یہ چاہتیں یہ شدتیں باۓ سمیرا شریف طور|Ya Chahatain Ya Shiddatain By Sumaira Shareef Toor Part 2

152 Views
Blog Written By: Sadaf Muskan
Scan QR Code to Read Blog on Mobile
#یہ_چاہتیں_یہ_شدتیں_از_سمیرا_حمید
پارٹ 2
ماما کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ آج پھر یہاں تھی۔ اس گھر سے جانے کو اس کا جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ تائی جان کی بے انتہا نفرت کے باوجود ہر دفعہ وہ یہاں چلی آتی تھی اور یہاں آنے کے بعد وہ جس قدر ذلیل ہوتی تھی۔ یہ صرف وہی جانتی تھی یا پھر فرح اور علی۔ یہ ان لوگوں کی محبتیں ہی تو تھیں جو ہر بار اسے یہاں کھینچ لاتی تھیں پھر تایا جان کا صرف ایک دفعہ محبت سے فون کرنا ہوتا تھا اور وہ دوڑی چلی آتی۔ پچھلی ہر ذلت بھلا کر.... ہر بات فراموش کےے وہ پھر یہاں ہوتی تھی۔
کالج میں روز فرح سے ملاقات ہوتی تھی۔ سارا دن وہ اکٹھی ہی ہوتی تھیں۔ ایک ہی سبجیکٹ تھا۔ اس لیے دونوں کا ایک ساتھ پریڈ ہوتا تھا پھر دونوں کی دوستی بھی تو مثالی تھی اور گھر آ کر صرف چند گھنٹے آرام سے گزارتی تھی۔ ادھر فرح کا فون آیا نہیں ادھر زرش بی بی نے گھر سے قدم نکالا نہیں۔ اس وقت بھی وہ علی اور فرح کو فون کرنے آئی تھی۔
ماما نے کتنا منع کیا تھا۔ غصے سے بھی پیار سے بھی سمجھایا تھا اور پھر جب زرش کی آنکھوں میں آنسو مچل آئے تو انہوں نے خود ہی پچکار کر سمجھاتے ہوئے اسے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ ڈرائیور کو اس نے باہر سے ہی چلتا کر دیا تھا۔ چوکیدار نے اس کے لےے دروازہ کھول دیا۔ لان میں فرح اور علی بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ا سے دیکھ کر دونوں کے چہرے کھل اٹھے تھے۔
”شکر ہے تم آئیں تو۔ میں تو اکیلے بیٹھ بیٹھ کر بور ہو رہی تھی۔ کسی چیز میں دل ہی نہیں لگ رہا تھا۔“ فرح اسے دیکھ کر فوراً شروع ہو گئی تھی وہ ہنس دی۔
”کچھ نہ پوچھو ماما سے، بڑی مشکل سے اجازت ملی ہے۔ نہ جانے کل سے انہیں کیا ہو گیا ہے۔ کل بھی نہ آنے دیا اور آج بھی۔ میں رونے لگی تھی پھر خود ہی کہنے لگیں کہ چلی جاﺅ مگر احتیاط سے، میں کوئی گڑبڑ نہ کروں اور تائی جان کو بالکل تنگ نہ کروں۔ تم خود ہی بتاﺅ بھلا میں تمہاری والدہ صاحبہ کو کب تنگ کرتی ہوں؟ یہ وہی ہیں جو مجھے ایک لمحے کو بھی برداشت نہیں کر پاتیں۔“ کرسی پر بیٹھ کر اس نے سب سے پہلے اپنا دکھڑا رویا تھا۔
چونکہ یہ روز کا معمول تھا فرح اور علی نے مطلق دھیان نہ دیا۔
”ویسے تم دونوں نے کال کر کے مجھے ارجنٹ کیوں بلایا ہے.... خیریت ہے نا....؟“ ان دونوں کے چہرے اسے کچھ سسپنس سے بھرپور دکھائی دےے تو وہ چونکی۔ اپنا دکھڑا بھول کر فوراً پوچھا۔
”آج امی اور ابو کے درمیان بڑی زوروں کی لڑائی ہوئی ہے۔ جب میں کالج سے لوٹی تب کی بات ہے۔“ فرح نے سنجیدگی سے بتایا تو زرش خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھے گئی۔ علی لاپروائی سے بیٹھا ہوا تھا مگر اس کا سارا دھیان دونوں کی جانب تھا۔
”کیوں....؟“ یہ لڑائی روز کا معمول تھا مگر وہ پھر بھی پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
تایا جان اور تائی جان کی ہر نئی لڑائی زرش کو اک نئی تکلیف سے دوچار کر جاتی تھی۔ اس وقت بھی یہی کیفیت ہوئی تھی۔ ایک دم دل اندر ہی اندر تکلیف سے دوچار ہوتا چلا گیا تھا۔
”یہ تو مجھے بھی نہیں پتا کہ کیوں ہوئی مگر جب میں گھر لوٹی تھی تو دونوں جھگڑ رہے تھے۔ موضوع بحث سمعان بھائی کی شادی تھا۔“ فرح نے آرام سے بتایا تو وہ چونکی تھی۔
”کیا سمعان بھائی کی شادی....“ وہ حیرت سے چیخ اٹھی تھی۔
”ہش.... آہستہ.... امی کو ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے دوائی دے کر سلایا ہے۔ وہ اٹھ گئیں نا تو تمہارے ساتھ ہماری بھی گردن دبوچ لیں گی....“ فرح نے اسے ڈرایا تھا تو اس نے بھی لاپروائی سے اپنے سنہری بالوں کو پیچھے جھٹکا تھا۔
”خیر وہ گردن تو کبھی دبوچے گی نہیں۔ اتنی تو اخلاقیات ہیں ان میں....“ اس نے کہا تو علی بھی بول پڑا۔
”خیر یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ آج کل ہماری والدہ صاحبہ کو تمہارے سائے سے بھی نفرت ہو رہی ہے۔ اس لےے تم اپنی خیر مناﺅ۔ یہ نہ ہو کہ کسی دن حقیقت میں گردن دبوچ لیں۔“ علی نے چڑایا۔
”یوں ہی.... مفت میں۔ میری ماما نے کبھی مجھے انگلی تک نہیں لگائی اور وہ گردن دبوچیں گی۔“ وہ حقیقتاً برا مان گئی تھی۔ فرح کا جی چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے۔ دونوں کی نوک جھوک میں اصل بات تو بیچ میں ہی رہ گئی تھی۔ فرح بی بی تو پیٹ کی ہلکی تھی جب تک اپنے گھر کی ایک ایک بات زرش بی بی کے کانوں میں نہ انڈیل دیں۔کچھ ہضم ہی نہیں ہوتا تھا۔
”چپ کرو تم دونوں اپنی میں‘ میں شروع کر دی ہے۔ اصل بات تو میں نے بتائی ہی نہیں ہے۔“ اس نے دونوں کو ڈانٹ دیا تھا۔ اکثر فرح اسی طرح اپنے زرش سے ایک سال اور علی سے دوسال بڑا ہونے کا رعب جماتی رہتی تھی جس کا دونوں پر کم ہی اثر ہوتا تھا چونکہ اس وقت موضوع گفتگو سمعان بھائی کی شادی تھا۔ اسی لےے زرش اور علی دونوں کو چپ ہونا پڑا تھا۔
”مگر سمعان بھائی کی شادی ہو کس سے رہی ہے؟“ زرش نے ہی پوچھا تھا۔
”امی کی بھانجی قیصرہ خالہ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی فوزیہ صاحبہ سے۔“ علی نے جواب دیا تھا۔
”کیا....؟“ زرش حیرت سے چیخ اٹھی مگر فرح کے گھورنے پر دھیمی آواز کر کے پوچھنے لگی۔
”مگر کب ہو رہی ہے....؟ او...؟ اور سمعان بھائی ہیں کہاں، کتنے تیز ہیں مجھے پتا تک نہیں لگنے دیا اور گھر میں بھی کسی نے ذکر نہیں کیا۔“
وہ اپنی ہانک رہی تھی۔ فرح کو غصہ آنے لگا۔
”تم فی الحال اپنی چونچ بند رکھو اور خاموشی سے میری بات سنو۔“ اس نے ڈانٹ دیا۔ زرش نے اس کے رعب جمانے پر گھورا مگر بولی کچھ نہیں۔
سمعان بھائی خود بے خبر ہیں۔ فی الحال بات امی ابو کے درمیان ہے۔ امی جان چاہتی ہیں کہ ہرحال میں سمعان بھائی کی شادی فوزیہ آپی سے ہو جب کہ ابو انکاری ہیں۔“
”حرج ہی کیا ہے؟ فوزیہ آپی کتنی پیاری ہیں۔ ایم کام کر رہی ہیں۔ اگر سمعان بھائی کی شادی ان سے ہو جاتی ہے تو کتنے اچھے لگیں گے دونوں ساتھ ساتھ۔“ اس کی بات ختم ہوتے ہی زرش نے اپنی رائے دی تھی۔ فرح تو فرح، علی نے بھی گھورا۔
”اللہ نہ کرے ابھی ہمارے سمعان بھائی پر اتنا برا وقت نہیں آیا۔“ علی نے کچھ تلخی سے کہا تھا۔
”تمہیں کیا اعتراض ہے اتنی پیاری تو ہیں....“ زرش کو اس کی تلخی ذرا نہ بھائی تھی۔
”صرف پیاری ہیں اور کوئی گُن نہیں ہے ان میں.... قیصرہ خالہ کی طرح لگائی بجھائی میں ایک دم طاق.... اس سے شادی کرنے سے بہتر ہے کہ سمعان بھائی ہمیشہ کنوارے ہی رہیں۔“ علی سے سب کو یہی شکایت تھی کہ وہ منہ پھٹ اور صاف گو تھا۔ کبھی لگی لپٹی نہیں رکھی تھی اس وقت بھی اس کی صاف گوئی سن کر زرش خاموش ہو گئی۔
”ابو کو اسی بات پر اعتراض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قیصرہ خالہ کی کسی بھی بیٹی کو وہ ایک لمحے کو بھی برداشت نہیں کر سکتے کجا کہ ساری زندگی کی اذیت سہنا۔“
فرح نے کہا تو زرش الجھ گئی۔
”مگر فرح اس طرح تو تائی امی مزید ڈپریشن کا شکار ہو جائیں گی۔ وہ فوزیہ آپی کو بہت چاہتی ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ان کا ایسا ارادہ ہے۔ اب اگر وہ چاہتی ہیں تو ان کی خواہش کو بھلا کیسے رد کیا جا سکتا ہے۔ فوزیہ آپی اتنی بری بھی نہیں ہیں۔ بس وہ قیصرہ خالہ کے زیرِاثر رہتی ہیں اس لےے ایسی ہو گئی ہیں ورنہ مجھ سے تو وہ بڑے اچھے انداز میں ملتی ہیں۔“ زرش نے سادگی وسچائی سے کہا تھا۔ علی استہزائیہ ہنسا۔
”ہونہہ اچھی ہیں.... پوز کرتی ہیں محترمہ....“ وہ اچھا خاصا جلا بھنا بیٹھا تھا۔
”امی اور ابو کے درمیان لڑائی اچھی خاصی بڑھ گئی ہے۔ پرسوں شام سے سمعان بھائی لاہور گئے ہوئے ہیں۔ اگر وہ یہاں ہوتے تو لڑائی اتنی نہ بڑھتی۔ ابو تو غصے سے گھر سے نکل گئے تھے۔“ فرح نے مزید بتایا تو زرش کو پھر تایا ابو کا دکھ دکھی کر گیا۔
”اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل تو ہو گا ناں۔“ وہ حقیقتاً بری طرح پریشان ہو گئی۔
”ہاں ہے....“ علی نے فوراً کہا تھا۔ ”سمعان بھائی بھی عثمان بھائی کی طرح کسی لڑکی کو پسند کر کے امی اور ابو دونوں کو نظرانداز کر کے اپنی پسند سے شادی کریں۔ تمہیں علم ہے نا ابو چاہتے تھے کہ عثمان بھائی کی شادی ہادیہ آپا سے ہو۔ امی نے محض تمہاری ماما کی وجہ سے ہادیہ آپی کے لےے انکار کر دیا تھا۔ تب کتنی لڑائی ہوئی تھی۔ امی نے تب ہی قیصرہ خالہ کی بڑی بیٹی صباحت باجی کا نام لیا تھا جو کہ ابو کو قطعی منظور نہ تھا۔ مہینوں لڑائی ہوتی رہی تھی۔ عثمان بھائی اکتا کر اپنے سسر کی بیٹی کے لےے اپنے سسر سے بالا ہی بالا سارے معاملات طے کر کے آئے تھے۔ یہاں آ کر ہمیں بتایا کہ ایک ماہ بعد ان کی ان کے سسر کی بیٹی ڈاکٹر زوباریہ سے شادی ہے۔ امی اور ابو تو ہکا بکا رہ گئے۔ ناراض ہوئے تو بھائی نے صاف کہہ دیا زوباریہ آپ دونوں کے لڑائی جھگڑوں سے زیادہ بہتر ہے اور کتنی دھوم دھام سے شادی ہوئی تھی۔ ابو ہادیہ آپی کو بنیاد بنا کر اپنی جگہ رنجیدہ تھے اور امی اپنی جگہ.... اب بھی یہی حال ہونا چاہےے۔ سمعان بھائی خاموشی سے کسی کو پسند کر کے شادی کر کے گھر لے آئیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری....“
علی صاحب نے کیا زبردست حل پیش کیا تھا۔ فرح اور زرش دونوں اس کو کھا جانے والی نظروں سے تکتی رہ گئیں۔
”تم اپنی چونچ بند ہی رکھو تو بہتر ہے۔ سمعان بھائی ایسے نہیں ہیں اتنے اچھے ہیں وہ تو تایا ابو کی مرضی کے بغیر کچھ کر ہی نہیں سکتے۔“ زرش نے فوراً تردید کی تھی۔
”تب وہ ساری عمر کنوارے ہی رہیں گے۔ ہمارے والدین میں کبھی اتفاق ہونے والا نہیں ہے۔“ علی نے ایک تلخ حقیقت سامنے رکھی تھی۔ فرح اور زرش صرف علی کو دیکھ کر ہی رہ گئی تھیں۔
”شرم کرو۔ وہ والدین ہیں تمہارے....“ زرش نے اسے شرم دلانا چاہی تھی۔ وہ سر جھٹک گیا۔
”ہونہہ.... ماں باپ ہیں۔ ایسے ماں باپ سے تو ہم....“
”علی....“ اس سے پہلے کہ وہ کچھ غلط کہتا۔ فرح نے لرز کر اسے ٹوک دیا۔ وہ خود بھی لب بھینچ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
”چھوڑو اس ٹاپک کو.... گولی مارو روز کی بات ہے یہ.... آﺅ ہم کیرم کھیلتے ہیں۔“ فرح اسے ملامتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ نظرانداز کیے زرش سے کہہ رہا تھا۔ زرش تاسف سے سر ہلاتے اٹھ گئی۔
”تم نہیں سدھرو گے.... کتنے تلخ ہوتے جا رہے ہو تم.... آئندہ تایا جان اور تائی امی کے لے ایسی بات مت کہنا۔ وہ والدین ہیں تمہارے اور والدین کبھی اپنی اولاد کا برا نہیں چاہتے۔“ وہ اسے ناصح بنی سمجھا رہی تھی۔ علی ہنس دیا۔ اندر ہی اندر اسے اپنے الفاظ کی تلخی کا احساس بھی ہوا تھا۔
”ایم سوری اوکے۔ آئندہ نہیں کہوں گا۔ اب تو تم دونوں ہنس دو۔ پلیز.... پلیز....“ وہ ایک دم ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ دونوں ہی ہنس دیں۔
”چلو اس خوشی میں کیرم کھیلتے ہیں۔ امی دوائی کھا کر سوئی ہیں۔ رات سے پہلے وہ اٹھیں گی نہیں۔ آج جی بھر کر موج کریں گے۔“ وہ فوراً اپنی جون میں لوٹ آیا تھا۔ فرح اور زرش دونوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ کتنے دنوں بعد تو انہیں کھیلنے کا موقع مل رہا تھا۔
”نویرہ!“ و ہ کچن میں کھڑی مسالا بھون رہی تھی جب پیچھے سے بھابی نورین نے آواز دی تھی۔
”جی بھابی!“ وہ فوراً پلٹی تھی۔
”سب کچھ تیار ہے۔ تم نہا کر کپڑے وغیرہ بدل لو۔ میں یہ سب کر لوں گی۔ بعد میں اگر مہمان آ گئے نا تو تم اسی حلیے میں ان کے سامنے چلی آﺅگی۔“
نورین بھابی کہہ رہی تھیں۔ ان کی آخری بات پر وہ ہنس دی۔منگنی کے بعد پہلی بار فاروق چچا فیملی سمیت ڈنر پر انوائیٹڈ تھے۔ اماں نے ساتھ ہی حمید چچا کی فیملی کو بھی انوائیٹ کر لیا تھا۔ وہ اور بھابی صبح سے کچن میں گھسی کھانا پکانے کے چکر میں الجھی ہوئی تھیں۔ اس دوران گھر کی بھی اچھی خاصی صفائی ستھرائی کر لی گئی تھی۔ اب سب کچھ تیار تھا۔ صرف کوفتوں کا سالن تیار کرنا باقی تھا۔ باقی سارا کام ہو چکا تھا۔ کوفتے بھی تیار تھے۔ وہ مسالا بھون رہی تھی جب بھابی کو اس کے حلیے کا احساس ہوا تھا۔ سارا دن کام کی وجہ سے وہ اچھی خاصی پیلی لگ رہی تھی۔ تب ہی انہوں نے اسے کچن سے جانے کو کہا تھا۔
”ہو جاﺅں گی تیار،ابھی اچھا خاصا وقت ہے۔“ اس نے نظر انداز کیا تھا۔
”نہیں بالکل نہیں تم فوراً نکلو یہاں سے۔“ بھابی نے اس کے ہاتھ سے چمچ کھینچ لینا چاہا تو اسے کچن سے نکلنا ہی پڑا۔
اپنے کمرے میں الماری سے اپنا ایک سوٹ نکال کر وہ باتھ روم میں گھس گئی تھی۔ نہا کر باہر نکلی تو اپنے کمرے میں ساجدہ باجی کے ساتھ نواز کی بڑی بہن ثنا آپی کو دیکھ کرجھینپ سی گئی تھی۔ منگنی کے بعد پہلی دفعہ روبرو سامنا ہو رہا تھا ورنہ اس کی ان سے اچھی خاصی فرینڈ شپ تھی مگر اب رشتہ بدلتے ہی جھجک بھی درمیان میں حائل ہو چکی تھی۔
”السلام علیکم۔“ اس نے دونوں کو مشترکہ سلام کیا تھا۔ کالے گیلے لباس میں لمبے بال پشت پر ڈالے وہ انتہائی تروتازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوئی تھی۔
”وعلیکم السلام۔“ پہلے ساجدہ باجی نے پھر ثنا آپی نے اسے گلے سے لگا لیا تھا۔
”کالے لباس میں تیرا گورا بدن یوں لگے ایمان سے....“ اس سے جدا ہو کر بازوﺅں سے تھام کر اس کا چہرہ دیکھتے ثنا آپی شرارت سے گنگنائی تھیں۔ وہ مزید جھینپ گئیں۔ ”کاش نواز بھائی بھی آج آتے۔“ اس سے دور ہو کر انہوں نے کہا تھا۔ اس کا چہرہ مزید سرخ ہو گیا۔
”سب آ گئے ہیں۔“ اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی پھلجھڑی چھوڑتیں اس نے فوراً پوچھا تھا۔
”سب سے کیا مراد ہے؟“ انہوں نے آنکھیں مٹکائی تھیں۔ نویرہ کا جی چاہا اپنا سر پیٹ لےں۔
”کم ازکم وہ نہیں جو آپ سمجھ رہی ہیں۔“ تولےے سے اپنے بال خشک کرتے اس نے کہا تو وہ کھل کر ہنسی تھیں۔
”مثلاً میں کیا سمجھی ہوں؟“ وہ مسلسل شرارت پر آمادہ تھیں۔ نویرہ نے ہاتھ روک کر انہیں خفگی سے دیکھا۔
”اف.... آج یہ ثنا آپی کو کیا ہو گیا ہے؟“ وہ کلسی۔
”ساجدہ باجی! آپ اکیلی آئی ہیں۔ بھائی جان اور بچے نہیں آئے؟“ تولیہ ایک طرف ڈال کر برش لے کر اپنے لمبے بالوں کو وہ سلجھانے لگی تھی۔ ساجدہ باجی جو مسلسل مسکرا رہی تھیں وہ ہنسنے لگیں۔
”توبہ کرو۔ تمہارے بھائی صاحب مجھے بھلا اکیلے کہاں آنے دیتے ہیں۔ ان ہی کے ساتھ آئی ہوں۔ البتہ بچوں کو گھر خالہ جی کے پاس ہی چھوڑ آئی ہوں۔“ ساجدہ باجی نبیل بھائی سے بڑی تھیں۔ ان کی شادی نبیل بھائی کے سسرال میں نبیلہ بھابی کے بھائی کے ساتھ ہی ہوئی تھی۔ احمد بھائی بہت اچھے مزاج کے شخص تھے ادھر نبیلہ بھابی بھی سلجھی ہوئی ملنسار طبیعت کی مالک تھیں۔ کبھی محسوس نہیں ہوا تھا کہ وٹے سٹے کی شادی ہے۔ نویرہ چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ بڑے بھائی ساجد تھے جو کہ بیوی بچوں سمیت دُبئی میں رہتے تھے۔ سال بعد آتے۔ مل کر پھر چلے جاتے تھے۔ بس نویرہ ہی غیرشادی شدہ تھی۔اب منگنی ہو چکی تھی۔ ارادہ چند ماہ بعد شادی کر دینے کا تھا۔
بال سلجھا کر وہ سلیقے سے دوپٹہ اوڑھ کر ان دونوں کے ساتھ ہی کمرے سے باہر آئی تھی۔ چچا حمید کی بھی فیملی آ چکی تھی۔ بھابی نے سب کو ہی چائے اور دیگر لوازمات پیش کر دیے تھے۔ وہ سب سے مل کر بھابی کے پاس آ گئی۔ وہ چھوٹی چچی کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھیں جب کہ اماں تائی جان کے ساتھ مصروف گفتگو تھیں۔
”ہنڈیا تیار ہو گئی ہے۔ کچھ رہ تو نہیں گیا؟“ اس نے آہستگی سے بھابی سے پوچھا۔ انہوں نے سر ہلا دیا تھا۔ اس نے سکون کا سانس لیا پھر حاضرین پر نظر ڈالی۔
ثنا آپی کے علاوہ شمائلہ آپی‘ زارا آپی اور حمیرا چاروں بہنیں آئی ہوئی تھیں۔ صرف ثنا آپی کے میاں اور بچے تھے جب کہ زارا اور شمائلہ دونوں تنہا ہی تھیں۔ حمیرا اور رمشاءسر جوڑے باتیں کر رہی تھیں ساتھ ساتھ چائے بھی پی رہی تھیں۔ ان پر نظر پڑنے کے بعد رضاحمید پر جا ٹھہری۔ وہ ہال کے کونے میں رکھے آخری صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔
”ارے رضا بھی آیا ہوا ہے....“ اسے ایک دم یاد آیا تھا جب سے اس کا رشتہ طے ہوا تھا تو اسی شام وہ ان کے گھر آیا تھا۔ کس قدر غصے میں تھا۔ صرف اتنی بات پر کہ اسے کچھ بھی بتایا نہیں گیا۔ نویرہ نے اسے کتنا سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ خود بھی اس اس سارے معاملے سے بے خبر تھی جو بھی ہوا تھا آناً فاناً ہوا مگر یقین کےے بناءہی ناراض ہو کر چلا گیا تھا پھر پورے آٹھ دن بعد اس نے اسے اپنی منگنی والے دن دیکھا تھا۔ وہ دلہن بنی ہوئی تھی ورنہ اسے منانے کی کوشش ضرور کرتی۔ اس کے بعد بھی دن اتنی مصروفیت میں گزرے کہ وہ روز ارادہ کرنے کے باوجود نہ تو ان کے ہاں جا سکی تھی اور نہ ہی فون کر سکی تھی۔ اب منگنی کے پورے چھ دن بعد وہ دکھائی دے رہا تھا۔ انتہائی سنجیدہ اور خفا خفا سا۔ اس کی ناراضی کو یاد کر کے نویرہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھر آئی۔
وہ خاموشی سے اٹھ کر اس کی طرف چلی آئی تھی۔ رضا حمید نے صرف ایک لحظہ کو گردن اٹھا کر اس جانب دیکھا تھا پھر گردن جھکا لی۔
”کیسے ہو رضا....؟“ اسے خاموش دیکھ کر نویرہ نے پہل کی تھی۔
اس کے کھنکتے لہجے پر رضا حمید نے سر اٹھا کر نویرہ کو دیکھا۔
بلیک سوٹ میں وہ انتہائی جاذبِ نظر لگ رہی تھی۔ بغیر کسی ہار سنگھار کے بھی وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ بائیں ہاتھ کی کلائی پر موجود بریسلٹ کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے گھماتے رضا کے اندر انتشار برپا کرتی چلی گئی۔
”ٹھیک ہوں۔“ دوپٹے سے جھانکتے بالوں کی آبشار وہ صرف ایک نظر ہی دیکھ پایا تھا۔ اس سے پہلے کہ بڑی مشکل سے سمجھایا دل پھر اختیار سے باہر ہوتا اس نے نظر ہی پھیر لی تھی۔ نظر بلاارادہ رمشاءاور حمیرا کی جانب جا اٹھی تھی۔
رمشاءاسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ہونٹوں پر عجیب طنزیہ واستہزائیہ مسکراہٹ تھی۔ رضا کو لگا جیسے وہ اس کا مذاق اڑا رہی ہو۔ وہ مزید سلگنے لگا۔
”ناراض ہو؟“ وہ سائیڈ پر رکھی تپائی پر بیٹھ چکی تھی۔ رضا نے اس دفعہ اس کی طرف دیکھنے کی غلطی نہیں کی تھی۔
”نہیں۔“
”تو پھر یہ سب کیا ہے؟ پچھلے دو ہفتوں سے تم میرے ساتھ ایسا کر رہے ہو۔ تم میرے چھوٹے سے دوست ہی نہیں انتہائی پیارے سے بھائی بھی ہو۔ میں بھلا تم سے وہ سب کچھ کیوں چھپاتی؟ مجھے تو خود علم نہیں تھا۔“ نویرہ وضاحت کر رہی تھی۔ رضا حمید کو لگا وہ اسے ”چھوٹا سا دوست‘ پیارا بھائی“ کہہ کر جیسے اس کے منہ پر طمانچے مار گئی ہو۔ وہ تو ہمیشہ یہی سب کہتی تھی مگر پہلے کبھی دل کو اتنی تکلیف ہی نہیں ہوئی تھی۔
”میں ناراض نہیں ہوں۔“ رضا کو اس ذکر سے ہی تکلیف ہو رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ کچھ کہتی اس نے فوراً تردید کی تھی۔
”واقعی....؟“ وہ بے یقینی سے پوچھ رہی تھی۔
”میں سچ کہہ رہا ہوں۔ چلیں یہ بتائیں آپ خوش ہیں؟“ اپنی طرف سے اس نے نویرہ کا دھیان بٹانا چاہا۔
”یہ امی اور بھائیوں کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ وہ خوش ہیں تو ظاہر ہے میں بھی خوش ہوں۔“ اس نے صاف گوئی سے بتایا تھا۔ رضا حمید اس کے ملیح چہرے کو دیکھے گیا۔
”کیا باتیں ہو رہی ہیں؟“ شاید وہ کچھ اور بھی پوچھتا۔ رمشاءحمیرا کو لےے ادھر ہی آ گئی تھی۔ بظاہر بہت اپنائیت وبے تکلفی سے اس نے نویرہ کو مخاطب کیا تھا لیکن دیکھ رضا کو رہی تھی۔ رضا نے نظریں پھیر لیں۔ وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ وہ ان دونوں کو باتیں کرتا دیکھ کر جان بوجھ کر آئی ہے۔ اسے رمشاءسے مزید نفرت سی ہوئی۔
”کچھ نہیں.... رضا سے یوں ہی منگنی کی باتیں ہو رہی تھیں۔“ وہ چپ سادھے بیٹھا ہوا تھا۔ نویرہ نے ہی بتایا۔
”اچھا.... میں تو سمجھی کہ شاید....“ رمشاءفقرہ ادھورا چھوڑ کر ہنس دی تھی۔ رضا نے غیظ وغضب بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ حمیرا اور نویرہ کچھ نہیں سمجھی تھیں سوائے اس کے کہ شاید دونوں میں پھر کوئی نیا معرکہ ہوا ہے۔
”ایکسکیوزمی....“ رمشا کو مسکراتے دیکھ کر وہ اس پر لعنت بھیجتا وہاں سے اٹھ ہی گیا تھا مگر پلٹنے سے پہلے اس نے رمشاءپر ایک نگاہِ غلط ضرور ڈالی تھی، جسے اس نے طنزیہ مسکراہٹ میں اچھال دیا تھا۔وہ اپنے P.Cکے سامنے بیٹھی انٹرنیٹ پر چیٹنگ میں مصروف تھی جب ہی آنے والی ای میل پر فرح چند سیکنڈ کو ہل بھی نہیں سکی۔
”آپ کیسی ہیں اور میری ای میلز کا جواب کیوں نہیں دے رہیں؟ پلیز مجھے جواب دیں۔ میں شدت سے منتظر ہوں۔“ مونیٹر کی اسکرین پر نظر آنے والے یہ الفاظ فرح کے دل ودماغ میں گھوم رہے تھے۔
وہ اکثر انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرتی رہتی تھی مگر پچھلے چند ماہ سے اسے اس قسم کی میلز آنا شروع ہو گئی تھیں۔ شروع میں تو اس نے بھی ”جسٹ فار انجوائے منٹ“ ان کا جواب بھی دیا تھا۔ میلز کے ذریعے سے ہی اسے علم ہوا کہ ”پرنس“ نام کا وہ کوئی لڑکا ہے۔ پاکستان میں ہی رہتا ہے مگر کہاں، یہ اس نے کبھی بتانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اپنی تعلیم ایم۔ بی۔ اے بتاتا تھا۔ شروع میں وہ بہت اچھے انسانوں کی طرح میلز بھیجتا تھا مگر پھر اس کی میلز پڑھ کر اس ”پرنس“ (اسے نہیں لگتا تھا کہ یہ اس لڑکے کا اصل نام ہو گا بلکہ وہ تو اس بات سے بھی خائف تھی کہ ہو سکتا ہے وہ لڑکی ہو اور لڑکا بن کر اس کو بے وقوف بنا رہی ہو) سے فرح کو خوف آنے لگا تھا۔ فرح نے اسے اپنے بارے میں کبھی کچھ بھی بتانے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ شروع میں جب اس نے فرح سے اس کا نام پوچھا تھا تو فرح نے شرارت سے لکھ دیا تھا ”اگر آپ پرنس ہیں تو ہم ”پرنسس“ ہیں اور پرنسس کے نام نہیں ہوا کرتے۔“ تب سے اب تو وہ اسے پرنسس ہی کہتا تھا مگر اب صرف ایک ہفتہ پہلے ہی اس نے فرح کو وہ سب کچھ بتا کر نہ صرف حیران کر دیا تھا بلکہ خوفزدہ بھی کر دیا تھا۔
وہ جو کوئی بھی تھا۔ فرح سعید احمد کے متعلق اچھی خاصی معلومات رکھتا تھا۔ وہ نہ صرف اس کا اصل نام جانتا تھا بلکہ وہ تینوں بھائیوں‘ امی‘ ابو‘ فرح کے فیملی بیک گراﺅنڈ اور ابو کے بزنس سے متعلق بھی اچھی خاصی معلومات رکھتا تھا۔ وہ سیکنڈ ایئر میں پڑھتی ہے۔ اسے یہ بھی علم تھا۔ اس دن فرح واقعی سچ مچ ڈر گئی تھی۔ وہ نجانے کون تھا یا تھی اس کا پتا نہیں کیا مقصد تھا؟ مگر فرح کو حقیقی طور پر اس کی ای میلز سے خوف محسوس ہونے لگا۔ جیسے اس وقت بھی وہ یہ ای میل دیکھ کر ڈر گئی تھی۔
”فرح پلیز! مجھے ری پلے کرو۔ مجھے پتا ہے تم میری ساری ای میل پڑھ رہی ہو۔ بس ایک دفعہ نیٹ پر تو آﺅ۔ میں تمہارا جواب پڑھنا چاہتا ہوں پلیز۔“ ایک اور ای میل آ گئی تھی۔ فرح کی ساکت انگلیاں کی بورڈ پر لرز رہی تھیں۔
”یااللہ میں کیا کروں....؟ اگر وہ واقعی کوئی لڑکا ہوا تو....؟“ وہ یہ سوچ کر ہی دہل گئی تھی۔ ”اس کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ مجھ سے نیٹ پر چیٹنگ شروع کرنے سے لے کر اب تک کے ہر عمل میں ایک سوچا سمجھا منصوبہ صاف دکھائی دے رہا ہے پھر وہ مجھ سے متعلق اتنی درست معلومات کیسے رکھتا ہے؟“ وہ جوں جوں کڑھ رہی تھی۔ اس کا دماغ پھٹنے کو تھا۔
”وہ جو کوئی بھی ہے مجھے ایک دفعہ اس سے دوٹوک بات کرنی چاہےے۔ اس کی معلومات کی کم ازکم تردید تو کر ہی سکتی ہوں۔ اگر پھر بھی وہ نہ مانا تو میں صاف صاف بات کروں گی ورنہ نیٹ استعمال نہیں کروں گی یا اپنا ای میل ایڈریس ہی تبدیل کر لوں گی پھر وہ جو کوئی بھی ہے بھلا کیا کر لے گا۔“
کافی دیر سوچنے کے بعد اس کے ذہن نے یہ حل پیش کیا تھا۔
”ہاں مجھے اس کی ای میلز کا جواب ضرور دینا چاہیے۔ اس طرح تو میں اس کی معلومات پر ”سچ“ کا یقین ثبت کر رہی ہوں۔ کم ازکم میں اس کی معلومات کو ہی رد کر سکتی ہوں۔ اس طرح خوف زدہ ہونے سے بھلا کیا ہوتا ہے؟“
اس سوچ کے ساتھ ہی اسے کچھ حوصلہ ہوا۔ کی بورڈ پر اس کی انگلیاں تیزی سے حرکت کرنے لگی تھیں۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟“
مونیٹر پر یہ الفاظ لکھ کر اس نے انٹر کی‘دبا دی۔
”شکریہ فرح۔ آپ کو میرا خیال تو آیا۔ اگر آج بھی آپ میری میلز کا جواب نہ دیتیں تو کل میں نے آپ کے گھر آ جانا تھا۔“
اس کی توقع سے بھی جلدی اسے جواب موصول ہوا تھا۔ اس کے الفاظ نے فرح کو بھک سے اڑا دیا تھا۔
”میں فرح نہیں ہوں سمجھے آپ مسٹر پرنس....“ خوف کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مزاحمت کی بھی ایک شدید لہر اٹھی تھی۔
”تم فرح ہو۔ تمہارے بائیں رخسار کا تل مجھے تمہیں لاکھوں لڑکیوں میں بھی غلط پہچاننے کی غلطی نہیں کرنے دیتا مائی ڈیئر فرح سعید احمد۔“
فرح کے ہاتھ بے اختیار اپنے بائیں رخسار کے تل کو چھونے لگے تھے۔
فرح کا دل چاہا کہ کاش وہ جو کوئی بھی تھا وہ اس کے سامنے ہوتا تو وہ اس کا سر پھاڑ دیتی۔
”تم کون ہو.... اور کیا چاہتے ہو؟“ وہ جتنی بھی تردید کرتی۔ وہ جو کوئی بھی تھا اس کی معلومات بڑی اپ ڈیٹ تھیں اسی لےے اس نے مزید ”میں فرح نہیں ہوں“ کے الفاظ لکھنے کے بجائے اس سے اصل بات معلوم کرنا چاہی تھی۔ یہ اس کا خود پیدا کردہ مسئلہ تھا، جسے اس نے خود ہی ہینڈل کرنا تھا۔
”میں جو کوئی بھی ہوں اس بات کو جانے دو۔ بس مائی ڈیئر فرح یہ یاد رکھنا کہ میں تم سے بہت شدت سے محبت کرتا ہوں۔ کب سے، یہ تو شاید مجھے بھی علم نہیں مگر تب سے مجھے شدت سے تمہارے وجود کا احساس ہوا ہے جب تمہاری تصویر دیکھی تھی۔ اب تو مجھے تمہارے چہرے کا ایک ایک نقش ازبر ہو چکا ہے۔ میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہاری آنکھوں کا رنگ کیا ہے۔“ وہ آنکھیں پھاڑے مونیٹر کی اسکرین کو گھورے گئی۔
”تمہیں میری تصویر کہاں سے ملی تھی؟“ وہ جو کوئی بھی تھا اپنے بارے میں کبھی بھی بتانے والا نہیں تھا سو ”تم کون ہو؟“ کے سوال کو دوبارہ دہرانے کے بجائے اس نے یہ الفاظ لکھ دیے تھے۔
”ڈھونڈنے والے تو خدا کو بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہ تو تمہاری تصویر ہے۔“ فرح کو لگ رہا تھا کہ جیسے ای میل بھیجنے والا اس کے احمقانہ سوالات پر قہقہے لگا رہا ہو۔ وہ بری طرح الجھ گئی۔ اسے اس دن پر پچھتاوا ہونے لگا جب سمعان بھائی سے فرمائش کر کے اس نے اپنے P.C پر انٹرنیٹ کی سہولت لگوائی تھی۔
”مجھے پڑھائی کے لیے ڈیٹا لوڈ کرنا پڑتا ہے پھر کالج سے آ کر سیکھے گئے سبق کو بھی کمپیوٹر پر دہرانا پڑتا ہے اس لےے پلیز بھائی مجھے نیٹ کی سہولت مہیا کر دیں ناں۔“
سمعان بھائی سے انٹرنیٹ کی بات کرتے ہوئے اس نے کتنے آرام سے کہا تھا جو کہ غلط بھی نہ تھا۔ بس کبھی کبھار وہ نیٹ پر چیٹنگ کرنے لگی تھی مگر وہ بھی بہت کم۔ نیٹ پر وہ جتنے بھی لوگوں سے چیٹنگ کرتی تھی۔ ان میں زرش کے علاوہ اس کی کالج کی فرینڈز تھیں اور چند ایک ماموں اور خالاﺅں کی بیٹیاں تھیں۔ کوئی بھی لڑکا نہ تھا۔ پہلی دفعہ اس نے ”پرنس“ نامی شخص کی آنے والی ای میل پر جواب دیا تھا اور زندگی میں پہلی ہی چوری پہلا ہی پھندا ثابت ہو رہی تھی۔
خاندان میں زرش کے اور چند ایک کزنز لڑکیوں کے علاوہ کسی اور کے پاس اس کا ای میل ایڈریس تھا ہی نہیں کہ وہ یہ سوچتی کہ ان میں سے کسی ایک کی شرارت ہو سکتی تھی مگر کون تھا جو اس قدر اپ ڈیٹ انفارمیشن رکھتا تھا۔ نہ صرف اسے معلومات حاصل تھیں بلکہ اس کے پاس اس کی تصویر بھی تھی۔
وہ اس قدر کنفیوژ ہو چکی تھی کہ مارے خوف کے اس نے کمپیوٹر ہی شٹ ڈاﺅن کر دیا تھا۔
”مجھے علی یا پھر سمعان بھائی میں سے کسی ایک سے بات ضرور کرنی چاہےے۔ اس سے پہلے کہ میرے کردار پر حرف آئے۔“
ادھرادھر مسلسل چکر لگاتے وہ سوچ رہی تھی۔
”نہیں.... میں بھلا انہیں کیا کہوں گی.... کیا بتاﺅں گی....؟ اس طرح تو میری اپنی ہی سبکی ہو گی پھر میں کیا کروں....؟ یا اللہ تو ہی جانتا ہے میری نیت صاف تھی۔“ تھک ہار کر بستر پر گر کر وہ زورشور سے درودشریف کا ورد کرنے لگی تھی۔
”جب بھی کوئی پریشانی یا مسئلہ ہو تو بیٹا درودشریف کا ورد شروع کر دیا کرو۔ درودابراہیمی سے ساری پریشانی ختم ہو جاتی ہے اور اللہ ایسی جگہ سے پریشانی کا حل فرماتا ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔“
بہت عرصہ پہلے اسے دادی جان کی ہی بات یاد آ رہی تھی۔ وہ مزید خشوع وخضوع سے ورد کرنے لگی تھی۔
ض....ئ....ض
آج وہ جلدی آفس سے اٹھ گیا تھا۔ ارادہ چچا جان کے ہاں جانے کا تھا۔ کتنے دن ہو گئے تھے۔ زرش کو دیکھے ہوئے‘ اس سے ملے ہوئے۔ جس دن ظفر آیا تھا اس دن وہ ان کے ہاں آئی تھی۔ اس کے بعد وہ نہیں آئی تھی پھر سمعان احمد کو لاہور چارپانچ دن کے لےے جانا پڑ گیا تھا۔ دو دن ہو گئے تھے اسے واپس لوٹے ہوئے مگر واپس آ کر وہ ایسا الجھا تھا کہ رات گئے فارغ ہوتا تھا۔ دوسرا زرش بھی ان کے ہاں نہیں آئی تھی۔ آج آفس آتے ہی اس نے دو بجے کے بعد کی اپنی آج ساری مصروفیات ترک کر دی تھیں۔ اب آفس سے نکلتے ہوئے بھی اسے چار بج گئے تھے۔
سمعان احمد جب ان کے گھر پہنچا تو چوکیدار نے گیٹ کھول دیا تھا۔ سمعان سیدھا گاڑی اندر لے آیا تھا۔ گاڑی سے نکلتے ہی پہلی نظر لان کی چیئر پر بیٹھی زرش پر ہی پڑی تھی۔ سمعان کے ہونٹوں پر خودبخود مسکراہٹ آ ٹھہری۔ آفس سے نکلتے ہوئے اس نے سب سے پہلے اسے دیکھنے کی خواہش کی تھی اور بعض خواہشیں کتنی جلدی پوری ہو جاتی ہیں۔
وہ لان چیئر پر بیٹھی اپنی کتابیں بکھرائے ان میں غرق تھی۔ گرین ہلکے شیڈ کے سوٹ میں وہ ڈھلتے سورج کا ہی ایک حصہ محسوس ہو رہی تھی۔ سمعان احمد نے اندر بڑھنے کے بجائے اس کی طرف قدم بڑھائے تھے۔
”السلام علیکم۔“ وہ اس قدر اپنے کام میں مگن تھی کہ سمعان احمد کی آمد کا نوٹس ہی نہیں لے پائی تھی۔ اب سمعان کی آواز پر فوراً اچھلی۔
”ارے.... آپ.... سمعان بھائی آپ....“ وہ ایک دم سیدھی ہوئی تھی پھر سمعان کو دیکھ کر ایک دم بے خود ہو گئی تھی۔ کتنے دنوں بعد تو وہ دیکھ رہی تھی۔
”کیسی ہو....؟“ سمعان نے اس کے دمکتے رخساروں کی لالی محسوس کرتے مسکرا کر پوچھا تھا۔ زرش کی آنکھوں کے روشن چمکتے دمکتے ہیرے کچھ اور خیرہ کن ہو گئے تھے۔
”میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ پتا ہے سمعان بھائی!ابھی میں آپ کو ہی یاد کر رہی تھی اور میں نے چپکے سے دل میں دعا بھی مانگی تھی کہ اللہ کرے سمعان بھائی آ جائیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا آپ اتنی جلدی آ گئے ہیں۔“ سمعان احمد اس کی بات پر ہنس دیا۔
”چلو تمہاری دعا مجھے کھینچ کر یہاں لے آئی ہے۔ اب بتاﺅ مجھے یاد کیوں کیا جا رہا تھا؟“ کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے سمعان نے پوچھا تو وہ فوراً سنجیدہ ہوئی۔
”مجھے یہ سوال سمجھ نہیں آ رہے تھے۔ کل میرا ٹیسٹ بھی ہے اور ہماری ٹیچر نے ہمیں کچھ نہیں سمجھایا۔ پچھلے ایک ہفتے سے چھٹی پر تھیں اب آتے ہی ٹیسٹ دے دیا ہے۔ جب سے کالج سے لوٹی ہوں ان ہی کے ساتھ الجھی ہوئی ہوں۔“ اس نے فوراً اپنا مسئلہ بتایا۔ سمعان نے ایک گہری سانس لی۔
”تم مجھے فون کر کے بلوا لیتی یا فرح کے ساتھ مل کر حل کر لیتیں۔“ سمعان نے کہا تو زرش بُرے بُرے منہ بنانے لگی۔
”کہاں بلوا لیتی.... میں نے فون کرنا چاہا تھا مگر ماما نے منع کر دیا بلکہ ڈانٹ بھی دیا کہ میں خود ہی سوال حل کرنے کی کوشش کروں۔ خوامخواہ آپ کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش نہ کروں بلکہ تین دن سے مجھے آپ کے ہاں بھی جانے نہیں دے رہیں۔ پتا نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے انہیں۔ بات بات پر مجھے ڈانٹ دیتی ہیں۔“ آخر میں وہ واقعی رنجیدہ سی ہو گئی تھی۔ سمعان نے حیرانی سے دیکھا۔
”وہ منع کیوں کر رہی ہیں....؟ تم کون سا وہاں پہلی دفعہ جا رہی ہو۔ ہفتے میں دوتین دن تو ضرور جاتی ہو۔“
”مجھے کیا پتا آپ خود ہی ان سے پوچھ لیجئے گا۔ میں پوچھتی ہوں تو مجھے ”ابھی تم بچی ہو۔ تمہاری سمجھ میں آنے والی نہیں ہیں یہ باتیں۔ جو کہا ہے وہ کرو“ کہہ کر ٹال جاتی ہیں۔“ وہ اچھی طرح جلی بیٹھی تھی۔ سمعان احمد مسکرا دیا۔ وہ سمعان احمد کو مسکراتے دیکھ کر مزید کلسی۔
”آپ مسکرا رہے ہیں۔ یہاں میرا ایک کلو خون جل جل کر خاک ہو گیا ہے۔“ بے انتہا خفگی سے اس نے کہا تھا۔ سمعان نے بمشکل اپنی مسکراہٹ ہونٹوں پر روکی۔
”اس وقت میں مسکرانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا ماسوائے اس کے کہ تمہارے ٹیسٹ میں تمہاری ہیلپ کر دوں۔“ سمعان نے مسکرا کراس کے آگے سے نوٹ بک اٹھا لی تھی۔ ایک نظر کاپی پر ڈالی، پھر اس پر۔ وہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔ ایک لمحے کو سمعان کی نظر اس کے چہرے پر ٹھہر سی گئی تھی۔ ڈھلتی سہ پہر میں وہ گرین لباس میں سرسبز لان کا ایک دلکش حصہ ہی محسوس ہو ئی تھی۔ اس سے پہلے کہ سمعان حواس سے بیگانہ ہوتا‘ اس نے فوراً نگاہ پھیر لی تھی۔
”سمعان بھائی! فرح بتا رہی تھی کہ آپ لاہور سے اس کے لےے گولڈ کا لاکٹ لے کر آئے ہیں۔ میں نے دیکھا تھا بڑا خوب صورت ہے۔“ سمعان کے آگے کتاب رکھتے ہوئے اس نے یوں ہی کہا تھا۔
”تمہیں پسند آیا....؟“ بال پوائنٹ لے کر سمعان نے لکھتے ہوئے سرسری سا پوچھا تھا۔
”جی بہت زیادہ۔ میرا دل چاہا کہ میں....“ کچھ کہتے کہتے اس نے زبان فوراً ہونٹوں تلے دبا لی۔ سمعان نے ہاتھ روک کر اس کو دیکھا۔ ادھوری بات کا مفہوم وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔
”تمہیں اگر اچھا لگا ہے تو میں تمہیں بھی لا دوں گا۔ دراصل لاہور میں مجھے یہ پسند آیا تھا اور اس وقت وہاں صرف ایک ہی لاکٹ تھا ورنہ میں تمہارے لےے بھی ضرور لاتا پھر یہF.S کے حروف سے مزین تھا۔ تمہارے نام کا آرڈر پر بنوانا پڑتا اور مجھے تو اگلے دن ہی واپس آنا پڑ گیا تھا ورنہ ضرور خریدتا۔“ سمعان نے وضاحت کی تھی۔ سمعان کا یہ ہمیشہ سے اصول رہا تھا کہ جب بھی کراچی سے باہر جانا پڑتا تھا وہ فرح اور زرش کے لےے کچھ نہ کچھ ضرور لاتا تھا۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ اس نے کچھ خریدا بھی تو صرف فرح کے لےے۔ اگر اسے زرش کے نام کے حروف سے کنندہ لاکٹ مل جاتا تو وہ ضرور لاتا۔
زرش سمعان کی وضاحت پر خوا مخواہ شرمندہ ہو گئی تھی۔
”نہیں۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس تو ویسے ہی اچھی خاصی جیولری ہے۔ ماما‘ ہادیہ آپا اور پاپا اکثر دلاتے رہتے ہیں۔ میں نے تو یوں ہی کہہ دیا تھا۔ پہلی دفعہ آپ فرح کے ساتھ ساتھ میرے لےے کچھ نہیں لائے تھے۔ اس لےے میں نے محسوس بھی کیا تھا۔ آپ نے وضاحت کر دی اب اس کی ضرورت نہیں۔ بس میرے لےے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے مجھے جان بوجھ کر نظرانداز نہیں کیا۔“ وہ اپنی ازلی معصومیت سے کہتی گئی تھی۔ اس میں بناوٹ نہیں تھی جو دل میں تھا وہی زبان پر بھی۔ سمعان کے دل میں اس وقت پکڑدھکڑ ہونے لگی تھی۔
”میرا خیال ہے کہ اب تم ساری توجہ اس جانب مبذول کر لو تو بہتر ہے۔“ سمعان نے نا صرف اپنا دھیان بٹانے کے لےے بلکہ اس کی بھی توجہ کاپی کی طرف مبذول کروا دی تھی۔ وہ فوراً سنجیدہ ہو کر کاپی پر جھک گئی تھی۔
ذہانت کے معاملے میں وہ خاندان کی سب لڑکیوں سے بڑھ کر تھی۔ اپنی تعلیم کے معاملے میں وہ بہت زیادہ سنجیدہ تھی بھرپور توجہ دیتی تھی اور کبھی کبھار سمعان احمد سے بھی مدد لے لیتی۔
سمعان احمد کو اسے چیدہ چیدہ نکات بتانے پڑے تھے۔ اس نے منٹوں میں حل بھی کر لےے تھے۔ سمعان احمد دل ہی دل میں اس کے اس قدر تیزی سے پِک کرنے کی صلاحیت کو سراہے بغیر نہ رہ سکا۔
”بس اب میں بعد میں کر لوں گی۔ میں نے آتے ہی آپ کو اس طرح الجھادیا تھا۔ شکر ہے ماما ابھی تک اپنے کمرے سے نہیں نکلیں ورنہ میری شامت پکی تھی۔ وہ سمجھیں گی کہ میں نے آپ کو بلوایا ہے۔ ویسے آپ چائے پیئں گے یا کولڈ ڈرنک....؟ اب اندر چلیں اگر ماما کو پتا چل گیا ناں کہ میں نے آپ کو اتنی دیر تک بھوکا پیاسا بٹھائے رکھا ہے تو وہ میری جان کو آ جائیں گی۔“
جلدی جلدی ٹیبل سے بکھری کتابیں سمیٹ رہی تھی۔ اسی رفتار سے اس کی زبان بھی چل رہی تھی۔ سمعان ہنستے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
”چچی جان کیا کر رہی ہیں....؟“ اندر کی طرف بڑھتے سمعان پوچھ رہاتھا۔
”کل سے انہیں کچھ فلو سا محسوس ہو رہا تھا۔ آپ کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے ہی لیٹی تھیں۔ شاید سو گئی ہیں ورنہ آپ کی گاڑی کی آواز سن کر وہ فوراً کمرے سے نکل نہ آتیں۔“ اس نے آرام سے بتایا تو سمعان احمد یک دم رک گیا۔
”چچی امی کی طبیعت خراب ہے اور تم مجھے اب بتا رہی ہو....؟“ انہوں نے خفگی سے دیکھا۔
”قسم لے لیں۔ خیال ہی نہیں رہا ورنہ سب سے پہلے یہی بتاتی۔“ سمعان کی خفگی دیکھ کر اس نے فوراً کہا تھا۔
”میں ان کے کمرے میں جا رہا ہوں۔ تم چائے لے کر ادھر ہی آ جانا۔“ اندر داخل ہو کر سمعان احمد سیدھا ان کے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔
”جو حکم سر! بس ماما سے میری سفارش ضرور کر دیجےے گا کہ مجھے آپ کے ہاں آنے کی اجازت دلوا دیں۔ وہ آپ کی بات کبھی نہیں ٹالیں گی۔ پلیز میرے اچھے بھائی ہیں ناں۔“ ایک دم اس کے سامنے آ کر وہ لجاجت سے کہہ رہی تھی۔ سمعان نے تیزی سے اپنے اٹھتے قدم روکے ورنہ اس کے یوں سامنے آ جانے سے ٹکرا جانے کا خدشہ تھا۔
اس کی اس حرکت میں اس قدر معصومیت وبرجستگی تھی کہ سمعان احمد کے دل کی دھڑکن مس ہوئی تھی۔ بے اختیار سر نے جنبش کی تھی۔
”تھینک یو سو مچ۔ مجھے پتا تھا آپ انکار نہیں کریں گے۔ بس آپ نے مما کو منانا ہے۔ میرے لےے پلیز میرے بھائی ہیں ناں۔“ اب کے اس کے ”میرے بھائی ہیں“ کہنے پر سمعان نے اپنے مسکراتے لب سمیٹے۔ اس کی آنکھوں کا سنہری پن کاریڈور کی نیم تاریکی میں کچھ اور بھی سنہرا محسوس ہوا تھا۔ وہ رکی نہیں تھی۔ کتابیں رکھنے اپنے کمرے کی طرف چل دی تھی۔
”تمہارے لےے ہی تو یہ سب کچھ کر رہا ہوں پاگل لڑکی....“ وہ اپنے کمرے میں گم ہو چکی تھی۔ سمعان احمد نے شائستہ بیگم کے کمرے کی طرف پیش رفت کی۔ اس نے دو دفعہ دروازے پر دستک دی تھی۔
”کون ہے....؟“ تیسری بار کے لےے اٹھتا ہوا ہاتھ رک گیا۔ شائستہ بیگم کی آواز آئی۔ سمعان کمرے میں داخل ہو گیا۔ کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ صرف بیڈ لائٹ تھی جو ابھی شائستہ بیگم نے روشن کی تھی۔
”میں ہوں چچی امی.... سمعان....“ سمعان نے آگے بڑھ کر سارے کمرے کی لائٹ روشن کر دی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی تھیں۔
”سمعان! تم اس وقت....؟“ وہ کمبل لےے لیٹی ہوئی تھیں۔ اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھیں۔ ان کی آنکھیں سرخ رنگ ہو رہی تھیں۔ ایک لمحے کو سمعان احمد کو لگا جیسے وہ کافی دیر سے رو رہی تھیں۔
”جی.... یوں ہی ادھر سے گزرتا یہاں چلا آیا مگر یہاں آ کر علم ہوا ہے کہ آپ کی طبیعت خراب ہے۔“ سمعان نے فکرمندی سے پوچھا تھا۔ وہ ہنس دیں۔
”کچھ زیادہ نہیں۔ بس ہلکا سا فلو ہو رہا تھا۔ میڈیسن لی تھی اب تو افاقہ ہے۔“ سمعان ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔
”پھر بھی آپ کو ضرور احتیاط کرنی چاہےے۔ یہ چھوٹا موٹا فلو بعض اوقات بگڑ بھی جاتا ہے۔“ سمعان احمد کے لہجے میں ابھی بھی فکرمندی تھی۔ شائستہ بیگم ہنس دیں۔ بڑی تلخ سی ہنسی تھی۔ سمعان محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔
”کیا بات ہے کوئی بات ہوئی ہے....؟“ بغور ان کے چہرے کا جائزہ لیتے اس نے بہت کچھ اخذ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔ انہوں نے نفی میں سر ہلادیا۔
”کوئی بات نہیں ہوئی۔ تم خوا مخواہ پریشان ہو رہے ہو۔ بس موسم کا اثر ہے اور کچھ نہیں۔“ اب کے انہوں نے مسکرانے کی بھی کوشش کی تھی مگر ان کا ستا ہوا چہرہ سمعان کو کوئی اور ہی کہانی سنا رہا تھا۔
”چچی جان! چھپایا ان سے جاتا ہے جو آپ کے دل میں اتر کر سب کچھ جان لینے کے گر سے ناواقف ہوں۔ آپ صرف میری چچی امی ہی نہیں بلکہ میری سب سے مخلص دوست بھی ہیں.... اور آپ اپنے دوست سے کچھ چھپا رہی ہیں۔“ اب کے اس نے خفگی سے کہا تھا۔
”میں نے کہا ناں سمعان بیٹے! کوئی بات نہیں ہوئی۔“ انہوں نے جھنجلا کر کہا تھا۔
”توپھر آپ زرش کو ہمارے گھر کیوں نہیں آنے دے رہیں؟ میں دو دن سے کراچی میں ہوں۔ اس سے چار دن پہلے لاہور گزار کر آیا ہوں۔ آپ نے ان چھ سات دنوں میں ایک دفعہ بھی فون کر کے مجھ سے میری خیریت دریافت نہیں کی؟ اپنا خیال رکھنا کہہ کر خاص تاکید نہیں کی اور تو اور میں جب سے آیا ہوں آپ اپنے کمرے میں بند ہو کر رونے کا شغل فرما رہی ہیں۔ میں سامنے آیا ہوں تو یوں حیران ہو رہی ہیں جیسے پہلی دفعہ دیکھ رہی ہیں،سب سے بڑھ کر یہ کہ مجھ سے نظریں چرا رہی ہیں اور اس کے باوجود کہتی ہیں کہ کوئی بات نہیں ہوئی....“ ان کا ہاتھ تھامے وہ بہت ہلکے ہلکے انداز میں شکوہ کر بیٹھا تھا۔ وہ پہلے توسمعان احمد کے اس قدر درست اندازے لگانے پر حیران ہو کر دیکھے گئیں پھر ان کی آنکھوں کی سطح نمی سے تر ہونے لگی۔
اللہ نے انہیں صرف تین بیٹیاں ہی دی تھیں۔ ہادیہ‘ نوشین اور زرش۔ سمعان احمد کی موجودگی نے انہیں کبھی بیٹے کی حسرت ہی نہیں ہونے دی تھی۔ ان کے لےے سمعان احمد بیٹوں سے بڑھ کر تھا مگر اب قیصرہ بیگم اور طاہرہ بیگم کی باتیں سن کر ان کا دل اندر ہی اندر ریزہ ریزہ ہو کر کہیں بکھر گیا تھا۔
”سمعان....“ وہ سسکی لے کر رو پڑی تھیں۔ سمعان حیرانی سے دیکھے گیا۔
”چچی امی.... چچی....“ اس نے ایک بیٹے کی طرح انہیں بازو کے حصار میں لے لیا تھا۔ وہ روتی رہی تھیں حتیٰ کہ سارے آنسو سمعان کے کندھے پر بہا دےے۔
”آپ میری امی سے بڑھ کر ہیں.... بخدا بتائیں اگر میری ذات آپ کے لےے دل آزاری کا سبب بنی ہے تو میں خود کی کبھی معاف نہیں کر پاﺅں گا۔ آپ میرے لےے میری امی کی طرح ہیں۔“ ان کے آنسو سمعان کو تکلیف میں مبتلا کر رہے تھے۔ ان کا سر اپنے کندھے سے ہٹا کر اس نے کہا تو شائستہ بیگم کو احساس ہوا کہ وہ کتنی دیر سے کیا حماقت سرانجام دےے جا رہی تھیں۔
”کچھ نہیں ہوا.... بس دل بھر آیا تھا۔ رونے کو دل چاہ رہا تھا۔ زرش تو یوں ہی پریشان ہو جاتی ہے۔ نوشین بھی ہادیہ کے ہاں گئی ہوئی ہے۔ شاید گھر میں سناٹے سے گھبرا گئی ہوں۔“ انہوں نے فوراً خود کو سنبھالا تھا۔ سمعان احمد ہونٹ بھینچے دیکھتا رہا۔
”ٹھیک ہے آپ مجھے اس لائق نہیں سمجھتیں کہ مجھے کچھ بتائیں تو میں چلا جاتا ہوں۔ خوا مخواہ آپ کو پریشان کرنے آ گیا تھا مگر آپ تو....“ بہت سنجیدگی سے کہتے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ شائستہ بیگم نے اسے دیکھا۔
”سمعان! تم غلط سمجھے ہو.... تم میری بات تو سنو.... سمعان.... سمعان....“ وہ آوازیں دیتی رہ گئی تھیں مگر سمعان بے انتہا ڈسٹرب ہو چکا تھا۔ وہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ وہ لاکھ سر پٹخ لے وہ اسے کچھ بھی بتانے والی نہیں ہیں۔
وہ آندھی طوفان کی طرح کمرے سے نکلا تھا مگر زرش کو دیکھ کر رک گیا۔ وہ چائے کی ٹرالی گھسیٹے اس کے سامنے ہی تھی۔ اسے کمرے سے نکلتا دیکھ کر رک گئی تھی۔
”ارے.... آپ کہا ں جا رہے ہیں....؟ میں ابھی تو چائے تیار کر کے لائی ہوں۔ آپ پی کر جائیں اور ہاں.... ماما سے بات کی....؟“ سمعان احمد لب بھینچے کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر بھی اس کے زاویوں میں فرق نہ آیا تو زرش متوجہ ہوئی۔
”کیا ہوا ہے....“ وہ کچھ پریشان ہو گئی تھی کیونکہ سمعان کے عقب میں ماما بھی کھڑی تھیں۔ زرش کی وجہ پریشانی سمعان احمد نہیں بلکہ ماما کا متورم چہرہ تھا۔
”ماما! کیا بات ہے....؟آپ روئی ہیں؟“ وہ ٹرالی وہیں چھوڑ کر فوراً ماں کی طرف بڑھی تھی۔ ان کے کندھے کو تھام کر بے تحاشا پریشان ہو چکی تھی۔ اس نے ماما کو کبھی روتے نہیں دیکھا تھا اور اب ان کا چہرہ....
”سمعان چائے پی کر جانا....“ ماما نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔ ان کی ساری توجہ سمعان احمد کی طرف تھی جو ان سے ناراض ہو کر جا رہا تھا۔
”نہیں۔ چچی امی! ایک بہت ضروری کام ہے۔ اس وقت چلتا ہوں اللہ حافظ۔“ زرش کبھی حیرانی سے ماما کا رویا متورم چہرہ دیکھ رہی تھی تو کبھی سمعان احمد کے تاثرات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی جو اپنی بات کہہ کر رکا نہیں بلکہ تیزتیز قدم اٹھاتا چلا گیا تھا۔
”ماما.... کیا بات ہے....؟ سمعان بھائی آپ سے ناراض ہو کر گئے ہیں؟“ جیسے ہی سمعان باہر نکل گیا تھا زرش کی بھی حیرانی ختم ہو گئی تھی۔ اس نے رخ شائستہ بیگم کی طرف کیا تھا۔
”تم نے سمعان کو کیوں بلایا تھا جب کہ میں نے منع کر دیا تھا تو....“ وہ سخت لہجے میں پوچھ رہی تھیں۔ زرش بھونچکا رہ گئی۔
”ما....ما....“ وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔ ”میں انہیں فون کر کے کیوں بلاتی جب آپ نے ایک دفعہ منع کر دیا تھا تو وہ میرے لےے حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ میں نے پہلے کبھی آپ کی اجازت کے بغیر کوئی قدم اٹھایا ہے جو اب اٹھاتی۔“ وہ دکھ سے کہہ رہی تھی۔
”تو پھر سمعان کو کیسے علم ہو گیا کہ میں تمہیں ان کے ہاں جانے کی اجازت نہیں دے رہی....؟“
”اوہ۔ تو یہ بات.... مگر ماما کو اس قدر غصہ کیوں آ رہا ہے؟“ وہ حیرانی سے سوچ کر رہ گئی۔
”میں نے ان سے ذکر کیا تھا۔“ اسے لگا ماما صرف اس کی اس بات پر روئی ہیں مگر اتنی سی بات پر یوں بری طرح تو نہیں رویا جاتا کہ چہرہ یوں سرخ ہو جائے۔ وہ الجھ کر رہ گئی۔
”مغرب کی اذان ہو رہی ہے۔ اپنے کمرے میں جا کر نماز ادا کرو.... اور اس کے بعد اپنی پڑھائی پر توجہ دو.... بہت نالائق ہوتی جا رہی ہو تم.... سیکنڈ ائیر میں آ چکی ہو مگر تمہارا بچپنا جوں کا توں برقرار ہے۔ نہ جانے کب عقل آئے گی تمہیں....؟“ انہوں نے اسے بے بھاﺅ کی سنائی تھیں۔ وہ منہ کھولے حیرت سے گنگ دیکھتی رہ گئی جب کہ وہ اس کی طرف سے رخ موڑ کر واپس کمرے میں جا چکی تھیں۔
”سر! شہوانہ زمان سے متعلق ساری انفارمیشن اس لفافے کے اندر ہیں۔ ساتھ تصاویر بھی۔ لالہ منصور صرف سیاسی ہی نہیں اپنے علاقے کی بڑی زورآور شخصیت بھی ہے۔ احسان منصور اس کا اکلوتا بیٹا ہے۔ اس وقت شہوانہ زمان اپنی ماں بدرآراءکے ساتھ احسان منصور کے عطا کردہ فلیٹ میں رہ رہی ہےں۔ شہوانہ کی پہلی شادی اس کی ماں بدرآراءنے اپنے ایک جاننے والے تحسین خان سے کی تھی۔ خاصی موٹی تازی آسامی تھا۔ خوب لوٹا دونوں ماں بیٹیوں نے اسے۔ وہ کروڑ پتی سے کنگلا پتی بن گیا تو اس کی ماں نے شہوانہ کی وہاں سے طلاق دلوا کر دوسری جگہ شادی کرنے کی حماقت کرنے کے بجائے کئی عقل کے اندھوں کو الّو بنایا تھا۔ اب بدرآراءکی نظر احسان منصور پر ہے۔ احسان منصور بھی شہوانہ پر جان چھڑکتا ہے جب کہ لالہ منصور کو اپنے بیٹے سے بڑی محبت تھی اور وہ نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا ایسی عورتوں کے ہاتھوں برباد ہو۔ لالہ منصور کے لےے ان دونوں ماں بیٹی کو ختم کرانا مشکل کام نہیں تھا مگر احسان منصور نے اپنے باپ کو دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر ان ماں بیٹی کا بال بھی بیکا ہوا تو وہ کھڑے کھڑے اپنی جان دے دے گا۔“
شارق زمان کے سامنے بیٹھا اس کا سب رپورٹر اسے یہ سب انفارمیشن دے رہا تھا۔ اس دوران شارق زمان نے اسے قطعی نہیں ٹوکا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی رائے کا اظہار کیا تھا۔ رپورٹرعمران کی فراہم کردہ معلومات سے وہ پہلے ہی باخبر تھا۔ اس کا شارق کے سامنے رکھا ہوا لفافہ بھی جوں کا توں تھا۔ شارق زمان نے ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھانے کی قطعی کوشش نہیں کی تھی۔
”شہوانہ زمان کی اپنے پہلے شوہر تحسین خان سے کوئی اولاد بھی ہے؟“ اپنے اندر کی وحشت سے گھبرا کر اس نے پیپر ویٹ اٹھا لیا تھا۔ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر منتقل کرتے اس نے سپاٹ لہجے میں پوچھا تھا۔
”جی سر! اس کا ایک بیٹا ہے۔ دونوں ماں بیٹی اس کو اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔ دراصل تحسین خان کی اچھی خاصی جائیداد ہتھیانے کے باوجود دنوں ماں بیٹی نے بیٹے کو عدالت کے ذریعے حاصل کر لیا تھا۔ اب آہستہ آہستہ تحسین خان دوبارہ اپنی بنیادیں مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔“ عمران نے تفصیلاً بتایا تھا۔
”اچھا۔ اب تم جاﺅ اور منصور صاحب کو کال کر دینا اور بتا دینا کہ رپورٹ شائع ہو جائے گی۔“ ایک دم اس کے اندر کی وحشت اس قدر بھر چکی تھی۔ شارق زمان کو خدشہ لاحق ہوا کہ وہ کہیں عمران کے سامنے ہی خود پر کنٹرول نہ کھو دے۔ اس نے ایک دم قطعی انداز میں حکم دیتے ہوئے اسے چلتا کیا تھا۔
”جی....“ وہ باہر چلا گیا۔
شارق زمان اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا تھا۔
”شہوانہ زماں....“ کوئی اس کے اندر سے چیخا تھا۔ وہ گہرے گہرے کش لینے لگا۔
”زمان اور بدرآراءکی بیٹی....“ کسی نے اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسانے شروع کر دےے تھے۔
”نہیں۔ وہ صرف اور صرف بدرآراءکی بیٹی ہے۔ اس کا زمان حسنین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“
میز پر پڑی کئی چیزیں دھمک سے نیچے گر گئی تھیں۔
”اس طرح سے تعلق ختم نہیں ہو جاتے شارق زمان.... وہ زمان حسنین کی بیٹی ہی نہیں حسنین کی پوتی بھی ہے اور سب سے بڑھ کر وہ تمہاری بہن ہے۔ صرف تمہاری بہن۔“ کوئی اس کے اندر بیٹھا زور سے چیخا تھا۔
شارق زمان کا اشتعال بڑھنے لگا۔
اسے محسوس ہونے لگا جیسے اس کے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی۔
”وہ کمینی.... بدذات میری بہن کیسے ہو سکتی ہے....؟ وہ تو صرف ایک طوائف زادی ہے۔ بدرآراءکی بیٹی ہے۔ شہوانہ بدرآراءبس....“
وہ اپنے ہوش وحواس کھوتا جا رہا تھا۔
”تم رشتوں سے انکاری ہو رہے ہو۔ آج منصور لالہ تمہارے سامنے آ کر تمہیں بتا رہا ہے کہ شہوانہ زمان اس کے بیٹے کی رکھیل بنی ہوئی ہے اور وہ تمہارے سامنے تمہاری بہن کو گالی دے گیا تھا۔ تمہارے اندر کی غیرت کہاں جا سوئی تھی جو اس کا طمانچہ لفظ رکھیل کی صورت میں برداشت کر گئے تھے۔ تمہیں تو غیرت سے مر جانا چاہےے تھا۔“ کوئی اس کے اندر بیٹھا مسلسل کچوکے لگا رہا تھا۔اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا تھا۔
وہی جو مسلسل بچپن سے اب تک اس کے تعاقب میں تھا۔
وہی جس نے اس سے اس کی بچپن کی معصومیت چھین لی تھی۔
اس کے اندر محرومیوں کے لامتناہی صحرا دیے تھے۔
جسے رشتوں سے نفرت ہو گئی تھی۔ جسے اپنی ذات سے نفرت ہو گئی تھی۔
”بدر آرائ.... میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا.... دعا کرو تم کبھی میرے سامنے نہ آنا ورنہ میں بیٹا ہونے کا حق ادا نہ کر پاﺅں گا۔ تمہاری شہرت مسلسل میرے تعاقب میں رہی ہے۔ پہلے پہل تمہارا حوالہ بن کر.... پھر تمہاری یاد بن کر اور اب تمہاری بیٹی شہوانہ زمان کی صورت میں.... میں غلط لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا ہوں۔ میں خود کو بھول چکا ہوں۔ اس کے باوجود تمہاری شہرت میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتی۔ میری ماں ایک طوائف ہے.... میں ایک طوائف زادہ ہوں۔
وہ اپنے آپ سے لڑ رہا تھا۔ اپنے اندر اٹھنے والی آوازوں کو دبا رہا تھا۔
یوں ہی ادھر سے ادھر چکر لگاتے اس کی نظر اس خاکی لفافے پر جا ٹھہری جو اس کا رپورٹر اس کی ٹیبل پر رکھ گیا تھا۔
اس میں مکمل رپورٹ کے ساتھ ساتھ تصاویر بھی تھیں جو لالہ منصور نے بھجوائی تھیں بلکہ شارق زمان کے منہ پر طمانچہ مارا تھا۔ جس شخص کو شہوانہ زمان کا بائیوڈیٹا اکٹھا کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی.... وہ کیسے بدرآراءبیگم کی سابقہ شہرت سے بے خبر ہو گا اور اس شخص نے یہ رپورٹ شائع کروانے کا بندوبست بھی کس سے کروایا تھا۔ بدرآراءکے بیٹے‘ شہوانہ زمان کے بھائی کے ہاتھوں.... کتنا عقل مند اور چالباز شخص تھا۔ جانتا تھا ایک بھائی اپنی غیرت پر پڑنے والی چوٹ کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا۔ اپنے بیٹے کو بھی نہیں کھونا چاہتا تھا اور بدرآراءبیگم کے ساتھ ساتھ اس کی بیٹی کا بھی پتہ صاف کر دینا چاہتا تھا۔
واقعی شارق زمان اس شخص کی ذہانت پر عش عش کر اٹھا۔
شارق نے آگے بڑھ کر خاکی لفافہ اٹھا لیا تھا۔
لفافے کو چاک کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں کی انگلیاں کانپی تھیں۔
اس کے سامنے لالہ منصور کی بھیجی گئی تصاویر تھیں۔
تصاویر پر ایک نظر ڈال کر شارق زمان کا جی چاہا کہ کاش اس لمحے اس کے سامنے شہوانہ زمان ہوتی تو وہ اپنے ہاتھوں سے اس عورت کا گلہ دبا دیتا۔
ایک تصویر میں بدرآراءتھی۔ وہ اس عورت کو یکسر فراموش کر چکا تھا مگر اس کا ایک ایک نقش اس کے دل ودماغ پر ثبت ہو چکا تھا اور اب وہ اس عورت کو جو کہ اسے صرف جنم دینے کا سبب بنی تھی، دیکھ رہا تھا۔ ماہ وسال اس عورت پر صرف تھوڑا سا فرق چھوڑ پائے تھے۔ وہ آج بھی ویسی تھی جیسی شارق زمان نے تصویروں میں دیکھی تھی۔ عمر بڑھ چکی تھی۔ جسم فربہی مائل ہو چکا تھا مگر خوب صورتی جوں کی توں تھی جس کا اثر اس کے سادہ لوح باپ پر ہوا تھا۔
ایک ایمان دار‘ باحیا بیوی اور ننھی سی بیٹی رفعت زمان کی موجودگی کے باوجود وہ اس چالاک وچال باز عورت کی اداﺅں کا گھائل ہو گیا تھا پھر وہ اسے ایک بیٹے کا تحفہ دے کر کہیں چلی گئی تھی۔ کہاں....؟ اس کا باپ یہی غم کھائے قبر میں جا اترا تھا۔ اس کی پہلی بیوی شارق زمان کی پالی پوسی تھی۔ بیٹے کی طرح محبت دی تھی مگر بدرآراءکی پرچھائیں سے اس شارق زمان کو نہ بچا سکی حتیٰ کہ وہ حوادث زمانہ کا شکار ہو گیا۔ اچھے برے کی تمیز کے باوجود وہ گناہوں میں لذت محسوس کرنے لگا تھا۔جب اس کی ماں اس کے باپ کی جمع پونجی چُرا کر بھاگ رہی تھی۔ اس نے پلٹ کر بیٹے کا احساس نہیں کیاتھا تو وہ اپنا احساس کیسے کر لیتا۔ اسے دنیا نے جو دیا تھا وہ دنیا کو لوٹا رہا تھا۔ اپنے خاندان میں بہت کم ملنا ملانا تھا۔ صرف اس پڑھائی سے بھاگتے بھاگتے وہ نجانے کن اندھیروں کا مسافر بنتا جا رہا تھا جن کی کوئی منزل نہ تھی۔ واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا۔ اس کا یہ چھوٹا سا پریس میڈیا تھا۔ وہ پیسہ کمانے کے لےے ہر جائزوناجائز چیز شائع کرتا تھا۔ چاہے وہ اشاعت فلم انڈسٹری سے متعلق ہو یا سیاست سے متعلق.... وہ حکام بالا سے متعلق ہو یا کسی کی ذاتی مخالفت سے متعلق.... وہ بلاخوف وخطر ہر کام کر جاتا تھا جس طرح پیسہ اس کے ہاتھ میں آرہا تھا اسی طرح لٹاتا بھی جا رہا تھا۔
تصویروں کو لفافے میں ڈال کر اس نے ٹیبل پر پٹخ دیا۔
اس کی آنکھیں لہو رنگ ہو رہی تھیں۔
اس رپورٹ کو شائع کر کے وہ اپنی غیرت کا خون کرنے جا رہا تھا۔اپنے اندر کے غیرت مند مرد کو مار رہا تھا۔ اس رپورٹ میں شامل تصاویر کو شائع کر کے۔
”بدرآراءبیگم۔ بس تم تیار رہنا۔ تم اور تمہاری بیٹی کو میرے ہاتھوں سے عبرت ناک موت سے کوئی نہیں بچا سکتا.... کوئی بھی نہیں....“ وہ دوبارہ کرسی پر گر چکا تھا۔ تھک ہار کر اس نے کرسی کی پشت سے سر ٹکا لیا تھا۔ وہ حالات کا مارا ہوا شخص تھا اور یہی موت اس کے جسم اور روح کے مقدر میں بھی تھی۔
ض....ئ....ض
کالج سے آنے کے بعد نمازِ ظہر ادا کر کے کھانا کھا کر وہ لیٹ گئی تھی۔عصر کے قریب آنکھ کھلی تھی۔ نماز ادا کر کے وہ کتابیں سمیٹ کر باہر لان میں آ بیٹھی تھی۔ دو دن ہو گئے تھے زرش بھی نہیں آ رہی تھی۔ آج کالج میں وہ بتا تو رہی تھی کہ چچی امی نے اسے یہاں آنے سے منع کیا تھا۔ زرش کی زبان سے سن کر وہ خود بھی حیران تھی۔ کل کالج میں ٹیسٹ تھا اور زرش ہوتی تو دونوں مل کر تیاری کر لیتیں مگر اب لگ رہا تھا کہ اسے سمعان بھائی سے مدد لینا ہو گی۔
طاہرہ بیگم کچن میں مصروف تھیں۔ آج کل ان کا غصہ ویسے ہی آسمان کو چھو رہا تھا۔ ایسے میں فرح ان سے دور ہی رہتی تھی کیونکہ ان کا سارا نزلہ اس کی ناتواں جان پر ہی نکلا کرتا تھا۔ آج تو ویسے بھی قیصرہ خالہ آئی ہوئی تھیں۔ وہ کالج میں تھی جب ان کی آمد ہوئی تھی۔ گھر لوٹی تو وہ جا رہی تھیں۔ امی کا موڈ خاصا جارحانہ ہو رہا تھا۔ وہ فوراً اندازہ کر کے اپنے کمرے میں گھس گئی تھی۔ صرف کھانا کھانے کچن میں آئی تھی۔ اس کے بعد اب کمرے سے نکلی تھی۔ وہ سیدھی لان میں چلی آئی۔ ۔ اتناتو وہ بھی سمجھ چکی تھی کہ امی اسے پڑھتا دیکھ کر خود ہی جل کڑھ لیں گی۔ اسے کچھ نہیں کہیں گی۔ علی بھی کھانا کھا کر نکل گیا تھا۔ ابو نے اسے اپنے آفس بلوایا تھا۔ شاید اسے چچا ابو کے ساتھ کہیں بھیجنا تھا۔ اکثر وہ چچا ابو کے ساتھ کہیں نہ کہیں جاتا رہتا تھا۔ خاص طور پر میٹنگز وغیرہ میں۔ اب اکثر ابو اسے بزنس کے امور سے آگاہ کرنے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ابھی سے ہی ان کے ساتھ اٹھا بیٹھا کرے۔ اسی طرح وہ بزنس کی تربیت حاصل کر سکتا ہے۔ وہ کتاب کھولے نوٹ بک پر لکھنے میں مصروف تھی، جب چوکیدار بابا چلے آئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں پھولوں کا بکے تھا، ساتھ میں شاید کارڈ بھی۔
”فرح بیٹا! آپ کے لےے کوئی یہ دے کر گیا ہے۔ کہہ رہا تھا کہ آپ کو دے دوں۔“
”کیا میرے لےے....؟“ وہ حیران ہو کر سرخ گلابوں سے بنے گلدستے میں سجے بکے کو دیکھ رہی تھی۔
”جی انہوں نے آپ کا ہی نام لیا تھا پھر مجھ سے سائن کروا کر چلا گیا تھا۔“
اس نے الجھتے ہوئے ان سے پھول اور کارڈ لے لےے تھے۔
”کون ہو سکتا ہے....؟“ اس نے سوچا۔ ”اچھا آپ جائیں میں دیکھ لیتی ہوں۔“ اس نے کہا۔
پھولوں کی مہک اسے مزید متوحش کر رہی تھی۔ اس نے جلدی سے کارڈ کھولا۔
”مائی ڈئیر سویٹ لَو“ کا انتہائی خوب صورت کارڈ تھا۔ کارڈ خالی تھا مگر اس کے اند رکھا صفحہ خالی نہ تھا۔ فرح نے کارڈ میز پر رکھ کر کاغذ اٹھا لیا تھا۔
ہجر کے ماہتاب سن
ہم بھی ہیں تیرے ہم سفر
ہم سے بھی کوئی بات کر
ہم بھی تو تیرے رفیق ہیں
ہم سے نہ اجتناب کر
دستِ فراق یار میں
ازلوں کے ہمرکاب سن
ہجر کے ماہتاب سن
بخت میں جب نہ چین ہو
وقت سے کیا گلہ کریں
اس سے کہاں گلہ کریں
راہ میں اس کو روک لیں
کیسے یہ حوصلہ کریں
تُو تو ہمارے ساتھ چل
تُو تو ہمارے خواب سن
تاروں میں انتشار ہے
کسی کی نگاہ کے سبب
اپنی ہی چاہ کے سبب
ہم نے جسے گنوا دیا
شدت راہ کے سبب
اس کے غمِ فراق کا
ہم سے کبھی حساب سن
ہجر کے ماہتاب سن
جذبوں سے گندھی یہ نظم فرح کے اندر عجب سا انتشار برپا کر رہی تھی۔ نظم کے اختتام پر رقم طراز تھا۔
”اس نظم کو پڑھنے کے بعد میری میلز کا رسپانس دیں ورنہ یہ سلسلہ تب تک چلے گا، جب تک آپ میرے لےے سنجیدہ نہیں ہو جاتیں مائی ڈئیر فرح سعید احمد۔“
وہ شخص انتہائی بلیک میلر تھا۔ فرح نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے مفلوج ہو رہا تھا۔
”یااللہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے....؟ وہ کون ہے.... کیوں میرے ہی پیچھے پڑ گیا ہے؟“ وہ رو دینے کو تھی۔ اشتعال میں آ کر اس نے کارڈ سمیت کاغذ کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دےے تھے۔
”بلیک میلر.... ذلیل انسان....“ فرح کو لگ رہا تھا کہ اس کے دماغ کی کوئی نہ کوئی رگ پھٹ جائے گی۔
اس نے ایک قہر بھری نفرت انگیز نظر پھولوں کے بکے پر ڈالی تھی۔ غصے سے اس نے خوب صورت انداز میں بنایا گیا گلدستہ بکھیر دیا تھا۔ سرخ گلابوں کی پتیاں اردگرد بکھر کر احتجاج کرنے لگی تھیں۔ اس سے پہلے کہ امی لان میں چلی آتیں‘ اس نے بکھرے پھول‘ پھولوں کی ٹہنیاں اور ریپر اٹھا کر گیٹ کے ایک طرف پڑے کوڑادان میں سارا ڈھیر ڈال دیا۔
اب کچھ بھی پڑھنے کا موڈ نہیں تھا۔ اس نے کوفت‘ جھنجھلاہٹ وپریشانی سے اکتا کر کتابیں اٹھا کر اپنے کمرے کی راہ لی مگر راہداری میں ہی اسے رکنا پڑا تھا۔
ماجدہ کسی سے فون پر بات کر رہی تھی۔ ماجدہ ان کی کل وقتی ملازمہ تھی۔ چوکیدار بابا کی بیٹی۔ اس وقت امی کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔ شاید گھنٹی بجنے پر وہ ادھر آئی۔
”جی میں نے کہا ناں کہ یہاں کوئی پرنسس نہیں رہتی۔ غلط نمبر ہے۔ عجیب ڈھیٹ انسان ہیں آپ۔ ایک دفعہ کہی بات کا اثر نہیں ہوتا۔“ ماجدہ غصے میں کہہ رہی تھی اور فرح کے پاﺅں تلے سے زمین سرکتی جا رہی تھی۔
”یااللہ!“ اس سے پہلے کہ کتابیں ہاتھ سے نکل کر زمین پر گرتیں‘ اس نے فوراً ماجدہ کی طرف قدم بڑھائے۔ ماجدہ فون رکھ کر بڑبڑاتی ہوئی جانے لگی تھی۔ اسے دیکھ کر رک گئی۔
”کس کا فون ہے ماجدہ؟“ اس کی زبان لڑکھڑائی۔ ماجدہ نے ناک سکیڑی۔
”پتا نہیں کون بدتمیز ہے بی بی جی! مسلسل تنگ کر رہا ہے۔ روز اسی وقت فون کر دیتا ہے کہ مجھے پرنسس سے بات کرنی ہے۔ ہزاربار اسے کہہ چکی ہوں کہ اس نام کی کوئی لڑکی یہاں نہیں رہتی مگر وہ بھی ڈھیٹ ہے۔“ وہ اکتا کر بتا رہی تھی۔ فرح کا رنگ مزید زرد ہو گیا۔
جاری ہے