں کا چاند جو ہے.مُجھے تو یہ رات ایک معجزے سے کم نہیں لگتی."وہ مُسکراتے ہُوئے بولی اور چل کر کاؤچ کے ساتھ پڑے اُونچے سے لکڑی کے بنے ریک پر آئی جہاں مُختلف کتابوں کے ساتھ ہی سب سے اُوپر قرآن مجید پڑا ہوا تھا.اُس نے قرآن پاک اُٹھایا اور واپس مُڑی.
"کوئی فائدہ نہیں ہے.یہاں پر تو ہر طرف اور ہر وقت لائیٹس آن ہی رہتی ہیں."وہ وہیں پر کھڑا تھا.
"میں نے کل اسلم بابا سے بول دیا تھا کہ کم از کم گھر کی پچھلی طرف کی تمام بتیاں بُجھا دیں."وہ مُسکرائی اور چل کر کمرے میں بنی آدم قد کھڑکیوں کے پاس آئی اور اُن کے پردے پیچھے کیئے.شیشے کی بنی کھڑکیاں کھولیں اور باہر بالکونی میں آگئی.باہر معمول سے ہٹ کر ٹھنڈی ہوا جھول رہی تھی.بالکونی میں داخل ہوتے ہی دونوں اطراف میں پودے لگے ہُوئے تھے اور دو قیمتی کرسیاں پڑی ہُوئی تھیں جن کے درمیان میں قیمتی لکڑی کی بنی میز بھی پڑی ہُوئی تھی.اُس نے قرآن پاک کو میز پر رکھا اور خُود تھوڑا سا آگے چل کر آئی اور گرِل کو پکڑ کر کھڑی ہو گئی.کیا سحر انگیز نظارہ تھا سامنے کا.چاند نے چاندنی کا سفید لباس پہنا ہُوا تھا.ہر طرف نورکے مقدس پانی میں دھلی،سفید ہوئی،تاریکی کونوں کھدروں میں جا دبکی.چاند نے نور کی چادر پھیلائی اور بچھائی ہُوئی تھی.اُس کی نگاہ اب کی بار آسمان سے ہٹ کر نیچے لان کی طرف مرکوز ہو گئی.بڑے بڑے درختوں کی شاخوں اور پتوں سے چھن چھن کر آنے والی چاندنی نے کیا بہار دکھا رکھی تھی.پیڑوں پر جیسے سفید شیشہ بچھ گیا تھا.نیچے گھاس پر پڑے مٹی کے ذرے چمک اُٹھے تھے.گویا دن بھر کے سوئے جاگ اُٹھے ہوں.چاند جیسے انہیں دیکھ رہا تھا اور یہ چاند کو دیکھ رہے تھے.گویا ننھے ننھے چاند ہیں جو چاند کو دیکھ رہے تھے.اُس کی نگاہیں درختوں اور پودوں سے ہٹ کر پُول کے پانی پر پڑیں.پانی میں جیسے پگھلی ہُوئی چاندنی کے فورارے چل رہے تھے.اُس کی لہریں جیسے اُچھل اُچھل کر چاندنی کو دیکھنے کے لیئے اپنی بےتابی کا اظہار کر رہی ہوں.آسمان سے سیمابی لہریں رواں تھیں اور ہر طرف سیلابی نُورکا سماں دکھا رہے تھیں.اُس کی کبھی چاند پر نگاہ پڑتی،کبھی چاندنی پر.لیکن وہ زیادہ چاند کی چاندنی پر نثار ہو رہی تھی.
کسی نے اُس کی کمر پر بازو حمائل کر کے شانے پر ہاتھ رکھا.
"I can't describe how mesmerising this view is Zaaran!"اُس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں.
"ہمم..........سب کچھ بہت حسین لگ رہا ہے."وہ بھی اُس کے ساتھ باہر دیکھنے لگا.دونوں ہی مُسکرا رہے تھے.
"زعرآن؟"کچھ سوچ کر اُس نے اپنی گردن اُس کی طرف موڑی اور ذرا سا اُوپر ہو کر اُسے دیکھا.
"ہُوں."وہ بس یہ ہی بولا.
"آج چودہ رجب ہے.تمہیں کچھ یاد آیا؟"اُس کا چہرہ کِھل اُٹھا تھا.
"میں بھول کیسے سکتا ہُوں."وہ اُسے دیکھے بِنا بولا.
"مجھے پتہ تھا کہ تم ہماری اینیورسری ڈیٹ کبھی بھی نہیں بُھولو گے."اُس کے عنابی ہونٹ مُسکرائے اور اُس کے خوبصورت سے سفید اور گُلابی چہرے پر مُسکراہٹ پھیل گئی.
"اچھا! تو تم اِس کی بات کر رہی تھی.مجھے لگا کہ مجھے یاد کروا رہی ہو کہ آج ضمہ کی بارات ہے."وہ مُشکل سے اپنی ہنسی دُباتے ہُوئے سنجیدگی اور مصنوعی حیرانی سے بولا.رومانہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہُوئی اور اُس پر غصے نے جگہ لے لی.اُس نے زعرآن کے سینے پر ایک چپت لگائی.
"بہت بد تمیز ہو تم."زعرآن آخر کو ہنس دیا.
"مِسز زعرآن! اگر میری یاداشت بھی چلی جائے نا تب بھی آج کے اِس حسین دن کو میں زندگی بھر نہیں بُھول سکتا.آج کے دن تم ہمیشہ کے لیئے میری ہو گئی تھی اور میں ہمیشہ کے لیئے تمہارا."اُس کے چہرے پر بھی ایک دلکش مُسکراہٹ سِمٹ آئی.
"بتاؤ آج تمہیں کیا چاہئیے ہے؟"اُس کے سوال پر رومانہ کی نگاہ فوراً اپنی گردن میں پہنے ڈائیمنڈ نیکلس پر گئی.
"تم نے مجھے ہر سال آج کے دن ایک سے بڑھ کر ایک اور بےحد قیمتی تحائف دیئے ہیں.لیکن آج مجھے تم سے کوئی ایسی چیز چاہئیے جس کو دیکھ کر خوشی سے میرے آنسُو نکل آئیں اور اُس کی قیمت بالکل بھی زیادہ نا ہو لیکن پھر بھی وہ بہت قیمتی ہو."اُس کی اِس عجیب خواہش پر زعرآن نے حیرانی اور عجیب تاثر دیئے اُسے دیکھا.
"کیا تم آج میرا امتحان لے رہی ہو؟"
"کوئی شک!"رومانہ نے اپنی ایک آبرو اُٹھائی.زعرآن نے دو سیکنڈ بھی نا لگائے اور واپس مُڑا.رومانہ وہیں پر کھڑی مُسکرانے لگی اور کچھ حیران بھی ہُوئی کہ اُسے اتنی جلدی وہ چیز کیسے مل گئی.تقریباً دو تین منٹوں کے بعد وہ اُسے واپس آتا دکھائی دیا.اُس نے پہلے میز پر پڑا لیمپ آن کیا اور پھر اُس کے مقابل آکر کھڑا ہو گیا.رومانہ نے تعجب سے اُس کے مُسکراتے ہُوئے چہرے کو دیکھا.زعرآن نے ایک لڑی کی صورت میں کوئی چیز بنی ہُوئی اُس کے سامنے کی.جسے پہلے رومانہ نے عام سے انداز میں دیکھا لیکن جب سمجھ میں آئی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں.
"زعرآن! تمہیں................تمہیں یہ کہاں سے ملی؟"وہ اُس مہرون رنگ کی تسبیح کو اپنے ایک ہاتھ سے تھام کر دونوں ہاتھوں میں لیتی ہُوئی بےحد حیرانی سے بولی.اُس کے ذہن میں جیسے وہ سارا واقعہ جھماکے سے آنے لگا جب وہ دونوں گزشتہ سال پہلی بار حج کرنے گئے تھے تو اُس نے ہر جگہ یہ تسبیح استعمال کی تھی.اِس تسبیح میں اللہ کی محبت میں گِرے بہت سے آنسُو پیوست تھے.اِس تسبیح سے اُس کی وہاں کی بہت سی یادیں وابسطہ تھیں جنہیں وہ ہرگز کھونا نہیں چاہتی تھی.لیکن مکہ میں آخری رات ہی اُس سے یہ تسبیح کھو گئی تھی.اُس نے بہت ڈھُونڈا تھا لیکن وہ نہیں ملی تھی.اور اب اتنے ماہ بعد زعرآن نے وہ تسبیح لا کر اُس کے ہاتھوں میں رکھ دی تھی.اُس نے محبت بھری نگاہوں سے ایک بار پھر زعرآن کو دیکھا.
"بس تمہاری غیر ذمہ داریوں کی بھی ذمہ داری میں نے لے رکھی ہے."وہ اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہُوئے بولا.
"تھینک یُو............یہ بہت خوبصورت تحفہ ہے."وہ بہت خوش دِکھ رہی تھی.اُس نے اُس تسبیح کو چُوم کر اپنے سینے سے لگایا.اُس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں.اُس نے اپنا چہرہ اُوپر کر کے زعرآن کو دیکھا.
"آئی لَو یُو زعرآن!"اُس کے الفاظ پر زعرآن نے اُس کے چہرے کو اپنے سُرخ و سفید ہاتھوں میں لیا اور دھیرے سے اُسکی پیشانی پر بوسہ دیا اور اُسے اپنے ساتھ لگا لیا.
"آئی لَو یُو ٹُو میری جان!"کچھ دیر کے بعد اُس نے رومانہ کو اپنے سے الگ کیا.
"تم سو جاؤ.میں قرآن پاک پڑھ کے آتی ہُوں."اُس کے کہنے پر زعرآن نے سر اثبات میں ہلا دیا.ابھی وہ پلٹا ہی تھا کہ اندر سے کسی کے رونے کی آواز آنے لگی.
"مجھے لگتا ہے حرم جاگ گئی ہے."وہ جو قرآن پاک اپنے ہاتھوں میں لے کر بیٹھنے ہی لگی تھی واپس رکھتے ہُوئے بولی.زعرآن نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اُسے وہیں پر ٹھہرنے کو کہا.
"تم بیٹھو میں دیکھتا ہُوں اُسے."اُس کی بات پر رومانہ مسکرا کر کرسی پر بیٹھ کر قرآن پاک پڑھنے لگی اور زعرآن اندر چلا گیا.
اُس کی زندگی کیسے بدل گئی تھی.اُس کے من پسند لوگ،اُس کا من پسند وقت اُس کے ساتھ تھا.یہ سچ تھا کہ اگر اللہ آزمائیشیں دیتا ہے تو خوشیاں بھی وہی دیتا ہے.بس ہر آزمائیش اور ہر خوشی کے آنے کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے.اگر اب وہ اللہ کا شکر کرنے بیٹھے تو شاید ساری زندگی ہی اُس کا شکر ادا کرنے میں لگ جائے.لیکن ایک بہت ہی بڑی نعمت جس کا وہ اللہ سے سب سے پہلے شکر ادا کرتی ہے تو وہ تھا زعرآن! اُس کی زندگی میں جتنے بھی بدلاؤ آئے تھے اُن سب کی وجہ صرف وہ ہی تھا.اگر تین سال زعرآن کی وجہ سے اُسے تکلیف اُٹھانی پڑی تھی تو اِن چھ سالوں میں زعرآن نے ہی اُس کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا تھا.اُس کے اعلاج کے دوران وہ ہر پل اُسی کے ساتھ تھا،اُس کی ہر تکلیف میں اُس کے پاس تھا.وہ اُس کی سانس کے ساتھ سانس لے کر چلتا تھا،کہیں پر اُس کے قدم لڑکھ جاتے تو وہی اُسے سہارا دیتا تھا.اب اُسے ہر موسم ہی بہار کا لگتا تھا.وہ سچا تھا،وہ واقع میں سچ کہتا تھا.اُس نے جو کہا وہ کر کے دکھایا.صرف وہی تھا جو اُس کی زندگی میں سے اندھیروں کے کالے بادل ختم کر کے اُسے روشنی کی خوبصورت کرنوں میں لے گیا.زندگی میں اگر اُس کے ساتھ کوئی واحد اچھی چیز ہُوئی تھی تو وہ زعرآن حمدانی تھا،اور زعرآن کی وجہ سے اُس کی زندگی کی ہر چیز خوبصورت ہو گئی.زعرآن اُس کی زندگی تھا جس کے بغیر اُس کی اپنی زندگی ہی نہیں تھی.
شادی کے فوراً بعد وہ زعرآن اور ریحان کے ساتھ امریکا چلی گئی تھی.اُس کا چھ ماہ کا ٹریٹمنٹ تھا سو وہ امریکا چھ مہینے ہی رہی.اِس تمام عرصے میں زعران اُسی کے ساتھ تھا.اُس کی باڈی سے کینسر مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تھا.پھر زعرآن اُسے اپنے ساتھ لندن لے آیا.اُسی دوران اُن دونوں کو اللہ نے ایک خوبصورت اور صحت مند بیٹے سے نوازہ.چار سالوں کے بعد وہ واپس پاکستان آئی تھی.پاکستان بالکل ویسا ہی تھا جیسے وہ اُسے چھوڑ کر گئی تھی لیکن شاید وہ بہت بدل چُکی تھی.وہ اِس بار بہت خوش تھی.اُسے جیسے زندگی کے معانی پتہ چل چکے تھے جن سے آشنا بھی زعرآن نے ہی اُسے کروایا تھا۔وہ تو جیسے اُس کے جسم کے ہر حصے میں سما چُکا تھا.اگر کبھی کوئی اُس سے پُوچھے کہ زعرآن کا اُس سے کیا رشتہ ہے تو یقیناً اپنا ہمسفر کہنے سے پہلے وہ اُسے اپنا دوست،ہمدم اور غمگسار کہے گی. ایک سال پہلے اُن کی ایک بیٹی ہوئی تھی.اور اب تقریباً دو سالوں کے بعد وہ زعرآن کے ساتھ ضمہ کی شادی کے لیئے واپس پاکستان آئی تھی.جہاں تک رہی بات ساحل اور رانیہ کی تو یہ بات زعرآن،ریحان اور اُس کے بیچ ایک راز بن چُکی تھی.اور رہی ماہم تو ریحان نے اُسے کسی کو بھی بتانے سے سختی سے منع کردیا تھا.اُن دونوں کے رشتے کی بنیاد بھی اسی وعدے پر مبنی تھی.اگر یہ بات ماہم کے منہ سے کبھی دوبارہ نکلی تو وہ اُسے فوراً چھوڑ دے گا کیونکہ اب وہ رومانہ کی کوئی بھی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا تھا.رانیہ اُسے اکثر یاد بھی آتی تھی لیکن واقع میں اُس کی غلطی ایسے تھی جس سے اکثر لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے.وہ اُس کی خیر کی ہمیشہ دُعا مانگتی تھی لیکن ملنا کبھی نہیں چاہتی تھی.قرآن پاک پڑھنے سے فارغ ہو کر وہ کمرے کے اندر آگئی.اُس کی نگاہ سامنے بیڈ پر گئی جہاں زعرآن بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا حرم کو اپنے ساتھ لِٹائے سُلا رہا تھا.اُس نے اُنہیں مُسکرا کر دیکھتے ہُوئے قرآن پاک واپس ریک میں رکھا اور چل کر اپنی سائیڈ پر آکر اُن دونوں کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی اور تکیہ بیڈ کے ساتھ رکھ کر ٹیک لگاتے ہُوئے مُسکرا کر حرم کی بند آنکھوں کو دیکھنے لگی.سنہری رنگت،نرم و ملائم ٹماٹر جیسے سُرخ و سفید گال،اُس کی پلکیں لمبی لمبی تھیں.
"پتہ ہے زعرآن! میں اللہ تعالی سے دعا کرتی تھی کہ میرے بچوں کی آنکھیں اپنے باپ پر جائیں اور دیکھو اُس نے کیسے میری دُعا قبول کی ہے.دونوں کی ہی آنکھیں تم پر گئی ہیں.بالکل تمہارے جیسی."وہ خوش دلی سے زعرآن کی چمکتی ہُوئی آنکھوں کو دیکھتے ہُوئے بولی.
"اور تمہیں کیا پتہ کہ میں نے اللہ سے کتنی دُعائیں کی ہیں کہ میرے بچوں کی ناک تم پر جائے اور دیکھو اُس نے کیسے میری دعا قبول کی ہے.دونوں کی ہی ناک تم پر گئی ہے.بالکل تمہارے جیسی."زعرآن مسکراتے ہُوئے بولا تو وہ ہنس دی.
زعرآن نے سرہانہ اپنے پیچھے سے نکال کر سیدھا کیا اور اُس پر سر رکھتے ہُوئے لیٹ گیا.اُس نے ایک ہاتھ سے حرم کی چھوٹی سی ہتھیلی کو تھام کر اُس پر بوسہ دیا اور اسی ہاتھ سے رومانہ کا نازک سا ہاتھ پکڑا اور اُسے چُوما.
"تم نے میری زندگی مکمل کر دی ہے رومانہ!"وہ پیار بھری نگاہوں سے رومانہ کو دیکھتے ہُوئے بولا.
"اصل میں تو زندگی تم نے میری مکمل کی ہے."رومانہ یہ کہہ کر لیٹ گئی.
"حُسَین کہاں پر ہے؟"زعرآن کو کچھ دیر کے بعد اپنے بیٹے کا خیال آیا.
"وہ آج ضمہ کے پاس سو رہا ہے.ویسے بھی تمہارے بیٹے کو اپنے ماں باپ کے ساتھ سونے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے."وہ منہ بناتے ہُوئے بولی.
"جی نہیں! وہ بس اپنے ماں باپ کو پرآئیویسی دینا چاہتا ہے."زعرآن کی بات پر رومانہ کا قہقہا چُھوٹ گیا.
"کیا کر رہی ہو؟ حرم جاگ جائے گی."زعرآن نے فوراً اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اُسے چُپ کروایا.رومانہ اُدھر ہی خاموش ہو گئی.
"سوری."وہ پھر سے زیرِلب مُسکرانے لگی.
"چلو میری جان.اب سو جاو.آج کا دن بہت تھکا دینے والا ہو گا."وہ اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے بولا.رومانہ نے اُس کا سفید ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور اُسے اپنے ہونٹوں کے قریب لا کر چُومنے لگی.
"اپنے خواب میں مجھے دیکھنا مت بُھولنا."وہ شرارت سے بولی.
"تمہاری موجودگی کے بغیر تو میں خواب دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا میری جان."پھر اُس نے زعرآن کا ہاتھ ایک بار پھر چُوم کر چھوڑ دیا.وہ زعرآن کی خوبصورت سی آنکھوں میں اپنے لیئے بے انتہا محبت دیکھ رہی تھی.پھر وہ اپنے پاس دنیا سے بےخبر سوئی ہُوئی حرم پر جُھکی اور اُس کے دونوں گالوں پر پیار کیا اور واپس پلٹ کر لیمپ کی لائیٹ آف کر دی.کمرے میں ایک بار پھر اندھیرا ہو گیا.لیکن اُنہیں کیا پرواہ تھی جن کے دل روشن تھے،جن کی روحیں پُرنور تھیں اور جن کی بند آنکھیں بھی ایک دوسرے کے لیئے چمک رہی تھیں.

 (ختم شُدہ)